عادل نے وہ بلائینڈر پیچھے ہٹا یا چوتھی تصویر بابا جمعہ اور بلال کی تھی جو عادل نے موبائل سے لی تھی۔
”بلال بھائی یہ میرے دادا اور دادی ہیں یہ ممی ڈیڈی اور یہ میرے اور عظمی کے بچپن کی تصویر ہے۔ “
چوتھی تصویر کے پاس کھڑے ہو کر عادل نے محبت سے سر شار ہو کر کہا۔
”یہ میرے مرشد بابا جمعہ خاں میواتی اور میرے محسن میرے دوست ملک بلال احمد ہیں۔
“ عادل کی سانسوں سے عقیدت کی خوشبو آ رہی تھی، اور اُس کی آنکھوں میں چمک تھی، اُس کے لہجے میں احترام تھا۔ وہ بلال سے بلال کو متعارف کروا رہا تھا۔
”بلال بھائی اگر یہ دو عظیم بندے مجھے نہ ملتے تو شاید میں پاگل ہو جاتا ان دونوں نے مجھے زندگی سے ملا دیا۔ “
عادل بول رہا تھا اور بلال سن رہا تھا۔ ”میں ابھی عظمی سے بات کر رہا تھا میں نے اُسے بتایا آپ میرے ساتھ میرے گھر پر ہو وہ بھی یہاں آ رہی ہے، آپ سے ملنے کے لیے۔
(جاری ہے)
بلال بھائی آپ نے ہم دونوں کا خود سے بھی تعارف کروا دیا ورنہ میں اور عظمی خود ہی سے بھاگ رہے تھے، اگر آپ نہ ہوتے تو شاید میں اور عظمی ایک دوسرے کی محبت سے انجان ہی رہتے۔“
بلال خاموشی سے عادل کے سامنے کھڑا ہوا عادل کی باتیں سن رہا تھا۔
”بلال بھائی میری اور عظمی کی شادی نومبر میں ہو رہی ہے، ڈیڈی اور عظمی کے انکل نے ہماری مرضی سے یہ رشتہ طے کیا ہے۔
“
عادل کے چہرے پر میٹھی سی مسکراہٹ اُبھری مگر بلال سنجیدہ تھا۔ بلال واش روم میں گیا اور اپنے کوٹ کی اندرونی پاکٹ سے وہ تصویریں نکال لایا اور عادل کی طرف بڑھا دیں۔ عادل نے وہ ساری دو درجن کے قریب تصویر دیکھیں اب عادل کے چہرے پر بھی سنجیدگی تھی۔ کڑوی سنجیدگی میٹھی مسکراہٹ کو کھا گئی تھی۔
”بلال بھائی مجھ سے بابا جی کہا کرتے تھے، عادل بیٹا اکثر آپ کا سچ حقیقت نہیں ہوتا یہ تصویریں سچ ہوں گی، مگر حقیقت کچھ اور ہے، مجھے عظمی اور خود سے زیادہ ملک بلال احمد پر اعتماد ہے۔
“
میٹھی مسکراہٹ نے کڑوی سنجیدگی کو پھر مات دے دی عادل نے وہ تصویریں اپنے دراز کے اندر رکھ دیں۔
” بلال بھائی اگر اجازت ہو تو … کل رات کو … ایسا کیا ہو گیا تھا …“
عادل نے رُک رُک کر آدھا سوال پوچھا۔ بلال نے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل کے دراز کی طرف دیکھا جہاں پر عادل نے بلال اور عظمی کی تصویریں رکھی تھیں۔ عادل ساری بات سمجھ گیا اُس نے مزید تفصیل نہیں پوچھی۔
”عادل صاحب … اب 14 مارچ کو میرا نکاح نہیں ہوگا ۔سب کو اطلاع کر دینا اور ابھی اس بارے میں عظمی سے ذکر مت کرنا میرے جانے کے بعد بتا دینا۔ “
بلال آدھی بات کرکے خاموش ہو گیا۔ بلال ایک دم سنجیدہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد عظمی بھی آ گئی۔ عادل اور عظمی نے بلال کو ائیر پورٹ ڈراپ کیا، بلال عمرہ کرنے چلا گیا تھا۔
علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیر پورٹ سے واپسی کے بعد جب عادل اور عظمی گھر لوٹے تو پورچ میں عادل نے اپنی کار عظمی کی سوزکی مہران کے ساتھ کھڑی کی تو گاڑی سے اُتر کر وہ دونوں بلال کی گاڑی کی طرف آئے۔
” عادل تمہیں پتہ ہے بلال یہ گاڑی کیوں نہیں بدلتا۔“ عظمی عادل کی طرف دیکھ کر بولی۔
” کیوں؟“ عادل نے پوچھا۔
”اس لیے یہ اُس کے ابا کی نشانی ہے۔ “ عظمی نے بتایا۔
”مجھے تو لگتا ہے بلال اپنے نکاح والے دن بھی اسی گاڑی کو سجائے گا اور نوشی کو اسی میں بٹھا کر لے جائے گا اپنے گھر۔ “
”نہیں اب ایسا نہیں ہوگا۔ “ عادل نے عظمی کو اطلاع دی۔
”تو پھر ہم تمہاری BMW کو سجائیں گے، بلال کے نکاح والے دن “ عظمی خوشی سے بولی۔
” عظمی اب بلال بھائی کا نوشی سے نکاح نہیں ہوگا۔“ عادل نے دو ٹوک بات کر دی۔
”way … ایسا کیا ہو گیا ہے … کیوں نہیں ہوگا یہ نکاح … عادل آپ کیا کہہ رہے ہیں … ابھی تھوڑی دیر پہلے تو بلال بالکل نارمل تھا … بلال کی کسی بات سے تو نہیں لگا مجھے ایسا کچھ۔
“ عظمی نے بہت سارے سوال عادل سے پوچھ لیے عظمی روہانسی چہرے کے ساتھ عادل کی طرف دیکھ رہی تھی۔
”کہیں عادل آپ میرے ساتھ مذاق تو نہیں کر رہے تھے۔ “ عظمی نے عادل کی طرف انگلی کرکے پوچھا۔
” عظمی یہ سچ ہے مجھے کوئی دو گھنٹے پہلے بلال بھائی نے خود بتایا تھا۔ میں کل رات کوبلال بھائی کو ڈیفنس کے قبرستان سے لے کر آیا تھا، وہ ایک قبر کے سرہانے بیٹھ کر رو رہے تھے۔
“ عادل نے رنجیدگی سے کہا تھا۔
”بلال رو رہا تھا … رو رہا تھا وہ بھی بلال … میں نے دو ڈھائی سال کے دوران اُس کی آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں دیکھے۔ “ عظمی حیرت سے بولی۔
”آخر کوئی تو وجہ ہو گی … ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ “
”تم میرے ساتھ آؤ میرے بیڈ روم میں۔ “ عادل بولا جاتے ہوئے عظمی اُس کے پیچھے چل دی بیڈروم میں داخل ہونے کے بعد عادل نے بلال اور عظمی کی وہ تصویریں عظمی کو تھما دیں۔
”او مائی گاڈ … میری بے وقوفی … بلال نے تو کبھی میرے جسم کو تو کیا اُس نے تو کبھی میرے پہنے ہوئے کپڑوں کو بھی نہیں چھوا …“
عادل غور سے دیکھ رہا تھا عظمی کی طرف ”عادل کہیں آپ بھی تو ان تصویروں سے“
” مجھے بلال بھائی اور آپ پر پورا اعتماد ہے۔“عادل نے عظمی کی آنکھوں میں دیکھ کر جواب دیا۔ ”عظمی آپ بیٹھ جاؤ“ عظمی صوفے پر بیٹھ گئی۔
”عادل یہ وہ لمحہ تھا، جب بلال مجھے آپ کے بارے میں بتا رہا تھا، آپ کی محبت سے میرا تعارف کروا رہا تھا، تب مجھے ایسے لگا جیسے مجھے میری منزل مل گئی، جیسے ڈوبتے ہوئے کو کنارہ مل جائے جیسے قحط کے دنوں میں بارش شروع ہو جائے … میں تو بلال سے ایسے لپٹی تھی جیسے موت کو مات دے کر مریض اپنے طبیب سے لپٹ جائے کس طرح ان تصویروں کو غلط رنگ دیا گیا ہے، میں توشی سے بات کرتی ہوں ابھی “ عظمی نے اپنے موبائل پر توشی کا نمبر دیکھنا شروع کیا۔
”عظمی آپ کسی کو بھی فون مت کرو۔ ایک دفعہ مجھے بلال بھائی نے کہا تھا، عادل محبت کو کسی کی بھی سفارش کی ضرورت نہیں ہوتی، اور بلال بھائی نے یہ بھی کہا تھا، اعتماد محبت کی پہلی سیڑھی ہے۔ بلال بھائی نے مجھے یہ تصویریں دکھائیں تو کہا کچھ نہیں اور نہ ہی اپنی صفائی دی، اگر میں بلال بھائی اور آپ پر اعتماد کر سکتا ہوں تو اُن کی ہونے والی بیوی کو بھی کرنا چاہیے تھا۔
“
عظمی نے اپنا موبائل صوفے پر رکھ دیا اور کسی گہری سوچ میں کھو گئی۔
###
”رندھاوا صاحب آپ کن سوچوں میں گم ہیں۔ “ ناہید اپنے بیڈ رم میں داخل ہوتے ہوئے بولی تھی۔ جمال رندھاوا ایزی چیئر پر بیٹھے ہوئے سگار کے دھوئے سے حقیقت کو اندھا بنانا چاہتے تھے۔ اُن کے ذہن میں بلال کا لکھا ہوا جملہ گونج رہا تھا۔ (جو رو کا غلام۔ رن مرید) جمال رندھاوا رات سے نہ جانے کتنے سگار سلگا چکے تھے۔
”رندھاوا صاحب میں رات کو آئی تھی آپ نے اندر سے لاک لگایا ہوا تھا، میں نے آپ کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا، رات گئی بات گئی آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں۔ “
جمال رندھاوا نے ناہید کی طرف دیکھا جس کا ہاتھ جمال کے گال پر تھا۔ ناہید کے ہونٹوں پر مرہمی مسکراہٹ تھی، جس نے فوراً جمال رندھاوا کے گھاؤ بھر دئیے تھے۔
جمال رندھاوا نے وہ خط اور بلال کے لوٹائے ہوئے چیک اپنے لاکر میں رکھ لیے تھے اُس فولڈر سمیت جس کی ناہید کو خبر نہیں تھی۔
###