Episode 18 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 18 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

بلال اپنی نانی جہاں آرا کے کمرے میں داخل ہوا جوکہ اکیلی بیٹھی ہوئی تھیں بلال نے نانی کو سلام کیا اور ان کی خیریت دریافت کی ۔ 
”آج کوئی نہیں ہے …آپ کے پاس…“بلال نے پوچھا۔ 
”جمال تو آج دوپہر کو امریکہ چلا گیا۔ تمہاری مامی اور شعیب کا کوئی پتا نہیں اور نوشی توشی تو آج دوپہر سے ہی جدھر تمہارا سکول ہے …“
”جوہر ٹاؤن …“بلال نے بات آگئے بڑھائی ۔
 
”ہاں جوہر ٹاؤن میں کوئی ان کے کپڑوں کی نمائش ہے وہ بڑا سا ہال کیا نام ہے اس کا …“
”ایکسپو سنٹر…“بلا ل نے بتایا۔ 
”ہاں …ہاں وہی ایکسپو سینٹر ادھر ہیں صبح سے گئی ہوئی ہیں…رات دس بجے تک آئیں گی۔ بلال بیٹا کیا ٹائم ہوا ہے “
”جی 9بجنے والے ہیں “بلال بولا۔ 
”جوان بچیاں ہیں…ماں کو کوئی فکر ہی نہیں ہے“نانی خفگی سے بولی۔

(جاری ہے)

”آپ نے کھاناکھایا“بلال نے پوچھا۔ 
”ہاں بیٹا …غفوراں ابھی گئی ہے کھانا کھلا کر …بتارہی تھی کہ تیرا اسکول بڑی ترقی پر جارہا ہے، اب تو یہاں ڈیفنس کے بچے بھی تیرے اسکول میں جاتے ہیں “
نانی نے اس کے گالوں پر پیار کیا جوکہ نیچے کارپیٹ پر کُشن رکھ کے پیروں کی مالش کر رہا تھا۔ 
”بیٹا تجھے دیکھتی ہوں تو بڑا دکھ ہوتا ہے کتنی مصیبتیں دیکھی ہیں تو نے اس چھوٹی سی عمر میں 8ماہ کا تھا تو تیرا باپ گزر گیا اور 8سال کا ہوا تو تیری ماں چلی گئی تجھے چھوڑ کر …اتنے بڑے غم چھوٹی سی عمر میں…“نانی اضطراب سے بولیں۔
”نانو…آپ کو پتہ ہے …جب حضور کی عمر 6سال تھی تو آپاپنی والدہ محترمہ حضرت آمنہ اور ایک خادمہ ام ایمن کے ساتھ مکہ سے مدینہ آئے اپنے والد حضرت عبداللہ کی قبر کی زیارت کے لیے …ایک ماہ مکہ میں قیام کے بعد واپسی مدینہ کی طرف سفر کرتے ہوئے عبوہ کے مقام پر آپ کی والدہ محترمہ حضرت آمنہ کا انتقال ہوگیا…آج بھی عبوہ کی وادی میں جائیں تو خوف آتا ہے۔
سیاہ خشک پہاڑ دور دور تک آبادی کا نام و نشان نہیں کوئی باقاعدہ رستہ نہیں ہے “بلال یہ باتیں بیان کرتے ہوئے ایسے کھوگیا جیسے عبوہ کی وادی کو دیکھ رہا ہو۔ اور نانی بلال کو دیکھ رہی تھیں۔ ”انتقال کے وقت حضرت آمنہ کے آخری الفاظ تھے بیٹا ہر جوانی نے ڈھلنا ہے…اور ہر زندہ نے مرنا ہے…آپ کی پیدائش سے پہلے ہی آپ کے والد محترم حضرت عبداللہ دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔
 
اور نانو جب آپ آخری حج کے لیے مدینہ سے مکہ تشریف لے کر گئے تو آپ نے اسی رستے کا انتخاب کیا… عبوہ کے مقام پر اپنی والدہ حضرت آمنہ کی قبر کی زیارت کی۔ میں اور آپ، حضور کی ساری امت کے غم ایک طرف اور حضور کے غم ایک طرف کیا کوئی مقابلہ ہے…ان میں ۔ کوئی نہیں۔حضور بھی بڑے اور ان کے غم بھی بڑے۔ ہم بھی چھوٹے اور ہمارے غم بھی چھوٹے۔“ نانی نے اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان بلال کا چہرہ لیا اور ماتھا چوم لیا تھا۔
”کبھی تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے تو میرا نانا ہے اور میں تیری (دوتری) نواسی ہوں جب تو ایسی باتیں کرتا ہے تو بہشتی تیرا نانا یاد آجاتا ہے …وہ بھی بڑا سیانا بندہ تھا پرہے پنچایت والا، پورے ضلع نارووال میں اس کی دھوم تھی…کوٹ فتح گڑھ میں بہت بڑا ڈیرہ تھا، بہشتی کا پر تیرے (مامے) ماموں نے بیڑہ غرق کردیا ڈیرہ زمین سب کچھ بیچ دیا۔ مشہور تھا چوہدری ارشاد رندھاوا کا ڈیرہ دور دور سے لوگ فیصلہ کروانے آتے تیرے نانے سے …“بلال یہ ساری باتیں پہلے سے جانتا تھا مگر پھر بھی نانی کے احترام میں سن رہا تھا ۔
”تیری مامی لگالگایا بوٹا پٹ لیائی لاہور میں فیکٹری لگاتے ہیں زمین بیچ دو اگر تیرا نانا زندہ ہوتا تو ایسا تھوڑی ہونے دیتا…میں نے اور تیری ماں نے بہت سمجھایا مگر تیرا ماما شروع ہی سے لائی لگ تھا…
ہاں تیری ماں سیانی تھی جبھی تو تیرے باپ جیسے ہیرے سے شادی کی۔ میں نے تو بڑی مخالفت کی تھی کہ ہم جٹ اور لڑکا ملک ہے پر تیرا نانا آڑے آگیا…اپنی مرضی کی ، اس کا فیصلہ ٹھیک تھا…تیرے مامے کا رشتہ میں نے کیا تھا، بڑا شوق تھا مجھے جمال کے لیے شہری (ووہٹی) بہو لانے کا…۔
چوہدری صاحب نے بڑا سمجھایا کہ جہاں آرا کڑی بڑی تیز ہے اور منڈا تیرا لائی لگ مگر میں نے ایک نہیں سنی…“نانی نے پرانی باتوں کا پنڈورا باکس کھول لیا تھا۔ 
بلال نے بات بدلی”آپ کو لطیفہ سناتا ہوں…پاگل خانے میں دو پاگل دونوں کی بڑی دوستی تھی…مگر دونوں رضیہ رضیہ کہہ کر روتے رہتے ہروقت…کسی نے ڈاکٹر سے پوچھا یہ دونوں رضیہ کو یاد کرکے کیوں روتے ہیں…“ڈاکٹر نے بتایا ۔
 
”پہلا جو ہے اس کی رضیہ سے شادی نہیں ہوئی وہ اس کی یاد میں روتا ہے…دوسرا جو ہے اس کی اسی رضیہ سے شادی ہوگئی وہ اسے یاد کرکے روتا ہے…“دادی ہنس پڑیں بلال نے انہیں کرسی سے اٹھایا اور بیڈ پر لٹادیا کمبل ان کے اوپر ڈال دیا۔ 
”اب آپ سوجاؤ صبح انشاء اللہ بات ہوگی“
###
”میں نے کہا تھا کہ وہ نہیں آئے گا مگر تم تو…بس…بلال…بلال…کی رٹ…ہماری زندگی کا اتنا بڑا دن تھا آج “نوشی نے Redکلر کی Honda Civic کی پچھلی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
DJ گاڑی ڈرائیور کر رہا تھا اور توشی آگے بیٹھی ہوئی تھی گاڑی کلمہ چوک سے ڈیفنس کی طرف جارہی تھی دس بجے رات کو سردی کی وجہ سے ٹریفک قدرے کم تھا اور توشی آج واقعی غصے میں تھی۔ 
”شادی کرلو اس سے…بھئی نہیں کرنی اس سے …شادی…جو شخص آپ کی خوشی میں شریک نہیں ہوسکتا …مائی فٹ…کتنا پازیٹو رسپانس ملا ہم کو اب دیکھنا تم میں سب کو Beat کرجاؤں گی۔
“ نوشی ایک دفعہ پھر بھڑکی، گیٹ پر ہارن کی آواز سے سکیورٹی گارڈ نے جھٹ پٹ گیٹ کھول دیا، یہ ریمورٹ کنٹرول گیٹ تھا۔ “
پورچ میں گاڑی پارک ہوئی، نوشی پاؤں پٹختی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی ،جاتے ہوئے اس نے بلال کے کمرے کی طرف نظر اٹھائی بلال ٹیرس پر کھڑا ہاتھ میں کافی کا مگ لیے ان کو دیکھ رہا تھا۔ 
توشی دیر سے گاڑی سے اُتری وہ سارے راستے گم سم تھی، اب بھی وہ قدرے تھکی ہوئی لگ رہی تھی۔
اس نے گاڑی کی ونڈ سکرین سے بلال کو کھڑا ہوا دیکھ لیا تھا مگر پھر بھی وہ بغیر دیکھے چلی گئی بلال نے بھی اسے اس وقت بلانا بہتر نہیں سمجھا ہاں البتہ DJ کو جاتے ہوئے آواز دی۔ 
”آج چار سال میں پہلی بار نوشی آپی کو آپ کے نہ آنے پر غصہ آرہا تھا ، ساری کمپوزیشن ہی بدل گئی ہے “نوشی کے متعلق DJ کھڑا ہوا بلال کو تفصیل بتارہا تھا۔ 
”کافی بناؤں تمہارے لیے “بلال نے پوچھا۔
 
کہانی میں یہ ٹوئسٹ DJ کو کنفیوژ کر رہا تھا۔ DJنے ہاتھ اپنی ٹھوڑی پر رکھتے ہوئے تبصرہ کیا۔ 
”کافی نہیں…ابھی تو کھانا بھی نہیں کھایا یہ تو کہانی کا سارا موڈ ہی بدل گیا ہے “اس نے خود کو مخاطب کیا جیسے کسی گہری سوچ میں ہو۔ 
”جاؤ تم جاکر کھانا کھاؤ“بلال نے DJ کو کہا۔ 
”پیاز گوشت ملے گا میرا مطلب ہے تھوڑا سالن ہوگا“DJندیدی آنکھوں سے پوچھ رہا تھا۔
بلال مسکرایا اور جواب دیا۔ 
”جمعہ کو عصر کے بعد آجانا…“
بدھ جمعرات اور جمعہ DJ نے انگلیوں کے پوروں پر حساب لگایا اور چلا گیا ،نوشی اپنے ٹیرس سے بلال کے کمرے کو دیکھ رہی تھی اس نے DJ کو کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھ لیا تھا، اپنے ہاتھوں میں موجود I phone 5 سے Djکو فون ملادیا ”میرے کمرے میں آؤ“DJنوشی کے سامنے پیش ہوگیا ۔ 
”کیا پوچھ رہا تھا “نوشی نے تیکھے لہجے میں تفتیشی نگاہوں سے پوچھا۔
 
”کون جی…“DJ بند آنکھوں سے سوال کر رہا تھا جیسے بچہ نیند سے جاگا ہو۔ 
”جہاں سے آئے ہو ابھی ابھی “
”بلال صاحب …وہ جی کہہ رہے تھے …پیاز گوشت جمعہ والے دن عصر کے بعد آکر لے جانا…“
”بس…اور کچھ نہیں کہا اس نے …“حیرت سے پوچھا نوشی نے ۔ 
”کہتے کہاں ہیں وہ کچھ…وہ تو سنتے رہتے ہیں بس…“DJغنودگی کے عالم میں بول رہا تھا۔
 
توشی ان کی گفتگو کے دوران باتھ روم سے نکل آئی تھی اب اس کا موڈ ٹھیک تھا بلکہ وہ اب نوشی کی بے قراری انجوائے کر رہی تھی۔ 
”پیاز گوشت…پیاز گوشت…“نوشی خود سے مخاطب تھی۔ 
”کیوں اتنی ہائپر ہورہی ہو، “توشی اس کی طرف دیکھ کر بولی پھر DJ کو کہا۔ 
”DJتم جاکر آرام کرو…“DJ تھکے ہوئے جسم کے ساتھ وہاں سے چلا گیا۔ 
”مگر وہ آیا کیوں نہیں “نوشی ابھی تک وہی پہاڑا پڑھ رہی تھی ۔
تم سے اس نے کون سا پرامس کیا تھا ویسے یہ سارے Symptomمحبت ہی ظاہر کر رہے ہیں ۔ 
”اور یہ پیاز گوشت کی کیا کہانی ہے “نوشی اپنی دھن میں مگن تھی ۔ توشی اب تک نوشی کو ڈریسنگ ٹیبل کے مرر میں سے دیکھ رہی تھی اٹھی اور اسے دونوں بازوؤں سے پکڑ کر ہلایا۔ 
”ڈفر یہ مس بی ہیو چھوڑو مجھے پتہ ہے تمہاری فیلنگز ہرٹ ہوئی ہیں …جاؤ میرا بچہ فریش ہوجاؤ…میں پیزا آڈر کرتی ہوں …جاؤ شاباش…“نوشی واش روم میں چلی گئی اور توشی نے فون پر پیزا آرڈر کردیا تھا۔
آدھا گھنٹہ بعد وہ دونوں بہنیں پیزا کھارہی تھیں۔ 
”ویسے یہ پیاز گوشت کیا چیز ہے “نوشی کی سوئی وہاں ہی پھنسی ہوئی تھی ۔ 
”او…او…اف یہ پیاز گوشت پچھلے دو گھنٹے سے …میرے کان پک گئے ہیں سن سن کر…یہ ایک افغانی ڈشن ہے“
”مگر وہ …“نوشی پھر تجسس سے بولی”کیسے…DJ کہہ رہا تھا …پکاتا ہے …“
”تم ڈارلنگ پہلے یہ فنش کرو میں سب کچھ بتاتی ہوں تفصیل سے …“نوشی پیزے کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے بولی۔ دونوں بہنیں کھانے سے فارغ ہوچکی تھیں۔ 
”بتاؤ …اب بتاؤ…“نوشی بول پڑی پھر سے 

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط