Episode 27 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 27 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

”ویسے BG بلال کے بارے میں کیا جانتی ہو “نوشی نے پوچھا۔ 
”میں جی…وہ تو کھلی کتاب ہے جی …اس کے بارے میں کیا جاننا …“
”پھر بھی …BGکچھ ایسا جو تمہاری توشی میڈم کو نہ پتہ ہو …“
”نوشی بیٹی…میں اپنے بچوں کو اتنا نہیں جانتی جتنا آپ سب لوگوں کو جانتی ہوں۔ کنواری تھی جب میری ماں مجھے لے کر آئی تھی …بڑے چوہدری صاحب نے دیکھا تو آپ کے ڈیڈی کو بلایا اور کہا …جس طرح جمیلہ میری بیٹی ہے …اسی طرح یہ بھی …بہن کا خیال رکھنا …بڑے سیانے تھے آپ کے دادا…چور کو چوکیدار بنادیتے تھے“
”چورکو چوکیدار…“نوشی نے تجسس سے الفاظ دہرائے۔
 
”بیٹا ابھی آپ کو سمجھ نہیں آئے گی“BGنے اپنی بات کی وضاحت کی ۔ 
”تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے تم آج پھر گھر پر ہو۔

(جاری ہے)

…“ناہید نے سرزنش کرتے ہوئے کہا جو کہ سیلابی ریلے کی طرح اندر داخل ہوئی تھی ۔ 

”تم جاؤ…اور میرے لیے چائے لاؤ…“BG کو دیکھ کر حکم صادر کیا۔ 
اور ”رات کہاں گئے تھے …تم لوگ…کسی کو پوچھ لیا کرو…جانے سے پہلے…“”میں آپ کے روم میں بتانے گئی تھی …مگر آپ خود کسی پارٹی میں جاچکی تھیں“”فون نہیں کرسکتی تھیں“ناہید غصے سے بولی۔
 
”ماما …کیا ہوگیا ہے آپ کو …میں نے آپ کا ایسا ری ایکشن پہلے کبھی نہیں دیکھا “
”پہلے تم نے ایسی حرکت بھی تو نہیں کی “ناہید تڑاخ سے بولی۔ 
”فار گاڈ سیک…ایسا کیا کردیا ہے…آپ کیوں اتنی ہائپر ہورہی ہیں “
”تم مجھے بتاؤ میں نے کبھی تمہیں روکا ہے …کہیں جانے سے …تمہیں خبر بھی ہے میں کتنی ہرٹ ہوئی ہوں…تمہاری اس حرکت سے “
”ویسے ماما…مجھے سمجھ نہیں آرہی ہے …توشی بھی ساتھ…دادو نے اجازت دے دی تھی اور بلال بھی ساتھ ہی تھا…“نوشی اطمینان سے بتارہی تھی ۔
 
”یہی تو…اصل وجہ یہی ہے …“ناہید دانت پیستے ہوئے بولی۔ 
”ماما سچ کہوں…وہ ایسا نہیں ہے …جیسا آپ نے مجھے ساری زندگی بتایا “نوشی نے سادگی سے اپنی ماں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سب کچھ کہہ دیا۔ 
”تم بھی توشی کی زبان بول رہی ہو۔ بائی دا وے تم پر یہ حقیقت کب کھلی“ناہید غصے سے بول رہی تھی ۔ 
نوشی مسکراتے ہوئے اپنی ماں کے گلے لگ گئی۔
 
”آپ غصہ نہ ہوں آئندہ آپ کی پرمشین لے کر جاؤں گی “
”وہ اچھا لڑکا نہیں ہے “ناہید نے شوشہ چھوڑا۔ 
”3بجے تک اسکول سے فارغ ہوجاتا ہے …گھر مغرب کے بعد آتا ہے ۔ …چھٹیاں یہ باہر گزارتا ہے اور ہر اتوار صبح نو بجے چلا جاتا ہے اور رات کو واپس آتا ہے…کسی کو انفارمیشن نہیں کہا ں ہوتا ہے سارا دن…پچھلے آٹھ دس سال سے ایسے ہی ہے …اور ٹپیکل پینڈو ہے…بیک ورڈ سوچ کا مالک…“
دروازے پر دستک ہوتی ہے دروازہ کھلا ہوتا ہے SMS چائے کی ٹرالی لے کر آچکا تھا۔
 
”آجاؤ…SMS…“نوشی نے کہا۔ 
”یہ آپ کی چائے “SMSنے چائے ناہید بیگم کو پیش کی ۔ 
”آپی آپ کے لیے کیا بناؤں “SMS نے نوشی کو دیکھ کر پوچھا۔ 
”ماما جیسی چائے “نوشی نے ناہید کو مسکا لگایا 
”اور SMS کیا خبر ہے تمہارے پاس “نوشی چائے کا سپ لگاتے ہوئے بولی وہ کسی گوسپ سننے کے موڈ میں تھی۔ 
”آپی…آپ کو پتہ ہونا چاہیے“SMSنے تجسس پیدا کیا اپنی بات میں۔
 
”نہیں…سچی مجھے کچھ نہیں پتہ ہے “نوشی بھولی صورت بناکر بولی۔ 
SMSنے ادھر ادھر دیکھا پھر ہولے سے کھسر پھسر کی 
”DJ کی پھر سے منگنی ٹوٹ گئی ہے “SMSنے مذاق کے انداز میں بتایا۔ 
”آپی میرا نام مت بتائیے گا ، ویسے یہ تیسری دفعہ ہوا ہے اس کے ساتھ “
”اسی سے پوچھ لو…ریالٹی کیا ہے …اور Fakeکیا ہے …بتاؤ SMSسب کچھ بتاؤ جو تمہیں معلوم ہے…“
ناہید کے الفاظ نفرت کا لباس پہنے ہوئے تھے اور SmSکے چہرے پر حیرانی تھی۔
نوشی نے شکوے سے اپنی ماں کو دیکھا ۔ (ماما جانے بھی دیں) دل میں کہا۔ 
”SMS…تمہیں پتہ ہے بلال ہر سنڈے کہاں جاتا ہے “ناہید نے ترش لہجے میں پوچھا۔ 
”نہیں جی …مجھے تو نہیں پتہ “SMSکھلے منہ کے ساتھ بولا۔ 
”اور اسکول کے بعد کہاں جاتا ہے “ناہید نے دوبارہ لفظوں کا حملہ کیا۔ 
”نہیں…ہاں…وہ …جی…وہ موچی بابا کے پاس بیٹھا ہوتا ہے “SMSہکا بکا بول رہا تھا۔
”موچی کے پاس…موچی…“نوشی کے الفاظ حیرت میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ 
”سن لو …بس یہ کسر باقی تھی …ملک کے بڑے ایکسپورٹر جمال رندھاوا کا بھانجا ایک موچی کے پاس بیٹھتا ہے…“ہاتھ کو نوشی کی طرف کرکے بولی۔ 
ناہید کمرے سے جاچکی تھی اور نوشی کے چہرے پر پریشانی تھی SMSکچھ الجھا ہوا تھا، میں نے ایسا کیا کہہ دیا ہے۔ ناہید جاتے ہوئے شک کا بیج ڈال گئی تھی۔
 
حقیقت کی زمین پر …اب حقیقت کی زمین پر عشق کا پانی کھڑا ہے مگر جیسے ہی عشق کا پانی اترے گا …اور نفرت کی دھوپ، حقیقت کی زمین پر پڑے گی تو شک کا بیج دیکھتے ہی دیکھتے برگد کے درخت کی طرح اپنی جڑیں زمین میں دور دور تک پہنچالے گا (شک کا درخت وہ بھی برگد کی طرح مضبوط اور بڑا ہوتا ہے ۔)
###
بلال اور بابا جمعہ بیٹھے ہوئے چائے پی رہی تھے بابا جمعہ کا آج کوئی گاہک نہیں تھا ان کے پاس عادل عقیل ہاشمی دور سے نظر آگیا جو کہ بابا جمعہ کی طرف ہی آرہا تھا بلال اس کو دیکھ کر مسکرایا۔
 
عادل عقیل ہاشمی فربہ جسم کا مالک تھا، رنگ گندمی قد کاٹھ درمیانہ بال چھوٹے چھوٹے سوال زیادہ کرتا اور سوچتا کم تھا ذہین تھا مگر ذہانت سوال ڈھونڈنے میں لگاتا۔ ہاں اپنی غلطی مان لیتا بڑی بات ہنستے ہنستے پوچھ لیتا، بات کرتا تو الفاظ غیر مناسب ہوتے مگر لہجہ شائستہ ہوتا اس لیے برا نہ لگتا تھا۔ 
آج بھی وہ سوالوں کی پوٹلی سر پر اٹھائے ہوئے آگیا تھا۔
 
”السلام علیکم …سب سے پہلے تو میں اس دن کی بات پر معذرت کرتا ہوں “بابا جمعہ مسکرائے عادل کی بات سن کر پھر فرمایا۔ 
”بیٹا جی …وعلیکم السلام…اور معذرت کس بات پر “
”و ہ اس دن جب میں آپ کے طریقہ علاج پر تنقید کر رہا تھا۔ “
”دیکھو بیٹا …اختلاف گفتگو کا حسن ہے …مگر خیال رہے اختلاف رائے کبھی بھی نفرت کی شکل اختیار نہ کرے۔
پھر خیر ہے ایسا اختلاف رحمت ہے “
” میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں “عادل عقیل نے سیدھا سوال کردیا۔ 
”ضرور بیٹا جی …پوچھیے“بابا جمعہ بولے سادگی سے ۔ 
”مگر شرم آرہی ہے …میرا سوال تھوڑا بولڈ ہے “عادل عقیل نظریں چرا کر بولا 
”شرح میں کوئی شرم نہیں ہے “آپ پوچھو بابا جمعہ نے حوصلہ بڑھایا۔ 
”آپ نے کبھی محبت کی ہے …کسی عورت سے “عادل عقیل نے ایمانداری سے پوچھ لیا۔
 
”الحمد اللہ…بالکل کی ہے …اپنی بیوی سے اور اپنی والدہ محترمہ سے “
”نہیں نہیں …میں وہ …دوسری محبت کی بات کر رہا ہوں آپ سمجھے نہیں “
”بیٹا جی …میں بالکل سمجھ گیا ہوں…آپ کس محبت کی بات کر رہے ہیں ہاں وہ بھی کی تھی …“
”پھر…کیا ہوا…کچھ بتائیں…اس کے بارے میں “
بابا جمعہ کا چہرہ کھل اٹھا وہ ہنس رہے تھے، بلال بھی شاید اتنا زیادہ کبھی پہلے نہیں ہنسا ہوگا۔
سوال تو عادل کا سیدھا تھا مگر اس کے پوچھنے کا انداز ایک چھوٹے بچے کی طرح کا تھا جوکہ معصومیت سے کچھ بھی پوچھ لیتا ہے،کچھ انداز…سوال سے زیادہ …حسین ہوتے ہیں …ایسا ہی کچھ انداز عادل عقیل ہاشمی کا تھا … بعد میں وہ بھی اپنے سوال پر ہنس پڑا۔ 
”اب تمہارے والی محبت کی بات کرتے ہیں …میں کوئی بیس اکیس سال کا تھا …مجھے ایک لڑکی بہت اچھی لگتی تھی ، اس کی آنکھوں میں تو محبت ہی نظر آتی تھی …مگر اس نے مجھے کبھی میرے خط کا جواب نہیں دیا کبھی مجھ سے ملاقات نہیں کی …بس ہلکا سامسکرا دیتی تھی …ایک سال ایسے ہی گزر گیا۔
 
ہمارے میواتی لوگ ایک بزرگ کو بہت مانتے تھے …بابا سلانی ان کا نام تھا …میں ان کے پاس چلا گیا…کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ بول پڑے۔“
”چھوری کا کیا نام ہے…”کیسی ہے …“انہوں نے پوچھا جلالی انداز میں۔ 
”بہت اچھی ہے …مگر مغرور بہت ہے…نخرہ بھی بہت کرتی ہے …اپنے حسن پر ناز بھی بہت ہے …اپنی حیثیت پر اتراتی ہے پھر بھی مجھے محبوب ہے …اور میں اس سے محبت کرتا ہوں …“میں نے ساری باتیں بابا سلانی کو صاف گوئی سے بتادیں۔
 
”وہ مسکرائے اور بولے پوری کائنات میں صرف ایک محبوب عیبوں سے پاک ہے اور وہ محبوب خدا حضرت محمد ہیں، تمام محبوبوں کے بھی سردار اور وہ اللہ کے محبوب ہیں اور ان میں کوئی عیب کوئی کمی نہیں ہے…اور باقی سب کے محبوب عیبوں والے ہیں، نقصوں والے ہیں، خامیوں والے ہیں، محبت کی پہلی شرط یہ ہے کہ محبوب کے عیب آپ کو نظر نہ آئیں، اگر عیب نظر آگئے تو پھر محبت ناقص ہے…عیب ہوتے ہوئے نظر نہ آئیں تو سمجھو محبت کی پہلی سیڑھی پر آپ کا قدم ہے“
میں بابا سلانی کی بات سن کر پانی پانی ہوگیا اور کافی دیر شرمندگی سے ان کے سامنے بیٹھا رہا۔
نمکین پانی میری آنکھوں سے برسنے کے لیے تیار بیٹھا تھا میرے ضبط کے باوجود ٹپ ٹپ آنسو مٹی پر گر رہے تھے ۔ 
بابا سلانی جلال میں بولے ”بس کر …چھورے…بس کر چھورے۔۔۔فقیر منگتا ہوں… تجھے کچھ نہیں دے سکتا… خود فقیر ہوں…“
”ہجور بس دعا کردو…“میں نے عرضی پیش کی۔ 
”چل چپ کر جا…تیرے لیے مانگتے ہیں …بادشاہوں کے بادشاہ سے …بتا کیا مانگنا ہے …“
بابا سلانی نے مجھ سے پوچھا۔
میں نے جلدی سے عرضی پیش کی ۔ 
”ہجور…اپنا محبوب…اور محبت کا طریقہ ، سلیقہ آجائے …بس ہجور…بس“
”چھورے سب کچھ مانگ کے کہتا ہے …بس…بس…“
انہوں نے بند آنکھوں لزرتے ہونٹوں اور کھلے ہاتھوں سے میرے لیے دعا کی ۔ تھوری دیر خاموشی کے بعد عادل عقیل دوبارہ بول پڑا…
”پھر اس لڑکی کا کیا بنا …جس سے آپ محبت کرتے تھے “
”کلثوم کا …میری اس سے شادی ہوگئی “بابا جمعہ نے بتایا۔
 
”اگر آپ کو برا نہ لگے تو میں … ان سے بھی ملنا چاہتا ہوں “عادل عقیل نے اگلی فرمائش کردی۔ 
”کوچ کا نقارہ بجا اور وہ کوچ کرگئیں…یہاں سے “بتاتے ہوئے بابا جمعہ کی آنکھوں میں نمی تھی اور وہ یادوں کے میلے میں کھوکر الفت کے منظر دیکھ رہے تھے۔ 
”عادل صاحب آپ نے اپنی بات تو بتائی نہیں…“بلال نے جانچتی نگاہوں سے پوچھا ”میری بات تو کوئی بھی نہیں …آپ کیسے کہہ سکتے ہیں “عادل گھبرا کر بولا۔ 
”بلال کا اندازہ تو اکثر ٹھیک ہوتا ہے “بابا جمعہ نے عادل کو بتایا۔ 
”و ہ میرے ساتھ پڑتی تھی …ساری باتیں آپ کی کہانی والی ہیں…سمجھ نہیں آتا کہ میں کیا کروں…“
”سب سے پہلے اپنی پڑھائی مکمل کرو“بابا جمعہ نے جواب دیا۔ 
###

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط