”تمہارا پسندیدہ شاعر کونسا ہے“ پروفیسر زمان نے چائے پیتے ہوئے پوچھا۔
”علامہ اقبال…“ بلال نے چائے کا سپ لیتے ہوئے جواب دیا۔ عظمیٰ افگن فروٹ کیک کا ٹکڑا ہاتھ میں پکڑے ہوئے تماشائی بنے ذہانت کا میچ دیکھ رہی تھی، اور ڈاکٹر ہاجرہ نیازی ریفری کی ڈیوٹی نبھارہیں تھیں۔ڈاکٹر ہاجرہ نے فون کرکے بلال کو بلایا تھا۔ پچھلی رات انہوں نے پروفیسر زمان کو عظمی کی کہی ہوئی بات بتائی تھی
”میں شادی تو صرف بلال سے کروں گی“پروفیسر صاحب تشویش میں مبتلا تھے کہ وہ لڑکا کون ہے ، کیسا ہے، کہیں عظمی کی عزت سے نہ کھیلے، اِس لیے بلال کو طلب کیا۔
”میرے نزدیک تو مرزا غالب بڑے شاعر ہیں، علامہ اقبال کے مقابلے میں ۔۔۔ “ پروفیسر زمان جانچتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولے۔
(جاری ہے)
”میں دو بڑے لوگوں میں مقابلے کا قائل نہیں ہوں۔ میرے نزدیک دونوں عظیم شاعر ہیں۔ میں نے صرف اپنی پسند بتائی تھی۔ اور یہی آپ کا سوال بھی تھا …“
بلال نے پر اعتماد لہجے کے ساتھ جواب دیا، عظمی کی آنکھوں میں تفاخر کی چمک تھی۔
”میاں…بیوی…“پروفیسر صاحب نے اُدھورا سوال پوچھا۔
”میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ، ایک دوسرے کی ڈھال …“بلال نے جواب دیا۔
”تمہارے پاس پاکستان کے ایک شعبے کو ٹھیک کرنے کا اختیار ہو تو تم کیا کرو گے“ پروفیسر زمان نے وہ سوال کیا جو عجیب تھا۔
”میں ٹریفک کا نظام ٹھیک کردوں گا“بلال نے جواب دیا۔
”اُس کا کیا فائدہ“ پروفیسر زمان بولے۔
”اُس کے بہت سے فائدے ہوں گے … سر … پہلا تو یہ وی آئی پی کلچر ختم ہوگا۔ دوسرا یہ، لوگوں کے دلوں میں قانون کا احترام اور رُعب پیدا ہوجائے گا، تیسرا ہماری قوم میں نظم و ضبط پیدا ہوگا۔ “
”VIP کلچر کیسے ختم ہوگامیں سمجھا نہیں ذرا ایکس پلین کرو“ پروفیسر زمان پھر سے بولے
”سر ہمارے ملک میں ایک MNA سو پچاس گاڑیوں پر MNA کی نمبر پلیٹ لگوا دیتا ہے۔
اُوپر سے اُن گاڑیوں کے شیشے کالے، اندر کون ہے، کسی کو معلوم نہیں ہوتا وہ گاڑیاں نہ سگنل پر رُکتی ہیں، نہ ون وے کا خیال کرتی ہیں، ٹریفک وارڈن انہیں روکنے سے ڈرتے ہیں۔ پولیس والوں کی جان جاتی ہے……
سر اس ملک کا ہر شہری روزانہ سڑک پر نکلتا ہے۔ سائیکل والے سے لے کر Range Rover والے تک سب کے لیے ایک قانون ہونا چاہیے۔ غلطی کرنے پر اُن کا چالان ہو۔
“
”اچھا یہ بتاوٴ تم کس فرقے سے تعلق رکھتے ہو“پروفیسر زمان نے پوچھا۔
”میں سر ۔۔۔ اُمتی فرقے سے تعلق رکھتا ہوں۔“
”میرا مطلب ہے بریلوی ہو، دیوبندی، وہابی، یا پھر شیعہ“پروفیسر زمان نے سوال آسان کیا
”سر میں اِن میں سے کچھ بھی نہیں ہوں، میں صرف نبی پاک ﷺ کا امتی ہوں۔ کسی فرقے کی کوئی کتاب نہیں پڑھتا، صرف قرآن مجید پڑھتا ہوں، ترجمے کے ساتھ میرے پاس اردو کے چودہ تراجم ہیں۔
مختلف علما کرام کے ۔ کسی کی بات سمجھ نہ آئے تو دوسرے کا ترجمہ پڑھ لیتا ہوں۔ سر سچ تو یہ ہے ہمارے ملک کو جتنا نقصان بیرونی طاقتوں نے پہنچایا ہے اُتنا ہی نقصان تفرقے بازی اور فرقہ بندی سے ہوا ہے … “
ڈاکٹر ہاجرہ اور عظمی اُن کی گفتگو سے لطف اندوز ہورہیں تھیں۔
”آخری سوال عظمی سے تمہارا کس قسم کا تعلق ہے۔“
پروفیسر زمان دو ٹوک انداز سے بولے۔
”ایک اچھے دوست کا۔“بلال نے دھیمی آواز کے ساتھ جواب دیا۔
”کیا لڑکا اور لڑکی صرف دوست ہوسکتے ہیں … “پروفیسر زمان نے مشکل سوال پوچھا۔
”سر بہت مشکل ہے مگر ہوسکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ حیا کی چادردونوں کے درمیان ہو …“
چائے کا دور ختم ہوچکا تھا۔ ڈاکٹر ہاجرہ اور ڈاکٹر عظمی تو بلال کے جوابوں سے خاصی متاثر ہوئیں تھیں۔
پروفیسر صاحب زرا دیر سے مطمئن ہونے والے انسان تھے۔
بلال نے جانے کی اجازت مانگی۔
”بلال بیٹا مغرب ہونے والی ہے رات کا کھانا کھاکر جانا۔“ ڈاکٹر ہاجرہ نے پرخلوص انداز میں دعوت دی۔
”خالہ جی…آج میری پہلے سے دعوت طے ہے۔ ورنہ میں ضرور کھانا کھاتا آپ کے ہاں۔“
عظمی پنک لباس پہنے ہوئے اپنی کالی سیاہ آنکھوں سے بلال کو دیکھ رہی تھی۔
بلال ڈرائنگ روم سے نکلا تو عظمی اُسے اُس کی گاڑی تک چھوڑنے آئی۔
بلال گاڑی میں بیٹھنے لگا تو عظمی نے زبان کھولی۔
”آپ یہ گاڑی کیوں نہیں بدلتے آپ کی ہم عمر ہے؟ “عظمی نے شرارتی انداز میں سوال کیا۔
”اس لیے کہ یہ میری پیدائش پر میرے ابا ملک جلال احمد نے خریدی تھی۔ آٹھ ماہ انہوں نے چلائی … پھر وہ فوت ہوگئے اُن کی خوشبو آتی ہے اِس گاڑی سے “ بلال غم میں ڈوبی ہوئی آواز سے بولا۔
”یہ موبائل کیوں نہیں بدلتے اب تو Iphone 5 آگیا ہے“ عظمی آفگن نے اپنا سیٹ دکھاتے ہوئے کہا۔
”گاڑی میں بیٹھ کر بلال نے اپنا موبائیل چوما۔ اِس پر میری ماں کے ہاتھ لگے ہیں۔ “یہ کہہ کر بلال وہاں سے چلا گیا۔ وہ Mobile اُس کی ماں کا تھا۔
عظمی وہی کھڑی کھڑی بلال کے ساتھ سفر کررہی تھی۔ وہ کتنی دیر وہیں کھڑی رہی۔ واپسی پر بلال ماڈل ٹاوٴن کے قبرستان کے باہر گاڑی کھڑی کرکے اندر چلا گیا۔
اُس سمعے اعجاز جنجوعہ وہاں سے گزرا اُس نے بلال کو اندر جاتے ہوئے دیکھا تھا۔
عظمی اپنے روم میں آئی اور موونگ چیئر پر بیٹھ کر کافی دیر سوچتی رہی۔ بلال کے بارے میں، اُس کے کانوں میں بلال کے الفاظ گونج رہے تھے، اور وہ خیال کی آنکھوں سے بلال کو دیکھ رہی تھی، جواب دیتے ہوئے۔ میں نے اپنی امی کی کونسی چیز سنبھال کر رکھی ہے۔ جواب ملا کوئی بھی تو نہیں سوائے اُن کی تصویروں کے۔
وہ اُٹھی اور اپنی خالہ ہاجرہ کی طرف گئی، شاید اُن سے امی کی کوئی چیز مل جائے جس سے اُن کی خوشبو آتی ہو۔
###
ڈیفنس کا وہی ریسٹورینٹ، وہی ٹیبل مگر چہرے جُدا، نوشی نے Dj کو بھیج کر ٹیبل بُک کروالیا تھا۔ رات آٹھ بجے کا وقت طے ہوا تھا۔ ڈنر کے لیے۔ نوشی ساڑھے سات بجے ہی وہاں پہنچ گئی تھی۔ اُس نے سفید چوڑی دار پائجامہ اوپر لمبی قمیض۔
کھلے گولڈن بال اُس کا لباس بالکل ویسا تھا جیسا پچھلی رات اُس کی بہن توشی نے پہنا تھا۔ وہ بار بار اپنی گوری کلائی پر بندھی گھڑی کو تیز چلنے کا حکم دیتی گھڑی تو تیز چل سکتی ہے، مگر وقت اپنی مرضی سے سفر کرتا ہے۔
آٹھ بجنے سے دو منٹ قبل بلال نوشی کو سلام کرتا ہے، جوکہ اُس کے دائیں طرف کھڑا تھا، نوشی اُس کے استقبال کے لیے کھڑی ہوجاتی ہے اور فوراً کہتی ہے۔
”اتنی دیر لگادی آپ نے “ بلال اپنی گھڑی پر وقت دیکھتا ہے آٹھ بجنے والے تھے۔ اُس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی کہا کچھ نہیں نوشی کو یاد آتا ہے ٹائم تو 8 بجے کا طے ہوا تھا ”میں تو یونہی“ اُس نے اپنے دل میں کہا۔
بلال اُس کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ بلیک ٹوپیس پہنے ہوئے وائٹ شرٹ کے ساتھ اُس کی لائٹ گرین موٹی موٹی آنکھیں اوپر سے کالے سیاہ گھنگھریالے بال وہ سادگی کے باوجود فیشن کو مات دے رہا تھا۔
”تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے“
نوشی نے بلال کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شعر سنایا۔
”منجمد خون میں ہلچل کردے
مجھ کو چھو اور مکمل کردے“
نوشی نے دوسرا شعر سناتے ہوئے بلال کے ہاتھ کے اوپر اپنا ہاتھ رکھا، بلال نے مسکراتے ہوئے ہاتھ کھسکالیا نوشی نے محسوس بھی نہیں کیا۔
”Very Nice آپ شاعری کا ذوق بھی رکھتی ہیں، کچھ اور ارشاد ہو۔“ بلال نے فرمائش کردی۔
”ارشاد کون ۔۔۔ “ نوشی حیرت سے بولی ”میں تو کسی ارشاد کو نہیں جانتی ۔“
”میرا مطلب ہے ۔۔۔ آپ کوئی اور شعر سنائیں“ بلال زیر لب مسکراتے ہوئے بولا
”اچھا … اچھا … شعر کوئی اور … وہ…میں …“نوشی اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی ”کس سے پنگالے لیا“ وہ من ہی من میں بولی ”ابھی کوئی ذہن میں نہیں آرہا“ وہ بتیسی نکالتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
ویٹر پاس کھڑا تھا۔ مینیو سامنے رکھتے ہوئے اور ٹیب لیٹ ہاتھ میں لیے ہوئے ۔
”شکریہ“ نوشی نے زیر لب کہا ” آپ اتنی دیر کیوں لگادیتے ہیں“ نوشی نے ویٹر کو گھوری ڈالتے ہوئے بولا کھانے کا آرڈر نوشی دے رہی تھی۔
”اچھا ایسا کرو آپ۔ “ نوشی مینیو کارڈ دیکھتے ہوئے بولی ”ایک پیاز گوشت، فش تکہ … باقی صاحب سے پوچھ لو“