Episode 107 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 107 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

”افسوس……مگر یہ اٹل حقیقت ہے“ گل شیر خان کی کنپٹی کی رگیں تن گئیں۔
”توشی بیٹا یہ تینوں پچھلے ایک سال سے شہر کے مختلف علاقوں سے لڑکیاں اغوا کرتے، پھر تینوں اُن لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کرتے انہیں ڈراتے دھمکاتے اکثر لڑکیاں اپنی بدنامی کے ڈر سے خاموش ہو جاتیں، دو ہفتہ پہلے اِن تینوں نے گلبرگ کے علاقے سے ایک لڑکی اُٹھائی اُس لڑکی کا باپ کرنل ہے اور خفیہ ایجنسی میں کسی بڑے عہدے پر کام بھی کرتا ہے، اُس لڑکی نے ان تینوں کو انجام کی دھمکی دی تھی، اس ڈر سے انہوں نے اُسے قتل کر کے کوٹ لکھپت کے پیچھے کھیتوں میں پھینک دیا تھا، یہ ظلم اِن تینوں نے مل کر کیا تھا، یہ شعیب صاحب کے باہر جانے سے پہلے کی بات ہے۔
دو دن پہلے خفیہ اداروں کے لوگوں نے سنی اوروکی کو پکڑ لیا ہے میرا چچا زاد بھائی اُس کرنل صاحب کے گھر ڈرائیور ہے یہ ساری باتیں اُس نے مجھے ابھی جب آپ اندر گئی تھیں، تب اُس کا فون آیا تھا میرا بھائی بتا رہا تھا، وہ لوگ شعیب صاحب کو ائیر پورٹ ہی سے اُٹھالیں گے بیٹا تیرے باپ کا نمک کھایا ہے“
گل شیر خان کی آنکھوں میں پہلی دفعہ موٹے موٹے آنسو چمک رہے تھے مغرب کی آذان ہو رہی تھی۔

(جاری ہے)

خان صاحب نماز پڑھنے چلے گئے تھے۔
توشی اپنی بہن کے پاس کمرے میں لوٹی نوشی بھی جاگ چکی تھی نرس اُس کا B.P چیک کر رہی تھی۔ توشی کی آنکھیں رات سے رو رو کر سرخ ہو چکی تھیں پھر بھی اُسے نوشی کی طرف دیکھ کر مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائی تھی۔
نوشی اب کافی بہتر تھی، اُسکا B.Pبھی نارمل تھا، اُس کی نیند بھی پوری ہو چکی تھی۔ سونے سے پہلے اُس نے سوپ بھی پیا تھا۔
محسن کھانے پینے کے بہت سارے سامان کے ساتھ کمرے میں داخل ہو ا تھا۔ اُس کے ساتھ اُس کا کا ڈرائیور تھا۔ وہ یہ سارا سامان اپنے گھر سے لے کر آیا تھا۔
”کیسی ہیں آپ……… نوشی صاحبہ“ محسن نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
امی نے آپ کے لیے یخنی بنا کر بھیجی ہے خود اپنے ہاتھوں سے اور آپ کے لیے کھانا بیگم صاحبہ چلو جلدی سے نکالو“ محسن نے نوشی اور توشی کو باری بار بولا ۔
توشی نے پہلے نوشی کو یخنی پلائی اُس کے بعد وہ دونوں کمرے میں پڑے صوفہ سیٹ پر بیٹھ گئے اور کھانا سینٹر ٹیبل پر رکھ لیا، دونوں میاں بیوی کھانا کھانے مین مصروف ہوگئے۔
محسن اپنے ہاتھ سے توشی کو کھلا رہا تھا اور نوشی دیکھ رہی تھی، اور اُسے ولید یاد آرہا تھا۔ نوشی کی آنکھوں سے ایک بار پھر خاموش اشک بہنے لگے تھے۔ محسن کی نظر پڑی تو اُس نے بات بدلی۔
 
”سالی صاحبہ آپ خالہ بننے والی ہیں، اس لیے ان کی اتنی خدمت کر رہا ہوں۔“
توشی نے سنا تو شرمانے لگی 
”آپ بھی، میں خان صاحب کو دیکھ کر آتی ہوں انہوں نے بھی کچھ نہیں کھایا ہے“ خان صاحب کھانا کھا کر پھر کمرے سے باہر نکل گئے تھے وہ کسی طرح شعیب کو بچانا چاہتے تھے۔
توشی نے نوشی کو میڈیسن کھلائی ”توشی……مبارک ہو“ نوشی نے گلے کے انداز میں کہا 
”خیر مبارک……“ توشی نے اُسی انداز میں جواب دیا ناراضی سے۔
دونوں بہنیں اپنی سوچوں میں گم تھیں توشی نے نوشی کو بتانا مناسب نہیں سمجھا تھا۔
”بلال نہیں آیا یہاں پر………“ محسن نے پوچھا
”میں نے خود ہی……اُسے اور دادی کو نہیں بتایا تھا……“ توشی نے جواب دیا۔
”توشی میں ہوں یہاں……تم ڈرائیور کے ساتھ گھر چلی جاؤ……کل سے ہو یہاں پر……مجھے تمہاری فکر ہے“ محسن نے فکر مندی سے کہا
ڈاکٹر صاحب…پلیز، آپ کو معلوم ہے…میں آپ کی ہر بات مان لیتی ہوں…میں گھر پر بھی بے چین ہی رہوں گئی………پلیز………“
توشی نے محسن کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے التجا کی ۔
”ٹھیک ہے……جیسے تمہاری خوشی……“
”THANK YOU………ڈاکٹر صاحب“ توشی نے محبت سے کہا ۔
رات دس بجے کے قریب جمال رندھاوا اندر داخل ہوئے تھے۔ نوشی اپنے بیڈ پر سوئی ہوئی تھی، اور توشی محسن کے کندھے پر سر رکھ کر سوگئی تھی۔ محسن صوفے سے ٹیک لگائے بیٹھا ہوا تھا۔
جمال کے پیچھے بلال نے اپنی نانی کا ہاتھ پکڑے ہوا تھا۔ وہ کمرے میں داخل ہوا تھا۔
جمال دوپہر کو گھر جانے کے بعد سوگئے تھے شام سات بجے وہ اُٹھے اور بلال کو فون کیا اور اُس کے گھر کا ایڈریس پوچھ کر وہاں چلے گئے تھے۔جمال نے خود اپنی ماں کے سامنے بلال کی بے گناہی کا اعلان کیا تھا۔ اور ہاتھ جوڑ کر بلال سے معافی مانگنی ۔
”بلال بیٹا میں تم سے شرمندہ ہوں“ جمال نے بلال کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہا تھا۔
”کیوں ماموں جان مجھے گناہ گار کر رہے ہیں“ بلال نے جمال کے جوڑے ہوئے ہاتھوں کو تھام لیا ”باپ بیٹے سے معافی مانگتا ہوا اچھا نہیں لگتا“ اس کے بعد جمال نے ساری تفصیل اپنی ماں اور بلال کو بتائی تھی۔
تب اُسی وقت بلال نے اپنی نانی کو ساتھ لیا اور جمال کے ساتھ ہی ہاسپٹل آگیا تھا۔ نوشی اور توشی جاگ گئی تھیں جمال کے آنے کی وجہ سے، جمال نوشی کو دیکھ کر خوش ہو گئے تھے۔ جمال نے نوشی کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور اپنی ماں کو راستہ دیا نوشی سے ملنے کا
”محسن بیٹا چلو ڈاکٹر سے پوچھتے ہیں……… وہ لوگ کب تک ڈسچارج کر دیں گے نوشی کو“ جمال رندھاوا اور ڈاکٹر محسن وہاں سے چلے گئے تھے۔
”میری بچی………میری جان……“ جہاں آرابیگم نے نوشی کی پیشانی چومی جو کہ بیڈ سے ٹیک لگائے ہوئے بیٹھی تھی۔ اس کے بعد جہاں آرا نوشی کے بیڈ کے ساتھ پڑی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی۔
بلال آگے آیا اور نوشی کی طرف دیکھ کر بولا
”نوشی جی……اب کیسی طبیعت ہے آپ کی“ بلال نے یہ بات سنجیدگی سے پوچھی تھی۔ مگر نوشی نے بلال کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور گردن دوسری طرف موڑ لی غصے سے۔
جہاں آرابیگم اور توشی نے دیکھ لیا تھی، نوشی کی یہ بداخلاقی۔ بلال وہیں کھڑا تھا۔ نوشی کے سامنے اُسی وقت ناہید اندر داخل ہوئی، بلال کو نوشی کے سامنے دیکھا تو اُس کے تن بدن میں جیسے آگ ہی لگ گئی تھی۔
”یہ بے غیرت یہاں کیا کر رہا ہے، یہ گندا اور ناپاک شخص، بدکردار اور بے حیا………“
ناہید غصے سے آگ بگولہ تھی بلال کو اُس نے بے شمار گالیاں دیں ایک منٹ کے اندر اندر، بلال پھر بھی خاموش تھا۔
جہاں آرابیگم اور توشی اس سے پہلے کہ بولتیں جمال اور محسن بھی کمرے آچکے تھے۔ ناہید اُن دونوں سے بے خبر تھی۔ اُس کا منہ بلال کی طرف تھا۔
”شعیب نے اُس دن ٹھیک کہا تھا، تمہاری نسل ہی گندی ہے“ ناہید نے آگئے بڑھ کر زور دار طمائچہ بلال کے گال پر دے مارا ۔
جمال رندھاوا نے پیچھے سے ناہید کو اُس کے بالوں سے پکڑا اور گھسیٹتا ہوا کمرے سے باہر لے گیا۔
کوریڈور میں بہت سارے افراد تھے جن میں کچھ اسٹاف کے لوگ، کچھ مریضوں سے ملنے ملانے والے اور اُن میں سے کچھ رندھاوا فیملی کو جاننے والے بھی تھے۔
نوشی کو چھوڑ کر باقی سارے افراد بھی جمال سے ناہید کو بچانے کے لیے کمرے سے نکل آئے جمال رندھاوا نے سب کے سامنے تھپڑوں کی بارش اپنی بیوی کے گالوں پر کردی۔ محسن اور بلال آگے بڑھے تو توشی نے دونوں کو اُن کی کلائیوں سے پکڑ لیا تھا۔
”میری ماں یہ سلوک ڈیزور کرتی ہے“ توشی نے روتے ہوئے کہا 
”تم ہو کسی گندے خاندان کی تمہاری رگوں میں کسی گندے اور خبیث انسان کا خون ہے، میں نے تم سے زیادہ گھٹیا عورت اپنی زندگی میں نہیں دیکھی، جس نے اپنی ضد اور لالچ کی وجہ سے اپنی ہی بیٹی کی زندگی برباد کر دی، تم ہوساری بربادی کی وجہ………“
جمال رندھاوا غصے سے بول رہے تھے سب کے سامنے، تماشہ دیکھنے والوں کا ہجوم لگا ہوا تھا اور ناہید بکھرے بالوں کے ساتھ فرش پر بیٹھی ہوئی تھی ،اُس کے ہونٹوں اور ناک سے خون بہہ رہا تھا۔
بلال نے دیکھا تو اُس نے توشی سے اپنی کلائی چھڑائی اور آگے بڑھ کر ناہید کا دوپٹہ پکڑا جو کہ فرش پر گرا ہوا تھا اُٹھایا اور ناہید کو جا کر سنبھالا اور اُسے فرش سے سہارا دے کر اُٹھایاا ور ناہید کا دوپٹہ اُس پر ڈال دیا۔
”ناہید دیکھو اُس کو، جس نے تمہیں اُٹھایا ہے۔ تم نے اس کو ساری زندگی نفرت سے دیکھا ہے“ جمال نے درد اور تکلیف سے کہا تھا۔
نوشی بھی اپنے بیڈ سے اُٹھ کر دیوار کے ساتھ ساتھ اُس کے سہارے کمرے کے دروازے تک پہنچ گئی تھی۔ جب اُس نے دروازہ کھولا تو ناہید نے بولنا شروع کیا۔
”یہ سب کچھ بلال کے کہنے پر تو میرے ساتھ ہوا ہے۔ اچھا بدلہ لیا تم نے بلال مجھ سے……… چھوڑو مجھے یہ ہمدردی سب دکھاوا ہے“ ناہید نے بلال کی گرفت سے خود کو چھڑایا اور اُسے حقارت سے زور کا دھکا دیا، بلال گرتے گرتے بچا تھا۔

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط