ناشتے کی میز پر اعجاز جنجوعہ اپنے مخصوص انداز میں بیٹھے ہوئے اخبار میں گم تھے ۔ وہ اپنی عادت کے مطابق بائیں ہاتھ سے اپنی انگوٹھے کی پڑوسن انگلی سے اپنی مونچھوں کی مالش کر رہے تھے اوپر سے نیچے پھر اوپر سے نیچے۔ جب فرح کی آواز پر ان کے ہاتھ رک جاتے ہیں وہ سخت لہجے میں تیور دکھاتے ہوئے بولی۔
”وہ فراق اور شال کس کے لیے ہے“
”بیگم آپ کے لیے فراق اور شال خالہ کے لیے “رات بتایا تو تھا۔
”جنجوعہ صاحب آپ کی گاڑی میں جو ہیں میں ان کی بات کر رہی ہوں“
”فرح بیگم وہ بلال نے منگوائی تھیں میں بھول گیا آپ بچوں کو چھوڑنے گئی تھیں ساتھ لے جاتیں خیر چھٹی کے وقت پہنچادیجیے گا“
اعجاز جنجوعہ اخبار پرنظریں جمائے سب کچھ بول رہے تھے۔ اطمینان کے ساتھ، فرح ڈائنگ ٹیبل کی دوسری طرف کرسی پر بیٹھ جاتی ہے ۔
(جاری ہے)
”جنجوعہ صاحب ادھر میری طرف دیکھیں “
”جی فری جی ۔
فرمائیں “اعجاز جنجوعہ نے چشمے کے اوپر سے دیکھا۔
”جنجوعہ صاحب آپ سچ کہہ رہے ہیں“فکر مندی سے بولی۔
”آپ سے جھوٹ کب بولا ہے آپ خود بلال کو دیجیے گا“جنجوعہ صاحب نے جواب دیا۔
”کچھ کھلائیں گی بھی یا خالی باتوں سے ہی …“
”ماسی رشیداں…جنجوعہ صاحب کا ناشتہ لے آؤ“
”جب سے آپ طارق رامے کے ساتھ ہیں مجھے کچھ کھٹکا سا لگا رہتا ہے “
”وہ کس لیے “اعجاز جنجوعہ بولے۔
”فوزیہ بتارہی تھی بڑی لڑکیوں سے چکر ہیں طارق رامے کے “
”فوزیہ کون؟“اعجاز جنجوعہ نے پوچھا۔
”بلال کے آفس میں کام کرتی ہے اور ایک چکر تو اس کی سہیلی کی بڑی بہن کے ساتھ تھا۔ اس کمینے نے وعدہ کیا تھا لبنیٰ سے شادی کا“
”اب یہ لبنیٰ کون ہے“جنجوعہ صاحب بیزاری سے بولے۔
”لبنیٰ جس سے چکر تھا طارق رامے کا “فرح نے تفصیل بتائی۔
”میں ناشتہ کروں یا جاؤں صبح صبح فضول باتیں…میں مکان بناتا ہوں، وہ بیچ دیتا ہے، پلاٹ چاہیے وہ ڈیل کروادیتا ہے اس کا کمیشن پورا دیتاہوں، فارغ اوقات میں اس کے آفس بیٹھتا ہوں۔ ہفتہ کی رات کھانا اکٹھے کھالیتے ہیں اور بس “
”آپ پتہ نہیں کیا کیا سوچتی رہتی ہیں “اعجاز جنجوعہ خفگی سے بولے۔
ماسی رشیداں نے ناشتہ ڈائننگ ٹیبل پر رکھا”بیگم صاحبہ ناشتہ“
”ماسی رشیداں تم جاؤ اور ڈرائنگ روم صاف کردو“فرح گردن موڑ کر ماسی رشیداں کو جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔
”جنجوعہ صاحب آپ بھی کمال کرتے ہیں، ماسی رشیداں کے سامنے ہی شروع ہوگئے“خفگی سے بولی۔
”فرح بات تم نے شروع کی تھی، ماسی کے سامنے، دیکھو فرح اگر کچھ طارق رامے میں خامیاں یا برائیاں ہیں بھی تو مجھے اس سے کیا، اس کا پرسنل میٹر ہے، میرے ساتھ اس کے معاملات بالکل ٹھیک ہیں، مجھے کبھی بھی اُس نے برائی کی دعوت نہیں دی، سگریٹ، شراب یا عورت اور سچی بات میں نے تو اتنے سالوں میں ایسا کچھ بھی نہیں دیکھا، ہاں سنا بہت کچھ ہے اس کے بارے میں “
فرح اپنے شوہر اعجاز جنجوعہ کو اچھی طرح جانتی تھی کہ وہ سچ کہہ رہا تھا اور اس کے موڈ سے بھی واقف تھی اگر جنجوعہ صاحب چھڑ گئے تو شانت ہونا مشکل ہے، اس نے دل ہی دل میں سوچا۔
”سوری بابا سوری…میں غلط تھی…وعدہ آئندہ آپ پر شک نہیں کروں گی“فرح نے اعجاز کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے مسکرا کر کہا ،اس کے گورے گالوں میں ڈمپل پڑے ہوئے تھے ۔
”آپ پلیز ناشتہ کریں “بریڈ کا سلائس توڑ کر جنجوعہ صاحب کے منہ میں ڈالا دوسرا نوالہ اپنے منہ میں ڈالا۔
”بلال کس کو دے گا شال اور فراق“فرح نے پوچھا ناشتہ کرتے ہوئے ۔
”شال تو اپنی نانی کو دے گا فراق پتہ نہیں “اعجاز جنجوعہ کا موڈ ٹھیک ہوچکا تھا اور وہ چائے پینے میں مصروف تھے،
”جنجوعہ صاحب…ایک بات کروں…اگر آپ غصہ نہ کریں تو…“
”جی ضرور…“جنجوعہ صاحب مسکرا کر بولے۔
”ماہ رخ…باجی نسرین کی بڑی بیٹی…اگر اس کا رشتہ بلال سے ہوجائے تو “
”فرح بیگم آپ بھی کمال کرتی ہیں“ جنجوعہ صاحب مسکرا کر بولے۔
”کیوں کیا برائی ہے، ماہ رخ نے بی ایڈ کیا ہوا ہے، گوری چٹی، اونچی لمبی، جوان ہے، باجی نسرین جب بھی واہ کینٹ سے فون کرتی ہیں تو کہتی ہیں لاہور میں کوئی رشتہ دیکھو، بھلا بلال سے اچھا رشتہ کوئی ہوسکتا ہے “
”فرح بیگم ٹھیک کہہ رہی ہیں آ پ مگر بلال مانے تو …“
جنجوعہ صاحب نے دل میں سوچا آفرین…آفرین…آفرین۔
###
مسز نقوی بلال کے آفس میں داخل ہوتی ہیں۔
” Where is Bilal“مسز نقوی نے اندر آتے ہوئے پوچھا۔
بلال اپنی کرسی پر بیٹھا کام میں مصروف تھا۔ مسز نقوی کو دیکھ کر اُٹھ کھڑا ہوا ان کے ساتھ ایک خوبصورت جوان لڑکی بھی تھی۔
”Meet herیہ میری چھوٹی بہن ہے ڈاکٹر منال نقوی، شیخ زید Hospitalمیں ہاؤس جاب کر رہی ہے اور یہ Mr Bilal ہیں “مسز نقوی نے تعارف کروایا۔
”آپ…تشریف رکھیں۔
“بلال شائستگی سے بولا۔
وہ صوفے پر بیٹھ گئے فوزیہ غور سے ان سب کو دیکھ رہی تھی۔
”کچھ لیں گی …آپ…“بلال نے پوچھا۔
مسز نقوی نے اپنے گلاسز ماتھے کے اوپر بالوں پر لگائے ہوئے تھے بال پہلے ہی شولڈر کٹ تھے بائیں بازو میں اپنا بیگ لٹکایا ہوا تھا۔ ڈاکٹر منال نقوی نے غور سے بلال کو دیکھا، جو ڈارک گرے ٹو پیس میں ملبوس تھا، وائٹ شرٹ کے ساتھ سمپل مگر ہینڈسم، کلر سفید، ہائیٹ ok کرلی ہیئر، منال نے دل ہی دل میں سوچا، Dress تو اچھا پہنا ہے ، اب دیکھنا ہے Addressکیسے کرتا ہے ۔
Toneبھی ٹھیک ہے۔ Educationٹھیک ہے، School Principal ٹھیک ہے، Idealنہیں نہیں Just ok
ڈاکٹر منال نقوی نے اپنی بڑی بہن کو آنکھوں سے اشارہ کیا ok اس دوران مسز نقوی بلال کے ساتھ گلابی انگلش میں باتیں کرنے میں مصروف تھیں بے تکی بے مقصد باتیں جنہیں آج کل گو سپ کا نام دیا جاتا ہے۔ مسز نقوی نے کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھا۔
”Please allow me to go“بول پڑیں۔
اب ڈاکٹر منال نقوی کی باری تھی۔
”بلال آپ سے مل کر اچھا لگا “ڈاکٹر منال نے آنکھوں کے تیر چلاتے ہوئے کہا تھا۔
”مگر آپ نے کچھ چائے، کافی، کولڈ ڈرنک تو“بلال کا جملہ پورے ہونے سے پہلے ہی منال بول پڑی۔
”آپFacebook ، Skype وغیرہ یوز کرتے ہیں؟ “
”نہیں…“بلال نے جواب دیا۔
ڈاکٹر حیرت سے بول پڑی۔
”نہیں…“اس کے نہیں میں حیرت، سوال، کیوں، مگر اگر سب کچھ تھا۔
”موبائل نمبر لے لو“مسز نقوی نے مشورہ دیا۔
فوزیہ نے جھٹ پھٹ وزیٹنگ کارڈ ڈاکٹر منال کو پکڑادیا، اُس نے دیکھے بغیر اپنے پرس میں رکھ لیا۔ گاڑی میں بیٹھ کر دونوں بہنیں جوہر ٹاؤن کنال روڈ پر شیخ زید ہسپتال کی طرف جارہی تھیں۔ جب دو نمبر انڈر پاس کے قریب سے گزرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی سے پہلے ڈاکٹر منال نے کارڈ دیکھا تو اس میں آفس کے سارے نمبر تھے سوائے موبائل نمبر کے اس کے چہرے پر ہلکی سے مسکراہٹ تھی اور دل میں ایک سچا کھرا خیال آیا۔
”ڈاکٹر منال نقوی کوئی تو ہے جس نے تمہیں گھاس نہیں ڈالی“
”کیسا تھا “مسز نقوی کی آواز سن کر خیال جلدی سے بھاگ گیا اور ڈاکٹرمنال ڈر گئی ”اوہ میں ، آپی کہیں کھوگئی تھی“ اس نے صفائی دی۔
”Ideal ۔ واقعی مختلف، اچھا لگا، جس کو ملے گا ۔ وہ…“ڈاکٹر منال کے ہونٹوں کے درمیان وہ کافی دیر سفر کرتا رہا۔
”منال تم نے مجھے بتایا نہیں “مسز نقی دوباری بول پڑیں، گاڑی اب شیخ زید ہسپتال کی پارکنگ میں تھی۔
Ideal پرسنالٹی کا مالک، بہت اچھا، مگر وہ مجھ میں انٹرسٹڈ نہیں تھا، میں دوبارہ ملنا چاہوں گی مگر اس حوالے سے نہیں، آپ کی پسند واقعی لاجواب تھی اپنے لیے بھی اور میرے لیے بھی۔
”احسن بھائی کو Thanksکہہ دیجیے گا میری طرف سے “
ڈاکٹر منال نے اپنا وائیٹ کوٹ پکڑا اور گاڑی سے اُتر گئی، مناہل نقوی اُس کی بڑی بہن اسے دور تک جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
اب اس کے ہونٹوں میں Thanksپھنس گیا تھا۔
”مگر کیوں…“مناہل احسن نقوی سوچ رہی تھیں۔
”سر آپ واقعی Facebook وغیرہ استعمال نہیں کرتے، سر میں تو جب تک لیاقت علی سے شارجہ، Skype پر دو گھنٹے بات نہ کرلوں مجھے تو نیند ہی نہیں آتی اور میرا WhatsApp تو پورا دن On رہتا ہے اور Facebook کے بغیر تو زندگی ہی نامکمل ہے “
”فوزیہ جی Viberکا کیا قصور ہے “بلال نے یاد دہانی کرائی۔
”سر آپ مذاق تو نہ کریں “خفگی سے بولی۔
”سر اگر آ پ اسے Facebook کی Id بتادیتے تو کیا جاتا آپ کا …سر یہ تو آپ نے جھوٹ بولا ہے “جیسے پہلی دفعہ بلال کی چوری پکڑی ہو، چٹکی بجا کر بولی۔
”میں نے جھوٹ نہیں بولا میں Facebookاستعمال کرتا ہوں مگر اپنے نام سے نہیں Justاقرا کے نام سے Idہے اس میں میرے کوئی فرینڈز وغیرہ نہیں ہیں بس کچھ Pages لائیک کیے ہوئے ہیں ان کی اپ ڈیٹ وغیرہ پڑھ لیتا ہوں اور بس …“