اگلے دن جمال رندھاوا ڈیڑھ ماہ کے لیے امریکہ چلے گئے۔
ولید نے بھی ڈیفنس سے گلبرگ جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ولید نے ایک فرنشڈ گھر لیا ہوا تھا کرائے پر اس لیے اُسے شفٹ کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی، نوشی کے باپ نے اُسے جہیز نہیں دیا تھا، جس کا مسئلہ ہوتا۔
بلال نے بھی میاں محمود کا گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ جس کی دو وجوہات تھیں پہلی میاں محمود نے چار ماہ کا کرایہ اُس سے نہیں لیا تھا۔
جب سے بلال گھر میں شفٹ ہوا تھا۔ اور دوسری وجہ اُس کی نانی تھیں نانی عمر رسیدہ خاتون تھیں۔ وہ گھر کی سیڑھیاں بار بار اُتر اور چڑھ نہیں سکتی تھیں، اور بلال کے پاس گھر کا اپرپورشن تھا۔ بلال نے اپنا مسئلہ طارق رامے کو بتایا تھا۔
طارق رامے نے میاں محمود کو لندن اطلاع دی فون کر کے
”رامے صاحب وہ اچھا لڑکا ہے، ایسا کرایہ دار کدھر ملتا ہے، اُسے میرا کوئی بھی پانچ مرلے کا گھر دے دیں کرائے پر ہاں کرایہ پورا لیجیے گا، وہ خود دار بندہ ہے، ورنہ وہ گھر نہیں لے گا“ میاں محمود نے طارق کو جواب دیا تھا۔
(جاری ہے)
”ٹھیک ہے………میاں صاحب……… میں بھی یہی چاہتا تھا“ طارق رامے نے فون بند کر دیا طارق رامے نے میاں محمود کا ایک سال پرانا گھر جو کہ چند دن پہلے ہی خالی ہوا تھا۔ جس کے سامنے پارک بھی تھا۔ وہ کرائے پر دے دیا تھا۔ بلال کی نانی کو وہ گھر بہت پسند آیا تھا۔ وہ گھر چھوٹا ضرور تھا، مگر ہوا دار اور روشن تھا گھر کے گیراج میں ایک گاڑی بھی آرام سے کھڑی ہو سکتی تھی، اور دوسری گاڑی گھر کے باہر پارک کے ساتھ کھڑی ہو سکتی تھی، اور سب سے اچھی بات وہ بلال کے اسکول کے بھی نزدیک تھا۔
رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا تھا………
دن بھاگ رہے تھے، جس کا اندازہ ولید ہاشمی کو تھا، ولید نے مہینوں کا کام دنوں میں مکمل کیا اُس نے نوشی کے دونوں پلازے دونوں مکان دنوں میں سیل کر لیے تھے۔ اگر 10 کروڑ کی چیز 8 میں ملے تو اُس کے 10گاہک ہوتے ہیں۔ یہی کچھ ولید نے نوشی کی پراپرٹی کے ساتھ کیا تھا۔ اُس نے 10 ملین درہم ہنڈی کے دریعے دبئی ٹرانسفر کر دیئے تھے۔
نوشی سے وہ بینک والے 10 کروڑ بھی لے چکا تھا۔ اس دوران ولید ایک ہفتے کے لیے دبئی بھی گیا تھا، جہاں پر اُس نے اپنے اور ارم کے لیے ایک فلیٹ بھی خرید لیا تھا۔
ایک ہفتے کے دوران اُس نے اپنی ایک کمپنی بھی بنائی اور اپنے اور ارم کے RESIDENCE VISA کے لیے کاغذات بھی جمع کروا دیئے امیگریشن کے اندر ولید کے دوست نے اُسے یقین دہانی کروادی تھی، کہ اب تم جاؤ چھ سات دن کے اندر اندر تمہارا اور اِرم کا ویزہ نکل آئے گا۔
ولید نے یہ سارے کام جولائی کے ایک مہینے میں کر لیے تھے۔ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوئی تھی۔
میٹھی عید آ کے پھیکی ہو گئی……
ولید ہاشمی آزادی کے مہینے سے پہلے پہلے نوشی اور اپنے رشتے سے بھی آزادی چاہتا تھا۔ ولید نے اپنا کام انتہائی مہارت سے کیا تھا۔ اُس نے نوشی کو کوئی 52 کروڑ کا ٹیکہ لگایا تھا جس میں اُس کے دونوں گھروں اور پلازوں کی قیمت، اور 10 کروڑ روپے نقد تھے اس میں وہ 7 کروڑ روپیہ شامل ہی نہیں تھا جو ولید نے ناہید سے لیا تھا۔
الیکشن ابھی بہت دور تھے اور ناہید اپنی سیٹ ہار چکی تھی، الیکشن سے پہلے ہی اب ولید کی نظر نوشی کے اُن گہنوں پر تھی جو اُس نے شادی کی پہلی رات کو پہنے ہوئے تھے جواب تک اس وجہ سے محفوظ تھے کہ وہ نوشی، رندھاوا ہاوس چھوڑ گئی تھی اپنے ولیمہ کے بعد غلطی سے ولید اب کسی ایسی وجہ کی تلاش میں تھا، جس کو جواز بنا کر وہ نوشی سے جان چھڑا سکے جھوٹے الزام سے بہتر کیا وجہ ہو سکتی ہے۔
اگست کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ ایک دن ارم اور ولید کی ملاقات ہوئی اُس فلیٹ میں جہاں پر اِرم انڈرگرونڈ ہوئی تھی۔
”اِرم ڈارلنگ میں چاہتا ہوں ، نوشی کے باپ کے آنے سے پہلے پہلے ہم لوگ دبئی نکل جائیں مجھے لگتا ہے بعد میں ہمارے لیے مسئلے مسائل کھڑے ہو جائیں گے………بہت سارے مسائل، سمجھ نہیں آرہا ہے کیسے جان چھڑاوں اس پاگل لڑکی سے“ ولید نے ارم سے اپنا مسئلہ بیان کر دیا تھا۔
”ویری سمپل………الزام لگا دو……اپنی بیوی پر……یہی سب سے آسان اور کارآمد طریقہ ہے………کسی سے بدلہ لینے کا………کسی کو رسوا کرنے کا……کسی سے جان چھڑانے کا………اب تو لوگ جھوٹا الزام لگا کر اپنی بیوی کو قتل بھی کر دیتے ہیں۔
یہ تو جان من چھوٹی سی بات ہے۔“ ارم واسطی نے اپنے ترکش سے ایک اور تیر نکالا اس دفعہ اس کا شکار نوشی تھی۔
”کیا الزام لگاؤں اپنی بیوی پر“ ولید نے اپنی کمان نوشی کی طرف کر لی صرف تیر چلانا باقی تھا۔
”پہلے تم مجھے یہ بتاؤ ہمارے ویزے کب تک آجائیں گئے“
”تین سے چار دن کے اندر اندر………“
”تم آج سے دیوداس ہو…… تمہیں آج ہی اپنی بیوی کے افئیر کا پتہ چلا ہے……جو شادی سے پہلے ہی اپنے منگیتر کے ساتھ وہ سب کچھ کر چکی تھی……جو شادی کے بعد ہوتا ہے………اس طرح تم اپنی بیوی کو طلاق بھی دے سکتے ہو اور تم ظالم بھی نہیں بنوں گے۔
“
”میں تو مظلوم بن گیا………پھر ظالم کون ہو گا“ ولید نے تجسس سے پوچھا
”ہم ایک بار پھر مظلوم ہی کو ظالم بنا دیں گے“ ارم نے اپنے تیر پر زہر کے قطرے ڈالے وہ زہر جو نہ جینے دیتا ہے اور نہ مرنے دیتا ہے۔ جھوٹے الزام کا زہر
”ارم مجھے اب تک سمجھ نہیں آئی تم کیا کہہ رہی ہو“ ولید نے ارم کو غور سے دیکھا اِرم کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی۔
”ایک دن یہ دونوں بہنیں بوتیک پر اپنے آفس میں بیٹھی ہوئیں تھیں۔ سخت سردی تھی اور باہر بہت زیادہ دھند تھی۔ سارے سٹاف کو انہوں نے چھٹی دے دی اور خود پیزہ آڈر کر دیا باہر صرف سیکورٹی گارڈ تھا۔ میں بھی وہاں سے آگئی تھی، پھر مجھے یاد آیا میں اپنے پورشن کی چابیاں وہیں آفس میں بھول آئی ہوں میں وہ چابیاں لینے کے لیے واپس گئی تو یہ دونوں بہنیں آفس کے اندر ہنس ہنس کر کھسر پھسر کر رہی تھیں میں نے غور کیا تو تمہاری سالی توشی اپنی بہن نوشی کو تنگ کر رہی تھی کہ وہ ملاقاتیں، اُن کی کہانی پھر سے سناؤ جو اُس کے اور بلال کے درمیان ہوئیں تھیں۔
تمہیں یاد ہے وہ جوہر ٹاؤن کی تیل مہندی جہاں میں نے تمہیں بھیجا تھا۔ اُس رات تمہارے آنے کے بعد نوشی کو چند لڑکوں نے اُٹھانے کی کوشش کی تھی۔
اُس کے بعد بلال نے کوئی چکر چلایا تو وہ لڑکے گھر آکر معافی مانگ کر گئے تھے، نوشی سے اُس کے بعد اصل کہانی شروع ہوئی تھی۔
پھر تمہاری بیوی اپنے اُس وقت کے منگیتر سے اُس کے کمرے میں ملنے کے لیے جاتی تھی، رات کے پچھلے پہر ایک دن یہ اُس کے گلے بھی لگ گئی تھی۔
“
”گلے لگ گئی تھی“ ولید نے چونک کر پوچھا
”وہ بلال تھا………ولید تھوڑی نا تھا……… گھبراؤ مت اور سنو تب بلال نے کہا تھا یہ گناہ ہے……کبیرہ گناہ………آپ ابھی میرے نکاح میں نہیں ہو………بلال تمہاری بیوی کو کافی پلاتا تھا، اور اُس کے پسندیدہ بسکٹ بھی کھلاتا تھا، اُن ملاقاتوں کے دوران۔ اُن سرد راتوں کی ملاقاتوں کے بارے میں دونوں بہنوں اور بلال کے علاوہ صرف مجھے معلوم ہے۔
جس کی اُن تینوں کو خبر نہیں ہے۔
ولید تم نے صرف اتنا کرنا ہے، تم نے اُن ساری صاف ستھری ملاقاتوں کو جس میں بلال نے اُس ایک واقعہ کے علاوہ تمہاری بیوی کو آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا ایک گندہ رنگ دینا ہے، جس میں ہر رات نوشی اور بلال ہوس کے بستر پر اپنی اپنی بھوک مٹاتے تھے………تم نے بلال کی پاک محبت کو ناپاک بھوک کی شکل میں بدلنا ہے۔
یاد رکھو تمہیں یہ سب کچھ آج ہی بلال نے خود بتایا ہے، ایسا تم اپنی بیوی سے کہو گے۔ بلال بدلا لینا چاہتا تھا۔ نوشی سے وہ نوشی کو برباد کرناچاہتا تھا، یہ بھی بلال نے تم سے کہا تھا۔“
”کیا شیطانی دماغ ہے تمہارا اِرم واسطی“ ولید نے خوشی سے کہا تھا۔
”تم کل ہی وکیل سے بات کر کے طلاق کے کاغذات تیار کرواؤ جب تک طلاق کے پیپر تیار نہیں ہو جاتے اور ہمارا ویزہ نہیں آجاتا تم نوشی سے کچھ نہیں کہو گے۔
اُدھر ہمارا ویزہ ہمارے ہاتھ میں اُسی لمحے نوشی کے ہاتھ میں طلاق کے پیپر دے کر زبانی طلاق دے دینا اور اُس کے گھر رخصت کر دینا۔ اور ہم اُسی دن فلائیٹ لے کر دبئی ۔یہ ہے ولید ہاشمی میرا پلان“ اِرم واسطی نے مکاری سے کہا تھا۔
”میں سوچ رہا ہوں ناہید کی جگہ پیرصاحب سے کہہ کر تمہیں ہی MNA بنوادوں“ دونوں نے زور زور سے ہنسنا شروع کر دیا تھا۔
اِرم اور ولید اپنی کامیابی پر اور نوشی کی بے وقوفی پر ہنس رہے تھے کافی دیر بعد اِرم نے وائن کے دو پیک بنائے
”میرے دیوداس کریکٹر میں آؤ اور پیو“ اِرم نے ریڈوائن کا گلاس ولید کو دیتے ہوئے کہا تھا۔
”چیرز میری چندرمکھی“ ولید نے گلاس سے گلاس ٹکرایا اور ریڈوائن غٹاغٹ پی گیا اِرم نے دوسرا پیک بنایا اور پینے سے پہلے بولی
”ولید تمہیں آج ہی اپنی بیوی کے افیئر کے بارے میں پتہ چلا ہے اور تم اپنا غم بھلانے کے لیے شراب پی رہے ہو۔
ایکٹنگ زبردست کرنا دیوداس کی“
اِرم نے اپنے پلان کا آخری پارٹ اچھی طرح ولید کو سمجھا دیا تھا۔
اس کے بعد ولید گلبرگ اپنے فلیٹ پر پہنچا ، اُس نے پلان کے مطابق نوشی سے بدتمیزی کی اور بُرا بھلا کہا، اُسکے کردار پر انگلیاں اُٹھائیں۔
اندر کی بات اُسے نہیں بتائی، نوشی ساری رات پریشان رہی ولید کا یہ روپ دیکھ کر آج دوپہر کو ہی ناہید اور شعیب تین چار دن کے لیے ملائیشیا گئے تھے، اپنے بزنس ٹور کے سلسلے میں نوشی بہت پریشان تھی۔
نوشی کو خبر تھی اُس کی دادی بلال کے پاس چلی گئی ہے۔ توشی الگ اُس سے ناراض تھی۔ شادی کے بعد سے اُن دونوں بہنوں کی صرف ایک ملاقات ہوئی تھی وہ بھی سوامہینہ پہلے ڈنر پر بھی دونوں بہنوں کے درمیان بات چیت نہیں ہوئی تھی۔
اگلے دو دن بھی نوشی نے وہاں اُسی کرب میں گزارے تھے دن میں ولید ارم کے فلیٹ پر ہوتا اُس کے ساتھ اور رات کو وہ شراب پی کر آجاتا تھا اور نوشی کو بے وفائی طعنے دیتا رہتا تھا۔