”نوشی بات سمجھنے کی کوشش کرو یہ سازش ہے میں عظمی کو بلا لیتی ہوں تم خود اُس سے پوچھ لو بلال کا عظمی کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہے۔ کیوں اتنی کنزرویٹو بن گئی ہو“
تو شی اپنی آخری کوشش کر رہی تھی ایک ہفتے سے وہ اِرم اور نیناں کو تلاش کر رہی تھی مگر دونوں کی کوئی خبر نہیں تھی اُس دن کے بعد سے نیناں شرم کے مارے لاہور چھوڑ کر جا چکی تھی، اُس نے اپنا نمبر بھی تبدیل کر لیا تھا، اور اِرم واسطی پلان کے تحت انڈر گراؤنڈ ہوئی تھی۔
”وہ جو میں نے دیکھا ور سُنا اُس کا کیا“ نوشی نے طنز سے جواب دیا“ مامانے میرے لیے لڑکا دیکھ لیا ہے، ہاشمی ہے، سید گھرانے سے ہے یہیں ڈیفنس میں رہتا ہے۔“
”تم ملی ہو………اُس سے……“ توشی نے ہار مانتے ہوئے پوچھا”بلال سے اچھا ہی ہو گا“
”بلال………بلال………بلال……… سچ پوچھو میں یہ نام سننا ہی نہیں چاہتی اور نہ ہی اپنی زبان پر لانا چاہتی ہوں۔
(جاری ہے)
اگر بلال اتنا اچھا ہے تو تم خود کر لو نا بلال سے شادی……… میری جان چھوڑ دو……کہاں وہ اور کہاں میں…… ہم خاندانی لوگ ہیں ہمارا اس سوسائٹی میں ایک اسٹیٹس ہے……… ماما ٹھیک کہتیں ہیں کیا جوڑ ہے میرا اُس کے ساتھ“ نوشی کے سخت جملے سن کر توشی خاموش ہو گئی نوشی کے جملوں سے غرور تکبر جھلک رہا تھا۔
”آخر ماما نے تمہارے جوڑ کا رشتہ ڈھونڈ ہی لیا چلو مجھے ہی ملنے دو اپنے سید زادے سے آخر اُس کی ہونی والی سالی ہوں“ توشی نے سنجیدگی سے کہا تھا۔
”توشی میں اُسے دیکھنا نہیں چاہتی وجہ یہ ہے جسے بچپن سے دیکھا تھا، اُس کے اصلیت دیکھ کر دکھ ہوا تھا، اب مجھے ماما پر پورا اعتماد ہے وہ میرے لیے اچھا ہی سوچیں گی……… تم اگر اُس سے ملنا چاہتی ہو تو مل لو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے“
نوشی یہ بول کر اپنے بیڈروم سے چلی گئی اپنی گردن تن کر توشی اُسے بے بسی سے دیکھ رہی تھی اُس دن گیارہ تاریخ تھی توشی نے اپنا فون نکالا اور ڈاکٹر محسن کا نمبر ملایا
”جی توشی………خریت تو ہے………“ ڈاکٹر محسن نے کال ریسو کرنے کے بعد کہا تھا
”میں آپ سے کل اُسی ریستوران میں ملنا چاہتی ہوں عشا کی نماز سے پہلے“
توشی نے کال کرنے کی وجہ بیان کر دی
”OK……… میں پہنچ جاؤں گا“ ڈاکٹر محسن نے جواب
توشی نے فون بند کر دیا اور سوچوں میں گم ہو گئی اُسے وہ سارے لمحے وہ پل جو اُس نے اور اُسکی بہن نے بلال کے ساتھ گزارے تھے یاد آرہے تھے۔
اُن کا فلم دیکھنے جانا چھت پر نوشی کا بلال کے لیے چائے لے کر آنا بلال کا کافی بنا کر پیش کرنا توشی اب ایک شوخ وچنچل لڑکی کی بجائے ایک سنجیدہ عورت لگ رہی تھی۔
اگلے دن توشی اور محسن اُسی ریستوران میں بیٹھے ہوئے تھے
”توشی یہ کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے………دو دن بعد ہماری شادی شروع ہو جائے گئی اور تم اپنی طرف دیکھو……“ محسن نے فکر مندی سے کہا توشی کو دیکھ کر۔
”ٹھیک تو ہوں…… ڈاکٹر صاحب۔“ توشی درد بھری آواز سے بولی ”میں ہار گئی اپنی بہن سے……میں بلال کا کیسے سامنا کروں گئی“
”تم صرف حقیقت کا سامنا کرو میں نے اُس دن آدھی بات کی تھی۔ آج مکمل کرتا ہوں۔ میں نے اپنی زندگی میں دو افراد دیکھے ہیں جو حالات وواقعات دیکھ کر حقیقت جان لیتے پہلا شخص ملک فاضل صاحب تھے، اللہ اُن کی قبر کو روشن کرے، اور دوسرا بلال احمد وہ جان چُکا ہے کہ اُس کی تمہاری بہن سے شادی نہیں ہو سکتی تم بھی اس حقیقت کو مان لو اور اس غم سے باہر نکلو۔
خود کو سنبھالو………
تمہاری بہن کی میں بہت عزت کرتا ہوں، صرف اس لیے کے وہ بلال کی منگیتر تھی۔ سچ پوچھو تو تمہاری بہن اِس قابل ہی نہیں ہے، کہ اُسے بلال ملے، ڈاکٹرعظمی نے ٹھیک کہا تھا، بلال کے لیے لڑکیوں کی لائن لگ جائے گئی۔توشی آج ایک سچ اور بولتا ہوں، جب مجھے تم سے محبت ہوئی تو سب سے پہلے بلال نے وہ حقیقت دیکھی تھی، میرا ماضی بھی اُس کے سامنے تھا، اور اُسے تمہاری بھی بہت فکر تھی۔
میں نے تمہیں حاصل کرنے کے لیے اُس کی مدد مانگی تو پتہ ہے اُس نے کیا جواب دیا تھا۔ ”محسن اگر تمہیں توشی سے سچی محبت ہے تو پھر میری سفارش کی ضرورت نہیں ہے۔“
اِس کے باوجود مجھے بلال کی HELP لینی پڑی بلال نے ہی تم سے بات کرنے کا طریقہ بتایا تھا۔ بلال نے تو مجھے ملاقات سے پہلے ہی یہ بھی بتا دیا تھا کہ تم کس بات پر شرما کر نظریں جھکاؤ گئی اور کس بات پر مسکرا دو گی اور کب اپنے بال چہرے سے ہٹا کر کان سے پیچھے کرو گی۔
“
توشی کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری ”ڈاکٹر صاحب آپ سچ کہہ رہے ہیں“
”ہاں بالکل سچ“ ڈاکٹر محسن نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
”فوزیہ بالکل ٹھیک کہتی ہے کہ سر بہت کھوچل اور چالو ہیں“ توشی مسکراتے ہوئے بولی
”فوزیہ کی فوزیہ جانے میرے نزدیک بلال بڑا غیرت مند اور خود دار ہے بلال نے مجھ سے یہ بھی کہا تھا توشی میری عزت ہے اُسے عزت کی نگاہ سے دیکھنا“
”ڈاکٹر صاحب میں نے اُس دن بھی آپ کو کہا تھا، آپ کی آنکھوں میں مجھے اپنے لیے محبت اور عزت نظر آتی ہے۔
جب ضرورتیں دفن ہو جائیں تو محبت زندہ ہو جاتی ہے“ توشی نے بڑے رومیٹک انداز سے کہا محسن نے توشی کے چہرے کو دیکھا تو بولا
”یہ لو………“ مسکراتے ہوئے۔
”ڈاکٹر صاحب آپ بھی میری نقل اُتارنا شروع ہو گے“
”نہیں جناب……… ہم تو آپ کی اسی ادا پر مرمٹے تھے“
ڈاکٹر محسن نے آنکھوں سے دیکھ کر اظہار محبت کیا، تھوڑی دیر محسن اور توشی اسی طرح ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
” سر کچھ لیں گے“ ویٹر بولا تھا۔ اِس جملے نے اُن کے تسلسل کو توڑا
”فریش مسمی جوس“ توشی نے جواب دیا ۔
”توشی ابھی بلال فون کرے گا اُسے کہنا وہ ہمارے لیے دعا کرے اِس کے علاوہ کوئی دوسری بات نہیں۔ جہاں تک اُس کی شادی کا تعلق ہے اُس کے آنے کے بعد ہم سب اُس کے لیے ایک اچھی سی لڑکی ڈھونڈ کر اُس کی شادی کروا دیں گے“
جوس پینے کے دوران بلال کی کال آئی
”ہیلو………“ توشی نے کہا بلال نے دوسری طرف سے اسلام علیکم کہا تھا
”ہم شادی کررہے ہیں“ توشی شرط ہار چکی تھی۔
”میں تم دونوں کے لیے مسجد نبوی میں دُعا کروں گا۔ میں اس وقت مسجد نبوی کے باہر کھڑا ہوں، اور آج رات کو دبئی چلا جاؤں گا ابھی میں جدہ ائیر پورٹ کے لیے نکل رہا ہوں اللہ حافظ“ بلال نے فون بند کر دیا۔
توشی نے اپنا موبائل کان سے ہٹا کر سامنے ٹیبل پر رکھ دیا محسن نے دیکھا تو بولا
”توشی تم نے بلال کو ہم دونوں کے لیے دعا کے لیے تو کہا ہی نہیں“
”ڈاکٹر صاحب…… وہ بلال ہے…… اُسے دینا آتا ہے اللہ کی توفیق سے، چاہے قربانی ہو یا پھر دُعا وہ بن مانگے ہی دے دیتا ہے“ توشی نے تحمل سے جواب دیا۔
”آج ایک سچ میں بھی بولوں آپ سے………“
”ضرور……“ ڈاکٹر محسن نے نرم شگفتہ لہجے میں کہا
”ڈاکٹر صاحب میں بھی بلال سے محبت کرتی تھی، یک طرفہ محبت بچپن سے………بلال نے کبھی مجھے اِس نظر سے نہیں دیکھا تھا……بلال کی آنکھوں میں جو چمک نوشی کو دیکھ کر آتی تھی وہ مجھے اپنے لیے کبھی نظر نہیں آئی………میں اپنی بہن کی قسمت پررشک کرتی تھی۔
جس سے بلال محبت کرتا تھا……آج مجھے اپنی بہن کی قسمت پر رونا آتا ہے، اور اپنی قسمت پر رشک کرتی ہوں……میں نے یہ ساری کوشش بلال کے لیے نہیں صرف اپنی بہن کے لیے کی تھی،بلال کے ساتھ ساتھ مجھے اپنی بہن سے بھی بہت محبت ہے…میری بہن شروع ہی سے مینٹل کیس ہے، آدھی پاگل پھر بھی میری جان ہے وہ………“
توشی نے محسن سے نظریں ملا کر یہ سب کچھ کہا تھا۔