Episode 20 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 20 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

بلال اپنے آفس میں لیپ ٹاپ پر مصروف تھا ۔ جب مسز جنجوعہ اندر داخل ہوتی ہیں ۔
”السلام علیکم …بلال کیسے ہو“فرح بھابھی نے کہا۔ 
”وعلیکم السلام ، اللہ کا شکر ہے ، بھابھی آپ کا کیا حال ہے ۔ “
”یہ تمہارا پارسل ہے جنجوعہ صاحب نے بھیجا ہے “بھابھی فرح بولیں۔ بلال کے سامنے ٹیبل پر رکھ دیا پارسل کا پلاسٹک بیگ۔ 
”آپ تشریف رکھیں “بلال نے لب کشائی کی ۔
 
”نہیں بھئی …بچوں کو چھوڑنے آئی تھی…جب تک میں نہیں جاؤں گی جنجوعہ صاحب ناشتہ نہیں کریں گے…ناشتہ اور رات کا کھانا ہم اکھٹے کھاتے ہیں…سوائے ہفتہ کی رات کے“بھابھی فرح نے ساری رام لیلا سنادی۔ بھابھی فرح جاچکی تھیں۔ 
بلال نے پلاسٹک بیگ کھولا تو اس میں ایرانی شال اور ایک خوبصورت بلوچی فراق تھی، بلوچی فراق پر ہاتھ سے بہت خوبصورت کام ہوا تھا، اس دوران فوزیہ بول پڑی ۔

(جاری ہے)

”جنجوعہ صاحب کی کیا مجال بھابھی فرح کے بغیر ناشتہ کرلیں، ان کی تو جان جاتی ہے۔ سر قسم سے بہت ڈرتے ہیں ان محترمہ سے …“بلال نے آنکھوں سے گھوری ڈالی۔ 
”سر قسم سے سچ کہہ رہی ہوں جنجوعہ صاحب نے پہلا مکان ہمارے گاؤں کے سامنے ہی بنایا تھا جب بارش ہوتی تو مکان پر شاپر بیگ ڈلوادیتے کہیں مکان کی چھتیں ٹپکنا شروع نہ کردیں اور سب سے مزے کی بات جب ان کا مکان سیل ہوگیا تو مالک مکان نے گراج میں اپنی بچارو کھڑی کی تو گراج کا فرش بیٹھ گیا۔
سر قسم سے …“فوزیہ نے ہاتھ پر ہاتھ مارا جیسے کوئی لطیفہ یاد آگیا ہو اور کھل کھلا کر ہنسنا شروع کردیا۔ 
”پھر کیا ہوا …“بلال نے ہنستے ہوئے پوچھا۔ 
”ہونا کیا تھا …سر…قسم سے “فوزیہ مسلسل ہنس رہی تھی ۔ 
”پھر اس آدمی نے پنچایت بلائی جس نے جنجوعہ صاحب کا مکان خریدا تھا۔ سرسردیوں کے دن پھر بھی جنجوعہ صاحب کو پسینہ آرہا تھا، اپنی عینک اتار کر بار بار صاف کرتے کبھی بائیں ہاتھ سے اپنی مونچھوں کو اوپر سے نیچے پریس کرتے ہمارے گاؤں کے چوہدری صاحب کے بیٹے نے کہا کہ آپ کے مکان کا گراج بیٹھ گیا ہے دوسرے دن ہی جنجوعہ صاحب معصومیت سے بولے، وہ جی میں نے اپنی Suzuki Fx کھڑی کی اس کے وزن سے تو نہیں بیٹھا تھا، سب لوگ ہنس پڑے پھر طارق رامے نے اس کی جان چھڑوائی تھی۔
اس نے کہا کہ جنجوعہ صاحب گراج مرمت کروادیں گے تب جان چھوٹی، سر۔ قسم سے سچی“فوزیہ بلال کی طرف دیکھ کر بولی جوکہ مسلسل فوزیہ کو دیکھ رہا تھا۔ 
”تم وہاں کیا کر رہی تھی “بلال نے پوچھا۔ 
سر کوئی سات آٹھ سال پرانی بات ہے تب تو میں سارا علاقہ گھومتی تھی سر اس وقت تو سارے پلاٹ خالی تھی۔ 
”مجھے ایک بات بتاؤ تم اتنا بولتی ہو تھکتی نہیں“فوزیہ نے چھوٹے بچے کی طرح گردن ہلادی۔
 
”اچھا خیر…یہ لو…تمہارے لیے…“بلال نے فراق فوزیہ کی طرف بڑھادی فوزیہ نے جلدی سے فراق پکڑ کر دیکھنا شروع کردی ۔ 
”سر بہت خوبصورت ہے …قسم سے …“فوزیہ کے چہرے پر بچے جیسی خوشی تھی جس کو اس کا من پسند کھلونا مل جائے ۔ 
###
آج کافی دنوں بعد عادل عقیل بابا جمعہ سے ملنے آیا، دوسری بار بلال پہلے سے موجود تھا، بابا جمعہ جوتا مرمت کر رہے تھے اور بلال پاس بیٹھا اخبار میں مشغول تھا۔
 
”میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں آپ سے“عادل عقیل نے عرض کی ۔
”جی بیٹا جی یہ کام ختم کرلوں پھر بات کرتے ہیں“
تھوڑی دیر بعد میں بابا جمعہ نے کام ختم کرلیا، ”جی بیٹا جی پوچھیے اپنا سوال“
”میں نے میٹرک میں لاہور بورڈ سے ٹاپ کیا تھا ، FSCمیں میری بورڈ میں سیکنڈ پوزیشن تھی، اب میں لٹریچر پڑھ رہا ہوں ،پنجاب یونیورسٹی سے میں ایک مشہور اخبار میں کالم بھی لکھتا ہوں، (عادل) کے نام سے…پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ میری وہ کمائی جو مجھے کالم لکھنے سے حاصل ہوتی ہے حلال ہے یا حرام…“
”بیٹا آپ کسی مفتی کے پاس جاؤ میں تو ان پڑھ بندہ ہوں“
”مجھے آپ سے جواب چاہیے کسی مفتی سے نہیں …“
”کالم میں سچ لکھتے ہو یا جھوٹ“بابا جمعہ نے پوچھا۔
 
”اپنا سچ لکھتا ہوں “عادل عقیل نے پراعتماد لہجے میں جواب دیا۔ 
”ہوچھوٹے مگر باتیں بڑی کرتے ہو“بابا جمعہ مسکرا کر بولے۔”دیکھو بیٹا ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ تمہارا سچ حقیقت نہ ہو“
اتنے میں سڑک کے دوسری طرف سے آواز آئی ایک شخص بولان کیری ڈبہ سے اترا اس کے بازوؤں میں ساتھ آٹھ سال کا لڑکا بے ہوش حالت میں تھا وہ یکایک بغیر دیکھے سڑک کراس کر آیا۔
 
”ہجور ہجور گجب ہوگو میرا چھورا لو سیائپ کاٹ کھائیو“(حضور حضور غضب ہوگیا، میرے بیٹے کو سانپ نے کاٹ لیا۔ )
حمید خاں میو نے پھولی ہوئی سانس کے ساتھ ایک ساتھ سب کچھ کہہ دیا اس کے چہرے سے ایک باپ کا درد جھلک رہا تھا۔ اس کے ساتھ دو اور آدمی بھی تھے اسلام دین بولان High Roofکا مالک اور خالد چھوٹا حمید خاں میو کا دوست۔بلال جلدی سے کارپیٹ سے اٹھ گیا، عادل عقیل بھی سائیڈ پر ہٹ گیا ۔
 
”حمید خاں اسے یہاں لٹادو“بابا جمعہ نے حمید کو تشفی دی اللہ خیر کرے گا۔ بابا جمعہ نے پڑھنا شروع کیا، بلال نے پیچھے نیم کے درخت سے پتے ٹہنیوں سمیت توڑ کر بابا جمعہ کو پکڑادیے انہوں نے دم کرنا شروع کردیا اوپر سے نیچے کی طرف۔ بلال نے بابا جمعہ کے بینچ کے نیچے سے بوری ٹاٹ کا ایک ٹکڑا پکڑا اور لکڑی کے صندوق سے ماچس لی اور اسے بجلی کے کھمبے سے تھوڑی دور آگ لگادی۔
 
خالد چھوٹا نے حمید خاں کو اپنے بازو میں لیا ہوا تھا اور اسے تسلی دے رہا تھا، بلال نے گھڑے سے پانی کا پیالہ بھرا اور حمید خاں کو دیا اور اسے آنکھوں سے تسلی دی، اس کے بعد بابا جمعہ کی بڑی سی قینچی پکڑی اور بابا جمعہ کے پاس رکھ دی۔ سانپ کے دانتوں کا نشان ٹخنے کے پاس تھا، مگر زہر ران تک پہنچ گیا تھا، زہر کی وجہ سے ٹانگ نیلی پڑچکی تھی۔
بچہ ابھی تک بے ہوش تھا، بابا جمعہ مسلسل اوپر سے نیچے کی طرف نیم کے پتے ران سے ٹخنے کی طرف جھاڑ رہے تھے، جیسے کالے کوٹ سے مٹی کے ذرات کوٹ برش سے صاف کر رہے ہوں، بلال نے بچے کی پتلوں پائنچے سے کاٹ کر اوپر تک سمیٹ دی تھی اب بچے کی ٹانگ میں زہر نظر آرہا تھا ۔بابا جمعہ مسلسل کچھ پڑھ رہے تھے اور ٹانگ پر پھونک رہے تھے۔ 
عادل عقیل کے لیے یہ نئی صورت حال تھی جوکہ اس کے چہرے پر واضع نظر آرہی تھی وہ دل میں سوچ رہا تھا کیسے جاہل لوگ ہیں 2013میں بھی یہ لوگ موچی سے علاج کروارہے ہیں پاس ہی تو جنرل ہسپتال ہے۔
 
حمید خاں کی آنکھوں سے آنسو جاری تھی اور اس کی کالی سیاہ داڑھی آنسو سے گیلی ہوچکی تھی وہ منہ میں کچھ پڑھ رہا تھاکبھی آسمان کی طرف دیکھتا اور کبھی اپنے بیٹے کی طرف۔ 
خالد چھوٹا گیس کٹر چلانے والا جو سارا دن لوہا کاٹتا تھا وہ نرم پڑ چکا تھا، گیس کٹر سے لوہا کٹتا ہوا دیکھنا اس کے لیے آسان تھا مگر اپنے دوست کا دل کٹتا ہوا دیکھنا مشکل تھا ، خالد چھوٹا کی اپنی اولاد نہیں تھی مگر وہ ایک باپ کا درد خوب سمجھتا تھا۔
سلام دین ریٹائرڈ فوجی جوکہ اب اپنی گاڑی رینٹ پر چلاتا ہے جذبات سے ماورا مگر آج اس کی آنکھوں نے تمام حساب برابر کردیے۔ وہ بار بار اپنی گرم چادر سے چپکے سے اپنے آنسو صاف کر رہا تھا۔ 
آدھا گھنٹہ ہوچکا تھا، بچے کی سانس چل رہی تھی مگر وہ بے ہوش تھا، بابا جمعہ اور بلال انتہائی پراعتماد تھے، چند منٹوں بعد بچے کے ماتھے پر سخت سردی میں پسینہ تھا۔
بلال نے وہ بوری کی راکھ جوکہ اب جل کر ٹھنڈ ی ہوچکی تھی، ایک سلور کی پلیٹ میں ڈال کر بابا جمعہ کے پاس رکھ دی، زہر اب پنڈلی تک آگیا تھا، بابا جمعہ نے اپنے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے راکھ کا حصار پنڈلی کے گرد باندھا، جیسے منہ زور سیلابی پانی کے سامنے مضبوط چٹان کا بند ہو۔ بابا جمعہ مسلسل پڑھ رہے تھے، اور پتوں سے جھاڑ رہے تھے اوپر سے نیچے کی طرف اس کے بعد انہوں نے ایک اور بند باندھا پھر تیسرا بند باندھا اب زہر سانپ کے دانتوں کے نشان تک آچکا تھا۔ 

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط