”یہ نانو میں آپ کے لیے لایا تھااور یہ باجی غفوراں کو دے دیجیے گا “بلال نے گرم شال نانو کو پیش کی ۔
”یہ تو بڑی اچھی ہے…کہاں سے لی…“نانو شال کو دیکھتے ہوئے بول رہی تھیں۔
”کوئٹہ سے منگوائی ہے “بلال بتارہاتھا۔
”وہاں…کس سے …“حیرت سے پوچھا نانو نے
دروازے پر دستک ہوئی ”آجاؤ“ بلال بولا۔
”بیگم صاحبہ آپ کا دودھ“باجی غفوراں دودھ کا مگ ٹرے میں رکھے ہوئے کھڑی تھی۔
”یہ آپ کے لیے باجی غفوراں ہاں آپ کے لیے “بلال نے حیرت میں ڈوبی باجی غفوراں کو بتایا۔
”مگر…بلال بیٹا…ابھی عید پر تو تم نے کپڑے لے کر دیے تھے “
”کوئی بات نہیں آپ رکھ لو “
”وہ بیٹا میرے نواسے کو تم نے اپنے اسکول میں داخلہ دے کر بڑا احسان کیا مجھ بیوہ پر…“
”وہ لائق بچہ ہے …انشاء اللہ پڑھ جائے گا…پھر آپ کے حالات ٹھیک ہوجائیں گے، یہ جنجوعہ صاحب کے کسی دوست کے بھائی کی دکان ہے کوئٹہ میں وہاں سے منگوائی ہے اچھا نانو…اجازت دیں…مجھے اسکول سے دیر ہورہی ہے“
بلال نے جانے سے پہلے نانو سے پیار لیا اور وہاں سے چلا گیا۔
(جاری ہے)
”میں واری میں صدقے اللہ کی قسمیں بیگم صاحبہ اللہ مجھے ایک ایسا پتر دے دیتا…ان تین مسٹنڈوں سے “باجی غفوراں بلال کے جانے کے بعد بولی۔
”نا۔ نا۔ غفوراں ایسی باتیں نہیں کرتے…دعا کر اللہ تیرے بیٹوں کو ہدایت دے “جہاں آرا نے سمجھایا۔
###
فون پر Ringہوتی ہے بلال فون ریسیو کرتا ہے
”کہاں ہو…“توشی فون کی دوسری طرف سے بولی۔
”آفس میں…“بلال نے جواب دیا۔
”کب تک آؤ گے “
”اُسی وقت …خیریت ہے؟ “
”ایک تو کام ہے …اور ایک گلہ بھی…تم آتے ہو…تو پھر بات ہوتی ہے …اوکے بائے۔ Take Care“ توشی نے فون بند کر دیا۔
فوزیہ آج صبح ہی سے بہت خوش تھی اور سارے کام فٹافٹ کر رہی تھی اور آج اس نے وہی بلوچی فراق پہنی ہوئی تھی جو بلال نے اسے گفٹ کی تھی
”سر…یہ آپ کے لیے …“ٹفن کا ایک ڈبہ اس نے بلال کے سامنے رکھ دیا۔
”کیا ہے …اس میں…“بلال نے پوچھا۔
”سر …میں نے کھیر بنائی تھی آپ کے لیے …خالص دودھ کی ہے …پیکٹ سے نہیں بنائی…بادام اور کاجو بھی ڈالے ہیں…لیاقت علی نے شارجہ سے بھیجے تھے…“فوزیہ اپنی بنائی ہوئی کھیر کی خوبیاں بیان کر رہی تھی۔
”اور کچھ تو نہیں ڈال دیا اس میں …آخر تم میرے سارے رازوں سے واقف ہو “بلال نے شرارتی انداز میں کہا۔
”سر…قسم سے …آ پ میرے بارے میں ایسا سوچتے ہیں “فوزیہ معصومیت سے بولی۔
”ہاں تو …تمہارا کیا بھروسہ…ویسے بھی تو تم ساری باتیں دوسروں کو بتاتی ہو “بلال کھیر کھاتے ہوئے بول رہا تھا۔
”سر…قسم سے…میں نے کچھ نہیں بتایا کسی کو“فوزیہ بھولی سی صورت بناکر بولی۔
”وہ جو …فرح بھابھی کو طارق رامے کے قصے سناتی ہو…وہ کیا ہے …“
”سر…قسم سے …وہ تو ایسے ہی زبان پھسل گئی تھی …ویسے سر آپ کو کیسے پتہ چلا “
”فرح بھابھی نے جنجوعہ صاحب سے بات کی اور جنجوعہ صاحب نے مجھ سے “
”اور تم توشی کو بھی ساری رپورٹ دیتی ہو…میرے بارے میں “
”سر…وہ تو میری فرینڈ ہے…Facebook پر بات ہوجاتی ہے “
”ٹھیک ہے …ضروربات کرو…مگر آفس کی نہیں…اور نہ ہی میرے متعلق “
”سر…قسم سے …توشی بڑی چالو ہے …باتوں باتوں میں پوچھ لیتی ہے “
”فوزیہ جی …آفس کی بات باہر نہ کرو…اور گھر کی بات آفس میں نہ ہو “
”آفس کو آفس میں چھوڑ کر جاؤ …اور گھر کو گھر چھوڑ کر آؤ “
فوزیہ نے چترائی سے بات بدلی۔
”سر…آپ کو پتہ ہے …جنوری میں لیاقت علی دو مہینے کی چھٹی پر آرہا ہے اس کے آنے کے ایک ہفتہ بعد ہماری شادی ہے “
فوزیہ نظریں جھکائے اور شرمائی ہوئی ساری تفصیل دے رہی تھی ۔
”اچھا …اچھا اسی لیے کھیر بنائی تم نے …“
”سر…ایک اور بات…مجھے دو مہینے کی چھٹی بھی چاہیے “
”کب سے …کب تک “بلال مسکراتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
”لیاقت علی کے آنے سے ایک دن پہلے سے اور جانے کے ایک دن بعد تک …“فوزیہ کے گال شرم کی وجہ سے سرخ ہوگئے تھے اور آنکھوں میں کئی خواب جاگ اٹھے تھے۔
”ہاں سر…ایک اور بات …ایک معذرت ایڈوانس میں قبول کرلیں “
”وہ کیا …“بلال کو اندازہ تھا کہ اس نے پھر کوئی بونگی ماری ہے۔
وہ میں نہیں بتاسکتی ابھی…آج کل میں آپ کو پتہ چل جائے گا …بلال گردن کو جنبش دیتے ہوئے مسکرایا، وہ سب کچھ سمجھ گیا تھا۔
”ایک شرط پر تمہاری معذرت قبول کروں گا“
”وہ کیا…سرجی…“فوزیہ جھپاک سے بول اٹھی۔
”فوزیہ جی …حضرت عمر کے ایک قول کا مفہوم ہے …اگر آقا اپنا راز اپنے غلام کو بتادے تو سمجھو، غلام آقا بن گیا اور آقا اس غلام کا غلام بن گیا …
زندگی میں اپنا راز کسی کو نہ بتاؤ اگر کوئی تمہیں اپنا راز بتادے تو وہ اس کی امانت ہے…اس میں خیانت نہ کرو
آئندہ رازداری رکھنا یہی شرط ہے “
###