اُسی دن رات عشا کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد بلال حسب معمول نانی کی خدمت میں حاضر ہوا تو کمرے میں پہلے سے کھسر پھسر ہورہی تھی جب اس نے دروازے پرموٴدبانہ دستک کی تو اندر سے نوشی کی آواز آئی Yes come inاس نے دروازے کی ناب کو بائیں ہاتھ سے پکڑا اور نہایت آہستگی سے جب دروازہ کھولا تو سامنے صوفے پر نوشی بیٹھی تھی۔
دروازہ کھولتے ہی لمحہ بھر کے لیے دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے سیراب ہوئی تھیں۔
توشی سامنے کمبل میں بیٹھی آج پہلی دفعہ بول کم اور دیکھ زیادہ رہی تھی۔ (میں نے ان دونوں کی آنکھوں میں محبت دیکھی ہے بے شمار ایک دوسرے کے لیے …)صبح یہ جملہ دادی نے بولا تھا اور توشی نے اب دیکھ لیا اس نے دل میں سوچا بعض اوقات انسان آنکھیں رکھتے ہوئے بھی بینائی سے محروم ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
بلال آکر سلام کرتا ہے اور دیوان پر بیٹھ جاتا ہے جوکہ نوشی کے بائیں ہاتھ تھا اور توشی دائیں ہاتھ بیڈ پر آلتی پالتی مار کر کمبل میں بیٹھی تھی نوشی کے سامنے دادی موونگ چیئر پر بیٹھی بائیں ہاتھ میں تسبیح لیے جلوہ افروز ہیں، نوشی نے چور نگاہوں سے ایک بار پھر بلال کو دیکھا اس کا دیکھنا توشی سے بچ نہیں پایا توشی کے تیکھے نین تفتیش کر رہے تھے۔
جہاں آرا بیگم نے بلال سے پوچھا۔
”بلال بیٹا کھانا کھالیا “اس کی طرف متوجہ ہوکر ۔
”جی ہاں “بلال نے آہستہ سے جواب دیا۔
”سینڈوچ؟“توشی یکایک بول اٹھی جوکہ ٹکٹکی باندھے بلال کو دیکھ رہی تھی ۔
”نہیں وہ آج باہر کھانا کھایا تھا “اس نے جہاں آرا بیگم کی طرف دیکھ کر کہا ۔
”گرل فش؟ “توشی نے پوچھا جیسے پہلے سے جانتی ہو۔
بلال نے توشی کی طرف دیکھ کر اثبات میں سرہلادیا زبان سے کچھ نہیں کہا۔
”ان دونوں فراڈیوں کے ساتھ کھایا ہوگا ؟“توشی پھر بولی جوکہ اپنی طرف سے آج کم بول رہی ہے اور دیکھ زیادہ رہی ہے۔
”کون فراڈیے ؟“دادی نے تشویس سے پوچھا بلال کو دیکھ کر۔
”جی وہ طارق رامے اور اعجاز ٹھیکیدار مگر وہ اچھے بندے ہیں،“بلال نے صفائی دی۔
”مجھے فوزیہ نے سب کچھ بتادیا ہے کہ تم لوگ ہفتے میں ایک بار باہر کھانا کھاتے ہو اور تمہارا ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے“توشی سرزنش کرنے والے انداز میں بولی جیسے کوئی ماں اپنے آٹھ سال کے بچے کو ٹریٹ کرتی ہے
”بیٹا مکمل انسان تو کوئی بھی نہیں ہوتا اگر ان دونوں میں کوئی عیب ہیں بھی تو بلال کے ساتھ وقت گزار کر ٹھیک ہوجائیں گے “جہاں آرا بیگم نے ایسے سمجھایا جیسے وہ چند دنوں میں بلال کے معتقد ہوجائیں گے انہیں ان کی خامیوں سے زیادہ بلال کی خوبیوں پر اعتماد تھا۔
”نانو مالش کردوں “بلال نے پوچھا۔
”نہیں بیٹا نوشی نے کردی ہے “جہاں آرا بیگم نے جواب دیا۔
بلال نے خوابیدہ نگاہوں سے نوشی کی طرف دیکھا وہ پہلے ہی سے منتظر تھی اس کی ایک نظر کی جیسے پہلی دفعہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں۔
”میری بھی دادو ہیں“ نوشی نے جاذبیت سے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
”کل ہیڈ بلوکی چلیں“توشی پھر سے بول اٹھی ۔
اس نے نینوں کی چہ مگوئیاں روکیں جوکہ آپس میں محو گفتگو تھے۔
”کل نہیں پھر کبھی کل میں مصروف ہوں “بلال نے جواب دیا۔
”تم تو ہر سنڈے مصروف ہوتے ہو…ویسے جاتے کہاں ہو “توشی نے تجسس سے پوچھا۔
”اپنی جاسوس فوزیہ سے پوچھ لینا “بلال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
سب ہنس پڑے۔
###
فرح اپنے بیڈروم میں بیٹھی گھڑی کی طرف بار بار دیکھ رہی تھی اس کے چہرے پر پریشانی اور غصہ دونوں موجود، موبائل پکڑ کر بار بار فون کر رہی تھی۔
فون کی گھنٹی بجتی ہے ۔بلال فون سکرین پر فرح بھابھی پڑھتا ہے ۔
”ہیلو…جی بھابھی خیرت ہے “بلال نے سوال کیا۔
”بلال…جنجوعہ صاحب ابھی تک گھر نہیں آئے … اور فون بھی ریسیو نہیں کر رہے “فرح بھابھی نے پریشانی میں جواب دیا۔
”بھابھی آپ فکر نہ کریں …میں پتہ کرتا ہوں “بلال نے تسلی دی۔
فون کٹ کرنے کے بعد (کہاں گئے ہوں گے) خود سے کہا اور نمبر ملایا بیل جارہی تھی مگر رسپانس کوئی نہیں ملا۔
پھر دوسرا نمبر ملایا۔ دوسری طرف سے آواز آئی ۔
”جی…بلال صاحب…“طارق رامے نے پوچھا۔
”جنجوعہ صاحب…“بلال کے بات کرنے سے پہلے ہی۔
طارق رامے نے زور سے کھل کھلا کر ہنسنا شروع کردیا۔
”جنجوعہ بڑا کمینہ ہے کروڑ پتی ہے مگر گاڑی نہیں بدلتا وہی پٹیچر Suzuki FX “ہنستے ہوئے جواب دیا ”مجھے بھی ذلیل کروادیا“
”ٹھیک ہے …رامے صاحب…صبح بات ہوگی“بلال نے فون بند کردیا۔
وہ ساری بات سمجھ گیا ڈیفنس سے کھانا کھانے کے بعد اعجاز جنجوعہ اور طارق رامے جوہر ٹاؤن جانے کے لیے نکلے تو راستے میں جنجوعہ صاحب کی گاڑی خراب ہوگئی تھی اور فون Silentموڈ پر تھا اور وہ ریسیو نہیں کر رہے تھے بلال نے بھابھی فرح کو فون ملایا۔
”جی بلال …کچھ پتہ چلا …خیریت تو ہے ، کہاں ہیں “بھابھی فرح نے ایک ہی سانس میں سارے سوال کرڈالے۔
”جی بھابھی خیریت ہے جنجوعہ صاحب کی گاڑی خراب ہوگئی تھی ابھی تھوڑی دیر میں آجاتے ہیں “بلال نے تسلی دی۔
”مگر وہ فون کیوں نہیں اٹینڈ کر رہے تھے “وہ غصے سے چیخیں۔
”وہی پرانی عادت ان کی “بلال نے جواب دیا اور فون بند کردیا ۔
بلال کا فون دوبارہ بول اٹھتا ہے۔
”جی رامے صاحب “بلال فون ریسیو کرتے بولا۔
”جنجوعہ کی …آج ہر گئی…اس کی مرمت ہووئے ہی ہووئے …تم دیکھ لینا “رامے نے ہنستے ہوئے کہا فون کی دوسری طرف خوشی کا ماحول تھا۔
اعجاز جنجوعہ اور طارق رامے تقریباً ہم عمر تھے ۔ طارق رامے 34سال کا گندمی رنگ والا زندہ دل یاروں کا یار خوش خوراک اور خوش اخلاق رنگ باز مگر دل کا بہت اچھا بندہ تھااور اعجاز جنجوعہ تقریباً 36سال کا درمیانے قد کاٹھ کا انسان تھا۔
دونوں میں ہنسی مذاق خوب تھا۔ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے رہتے۔ اسٹیج ڈراموں کی طرح جگتیں کستے رہتے۔
ان کے تعلق کی ایک وجہ ان کا کاروبار بھی تھا اعجاز جنجوعہ ٹھیکیدار تھا اور طارق رامے پراپرٹی ڈیلر تھا۔
بلال کا ان سے زیادہ تعلق نہیں تھا۔ ہفتے میں ایک دن وہ ان کے ساتھ باہر کھانا کھاتا۔ جس بلڈنگ میں بلال کا اسکول تھا۔ وہ طارق رامے کے کسی انویسٹر کی تھی جو کہ ملک سے باہر تھا ۔ طارق رامے کے ساتھ سارے معاملات طے کرنا ہوتے بلال کو، اور جنجوعہ صاحب کے تینوں بچے بلال کے اسکول میں پڑھتے تھے۔
مین‘ گیٹ پر گاڑی کا ہارن بجتا ہے Suzuki FX اندر داخل ہوتی ہے بیڈروم کا دروازہ کھول کر جنجوعہ صاحب اندر داخل ہوتے ہیں۔
”جنجوعہ صاحب…آ پ کو کسی کی فیلنگ کا ذرہ برابر بھی احساس ہے “فرح زخمی شیرنی کی طرح دھاڑی ”میں کب سے فون کر رہی تھی آپ کو …ذہن میں ہزاروں طرح کے خیال…دل میں وسوسے خدشے اللہ خیر کرے…اور آپ کو کوئی پرواہ ہی نہیں “
اعجاز جنجوعہ خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گئے اور اپنا ماتھا انگوٹھے اور دو انگلیوں سے پکڑ لیا۔
فرح نے دیکھا تو اس کا سارا غصہ فکر مندی میں بدل گیا۔
وہ پاس آئی دو زانو بیٹھ کر جنجوعہ صاحب کا چشمہ اتارا۔
”طبیعت تو ٹھیک ہے …آپکی “فرح نے فکرمندی سے پوچھا۔
”بس کچھ سر میں درد ہے“اعجاز جنجوعہ نے جواب دیا۔ فرح نے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل کا دراز کھولا۔ پیناڈول کی گولی نکالی سائیڈ ٹیبل پر پڑے جگ سے پانی دیا ”آپ یہ کھائیں …میں گرم دودھ لے کر آتی ہوں “وہ یہ کہہ کر دودھ لینے چلی گئی بیڈ روم کا دروازہ کھلا تھا اتنے میں طارق رامے کا فون آگیا فون اعجاز جنجوعہ کے ہاتھ ہی میں تھا جو فرح کی مس کالز دیکھ رہا تھا۔