”تو…میں …فوزیہ جی…خود کشی کبھی نہ کرتا…زندگی اس کی عطا کردہ نعمتوں میں سے سب کی ماں ہے…زندگی ہم پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا قرض ہے …وہ فرض تو معاف کردیتا ہے…مگر قرض نہیں…نہ اپنا…نہ اپنے بندوں کا…۔“ توشی کھڑی ہوئی سب کچھ دیکھ رہی تھی اسے آج بلال کی زندگی کا ایک اور روپ نظر آیا وہ اپنی عمر سے بڑی باتیں کر رہا تھا۔ بلال ایک بار پھر بولا۔
”اگر تمہیں کچھ ہوجاتا …تو…ان کا کیا بنتا…تمہاری ماں کا تمہاری خالہ کا…جو تمہیں دیکھ کر جیتی ہیں…ان دونوں نے تم دونوں کی خاطر اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹ لیا…یہ دونوں شادی کرسکتی تھیں…مگر نہیں کی…تمہاری خاطر…اور اس لیاقت کی خاطر…اور تم نے یہ حرکت کی…اور اس کی تو میں خبر لیتا ہوں…ابھی“بلال نے یہ ساری گفتگو نپے تلے انداز میں موقع کی مناسبت سے کی ۔
(جاری ہے)
ثریا اور نصرت بار بار اپنے آنسو دوپٹے سے صاف کر رہی تھیں اور فوزیہ نظریں جھکائے سن رہی تھی۔ بلال نے کچھ پیسے فوزیہ کی ماں کو دیے انہوں نے انکار کیا پیسے لینے سے۔
”خالہ جی…رکھ لیں…ایسے ہی نہیں دے رہا ہوں…اس کی سیلری سے کاٹ لوں گا…“بلال نے مذاق سے کہا ماحول بدلنے کی خاطر۔ میں ڈاکٹر سے مل لوں…کچھ ضرورت ہو تو فون پر بتادیجیے گا۔
بلال نے پیچھے مڑتے ہوئے کہا اسی لمحے کسی نے اس کی آنکھیں پیچھے سے اپنی ہتھیلیوں سے بند کردیں۔
”محسن رضا…“بلال نے فوراً بول دیا۔
”کمال ہے…“میں تجھے اب بھی یاد ہوں محسن رضا ڈاکٹر کا کوٹ پہنے حیرت اور مسرت سے کہہ رہا تھا۔ دونوں گرم جوشی سے بغل گیر ہوتے ہیں جیسے سالوں بعد ملے ہوں۔
”آج کوئی چھ سات سال بعد ملے ہیں“محسن نے اندازے سے کہا۔
”سات سال چار مہینے اور بائیس دن بعد “بلال نے تفصیل بتائی۔
”کمال ہے …پھر سے تو بازی لے گیا “ڈاکٹر محسن رضا بولا۔
ڈاکٹر محسن ان دونوں کو اپنے کمرے میں لے گیا بلال واش روم میں چلا گیا ڈاکٹر محسن نے کالج کے دنوں کا فولڈر کھول لیا اور توشی کو نوشی سمجھ کر قصے سنانے لگا۔
”بھابھی جی…آپ کو پتہ ہے …اس کے پاس آپ کی ایک تصویر ہوتی تھی اس میں آپ کی چھوٹی بہن بھی تھی…آپ دونوں نے سرخ رنگ کے کپڑے اور اوپر بلیک لیدر کی جیکٹیں پہنی ہوئی تھیں…ایک دن یہ دیکھ رہا تھا …تو میں نے دیکھ لیا تب مجھے پتہ چلا ورنہ یہ تو اپنی بات کو ہوا ہی نہیں لگنے دیتا تھا “
ڈاکٹر محسن رضا ایسے ہی بات کر رہا تھا جیسے کالج کا سٹوڈنٹ ہو۔
”پھر میں نے اسے بلیک میل کیا مجھے بتاؤ ورنہ میں ساری کلاس کو بتادوں گا تب جاکہ اس نے مجھ کو آپ کے اور آپ کی بہن کے بارے میں بتایا یہ نسیم اور تسلیم ہیں۔ تصویر دیکھ کر تو لگتا تھا جیسے انجو اور منجو ہوں وہ چالپاز فلم والی، اس نے مجھے بتایا نسیم میری منگیتر ہے، تو میں نے کہا یار یہ تیری سالی تسلیم اگر مجھے تسلیم کرلے تو مزہ آجائے پورے کالج میں صرف میں اکیلا اس کا دوست تھا…سب حیران ہوتے کہ سب سے لائق بندے کا دوست سب سے نالائق مگر یہ حقیقت تھی …پتہ نہیں بلال کو مجھ میں کیا نظر آیا کہ میری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھادیا ورنہ ہر کوئی بلال سے دوستی کرنا چاہتا تھا …“
”میں بھابھی کو اپنے کالج کے قصے سنارہا تھا “محسن مسکراتے ہوئے بولا۔
بلال نے اپنا سر پکڑ لیا توشی کھاجانے والی نظروں سے محسن کو دیکھ رہی تھی بلال نے فوراً بات بدلی۔
”محسن تم نے مجھے فوزیہ کی کنڈیشن کے متعلق انفارم نہیں کیا“بلال نے پوچھا۔
یادوں کی بارات واپس کالج جاچکی تھی، اور محسن بھی ڈاکٹر محسن رضا بن چکا تھا۔
”Well Actually کچھ پرابلم ہے Stomachمیں، Thanks God ٹائم پر آگئے یہ لوگ اور آتے ہی دو تین Vomitکردیں پیشنٹ نے، اور جو پلس پوائنٹ تھا، وہ یہ کہ نیند کی گولیاں ڈوبلیکیٹ تھیں جس کی وجہ سے بچت ہوگئی۔ “ڈاکٹر محسن رضا بول رہا تھا ایک ڈاکٹر کی طرح۔
”یہ لو …اب آدمی سکون سے مر بھی نہیں سکتا، اس ملک میں جہاں زہر بھی خالص نہ ملتا ہو…“توشی بھولی صورت بناکر بولی۔
”اس نے نیند کی گولیاں کھائی تھیں زہر نہیں“ڈاکٹر نے وضاحت پیش کی ۔
”زہر سمجھ کر ہی کھائی تھیں مگر ہوا کیا…کچھ نہیں…وہ تو زندہ بچ گئی ناں…“توشی نے سنجیدگی سے اپنی دلیل پیش کی ۔ بلال اور محسن توشی کی دلیل پر ہنس پڑے۔
”ویسے آپ ڈاکٹر ہیں بھی …یا ایویں…سفید کوٹ ہی پہنا ہے…کہاں سے کیا MBBSآپ نے…میرا مطلب ہے کونسے کالج سے …“میں نے چائنہ سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی ہے۔
“ڈاکٹر محسن بولا۔
”یہ لو …اب ڈاکٹر بھی Made in China آگئے ہیں…جیسی چائنہ کی چیزیں… ڈاکٹر بھی ویسے ہی ہوں گے “توشی بیزاری سے بولی۔ بلال محسن کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور بولا۔
”ڈاکٹروں کا تو مجھے پتہ نہیں …ہاں چائنہ کی چیزیں اپنی قیمت کی مناسبت سے بہت اچھی ہیں…تسلیم جی…چائنہ کا غریب لوگوں پر بڑا احسان ہے…وہ اشیا جو ان کی پہنچ سے باہر تھیں…چائنہ نے ان کے گھروں میں پہنچادیں خیر چھوڑ…ڈاکٹر صاحب ہم چلتے ہیں۔
“
”یہ لو…مجھے تو اب یاد آیا…آپ مجھے بھابھی کس چکر میں بلارہے تھے “توشی کو اپنا نام تسلیم سن کر یاد آہی گیا۔
”Sorryتسلیم جی…“ڈاکٹر محسن شرمندگی سے بولا۔
”میرا گھر پاس ہی ہے…فیصل ٹاؤن میں وہاں چلتے ہیں …آپ کو ناشتہ کرواتا ہوں…اپنی والدہ کے ہاتھ سے …“
’یہ لو…اپنی ماں سے کام کرواتے ہو …بیوی کے ہوتے ہوئے …اور گھر میں نوکر بھی نہیں رکھے ’“توشی خائف ہوکر بولی ہاتھ لہراتے ہوئے ۔
”نوکر تو ہیں مگر…کھانا، ناشتہ ماں کے ہاتھ کا بنا ہی کھاتا ہوں “ڈاکٹر نے بتایا۔
”کیا بیوی مرگئی ہے؟“توشی فشافش بول اٹھی۔
”میری ابھی شادی نہیں ہوئی …“ڈاکٹر محسن شرماتے ہوئے بولا۔
”یہ لو …لگتے تو آپ چار بچوں کے باپ ہیں“توشی نے فٹافٹ جواب دیا۔
”کیا شادباغ چھوڑدیا…“بلال نے بات بدلی۔
”نہیں شاد باغ والوں نے مجھے چھوڑ دیا…“ڈاکٹر محسن مصنوعی مسکراہٹ سے بتارہا تھا۔
”چل نہ یار نخرے نہ دکھا، اماں تجھے دیکھ کر خوش ہوجائیں گی ، ویسے بھی سال سے وہ کھل کر ہنسی نہیں…“ڈاکٹر محسن نے محبت سے درخواست کی ۔
تھوڑی دیر بعد وہ فیصل ٹاؤن میں واقع کنال کے گھر میں موجود تھے، محسن کی اماں نے بلال کو دیکھتے ہی پہچان لیا اور بڑی محبت سے ملیں۔ توشی کو بھی انہوں نے بڑے پیار سے گلے لگایا اس طرح کا پیار اور خلوص توشی کے لیے نیا تجربہ تھا۔
محسن کی اماں کا تعلق اندرون لاہور سے تھا اور شادی کے بعد وہ شمالی لاہور میں شادباغ بیاہی گئیں جوکہ اندرون لاہور سے ملتا جلتا علاقہ تھا، اخلاق اور محبت کے لحاظ سے ۔
ڈاکٹر محسن رضا بٹ کا تعلق کشمیری بٹ فیملی سے تھا اوپر سے پیور لاہوریے۔ کشمیری بٹ دو وجہ سے شہرت رکھتے ہیں، ایک اپنی گوری رنگت کی وجہ سے اور دوسری اپنی خوش خوراکی کی وجہ سے، کاروباری لوگ، اور زندہ دل ، محبت کرنے والے، یاروں کے یار، یہ کشمیری بٹوں کی دوسری خوبیاں ہیں ۔
محسن کی اماں ناشتہ تیار کرنے کے لیے کچن میں جاچکی تھیں، ان کو دو ملازموں کی خدمات بھی حاصل تھیں اور انہوں نے توشی کو بھی کچن میں گھسیٹ لیا محبت کے زور پر۔
”بڑے بٹ صاحب نظر نہیں آرہے …“بلال نے پوچھا۔
”وہی تو میں رونا رو رہا ہوں…سال بھر پہلے ابا چھوڑگئے۔ وہی جائیداد کے پواڑے بھائیوں کی جک جک…بس یار خون سفید ہوگیا “
”ہوا کیا تھا …رضا بٹ صاحب کو…“بلال نے پوچھا۔
”وہی ہماری قومی بیماری ہارٹ اٹیک…“محسن بٹ بولا۔