Episode 10 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 10 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

”ہاں وئی …مرمت ہوگئی…یا ہونے والی ہے “طارق رامے نے انجوائے منٹ سے پوچھا۔ 
”بیٹا جی…ہم بھی کھلاڑی ہیں …بیوی کو بے وقوف بنانا کون سا مشکل کام ہے “جنجوعہ صاحب نے فاتحانہ انداز میں کہا۔ 
”کون سے گولی دی ہے بھابھی کو اس بار“طارق رامے نے پوچھا۔ 
”ہزاروں گولیاں ہیں کوئی سی بھی دے دو ۔تو بیٹا شادی کروا ایسے ایسے مشورے دوں گا بیوی تمہارے سامنے بھیگی بلی…“
فرح پیچھے کھڑی سب سن رہی تھی ۔
 
”یہ لیجیے دودھ “فرح نے کہا۔ ”تم کب آئی“جنجوعہ نے پوچھا۔ ”جب آپ گولیاں دے رہے تھے“فرح نے تلخ لہجے میں جواب دیا۔ 
”یار…وہ …یہ …فون…ہاں فون سائلنٹ تھا ۔ فون بند کرتے ہوئے ہکلاہٹ میں کہا۔ “
”گولی کھائی بھی ہے …یا پھر صرف گولیاں دیتے ہی ہیں۔

(جاری ہے)

“دودھ کا مگ جنجوعہ صاحب کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولی۔ 

”نہیں وہ…وہ…سوری یار“جنجوعہ صاحب نے فورا ً ہتھیار ڈال دیے۔
جنجوعہ صاحب کرسی پر بیٹھ کر دودھ پینے میں مصروف ہوگئے اورفرح ٹیرس کا دروازہ کھول کو باہر ٹیرس پر چلی گئی اور لان کی طرف منہ کرکے کھڑی ہوگئی جب جنجوعہ صاحب کی نظر اس پر پڑی تو دودھ کا مگ سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر فرح کے پیچھے گئے اور فرحکے پیچھے کھڑے ہوکر بولے۔ 
”فری جی …سوری…یار وہ فون سائلنٹ تھا …کہا نا سچی یہی بات تھی “اعجاز جنجوعہ نے انتہائی سنجیدگی سے صفائی پیش کی۔
 
”آگے سے خیال رکھوں گا پکا وعدہ، فری جی …فری جی …“
”آپ مجھے فری مت کہا کریں “فرح نے دوٹوک جواب دیا۔ اعجاز جنجوعہ نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنی طرف چہرہ کرکے بولا۔ 
”مجھے پتہ ہے آپ کی والدہ کہتی ہیں اور بس مجھے اجازت کی ضرورت نہیں “
”وہ کیوں جی“شکایتی نظروں سے دیکھتے ہوئے فرح نے سوال کیا۔ 
”اس لیے کہ …محبت کرنے کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی اور محبوب کو کوئی بھی نام دے دو وہ محبوب ہی رہتا ہے “
فرح کے چہرے پر جان لیوا مسکراہٹ تھی۔
 
”آج آپ بلال کے ساتھ تھے اس لیے رومینٹک باتیں کر رہے ہیں ورنہ آپ تو سیمنٹ، ریت، سریا، بجری، ماربل اور بس یہی کچھ…ہے“فرح نے کھاجانے والی نظروں سے اعجاز جنجوعہ کو دیکھا۔ 
”چلو اندر چلو باہر سردی ہے “اعجاز جنجوعہ نے بازو کے حصار کے ساتھ اندر لاتے ہوئے کہا۔ 
اعجاز جنجوعہ اور فرح ایک آئیڈیل زندگی گزار رہے تھے ۔ اور وہ آئیڈیل کپل تھے۔
فرح ایک گول مٹول گوری چٹی رنگت والی گھریلو خاتون تھی جوکہ اپنے بھرے ہوئے جسم کے ساتھ خوبصورت لگتی تھی۔ شادی سے پہلے افسانے اور ناول پڑھنے والی یہ لڑکی ایک ایسے شخص کے ساتھ بیاہی گئی جوکہ اس کا خالہ زاد تھا۔ اور اس کے باپ کی پسند بھی۔مزاج اور طبیعت دونوں کی مختلف تھی، بچپن میں ایک دوسرے کو دیکھا ہوگا۔ وجہ یہ تھی۔ اعجاز جنجوعہ شاہدرہ لاہور کا رہنے والا تھا اور فرح راول پنڈی سے تھی۔
اعجاز جنجوعہ 15سال کا ہوگا جب اس کے ماں باپ ایک بس حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے ان کے ساتھ اس کی سب سے چھوٹی بہن جو کوئی 4سال کی ہوگی وہ بھی چل بسی، پیچھے اعجاز جنجوعہ اور اس کی 3چھوٹی بہنیں شازیہ گیارہ سالہ، نازیہ نو سالہ اور رابعہ سات سالہ جو کہ گھر پر تھیں بچ گئیں ان سب کی ذمہ داری اعجاز جنجوعہ کے کندھوں پر آگئی ۔ ان حالات میں فرح کے والد اور والدہ نے اعجاز جنجوعہ کا ساتھ دیا ۔
اعجاز اپنی خالہ اور خالو کی بہت عزت کرتا اور فرح اس کی خالہ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی تھی۔ اعجاز جنجوعہ زیادہ پڑھ نہیں سکا صرف BA کیا مگر اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائیں۔ 
گندمی رنگت والے درمیانہ قد 0.75کا چشمہ پہننے والے اسمارٹ آدمی تھے چہرے پر چھوٹی بھوری موچھیں، چشمے کے اوپر سے دیکھتے اور اکثر بیٹھے ہوئے بائیں ہاتھ سے اپنی مونچھوں کو اوپر سے نیچے انگلی اور انگوٹھے سے پریس کرتے رہتے یہ ان کی عادت تھی ۔
 
اپنے کام سے عشق تھا۔ فارغ وقت میں طارق رامے کے دفتر میں اخبار پڑھتے پائے جاتے۔ چائے کا کپ ہاتھ میں لیے ہوئے طارق رامے جتنا فضول خرچ اور دل پھینک تھا۔ اعجاز جنجوعہ اتنا ہی کنجوس اور وفادار اپنی بیوی کے ساتھ، فرح اس کی زندگی میں پہلی عورت تھی اور شاید آخری بھی، اس کے برعکس طارق کے دل میں آنے والے کو روک نہیں تھی اور جانے والے پابند نہیں تھے۔
 
ان سب باتوں کے باوجود وہ روزانہ ملتے گپ شپ لگاتے ہنسی مذاق کرتے ۔ بلال سے ان کی ہفتہ میں ایک ملاقات ہوتی وہ بھی ہفتہ کے دن مغرب کے بعد جب وہ لوگ باہر کھانا کھاتے بل دینے کی باری ہفتہ وار ہوتی سب کی۔ 
طارق رامے وکیل بھی تھا مگر نام کا اس کے علاوہ MSEمیتھ اور بی ایڈ بھی کیا ہوا تھا۔ پراپرٹی ڈیلر کا کام نہ جانے کیوں کرتا تھا اس کا بڑابھائی راشد رامے جو کہ وکیل تھا، جب کبھی دینہ جہلم سے لاہور آتا تو جھگڑا کرتا کہ تم وکالت شروع کرو یہ پراپرٹی کا کام چھوڑدو۔
 
###
وہ من ہی من میں سوچ رہی تھی۔ جب اس نے سونے کی کوشش کی تو نیند آنے کو تیار نہیں تھی۔ ذہن میں دادی کے الفاظ گونج رہے تھے وہ اٹھی واش روم گئی اپنا چہرہ غور سے دیکھا آئینے میں، کیا اپنی بہن سے جلن محسوس کر رہی ہوں، اس کے من میں خیال آیا۔ نہیں نہیں میں ایسی تو نہیں ہوں، اس نے خود ہی صفائی دی تو پھر یہ کیا ہے جو مجھے سونے نہیں دے رہا۔
 
بلال تو کہتا ہے کہ حسد اور محبت ایک دل میں نہیں رہ سکتے تو یہ محبت ہے یا حسد، کیا ہے۔ اس نے اپنا چہرہ دھویا اور واپس بیڈ روم میں آگئی رات اپنی آخری سانسیں لی رہی تھی جب اس نے اپنے موبائل پر ٹائم دیکھا۔ ساڑھے 4بج گئے تھے اس نے نوشی کی طرف دیکھا جو نیند کی آغوش میں تھی۔ یہ میری بہن ہے اور میں اس کے منگیتر سے، نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔
وہ کمرے سے نکل گئی کوریڈور میں آکر رک گئی مگر کہاں جاؤ، پھر وہ دبے پاؤں چلتی ہوئی بغیر ناک کیے دادی کے کمرے میں تھی۔ 
دادی جائے نماز پر بیٹھی تھیں۔ وہ دادی سے لپٹ جاتی ہے۔ 
”کیا ہوا میرا بچہ “دادی نے پوچھا پریشانی سے۔ 
”نیند نہیں آرہی ہے“زخمی آواز کے ساتھ توشی بولی اس کے اندر داخلی ٹوٹ پھوٹ جاری تھی۔ دادی نے اسے اٹھایا اور بیڈ پر لے گئی۔
 
”ادھر لیٹ جاؤ میں ابھی آتی ہوں“دادی نے اسے لٹایا اور کمرے کی لائٹ جلائی انٹرکام پر پیغام دیا اور خود توشی کے ساتھ لیٹ گئیں۔ اس کے گالوں پر ہاتھ رکھا پھر اس کا ماتھا چھوم لیا اور اس کے بالوں کو سہلانے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد زینب دو مگ دودھ لے کر آگئی۔ زینب جہاں آرا بیگم کی خاص ملازمہ تھی۔ باجی غفوراں کی دور کی رشتہ دار تھی اور بیوہ تھی۔
 
”بیگم صاحبہ دودھ“زینب نے تابعداری سے کہا۔ 
”معاف کرنا بیٹی تمہاری نیند خراب کردی“جہاں آرا بیگم نے کہا۔ 
”نہیں بیگم صاحبہ کوئی بات نہیں، کچھ اور چاہیے آپ کو “زینب نے عرض کی ۔ 
”نہیں بیٹی تم جاؤ شکریہ “زینب جاچکی تھی 
”اٹھو بیٹا دودھ پی لو“دادی نے کہا 
”نہیں دادو دل نہیں چاہ رہا “
”پی لو وہ بیچاری گرم کرکے لائی، اس کی نیند بھی خراب کی، چلو اٹھو تھوڑا سا پی لو“دودھ ختم کرنے کے بعد۔
 
”کیوں نیند نہیں آرہی میری جان کو ؟“دادی نے پوچھا۔ 
”دادی کیا میں خود غرض ہوں “توشی نے سوال پر سوال کردیا۔ 
”نہیں ایسا تو بالکل بھی نہیں ہے بلکہ تم تو مدد کرنے والی اور دوسروں کے کام آنے والی ہو…ایسا کیوں سوچا تم نے“دادی نے جواب دیا۔ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد بولیں۔
”تم کل والی بات پر پریشان ہو“دادی نے سوال کیا۔
 
”جی ہاں…مگر نوشی کی مجھے سمجھ نہیں آتی…ماما کے ساتھ بلال کی بہت برائیاں کرتی ہے۔ مگر کل رات کو بلال کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے…“توشی نے صاف گوئی سے ساری بات کہہ دی۔ 
”تمہاری ماں نے اسے بچپن سے نفرت کرنا سکھایا ہے، نفرت کی چھاؤں بھی برگد کے پیڑ کی چھاؤں کی طرح گھنی ہوتی ہے جس کے نیچے چھوٹے پودے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
اسی طرح نفرت کی چھاؤں میں محبت مرتی تو نہیں مگر کمزور ہوجاتی ہے۔ “
”دادو آپ بھی بلال کی طرح باتیں کرنا شروع ہوگئی ہیں “
”ہاں بیٹا ٹھیک کہہ رہی ہو…میں نے بلال سے بہت کچھ سیکھا ہے“
”اگر دادو نوشی بلال سے محبت کرتی ہے تو وہ شادی کے لیے کیوں راضی نہیں ہوتی “
”اس لیے کہ اُس کی محبت نفرت کے پنجرے میں قید ہے اور اُس پنجرے کی چابی تمہاری ماں کے پاس ہے“
”کیا نوشی بلال سے شادی کرے گی ؟“ توشی نے بھولی صورت بنا کر پوچھا۔
”یہ تو آنے والا وقت بتائے گا …تم میرا بچہ سو جاؤ “
”دادی دیر تک اس کے بالوں میں اپنی انگلیوں سے سہلاتی رہیں“
###

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط