بلال مغرب سے کچھ دیر پہلے رندھاوا ہاوٴس واپس پہنچا بلال کے آنے سے پہلے ہی بابا جمعہ کی خبر آچکی تھی۔ بلال نے روزہ افطار کیا نماز ادا کی اور اپنا فون بند کردیا اور خود سوگیا، مغرب کے بعد ہی گھر میں کسی نے بھی اُسے ڈسٹرب نہیں کیا تھا۔ وہ رات 2 بجے کے آس پاس اُٹھا غسل کیا اور عشاء کی نماز ادا کی اِس کے بعد تہجد کے لیے کھڑا ہوگیا۔
تہجد سے فارغ ہوکر جب اُس نے ہاتھ بلند کیے تو سب سے پہلے باباجمعہ کے لیے دُعامانگی۔
اِس کے بعد اپنے والدین کے لیے فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد بلال پھر سے دروازہ بند کرکے لیٹ گیا اپنے بستر پر وہ کھلی ہوئی آنکھوں سے پچھلے 16 سال کو دیکھ رہا تھا۔
جب وہ تقریباً دس سال کا تھا تو اُس کی ملاقات پہلی بار بابا جمعہ سے ہوئی تھی۔
(جاری ہے)
وہ یتیم بچہ جس کے سر پر باباجمعہ نے شفقت کا ہاتھ پھیرا۔
بلال نے لیٹے ہوئے ہی اپنے ہاتھوں کو دیکھا جن ہاتھوں سے اُس نے بابا جمعہ کو قبر میں اُتارا تھا۔
###
18 جنوری بروز ہفتہ بلال نے آفس سے چھوٹی کی وہ سارا دن اپنے کمرے میں ہی میں رہا اگلے دن اُس کی ماں کی برسی تھی۔ وہ ہر روز کی طرح اپنی ماں کی قبر پر حاضر ہوا اور اُن کی مغفرت کی دعا مانگی۔
دو دن بلال کا فون off رہا اس دوران عظمی نے بار ہا اُس کا فون ٹرائی کیا جو نہیں مل سکا اتوار کو اپنی ماں کی برسی کی وجہ سے وہ مینٹل ہاسپٹل بھی نہیں جا سکا تھا۔
عظمی ہر حال میں بلال سے ملنا چاہتی تھی۔ مگر اُسے بلال کے گھر کا اڈریس معلوم نہیں تھا۔ اپنی خالہ سے وہ پوچھنا نہیں چاہتی تھی۔
عظمی اگلے دن بلال کے آفس پہنچی فوزیہ چھٹیوں پر تھی۔ اس لیے کہ ہفتے والے دن اُس کی لیاقت علی سے شادی تھی فوزیہ کی سیٹ پر نوین ڈیوٹی کر رہی تھی۔ آفس بوائے عظمی کو جانتا تھا۔ اس لیے اُس نے بڑے احترام کے ساتھ عظمی کو بلال کے آفس بٹھایا۔
عظمی اور نوین بلال کے آنے سے پہلے کافی دیر گپ شپ لگاچکی تھیں۔ عظمی بلال کو دیکھ کر صوفہ سے کھڑی ہو گئی تھی جب وہ آفس میں داخل ہوا تھا۔ بلال بابا جمعہ کے انتقال کی وجہ سے کافی اُداس تھا۔
”اسلام علیکم“ بلال نے داخل ہوتے سلام کیا تھا۔ ایک نظر عظمی کو دیکھا اور اُس کے بعد اُس کی نظر نوین پر بھی پڑی جو کہ فوزیہ کی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی۔
”سنا ہے آپ کی شادی ہو رہی ہے … مبارک ہو“ عظمی بول پڑی تھی۔ بلال کے کرسی پر بیٹھنے سے پہلے بلال نے اُس کی بات سنی اَن سنی کر دی۔ ”آپ یہاں کیوں بیٹھی ہوئی ہیں“ بلال نے سنجیدگی سے پوچھا تھا نوین سے ”سر وہ فوزیہ میڈیم چھوٹی پر ہیں اس لیے“ نوین نے وضاحت پیش کی تھی۔
”آپ اپنے آفس میں جائیں ضرورت ہوگی تو آپ کو بلوا لیا جائے گا“ بلال نے شائستگی سے کہا تھا۔
”ok سر“ بلال عظمی کی طرف متوجہ ہوا جو اب تک کھڑی تھی۔ نوین نے موقع دیکھا اور اپنے موبائیل کا Sound recorder on کیا موبائیل کو تھوڑا سا دراز کھول کر اُس کے اندر رکھ دیا اور خود بجلی کی رفتار سے اپنے آفس چلی گئی تا کہ بعد میں وہ بلال اور عظمی کے بیچ ہونے والی گفتگو سن سکے۔ ”عظمی جی آپ کھڑی کیوں ہیں پلیز تشریف رکھیں“۔
بلال عظمی کی طرف آیا اور اُس کے سامنے صوفہ پر بیٹھ گیا۔
نوین کی اسکیم کام کر گئی تھی۔
” چائے کے ساتھ فرورٹ کیک“ بلال نے عظمی سے پوچھا عظمی نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلا دیا تھا آج عظمی بلال کو اندر تک دیکھنا چاہتی تھی خاموشی سے۔
”پچھلے دو دن آپ کا موبائیل off تھا “ عظمی نے کہا۔
”ہاں وہ میری طبیعت … “ بلال بات اُدھوری چھوڑ کر خاموش ہو گیا تھا۔
”آپ کی PA بتا رہی تھی کہ آپ کے کوئی قریبی بزرگ فوت ہو گئے ہیں۔
“ عظمی نے ہمدردی بھرے لہجے کے ساتھ پوچھا۔
”جی ہاں … “ بلال نے مختصر جواب دیا اور خاموش ہو گیا کافی دیر آفس میں خاموشی رہی آفس بوائے چائے دے کر جا چکا تھا۔ ایک کپ چائے اور کیک عظمی کو ایک کپ چائے کی وجہ معلوم تھی کیونکہ اُس دن پیر تھا۔
”آپ اب تک ناراض ہیں مجھ سے۔ اُس بات کو تین ہفتوں سے زیادہ وقت گزر چکا ہے اور ان تین ہفتوں میں مَیں نے کتنی کالز کیں آپ کو مگر آپ نے ایک دفعہ بھی مجھ سے بات کرنا مناسب نہیں سمجھا … بلال ناراض تو مجھے ہونا چاہیے تھا آپ سے … آپ نے مجھے ٹھکرا یا ہے … مگر میں پھر بھی یہاں پر بیٹھی ہوئی ہوں، آپ کے سامنے “ عظمی بول رہی تھی اور بلال سن رہا تھا۔
”من کے میت کو اکیلے منجھدار میں نہیں چھوڑتے ایک دفعہ آپ نے ہی کہاتھا۔ من کی میت نہ سہی آپ کی دوست تو ہوں۔ اتنا تو ڈیزرو کرتی ہوں۔ بلال بچپن سے لے کر آج تک میرا تو کوئی دوست بھی نہیں ہے آپ کے علاوہ اور آپ ……“
”ٹھیک ہے … اب زیادہ ایموشنل مت ہوئیں۔“ بلال نے عظمی کی سنجیدگی ختم کرنے کی غرض سے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔ اُسے ڈرتھا کہ عظمی جذباتی نہ ہو جائے ماضی میں وہ سائیکو پیشنٹ رہ چکی تھی۔
بلال نے بڑی مشکل سے اُسے دو سال پہلے ڈپریشن سے نکالا تھا۔ “
بلال کے ایک دو ٹوک جملے سے عظمی کی ساری ناراضی ختم ہو گئی تھی۔ جملے میں کوئی خاص بات نہیں تھی مگر اُس میں اپنائیت بہت زیادہ تھی جیسے کوئی اپنا سمجھ کر ڈانٹ رہا ہو۔
”اچھا وہ بزرگ کون تھے … آپ کے کیا لگتے تھے … “ عظمی نے دو سوال اکٹھے پوچھے سنجیدگی سے۔
”بابا جمعہ اُن کا نام تھا اور وہ موچی کا کام کرتے تھے میرا اُن کے ساتھ اُستاد شاگرد کا رشتہ تھا۔
حالانکہ وہ مجھے اپنا بیٹا سمجھتے تھے۔ “ بلال نظریں جھکائے بولا تھا۔
”موچی اور آپ کے استاد … “ عظمی حیرت سے بولی تھی۔
”عظمی جی … کچھ زندگی کے سبق کتابوں سے نہیں ملتے … ایسے گمنام دانشوروں اور اللہ کے نیک بندوں سے حاصل ہوتے ہیں، اُن کی صحبت میں بیٹھ کر … “
آفس بوائے دستک دے کر اندر داخل ہوا تھا”سر کوئی عادل عقیل ہاشمی صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں“، آپ انہیں بھیج دو“ بلال نے کہا عادل عقیل ہاشمی عظمی نے زیر لب نام دہرایاتھا۔
”اسلام علیکم … بلال بھائی… “ عادل عقیل ہاشمی اندر آکر بولا تھا۔ بلا ل نے اُٹھ کر اُسے گلے لگایا اور اپنے پہلو میں صوفے پر جگہ دی عادل کے ہاتھ میں ایک فائل تھی جو اُس نے سینٹر ٹیبل پر رکھ دی تھی۔
”چائے یا ٹھنڈا … کیا لو گے۔ “ بلال نے پوچھا خلوص سے۔
”نہیں بلال بھائی کچھ نہیں شکریہ بس آپ یہ فائل دیکھ لیں “ عادل نظریں جھکائے ہوئے بولا تھا۔
اُس نے کمرے میں داخل ہوتے وقت یا بلال کیساتھ بیٹھنے کے بعد ایک بار بھی عظمی کی طرف نہیں دیکھا تھا۔ جبکہ عظمی اُسے مسلسل ٹکٹکی باندھے حیرت میں مبتلا کھلے منہ کے ساتھ دیکھ رہی تھی۔
”ایسا کیسے ہو سکتا ہے تم میرے آفس میں پہلی بار آئے ہو میں چائے کا کہتا ہوں۔ “
”نہیں بلال بھائی میرا روزہ ہے۔ “ عادل نے عجلت میں کہا تھا۔
”روزہ… “ عظمی نے ایک بار پھر منہ میں کہا ”اس کا“ عظمی حیرت میں مبتلا تھی۔
”ارے میں تعارف کروانا توبھول ہی گیا یہ ہیں عادل صاحب میرے دوست … “
بلال نے عادل کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تعارف کروایا تھا ”اور آپ ہیں ڈاکٹر عظمی جی“
”ہیلو عادل کیسے ہو میں ہوں عظمی ا فگن “ عظمی بے تکلفی سے بولی جیسے یاد کر ا رہی ہو۔
”اسلام علیکم … عظمی جی … “ عادل نے ایک نظر عظمی پر ڈالی ”بلال بھائی آپ یہ دیکھ لیں۔
“
بلال نے وہ فائل دیکھی جس میں بینک سے متعلقہ کاغذات تھے۔ اور اُس میں دو Deposit slips لگی ہوئیں تھیں۔ ایک 20 لاکھ کی اور ایک 5 لاکھ کی 20 لاکھ روپے بابا جمعہ کے مکان کی قیمت تھی۔ اور 5 لاکھ محمد طفیل والے عادل نے ساری تفصیل بلال کو بتا دی تھی۔
عادل نے بتایا ”دو چار دن میں چیک بک اور ATM کارڈ بھی آ جائے گا“ عادل نے یہ بھی بتایا تھا کہ بابا جی نے اسے راز رکھنے کا حکم دیا تھا۔
”اچھا بلال بھائی مجھے اجازت دیں مجھے تھوڑی جلدی ہے۔ “ عادل نے جاتے ہوئے بلال سے کہا تھا۔
بلال نے اُسے باہر تک چھوڑا بلال بابا جمعہ کے متعلق سوچ رہاتھا۔ اور عظمی عادل کے متعلق سوچ رہی تھی۔ دونوں اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے۔ کافی دیر بعد عظمی کے موبائیل پر Ring ہوئی تو دونوں کا تسلسل ٹوٹ گیا تھا۔
”عظمی جی آپ عادل عقیل کو جانتی ہیں۔
“ بلال نے عظمی کو حیرت میں مبتلا دیکھ کر پوچھا۔
”جانتی میرا کلاس فیلو تھا بچپن میں ہم ایک ہی اسکول میں پڑتے تھے۔ اس کے ابو انکل ہاشمی میرے انکل زمان کے سب سے قریبی دوست ہیں۔ پہلے یہ لوگ ماڈل ٹاؤن میں ہی تو رہتے تھے انکل زمان کے گھر کے ساتھ ہی تو ان کا گھر تھا۔ پھر یہ لوگ ڈیفنس شفٹ ہو گئے۔ “
”آپ عادل کو دیکھ کر اتنی حیران کیوں تھی … عظمی جی۔
“ بلال نے پوچھا پھر سے۔
”یہ ایک نمبر کا ایڈیٹ تھا۔ آج تو بڑا سوبر اور ڈیسینٹ بننے کی کوشش کر رہا تھا۔ جب ہم لوگ اسکول میں تھے تو یہ سب سے زیادہ بولتا اور سب سے زیادہ سوال پوچھتا تھا۔ اور کھاتا بھی بہت تھا۔ سال پہلے تک تو بہت موٹا تھا۔ اب تو ایک دم سلم اینڈ سمارٹ ہے۔“ عظمی مزے لے کر اپنے بچپن کو یاد کر رہی تھی۔ اور عادل کے قصے سنا رہی تھی۔ وہ عظمی جو گھنٹہ پہلے بہت دکھی تھی۔ اب ایک اسکول کی بچی کی طرح باتیں کر رہی تھی۔ اور بلال اپنے ہونٹوں کے نیچے اپنا دایاں ہاتھ رکھے ہوئے عظمی کو دیکھ رہا تھا۔ خاموشی کے ساتھ۔