Episode 9 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 9 - قلندر ذات - امجد جاوید

تارکول کی سیاہ سڑک نے گاؤں اور حویلی کے درمیان حد فاصل قائم کردی تھی۔ یہ سردار شاہ دین کی حویلی اور نورنگر الگ الگ دکھائی پڑتے تھے۔ سڑک کے دائیں جانب آبادی والے گاؤں میں زندگی کی جدید سہولتیں میسر آنا شروع ہوگئی تھیں۔ سڑک کے بائیں جانب کافی آگے جا کر حویلی تھی۔ تارکول کی بڑی ساری سڑک تقریبا ڈیڑھ فرلانگ فاصلہ طے کر کے حویلی تک پہنچاتی تھی۔
آٹھ ایکڑ رقبے پر حویلی کی چار دیواری تھی۔ جبکہ رہائشی حصہ چار ایکڑ پر تھا۔ جس کے ارد گرد سبز قطعات‘ باغ اور ملازمین کے رہائشی کوارٹر تھے۔ ایک طرف اصطبل تھا جو اب جدید ماڈل کی گاڑیوں کا گیراج بن چکا تھا۔ میں نے درمیانی سڑک سے حویلی والی سڑک پر بائیک موڑی تو سفید پینٹ کی ہوئی حویلی مجھے دھوپ میں چمکتی ہوئی دکھائی دی۔

(جاری ہے)

آہنی گیٹ بالکل سیاہ تھا۔

جو کسی قلعے کا گیٹ ہونے کا تاثر دے رہا تھا۔ میں نے گیٹ کے پاس بائیک روکی تو چوکیدار نے مجھے دیکھتے ہی گیٹ کھول دیا۔ میں بائیک سمیت اندر چلا گیا۔ 
حویلی کے عقب میں سبز لان کے ایک کونے میں بڑی ساری چھتری تلے سردار شاہ دین کے ساتھ شاہ زیب بیٹھا ہوا تھا۔ ان کے سامنے دھری میز پر چائے کے نفیس برتن تھے۔ میرے اور ان کے درمیان پتھر کی ایک روش تھی۔
وہیں پر میں نے ایک طرف بائیک کھڑی کی اور ان کی جانب بڑھ گیا۔ وہ دونوں بڑے غور سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ جس سے نجانے مجھے کیوں یہ احساس ہوا کہ وہ میرے منتظر تھے۔ میں نے قریب جا کر سلام کیا اور بڑے مودب انداز میں کھڑا ہوگیا۔ تب سردار شاہ دین نے میرے سلام کا جواب دیتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔ 
”بیٹھو۔“ اس کا اشارہ قریب رکھی کرسیوں میں سے ایک کی طرف تھا جو مجھ سے دو فٹ کے فاصلے پر رکھی ہوئی تھی۔
ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ سردار مجھے اپنے برابر بیٹھنے کے لیے کہے۔ اس لیے میں نے بڑے مودب انداز میں کہا۔ 
”نہیں سردار جی‘ میں ایسے ہی ٹھیک ہوں، آپ حکم کریں۔“ 
”جب میں تمہیں کرسی پر بیٹھنے کے لیے کہہ رہا ہوں تو بیٹھ جاؤ۔“ اس نے قدرے اُلجھتے ہوئے کہا۔ 
”سردار جی اس کرسی پر بیٹھنا بہت آسان ہے مگر بیٹھ کر اُٹھنا بہت مشکل ہے ۔
وہ تھوڑی دیر جو میں اس کرسی پر گزاروں گا، اس کی لذت میرا دماغ خراب کردے گی۔ میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔“ میں نے اسی ادب سے کہا تو وہ مسکراتے ہوئے خوش گوار لہجے میں بولا۔ 
”جمال‘ میں جانتا ہوں کہ وقت نے تجھے ڈھال کر تلوار بنا دیا ہے۔ تم چمک بھی گئے ہو لیکن ابھی تیز دھار ہونے میں تمہیں کچھ وقت لگے گا۔“ 
”میں جانتا ہوں سردار جی‘ جہاں تلوار بن گیا ہوں وہاں دھار لگنے میں اب کتنا وقت لگے گا۔
خیر آپ حکم کیجیے۔“ میں نے اپنے لہجے کو با ادب ہی رکھنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ وہ چند لمحوں بعد بولا۔ 
”یہ تو تمہیں معلوم ہے نا جمال کہ میں نے ہمیشہ فنکاروں کی قدر کی ہے۔ نٹ بازوں سے لے کر تیرے جیسے ماہر نشانہ بازوں تک نے اس حویلی سے ہمیشہ قدر پائی ہے۔ رات میلے والا معاملہ سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میرے گاؤں کا لڑکا بھی اتنا بڑا فنکار ہے۔
“ یہ کہہ کر اس نے اپنی جیکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور پانچ سو روپے والے نوٹوں کی ایک گڈی میز پر برتنوں کے ساتھ رکھ دی۔ 
”یہ لو‘ یہ تمہارا انعام ہے اُٹھالو۔“
اس کے یوں کہنے پر میرے اندر ایک بگولا اٹھا۔ جس سے مجھے توہین کا احساس ہوا۔ میں انعام اور معاوضے کے درمیان فرق کو سمجھتا تھا لیکن سامنے پڑی ہوئی نوٹوں کی گڈی نہ انعام اور نہ معاوضہ، یہ وہ چاہ ر ہا تھا جو کسی کو ذہنی غلام بنانے کے لیے ڈالا جاتا ہے۔
میں سردار شاہ دین کو اچھی طرح جانتا تھا۔ اس لیے خود پر قابو پاتے ہوئے پوچھا۔ 
”سردار جی اتنی بڑی رقم؟“
”نہیں‘ یہ کوئی اتنی بڑی رقم نہیں ہے ۔تمہارے شایان شان تو اس سے بھی زیادہ ہونی چاہیے۔ یہ گڈی اٹھا کر جیب میں ڈالو‘ پھر میں تم سے وہ کچھ کہوں جو میں نے تمہارے بارے میں سوچا ہے۔“ وہ بہت کائیاں تھا۔ قدم بہ قدم آگے بڑھنا چاہتا تھا۔
میرا رد عمل ہی اسے آگے بڑھنے میں مدد دیتا۔ اس سے میں نے اندازہ لگا لیا کہ ضرور کوئی ڈیل کرنا چاہتا ہے۔ ورنہ میرے جیسے بے اوقات بندے کے لیے تو اس کے پاس سوچنے کی بھی فرصت نہیں تھی۔ میں نے ایک لمحے میں سوچا اور آگے بڑھ کر گڈی اٹھالی۔ پھر ادب سے بولا۔ 
”جی سردار جی حکم۔“ 
”تجھے معلوم ہی ہے کہ شاہ زیب نے چودہ جماعتیں پڑھ لی ہیں۔
تم دونوں ایک ساتھ ہی تو کالج پڑھتے رہے ہو۔ میں چاہتا ہوں کہ اسے اب لاہور یونیورسٹی بھیج دوں۔ تم بھی اس کے ساتھ پڑھنے کے لیے وہیں داخلہ لے لو‘ سارا خرچہ حویلی ہی سے ہوگا۔ وہاں تم اس کے ساتھ رہو گے۔ اس کے لیے معقول ماہانہ رقم بھی ملے گی جاؤ‘ تیاری کرلو‘ کل تم لوگوں نے یہاں سے نکلنا ہے۔“ اس نے بڑے سکون سے اپنا خیال ظاہر کردیا۔ تبھی میں خود پر قابو پاتے ہوئے پر سکون لہجے میں بولا۔
 
”مطلب‘ مجھے وہاں شاہ زیب کا باڈی گارڈ بن کر رہنا ہوگا۔“ 
”ہاں‘ ایک تو ہماری دشمن داری بہت ہے ،یہ تجھے معلوم ہے‘ دوسرا یہ وہاں فقط پڑھنے ہی نہیں جا رہا بلکہ میں اُسے وہاں سے سیاسی طور پر اُبھارنا بھی چاہتا ہوں۔ جیسے ہی یہ یونیورسٹی پڑھ لے تب تک کم از کم صوبے کے لوگ تو اسے جانتے ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا اور بڑے خنک لہجے میں کہا۔
”پھر… !تجھے بھی تو ابھی تیز دھار بننا ہے۔ تمہارے لیے بھی یہ سنہری موقع ثابت ہوگا۔“
”گویا مجھے وہاں پر شاہ زیب کا ملازم بن کر رہنا ہوگا جس کے عوض اتنی نوازشات مجھ پر کی جا رہی ہیں۔“ اس بار میرے لہجے میں تلخی کی ہلکی سی رمق در آئی تھی۔ اس پر سردار نے چونک کر میری طرف دیکھا اور پھر بڑے ٹھہرے ہوئے انداز میں کہا۔ 
”تم اُسے جو مرضی نام دے لو۔
“ یہ کہتے ہوئے وہ طنزیہ انداز میں مسکرا دیا تھا۔ اس کی مسکراہٹ نے جلتی پر تیل کا کام کردیا۔ میں نے بڑے سکون سے وہ گڈی دوبارہ میز پر رکھ دی اور بولا۔ 
”یہ تو قدرت کی تقسیم ہے نا سردار جی کہ آپ کے پاس دولت کا شمار نہیں لیکن مجھے جو میرے رب نے دیا ہے وہ آپ کے پاس نہیں۔ آپ شاہ زیب کے لیے اپنی دولت سے نجانے کتنے باڈی گارڈ خرید سکتے ہیں۔
میرا فن اس جیسے گھٹیا کاموں کے لیے نہیں ہے۔ مجھے اپنے فن کی قدر کرنا آتا ہے اور باقی رہی میرے تیز دھار ہونے کی بات تو وقت سب کچھ بنا دیتا ہے اور کوئی حکم ہے میرے لیے؟“ اس بار میں نے سردار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی تو وہ مسکرا دیا اور بڑے سکون سے بولا۔ 
”تم میں سب سے بڑی کمزوری یہی ہے کہ تمہارا خون بہت گرم ہے۔ یہ تجھے کچھ بھی نہیں سوچنے دیتا۔
جاؤ‘ آج سارا دن میری آفر پر ٹھنڈے دماغ سے غور کرنا۔ بات سمجھ میں آجائے تو حویلی آجانا اپنی تیاری کر کے…!“
اس سے پہلے کہ میں فوری طور پر انکار کردینے کے لب کھولتا اچانک شاہ زیب نے تیزی سے کہا۔ 
”یہ کیسی باتیں چل پڑی ہیں۔“ پھر میری طرف دیکھ کر بولا۔ ”یار کیا تم نے مزید آگے نہیں پڑھنا۔ ہم کل تک اکٹھے پڑھتے آئے ہیں اگر اب ایک ساتھ داخلہ لے لیں گے اور ساتھ میں رہیں گے تو اس میں برائی کیا ہے۔
تم نہ بننا میرا باڈی گارڈ، دوست بن کر رہ سکتے ہو میرے ساتھ۔ دوسرے لوگ تھوڑے ہیں اس کام کے لیے۔“ 
”شاہ زیب‘ چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر… بات تو ایک ہی ہے۔ سنو‘ میں سردار صاحب کی آفر سے انکار کرتا ہوں۔“
”برخوردار‘ تم بہت بڑی آفر ٹھکرا کر محض کنویں کے مینڈک رہنا چاہتے ہو جبکہ میں تجھے آسمان تک پہنچانے کی بات کر رہا ہوں۔
“ سردار نے طنزیہ لہجے میں کہا تو میں مسکراتے ہوئے بولا۔ 
”سردار جی‘ مجھے ابھی آسمان پر نہیں جانا‘ ابھی زمین پر بہت سارے کام ہیں اللہ حافظ۔“ میں نے ان دونوں پر ایک نگاہ ڈالی جو میری طرف ہی دیکھ رہے تھے میں نے مزید کچھ سنے بغیر اپنے قدم واپسی کے لیے بڑھا دیے۔ رہائشی عمارت کی طرف آتے ہوئے راستے میں میری بائیک کھڑی تھی۔ میں نے وہ اسٹارٹ کی تو اس کی آواز نے خاموشی کو چیر دیا۔
میں اپنے آپ کو پر سکون کرتا ہوا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ 
گھر میں داخل ہوتے ہی ماں نے میرا چہرہ پڑھ لیا۔ وہ اس وقت صحن میں لگے نیم کے درخت تلے بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے سامنے سبزی کی ٹوکری تھی۔ اس کے ساتھ ہی دوسری چارپائی پر سوہنی بیٹھی ہوئی تھی۔ میں بائیک کھڑی کر کے اندر جانے لگا تو ماں نے کہا۔ 
”اوئے جمالے‘ ادھر بات سن‘ تجھے خیریت تو ہے نا۔
“ 
میں رک گیا اور وہیں کھڑے کھڑے بولا۔ 
”کوئی بات نہیں ماں سب ٹھیک ہے تو مجھے ناشتا دے بعد میں اس کے ساتھیوں کا اتا پتا معلوم کرنے جاؤں‘ ان کا پتا چل گیا تو ٹھیک ورنہ اسے شہر کے بس اڈے پر چھوڑ دیتا ہوں خود چلی جائے گی۔“ 
”حویلی والوں نے تجھے کیوں بلایا تھا۔“ اماں نے میرے چہرے پر دیکھتے ہوئے پوچھا تو میں اماں کے پاس جا بیٹھا اور وہاں کی ساری رو داد سنا دی۔
وہ چند لمحے میری طرف دیکھتی رہی پھر بولی۔ 
”اچھا کیا تو نے سردار کو انکار کردیا۔“ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئیں۔ 
”ماں‘ کیا تجھے میرا انکار کرنا اچھا نہیں لگا۔“ میں نے الجھتے ہوئے پوچھا تو وہ تڑپ کر بولیں۔ 
”دیکھ جمالے‘ میں نے تجھے اس وقت بھی نہیں ڈرایا تھا جب تو میری چھاتی سے لگ کر دودھ پیتا تھا۔ تو جانتا ہے کہ میں نے آج تک نہ تجھے ڈرایا ہے اور نہ کبھی تیرا حوصلہ توڑا ہے لیکن ابھی‘ ان سرداروں کے ساتھ تیری دشمنی سے تیری زندگی اجیرن ہوجائے گی۔
“ ماں نے کہا تو سوہنی نے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔
”ان کی دوستی کون سا سکون لینے دے گی ماں ،کیا تجھے اپنے بیٹے پر بھروسا نہیں تو بیوہ ہو کر بھی میری پرورش کرتی رہی اور میں تجھے نا امید کردوں گا۔“ میں نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا۔ 

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط