Episode 88 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 88 - قلندر ذات - امجد جاوید

”یہاں سے کب ڈسچارج ہوپائے گی۔“ اس نے پوچھا۔
”یہی کوئی آٹھ سے دس دن تک… کم از کم ایک ہفتہ…“ اس نے بتایا۔
”اوکے ڈاکٹر… میں یہی چاہ رہاتھا کہ مجھے پتہ چل جائے آخر ہمیں یہاں کتنے دن رہنا ہے۔“ جسپال نے بے دھیانی میں کہااور پھرا س سے اجازت لے کر اٹھ گیا۔ وہ تیزی سے سوچ رہاتھا کہ یہ ہفتہ اسے جالندھر میں کیسے گزارنا ہے۔ وہ بے تاب تھا کہ وہ جلد ازجلد اوگی پنڈ واپس چلاجائے اور رن ویر کو چھیڑے بغیر وہ بلجیت سنگھ کواپنا نشانہ بنائے۔
کیونکہ رن ویر یہی چاہتاتھا کہ جسپال اس پر کھل جائے اور وہ اپنی تفتیش کے ڈانڈے اس کی ذات کے ساتھ باندھ دے… وہ اپنے شک کویقین میں بدلنا چاہتے تھے اور اس راستے سے جسپال کو بچنا تھا۔ اس نے اپنا سیل فون نکالا اور کیشیومہرہ کو فون کردیا۔

(جاری ہے)

چندلمحوں بعد اس نے فون ریسیو کرلیا‘ تب اس نے ڈاکٹر کی معلومات اسے دے دیں۔

”تم ایسے کرو جسپال‘ میں ہسپتال ہی کے نزدیک گیتا کالونی ہی میں تمہارے رہنے کابندوبست کردیتاہوں ہوٹل وغیرہ میں تم محفوظ نہیں ہوگے۔
تم ریسرورٹ سے اپنا سامان لے کروہاں آجانا‘ میں تمہیں کچھ دیر بعد کال کرتاہوں۔“
”اوکے …!“ یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیااور پھر ہرپریت کے پاس چلاگیا۔ وہ بے خبر سو رہی تھی۔ وہ ایک طرف کرسی پربیٹھ گیا۔ اس کے اندر بھونچال اٹھاہواتھا۔ دشمنوں نے اسے کم از کم ایک ہفتے تک کے لیے ہسپتال تک محدود کردیاتھا۔ تبھی اچانک اس کے ذہن میں یہ خیال آیا۔
اگر ہائی وے ہوٹل اس کے لیے محفوظ نہیں ہے توکیایہ ہسپتال اس کے لیے محفوظ ہوسکتا ہے؟ اس خیال نے اسے مزید مضطرب کردیا‘ وہ جس قدر اس خیال پر سوچتا چلاجارہاتھا‘ بہت سارے پہلو اس کے ذہن میں آتے چلے گئے۔اس نے جلدی سے فون کال انوجیت کوملائی‘ وہ ابھی جالندھر شہر سے نکلا ہی تھا۔
”خیریت تو ہے ناجسپال…“ اس نے پوچھا تو جسپال نے اپنا خیال اسے بتایا۔
”کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو‘ خیر…! میں کچھ دیر بعد تمہیں فون کرتاہوں…“ یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیا۔ جسپال نے کرسی کے ساتھ ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔
اس وقت وہ نجانے سوچ کی کس راہ پر نکلنے والاتھا‘ اس کے سامنے آنکھیں موندے ہرپریت پڑی تھی‘ جس کے لیے اس کے دل میں نجانے کس قدر پیار امنڈرہاتھا۔ اس کے ساتھ بتائے وقت کی بازگشت اسے جذباتی کرتی چلی جارہی تھی۔
تبھی دروازے پرہلکی سی آہٹ ہوئی‘ پھراس کے ساتھ ہی انسپکٹر اندر آگیا‘ جسپال نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھااور بولا۔
”اوئے انسپکٹر…! یہ تیری پولیس چوکی نہیں ہے جو تو بلااجازت اندر آگیا ہے‘ چل باہر نکل۔“
”میں تم سے بات کرنے آیا ہوں…“ اس نے کافی حد تک دھیمے لہجے میں کہا تو جسپال نے اٹھ کرسرد سے لہجے میں کہا۔
”تجھے کہا ہے نہ نکل جا ‘ تو بس نکل جا…“
”دیکھ میں تجھ سے بات کرنے آیا ہوں۔
“ اس بار اس نے غراتے ہوئے کہا تو جسپال نے پوری قوت سے تھپڑ اس کے منہ پر مار دیا۔ انسپکٹر کو یہ گمان بھی نہیں تھا کہ وہ ایسا کرسکتا ہے۔ اس لیے لڑکھڑاتاہوا دروازے میں جالگا۔ جسپال نے اُسے سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیا اور دوسرا تھپڑ مار دیا پھر بازو سے پکڑ کر باہر راہداری میں نکال لیا۔ باہر دو پولیس والے کھڑے ہوئے تھے‘ انہوں نے اپنے انسپکٹر کا حشر دیکھا تو چھڑانے کے لیے لپکے۔
تبھی اردگرد شور مچ گیا کہ پولیس والے ایک بندے کومار رہے ہیں۔ وہ ایک نجی ہسپتال تھااور وہاں پرسیکورٹی والے بھی تھے۔ وہ سبھی تقریباً ایک سے ڈیڑھ دو منٹ تک آپس میں بھڑتے رہے۔ جسپال نے اگردو ماریں تو انہوں نے چار ماردیں‘ تب تک سیکیورٹی والے آن دھمکے‘ انہوں نے الگ الگ کرتے ہوئے جسپال کو ایک طرف کیا‘ تبھی ان کے بڑے نے پوچھا۔
”یہ ہنگامہ کیوں ہے؟“
”میں اس سے بات کرنے آیا تھااور یہ میرے گلے پڑگیا… اسے نہیں معلوم کہ وردی کیاہوتی ہے …میں اب تجھے بتاتاہوں…“ انسپکٹر نے انتہائی غصے میں کہا۔
”اوئے بے غیرت سچ بتا‘ تومجھ سے رشوت مانگنے آیا تھا‘ ورنہ سخت کارروائی سے ڈرارہاتھا‘ یہ چھوڑو… مجھے ہسپتال کے ہیڈ سے ملواؤ‘ میں پوچھوں‘ یہ ہمارے کمرے میں اجازت کے بغیر کیسے آیا‘ چلو اس کے پاس چلو…“ جسپال نے تیزی سے مگر اونچی آواز میں کہا۔
”انسپکٹر…کیا آپ نے اجازت لی تھی؟“ سیکیورٹی گاڑد نے پوچھا۔
”ہمیں کیااجازت لینے کی ضرورت ہے اوئے۔
“ انسپکٹر نے بھنا کر کہا۔
”توچلو‘ پھر ہیڈ کے پاس… وہی آپ کا فیصلہ کرتے ہیں۔“ سیکیورٹی گارڈ نے کہا۔
”تو ہمیں روک کے دکھا…“ انسپکٹر نے غصے میں کہا تو جسپال نے ایک تھپڑ مزید جڑ دیااور چیخ کربولا۔
”میں روکوں گاتمہیں ‘تو یہاں سے جاکر دکھا۔“
اس چیخ وپکار میں لوگوں کارش بڑھنے لگا تھا۔تبھی ہسپتال کاہیڈ اور مالک بھاگتا ہوا‘ وہاں آگیا۔
وہ موٹی توند والا شخص تھا‘ جس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ اس نے آتے ہی پوچھا۔
”کیابات ہوگئی…؟“
سیکیورٹی گارڈ نے اپنی طرف سے تفصیل بتائی تو جسپال نے کہا۔
”یہ کیسا قانون ہے یہاں پر ‘گولی بھی ہم پرچلی اور یہ دھمکیاں بھی ہمیں لگا رہا ہے۔ اور آپ‘ کیا یہاں سیکیورٹی ایسی ہی ہے‘جو چاہے‘ جس وقت چاہے کسی کا آکر گریبان پکڑ لے‘ کیا یہ آپ کی اجازت سے ہمارے کمرے میں گھسا ہے۔
”میں اس کے پاس آیا تھا کہ زخمی کابیان لے لوں۔“ انسپکٹر نے حالات اور ماحول کو سمجھتے ہوئے کافی حد تک تحمل سے کہا تو ہیڈ نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
”تو آپ کو پہلے ہم سے اجازت لینی چاہیے تھی۔ ہم سے پوچھنا چاہیے تھا کہ مریض اس حالت میں ہے کہ وہ بیان دے بھی سکتا ہے یانہیں‘ یہ تو کوئی طریقہ نہیں۔“
”میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا…“ انسپکٹر نے کہاتو جسپال بولا۔
”اسے اپنے کمرے میں بٹھائیں اور میڈیا کو یہاں بلوائیں ‘ اس کے سامنے اس کاچہرہ ننگا کریں…کل سے اس کو حملہ آور پکڑ کردیا ہے‘ اس کااس نے کچھ نہیں کیا‘ اور بیان لینے یہاں آپہنچا ہے۔“ یہ لفظ اس کے منہ ہی میں تھے کہ اسے کیشیو مہرہ کا چہرہ دکھائی دیا۔ اس کے ساتھ کچھ لوگ بھی تھے۔ اس نے آتے ہی صورت حال کے بارے میں آگاہی لی اور ہیڈ کو اپنا تعارف کراکربولا۔
”یہ اب آپ کی ذمہ داری ہے‘ کہ آپ اس انسپکٹر کے خلاف کیس بنوائیں‘ اسے اپنے کمرے تک محدود رکھیں‘ میں ابھی میڈیاوالوں کو بلاتا ہوں…“ یہ کہہ کر اس نے اپنا سیل فون نکالااورنمبر پش کرنے لگا۔ تبھی ہیڈ کی جان پر بن گئی۔ ظاہر ہے معاملہ میڈیا میں گیاتو اس کے ہسپتال کے بارے میں بھی غلط تاثر جانے والا تھا۔ وہ منت بھرے لہجے میں بولا۔
”آپ…ذرا ٹھہریں… ہم آفس میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں… آئیے…“ یہ کہتے ہوئے اس نے میرا بازو پکڑااورا پنے آفس کی جانب چل پڑا۔
انسپکٹر حالات کی نزاکت کو بھانپ گیاتھا۔ ممکن ہے آفس میں سکون سے بیٹھنے تک عقل آگئی ہو۔ اس نے سب کے بیٹھتے ہی معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔
”بلاشبہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے‘ مجھے آپ سے اجازت لے کر ان کے کمرے میں جانا چاہیے تھا۔
میں اس پر معذرت خواہ ہوں۔“
”وہ تو ٹھیک ہے تم آئے کس لیے تھے؟“ جسپال نے غصے میں پوچھا ۔ اس کابس نہیں چل رہاتھا کہ وہ اپنا سارا غصہ اس پر اتار دے۔
”دیکھیں… آپ کو غلط فہمی ہوگئی ہے‘ آپ میری بات سنیں تو میں آپ کو بتاؤں…“ اس نے تمیز سے کہا ۔
”اچھا چلو بولو۔“ کیشیو مہرہ نے تیزی سے کہا۔
”میں انہیں بتانے آیا تھا کہ کل جوحملہ آور انہوں نے ہم تک پہنچایاتھا‘ وہ تھانے سے بھاگ گیا ہے‘ اور اس سے…“
”انسپکٹر کیوں جھوٹ بولتے ہو تم…کل تم نے ہمارے سامنے اپنے دوحوالاتیوں کو ہسپتال روانہ کیا تھا‘ کیا ایسا نہیں ہے؟“ کیشیو نے طنزیہ انداز میں کہا تووہ دھیرے سے بولا۔
”میں بس اس پر آپ سے بات کرنے آیا تھا‘ وہ حملہ آور…“
”کیا ہوااسے…؟“ جسپال نے تیزی سے کہا۔

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط