شام کے سائے پھیل کر اندھیرا چھاگیاتھا۔ جب چندی گڑھ ریلوے اسٹیشن پر ٹرین رکی۔ جسپال اور منالی دونوں کے پاس سامان نہیں تھا‘ وہ ان کے ساتھ والے نوجوان لے گئے تھے۔ اس لیے وہ دونوں ایک ساتھ اٹھ کر بوگی سے باہر آگئے‘ اگرچہ جالندھر سے چندی گڑھ تک دونوں نے خوب باتیں کی تھیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ خاصاجھوٹ سچ بول کر تکلف کی دیوار گرادی تھی۔ وہ رعب حسن جو منالی کو دیکھ کر جسپال کو طاری ہوگیاتھا اب وہ کافی حد تک کم ہوچکاتھا۔
وہ اس سے ایک قدم آگے تھی۔ اسٹیشن پر اترنے سے پہلے اس نے اپنا پہناوا بھی بدل لیا تھا۔ اس وقت وہ جالندھر والی منالی لگ ہی نہیں رہی تھی۔ ٹائیٹس کے جیسی نیلی جین اور تنگ سی شرٹ‘ پنسل ہیل‘ کھلے گیسو میں وہ بھرپور لڑکی دکھائی دے رہی تھی‘ جس میں بلا کی کشش ہو‘جسپال نے فوراً ہی اس سے نگاہیں ہٹالیں اور چندی گڑھ کے جدید اسٹیشن کو دیکھنے لگا‘ اس کی عمارت کو جدید طرز پر بنایا گیا تھا اور نیلے رنگ کو کافی حد تک بولڈ رکھا ہواتھا۔
(جاری ہے)
پلیٹ فارم سے نکلتے ہوئے وہ دونوں شانہ بہ شانہ چلتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ وہ اسٹیشن سے باہر آگئے‘ جسپال کافی حد تک محتاط تھا‘ مگر اسے کہیں بھی کوئی ایسا شخص دکھائی نہیں دیا جو اس کی طر ف متوجہ ہو۔ منالی جیسے ہی ایک جگہ کھڑی ہوئی‘ اسی لمحے ایک مہنگی کاراس کے پاس آن رکی‘ جس کا دروازہ منالی نے خود کھولا اور جسپال کوبیٹھنے کااشارہ کیا۔
اس کے بیٹھتے ہی وہ خود بیٹھی اور کار چل دی۔ کچھ دور جانے کے بعد جسپال نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔
”بھارت کے دوسرے شہروں سے زیادہ یہ شہر جدید دکھائی دے رہا ہے۔“
”نیابنا ہے نا… بنایا ہی جدید انداز میں ہے‘ اس کاتاثریہ دیا گیا ہے جیسے کوئی فارن کا شہر ہو‘ تم دیکھ لوگے اس کا یہ تاثر ہے کہ نہیں۔“ منالی نے عام سے انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا‘ وہ بھی بڑبڑاتے ہوئے بولا۔
”ہاں تھوڑا تاثر تو اس کامختلف ہے۔“
”یہ میرا شہر ہے جسپال‘ میں ا س شہر کو خوب سمجھتی ہوں ،ابھی کچھ دیر بعد دیکھوگے یہاں بڑے بڑے شاپنگ مالز ہیں۔ یہاں کے امیر ترین علاقوں میں سے ایک علاقہ سیکٹر سترہ ہے‘ جو یہاں کا مشہور ترین سیکٹر ہے، اس میں وہ شاپنگ مال ہے جو تمہاری منزل ہے‘ یعنی جسبیرسنگھ کا شاپنگ مال۔“ منالی نے سرگوشی کے سے انداز میں کہا۔
”آج تم مجھے ہی جالندھر سے لینے گئی تھی۔“اس نے ایک دم سے موضوع بدل دیا۔
”نہیں‘ جالندھر جاکرمعلوم ہوا‘ مجھے آج صبح وہاں بلایا گیا تھا اور پھر تمہارا ٹاسک میرے ذمے لگادیا جو کل دوپہر سے پہلے ہوجائے گا۔“
اس کے یوں کہنے پر جسپال سمجھ گیا کہ ڈرائیور اس کے اعتماد کا ہے‘ سو اس کے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑگئے۔ ٹرین میں انہوں نے بہت باتیں کرلی تھیں‘ سو ان کے درمیان خاموشی رہی‘ منالی اپنے طور پر سوچتی رہی اور وہ شہر کو دیکھتا رہا۔
یہاں تک کہ وہ ایک پوش علاقے میں جاپہنچے۔ وہ بڑا صاف ستھرا علاقہ تھا۔ ایک بنگلہ نما کوٹھی کے سامنے کار رکی ہی تھی کہ گیٹ کھل گیا۔ وہ کار سمیت اندر چلے گئے۔ وہ ڈرائنگ روم میں گیا تو اسے لگاجیسے وہ کسی بورپی ملک کے گھر میں آگیا ہو۔ منالی اسے سیدھا کمرے میں لے گئی۔
”یہاں آرام کرو‘ میں ابھی آتی ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ پلٹ گئی۔ اس وقت وہ فریش ہوچکاتھا جب منالی دوبارہ کمرے میں آئی‘ وہ پہلے سے زیادہ فریش دکھائی دے رہی تھی۔
”جسپال ! آؤ چلیں۔ کھانا بھی باہرسے کھائیں گے اور تمہارے لیے تھوڑی شاپنگ بھی کرلیں۔“
”میرے لیے شاپنگ کرنی ہے تم نے؟“ اس نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”اپنا لباس دیکھو‘ میلا ہو رہا ہے‘ اور پھر جسبیر کے شاپنگ مالز سے کوئی سوٹ خریدنا تو اوربھی اچھا ہے نا۔“ اس نے معنی خیز انداز میں کہا تووہ اس کے ساتھ چل پڑا۔ منالی کی متانت اس کے حسن میں اضافہ کاباعث بن رہی تھی۔
پورچ میں ڈرائیور کار لیے موجود تھا۔ وہ دونوں پچھلی سیٹ پر بیٹھے تو گاڑی چل پڑی۔
وہ ایک بڑا شاپنگ مال تھا۔ پارکنگ میں کار کھڑی ہوئی تووہ دونوں پیدل ہی چل پڑے۔ اندر ایک جہان آباد تھا۔ یوں لگ رہاتھا جیسے سارا چندی گڑھ یہیں شاپنگ کرنے آگیا ہے۔ وہ سب سے پہلے گارمنٹس کی طرف گئے‘ جہاں سے جسپال نے اپنے لیے کافی کچھ خریدا‘ پھر ایک سیل فون شاپ پر جاکر نیا سیل فون لیا‘ تبھی جسپال نے منالی سے پوچھا۔
”اس کا کنکشن…؟“
”ہے میرے پاس‘ جو کہیں بھی رجسٹر نہیں ہے۔ ایسے کنکشن رکھنے پڑتے ہیں۔“ اس نے سرگوشی کے سے انداز میں کہا۔
”اوکے…!“ جسپال نے معنی خیز انداز میں کہا تووہ دکان سے ہٹ کربولی۔
”جسبیر اندازً صبح نوبجے کے بعد یہاں آتا ہے‘ یہاں اوپر پہلی منزل پر اس کاآفس ہے‘ ابھی چلتے ہیں اور آفس دیکھ آتے ہیں‘ تم بھی یہ ساری لوکیشن دیکھ لو‘ پھر بیٹھ کر ڈسکس کرتے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔
“
”اوکے۔“ جسپال نے مطمئن ہوتے ہوئے کہااور یوں ہوگیا جیسے وہ وہاں تفریح کی غرض سے آیا ہو۔ وہ دونوں وہاں پر تقریباً دو گھنٹے تک رہے‘ اس درمیان انہوں نے وہیں سے فاسٹ فوڈ لیا۔ وہیں کھا کر وہ واپس گھر آگئے۔
وہ دونوں بیڈ پر آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے درمیان ایک کاغذ رکھا ہوا تھا۔ جس پر منالی لکیریں کھینچ کر اسے سمجھا رہی تھی۔
”یہ پارکنگ ہے لیکن جسبیر کی گاڑی یہاں سے ہٹ کر کھڑی ہوتی ہے یہاں پر۔“ اس نے کاغذ پر ایک جگہ پنسل رکھتے ہوئے کہا۔” پھر وہ اس گیٹ سے اندر جاتا ہے۱‘ اس دوران اس کے ساتھ تقریباً چار گارڈ ہوتے ہیں۔ ان میں سے دو نیچے رہ جاتے ہیں اور دو اس کے ساتھ لفٹ میں سوار ہو کر اوپر جاتے ہیں۔ یہ لفٹ لابی میں کھلتی ہے‘ جو تم نے دیکھی ‘ سامنے اس کاآفس ہے‘ دو گارڈ یہاں رُک جاتے ہیں۔
یہ اس کے ساتھ والا کمرہ ہے‘ جہاں اس کا ماتحت عملہ ہوتا ہے۔ جسبیر دن کے ایک بجے تک یہاں رہتا ہے‘ اور پھر اس طرح واپس ہو کر اپنے گھر چلا جاتا ہے۔“
”منالی… یہاں شاپنگ مال کی بجائے اس کاگھر…“ جسپال نے کہاتو وہ تیزی سے بولی۔
”نہیں…! وہ جس علاقے میں رہتا ہے‘ وہاں سیکیورٹی کا بہت زبردست بندوبست ہے۔ ایک تووہ علاقہ سیکیورٹی کے حوالے سے بہت مضبوط ہے ‘دوسرا ادھر حکومتی عمارتیں ہیں‘ سیکٹریٹ ہے‘ اس تک وہاں پہنچنا اگرچہ ناممکن نہیں ہے لیکن ادھر پلاننگ بہت لمبی کرنا ہوگی‘ یہ شاپنگ مال والا آسان ہے یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ نکلنا بہت آسان ہے‘ جدھر مرضی نکل جاؤ۔
“
”ہاں…! یہ تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔“ اس نے سرہلاتے ہوئے کہا۔
”سو…! یہ تین پوائنٹ ہیں‘ نمبر ایک پارکنگ سے گیٹ تک‘ نمبر ۲ لابی میں لفٹ سے نکلتے ہی اور تیسرا اس کے آفس میں‘ ان تینوں میں سے کوئی ایک پوائنٹ دیکھو‘ کیونکہ یہ سب تم نے کرناہے‘ میں پھر اسی مناسبت سے نکلنے کا بندوبست کروں۔“
منالی نے کہا تو اس نے ایک دولمحے سوچا اور پھر حتمی انداز میں کہا۔
”لابی میں ٹھیک رہے گا۔“
”اس کی وجہ …؟“ منالی نے پوچھا۔
”نیچے مزاحمت زیادہ ہوگی‘ وہ چاروں گارڈ ہی نہیں‘ کھلی جگہ ہونے کے باعث لوگ زیادہ متوجہ ہوجائیں گے‘ پھر نکلنامشکل ہوجائے گا‘ کیونکہ آفٹر آل یہاں بندے زیادہ چاہئے ہوں گے‘ رش ویسے ہی نگاہوں میں آجائے گا۔“
”ٹھیک ہے‘ اور لابی کیوں؟“ اس نے پوچھا۔