جب کوئی کسی پرظلم کررہاہو‘تب اتنا جوش نہیں ہوتا‘ جتنا بدلہ لیتے وقت جوش ہوتا ہے۔ مظلوم جب انتقام لینے پرُاتر آئے تو پھراس سے بڑا ظالم کوئی نہیں ہوسکتا۔بدلے کی آگ انسان کے اندر قوت بھردیتی ہے اور یہ قوت اندھی ہوتی ہے۔ اس میں کون کس قدر جل جاتا ہے یہ نہیں دیکھا جاتا۔میں اور چھاکے نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا‘ پھر اپنے سامنے تڑپتے ہوئے ان لوگوں کو جنہیں اگر میں ختم نہ کرتا تو وہ مجھے ختم کردیتے۔
ہم نے چشم زدن میں فیصلہ کرلیا کہ کیا کرنا ہے‘چھاکا پاؤں کی طرف سے اور میں نے بازوؤں کی طرف سے ایک کو پکڑااور ڈیرے کے پچھواڑے پھینک دیا۔ مجھے پورا یقین تھا کہ جس کے کچھ بچے کھچے سانس بھی ہوں گے‘ وہ اتنی اونچائی سے گر کرختم ہوجائیں گے‘ یکے بعد دیگرے باقی پانچوں کو بھی ایسے ہی جھلا کر نیچے پھینک دیا۔
(جاری ہے)
پھر میں نے ان کے ہتھیار اکھٹے کیے اور وہ بھی ایک ایک کرکے نیچے پھینک دیئے۔
میں نے چھاکے کو اشارہ کیا کہ وہ ٹارچ سے دلبر کو کام مکمل ہوجانے کی اطلاع دے دے اور خود چھت کے کنارے جاکر نیچے صحن میں دیکھا۔
فائرنگ کی آواز سے یہ تو ہوہی نہیں سکتاتھا کہ نیچے ہلچل نہ مچی ہو۔ مگر میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سوائے چاچے بیرو کے‘ کوئی بھی صحن میں نہیں تھا۔ وہ حیران وپریشان اوپر کی طرف دیکھ رہاتھا۔ میں نے مزید وقت ضائع نہیں کیااور دراڑوں کے ذریعے نیچے اترنے کی کوشش کرنے لگا۔
چھاکا مجھ سے پہلے ہی نیچے کی طرف جارہاتھا۔پھر دھپ کی آواز کے ساتھ پتے چرچرائے تو میں سمجھ گیا چھاکا نیچے اُتر گیا ہے۔ میں نے بھی اس کے قریب چھلانگ لگادی۔
”یار! ڈیرے میں چاچے بیرو کے علاوہ کوئی بندہ ہی نہیں ہے‘ وہ اکیلا…“ میں نے سرگوشی میں تیز تیز کہا تو اس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”سارے ملازمین ہیں‘ مگر وہ نشے میں دھت ہوں گے‘ انہیں ساتھ میں بہت کچھ ملاکر دیا ہے‘ تُو ان کی فکر مت کر‘ یہاں سے نکل۔
“ یہ کہتے ہوئے اس نے اُس جانب دیکھا جدھر سے جیپ آنا تھی۔ اس کی ہیڈ لائٹس بند تھیں اور اس کے گھر گھر سے اندازہ ہوگیا‘ جیپ رکتے ہی دلبر کے ساتھ اس کے دو ساتھی تیزی سے اتر کر آئے۔
”وہ تیسرا کہاں ہے؟“ چھاکے نے پوچھا تو دلبر نے سرگوشی میں ٹارچ کی محدود روشنی میں دیکھااور بولا۔
”ان تینوں کے پاس جوبندھے ہوئے پڑے ہیں‘ چل اٹھا کرانہیں جیپ میں ڈال۔
“
ہم نے تیزی سے انہیں جیپ میں ڈالا‘ ہتھیار اٹھا کر ان کے قریب رکھے اور واپسی کے لیے چل پڑے۔ ہم جیپ میں ٹھنسے ہوئے تھے لیکن ہمیں وہاں سے تھوڑا فاصلہ ہی طے کرناتھا‘ جلد ہی ہم اس جگہ پہنچ گئے جہاں پر وہ تینوں بندھے ہوئے تھے۔ میں نے دلبر کے کاندھے پرہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”لے بھئی دلبر…تواپنا بدلہ لے لے۔“
شاید وہ اس لمحے کامنتظر تھا‘ اس نے اپنا ریوالور نکالااور بہت قریب سے اپنے سامنے بندھے ہوئے تینوں بندوں پرخالی کردیا۔
ہم سب ان کے تڑپنے کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ وہ ناسور تھے جو ظالم کے ہاتھوں کو مزید مضبوط کرنے کاباعث بنتے تھے جو اپنے جیسے لوگوں پر زیادہ ظلم کرتے۔ پھرجیسے ہی دلبر تیز تیز سانسیں لیتا ہوا پیچھے ہٹا‘ میں نے اپنی اندرونی جیب میں ہاتھ ڈال کربڑے نوٹوں کی ایک گڈی نکال کر اس کی طرف بڑھادی۔ اس نے میری طرف دیکھ کر حیرت سے کہا۔
”یہ کیا…؟“
”رکھ لو…! اور یہ ذہن میں رکھنا‘ نہ تم نے کچھ دیکھا ہے اور نہ کیا ہے‘ تم جاؤ اپنے کنویں پر‘ اور جاکر بکرا ذبح کرو‘ میں آتاہوں۔
“
اس نے بڑے سکون سے وہ گڈی پکڑی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان لاشوں کو اتار کرنیچے پھینکا۔ پھرانہوں نے ہماری بائیک ہمارے حوالے کی اور خود جیپ پرسوار ہوکر چلے گئے۔ تبھی میں نے چھاکے سے کہا۔
”یہی وقت سب سے خطرناک ہے‘ رندھاوا یہیں کہیں پاس ہے اپنی نفری لے کر… کہیں ان کے ساتھ ہم بھی… سمجھ گئے نا…“
”تم فکر نہ کرو۔“یہ کہتے ہوئے اس نے بائیک اسٹارٹ کی ا ور پھر جیسے ہی میں بیٹھا‘ اس نے ایک طرف کارخ متعین کرتے ہوئے بائیک ہوا کردی۔
ہمارے کپڑے خون سے لتھڑے ہوئے تھے۔ ہم اس حالت میں گاؤں نہیں جاسکتے تھے۔ ہمیں ان کپڑوں سے جان چھڑانا تھی۔ میرے ذہن میں یہ پہلو اچھی طرح موجود تھا کہ ہمارے ہاں جہاں سراغ لگانے والے کھوجی ہوتے ہیں‘ وہاں کھوج لگانے کا کام کتوں سے بھی لیاجاتا تھا۔ میں اس کھوج کو رستے ہی میں ختم کردینا چاہتاتھا کہ اگر کوئی کوشش بھی کرے تو مجھ تک نہ پہنچ پائے۔
حالانکہ میں خود انہیں یہ پیغام دینا چاہتاتھا کہ یہ سب میں نے ہی کیا ہے۔ اب جبکہ آنکھ مچولی کا کھیل شروع ہی ہوچکاتھا تو کیوں نہ میں اسے چوہے بلی کا کھیل بنادوں۔ میں نے بھیدے کو ایک مخصوص مقام پر پہنچ کر انتظار کرنے کے لیے کہا ہواتھا۔ سومیں نے چھاکے کو کہہ دیا کہ وہ ادھر جائے۔
جلدہی ہم نہر کنارے جاپہنچے۔ ذرا فاصلے پر ایک برجی کے پاس بھیدہ بیٹھا ہوا دکھائی دیا۔
وہ وہاں یوں بیٹھا ہوا تھا جیسے پانی لگانے کے لیے وقت کے انتظار میں ہو۔ اس کے پاس ایک لاٹھی‘ لالٹین‘ اورکسی تھی۔ میں اس کے قریب جاکر رک گیا۔ پھر بغیر کچھ کہے اپنے کپڑے اتار کر ایک طرف پھینک دیئے اور نہر میں چھلانگ لگادی۔ میں نے خود کو مل مل کر صاف کیا‘ جب یہ یقین ہوگیا کہ میرے کسی جگہ خون نہیں لگا تو باہر آگیا۔ بھیدہ میرے کپڑے لیے کھڑا تھا۔
میں نے اپنے کپڑے پہنے تو چھاکابھی نہا کر نکل آیا۔ وہ بھی کپڑے پہن چکاتوبھیدے نے جلدی سے بائیک کوپانی مارا‘ چھاکے نے لالٹین کا تیل ان کپڑوں پرڈالااور انہیں جلادیئے۔ کچھ دیر بعد وہ جل کر خاک ہوگئے جسے نہر میں بہادیاگیا۔
”بھیدے… چل تو اب واپس ڈیرے پر جا …“ میں نے اتنا کہااور جواب سنے بنا آگے بڑھ گیا۔ میرا رخ اب گاؤں کی طرف تھا اور میں نے گھوم کر جانا تھا۔
راستے میں شہر کوجانے والی پکی سڑک آنا تھی‘ پھر سردار شاہ دین کی حویلی اور گاؤں کاکنارا‘ مجھے امید تھی کہ جب تک میں نے وہاں پہنچناتھا‘ حویلی میں ہلچل ہوچکی ہوگی یا پھر صبح ہی پتہ چلناتھا۔ وہاں سے گزرتے ہوئے مجھے یہ اندازہ ہوجاناتھا۔
میں اور چھاکا ایک ہی بائیک پر تھے۔ حویلی کے سامنے پہنچ کرمیں نے رفتار جان بوجھ کر آہستہ کرلی۔
مجھے لگا کہ وہاں پر کوئی ہلچل نہیں ہے‘ ماحول بالکل پرسکون ہے۔ میں نے رکنامناسب نہیں سمجھا اور آگے ہی بڑھتا چلا گیا۔ گاؤں کی گلیوں میں بھی وہی سنسان پن تھا جو معمول کے مطابق ہوتا ہے۔ میں نے بائیک اپنی گلی کی جانب موڑلی۔
ماں جیسے میرے انتظار میں ہی تھی۔ جب تک میں نے صحن میں بائیک کھڑی کی‘ اس وقت تک چھاکا‘ باہر والے کمرے میں ہتھیار رکھ آیا۔
ماں کچن میں چلی گئی اور میں اندر کمرے میں جاکر سکون سے لیٹ گیا۔ مجھے کچھ علم نہیں تھا کہ باہر کیا ہوگیاہوگا‘ رندھاوا نے کیا کیا‘ دلبر واپس کنویں پر پہنچا تھایانہیں اور خاص طور پر سردار شاہ دین کو ڈیرے پر ہونے والے واقعہ کی اطلاع ملی یانہیں۔ ان سب سوالوں کے جواب میرے پاس نہیں تھے۔ ویسے بھی شام سے مسلسل بھاگ رہاتھا۔ جس کے باعث تھکن بھی محسوس ہو رہی تھی۔
اس لیے میں نے دماغ سے سب کچھ نکالااور صبح نور کے تڑکے کاانتظار کرنے لگا۔
# # # #
جس وقت جسپال نے جالندھر شہر کے ماڈل ٹاؤن والے پل سے نیچے جیپ اتاری تو ہرپریت نے دائیں جانب مڑنے کااشارہ کیا۔ وہ دونوں غور سے راستہ دیکھ رہے تھے۔ وہ دونوں سرشام ہی جالندھر میں پہنچ چکے تھے اور اس وقت آدھی رات گزر چکی تھی۔ اردگرد کی روشنیوں سے راستہ روشن تھا۔
جسپال نے نیلی جین اور بلیک ٹی شرٹ کے ساتھ جوگر پہنے ہوئے تھے اور سر پر سیاہ رنگ کی پگڑی تھی۔ جبکہ ہرپریت نے وہی دوپہر والا لباس زیب تن کیا ہواتھا‘ اس نے اپنے گیسوؤسنوار کر باندھ لیے تھے۔ بس تبدیلی یہی تھی کہ اس کے پاؤں میں بھی گرے رنگ کے جوگر تھے۔اس سڑک پر تھوڑا سا چلنے کے بعد دائیں ہاتھ پر گردوارا تھا‘ جسے دیکھتے ہی جسپال نے کہا۔
”اب ہمیں اس ڈائریکشن میں آگے جانا ہے‘ کیا تم ٹھیک طرح سے وہاں تک پہنچ جاؤگی؟“
”تم فکر نہیں کرو جسّی جی‘ میں نے اس شہر میں پڑھا ہے اور میرا کالج اسی علاقے میں تھا‘ یہاں تک فقط دس منٹ کے فاصلے پر وہ جگہ ہے جہاں ہمیں جانا ہوگا‘ بس پارک سے اگلی والی دائیں گلی میں مڑجانا۔“ ہرپریت نے عام سے لہجے میں کہاتووہ مطمئن ہوکر ڈرائیونگ کرنے لگا۔
ہرپریت اسے دائیں بائیں مڑنے کا کہتی رہی اور وہ چلتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ بولی۔ ”جسی…! وہ دیکھو …! وہ سامنے گھر ہے‘ اب تم دیکھ لو‘ اپنے حساب سے کہ پارکنگ کہاں کرنی ہے؟“
”ابھی بتاتاہوں۔“ یہ کہہ کر وہ ادھر ادھردیکھنے لگا۔ تبھی ایک کار اسے کراس کرتے ہوئے آگے جاکر بائیں طرف کا اشارہ دے کر آہستہ ہوگئی۔ وہ بھی آہستہ ہوگیا۔ آگے والی کار رک گئی تو جسپال نے بھی جیپ روک دی اور انہیں غور سے دیکھنے لگا۔
ہرپریت نے جس عمارت کی نشاندہی کی تھی‘ وہ اس سے تقریباً سوگز کے فاصلے پر تھے۔ کار سے ایک لمبا تڑنگا نوجوان برآمد ہوا۔ اس نے بلیک ڈریس پتلون کے ساتھ سفید چیک دار شرٹ پہن رکھی تھی۔وہ بڑے اعتماد سے جیپ کے ڈرائیونگ سائیڈ کی طرف آیا‘ تب تک جسپال نے شیشہ اتار لیا۔
”جوگی ہوں جسپال جی۔“
”اوہ …تم ہو…“اس نے جواب دیا اور پھرہاتھ ملایا۔
”یہاں صرف دو لوگ ہیں۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ ان میں من راج ہے کہ نہیں‘ باقی سیکیورٹی کے نام پر صرف دو بندے ہیں انہیں قابو میں کرنا کچھ اتنامشکل نہیں ہوگا۔“ جوگی نام کے اس نوجوان نے آہستگی سے عام سے انداز میں کہا۔
”اور کتنے لوگ ہیں؟“ جسپال نے پوچھا۔
”ممکن ہے دوچار ملازم ہوں…مزید… میں نے شام ہی کے وقت جائزہ لے لیاتھا۔
“ اس نے اعتماد سے کہا۔
”ٹھیک ہے ڈن…“ جسپال نے کہا۔
”ڈن… پلان میں نے آپ کوبتادیاتھا۔“اس نے کہا اور پلٹ گیا جسپال نے وہیں گاڑی کوموڑااور پھر سڑک کی سائیڈ پرلگادیا۔ پھر اپنا پسٹل نکال کر دیکھا‘میگزین رکھے تو ہرپریت نے بھی ڈیش بورڈ سے پسٹل نکال لیا‘ تبھی جسپال نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”دروازہ کھلا چھوڑ کے نیچے اتر آؤ۔“