میرے یوں کہنے پر اس نے زور دار قہقہہ لگایا۔ پھر تضحیک آمیز انداز میں میری طرف دیکھ کر دوبارہ قہقہہ لگایا۔ پھر چند لمحے میری طرف دیکھتے رہنے کے بعد وہ جیپ سے اترنے لگا۔ مگر میں اسے کب موقع دیتا اس سے پہلے کہ اس کا پاؤں زمین پر پڑتا۔ میں نے چشم زدن میں پسٹل نکالا اور اس کی پنڈلی پر فائر کردیا۔ میں نے اپنی جگہ تبدیل کی اور دوسری طرف پہلو میں آکر اس کے کاندھے میں فائر جھونک دیا۔
اس سے پہلے کہ دوسرے اپنا اسلحہ سیدھا کرتے میں نے پورا میگزین ان پر خالی کردیا۔ یہ سب آدھے منٹ کے دورانیے میں ہوا۔ مجھے میگزین بدلنا تھا۔ میں اچانک ہی سامنے والے گھر میں داخل ہوگیا۔ میں نے تیزی سے میگزین نکالا اور بدلتے ہی دیوار پر چڑھنے لگا چند لمحوں میں دیوار کے اوپر سے باہر دیکھا۔
(جاری ہے)
ان کی حالت نازک تھی۔
”جس نے بھی حرکت کی وہ اپنی زندگی سے جائے گا سر پر ہاتھ رکھ کر جیپ سے نیچے اتر آؤ۔
“
جس وقت میں یہ کہہ رہا تھا، ان میں سے ایک سیانے نے اپنا دایاں ہاتھ قریب پڑی گن کی طرف بڑھایا ۔میں نے اس کے ہاتھ کا نشانہ لیا اور فائر کردیا۔ وہ چیخ مار کر الٹ گیا وہ سبھی سہم گئے۔ شاید انہیں اس قدر فائر ہونے کی توقع نہیں تھی۔ وقت سے پہلے ہوجانے والا اندازہ ہی انسان کو یا تو فتح سے ہمکنار کردیتا ہے یا موت اس کے مقدر میں ہوتی ہے۔
ان کا اندازہ غلط ہو گیا تھا۔ ممکن ہے انہوں نے یہی خیال کیا ہو کہ وہ ایک چیونٹی کو مسلنے کے لیے جا رہے ہیں۔ وہ لیڈر بھی میری جانب پھٹی پھٹی مگر درد ناک نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے کاندھے پر رکھا ہوا ہاتھ خون سے تر ہوچکا تھا۔ فائرنگ کی آواز سے گلی کے دروازے کھل کر بند ہوگئے تھے۔ میں نے پسٹل کی نال سے انہیں جیپ سے اترنے کا اشارہ کیا۔
”اب بتاؤ‘ تم میں سے پہلے کس نے مرنا ہے؟“
میرے یوں کہنے پر دوسروں کے تو چہروں پر رنگ آکر گزر گئے مگر ان کا لیڈر اپنے حواس میں تھا اس نے پینترا بدلتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے جمال‘ تو بھاری پڑ گیا ہے، ہمیں جانے دے۔“
”ٹھیک ہے‘ یہ بتا دو کہ تمہیں کس نے بھیجا ہے میں تجھے جانے دوں گا۔“ میں نے سرد لہجے میں پوچھا تو وہ چند لمحے تذبذب میں پھر اپنی پشت پر موجود ساتھیوں کی آہ بکا سن کر بولا۔
”پیر زادہ وقاص نے…!“ اس نے کہا تو میں ایک دم سے چونک گیا۔ اسے کیسے معلوم ہوا کہ سوہنی میرے پاس ہے۔ یہی سوال میں نے اس سے کیا تو وہ بولا۔
”یہیں اس گاؤں سے پتا چلا ہے اس لڑکی کے ساتھ والے پیر زادہ کے پاس ہیں۔“ اس نے درد ناک لہجے میں کہا۔ اس کی آواز اب ڈوبنے لگی تھی یا وہ ڈراما کر رہا تھا۔
”ٹھیک ہے تم لوگ جاؤ‘ اسے کہنا کہ لڑکیوں کے ساتھیوں کو یہاں بھیج دے میں لڑکی انہیں دے دوں گا اور ہاں، اسے بتا دینا میں نے لڑکی کو اغوا نہیں کیا بلکہ وہ میرے ساتھ خود آئی ہے۔
“ یہ کہتے ہوئے مجھے شدید غلطی کا احساس ہوا۔ وہ کچھ دور جا کر اسلحے کے بل بوتے پر کچھ بھی کرسکتے تھے۔ میں نے ان کے ہر بندے کو زخمی کیا تھا۔ میں اگر اس وقت ان پر رحم کرتا تو ممکن تھا کہ وہ مجھے جان سے مار دیتے۔ وہ فطری طور پر سیدھے ہوئے ہی تھے کہ میں نے کہا۔
”جیپ چھوڑو پیدل جاؤ یہاں سے۔ دس تک گنتی گنوں گا… پھر جو بھی نشانے پر چڑھا میں اسے مار دوں گا … ایک…!“ میں نے کچھ ایسے انداز میں کہا تھا کہ فورا ہی ان میں ہلچل مچ گئی۔
میرے پسٹل تاننے کی دیر تھی ۔وہ طوعاً کراہاً جیپ سے اترے اور تیزی سے واپس گلی میں چل دیے۔ حالانکہ ایک سے چلا نہیں جا رہا تھا۔ میں جان بوجھ کو دھیرے دھیرے گن رہا تھا۔ سات‘ آٹھ تک پہنچا تھا کہ وہ گلی سے نکل گئے۔ میں جب تک دیوار سے نیچے آیا گلی میں سے کئی مرد اور عورتیں نکل آئے۔ میں نے کسی کے سوال کا جواب نہیں دیا بلکہ میرا ذہن اس وقت تیزی سے یہی سوچ رہا تھا کہ پیر زادہ وقاص تک سوہنی کے بارے میں معلومات کیسے پہنچیں؟
کیا گاؤں میں اس کا کوئی مخبر ہے یا پھر مخبری پر کسی کو مامور کردیا گیا ہے؟ ان سوالوں کے جواب کا یہ وقت نہیں تھا۔
اس وقت میں شدید خطرے میں تھا۔ پیر زادہ وقاص کو دُہری چوٹ دے چکا تھا۔ ان بارہ گھنٹوں میں اس کے کئی بندے زخمی کردیے تھے۔ وہ ایسا بے وقوف بھی نہیں تھا کہ خاموش بیٹھا رہتا۔ اب اس کا حملہ ایسا نہیں ہونا تھا کہ جسے میں روک سکتا۔ میں نے تیزی سے جیپ کی تلاشی لی‘ سارا اسلحہ ایک جگہ اکٹھا کیا پھر اسے اٹھا کر گھر کی جانب پلٹا ہی تھا کہ گیٹ کی جھری سے سوہنی دکھائی دی جو مجھے دیکھ رہی تھی۔
گلی میں موجود کسی بھی مرد یا خاتون نے مجھ سے کوئی سوال نہیں کیا۔ میں نے پاؤں کی ٹھوکر سے گیٹ کھولنا چاہا مگر اس سے پہلے سوہنی نے کھول دیا۔
”مجھے لینے آئے تھے وہ…؟“ اس کے لہجے میں خوف سے زیادہ تجسس تھا۔ جبکہ کچھ فاصلے پہ کھڑی اماں دکھ بھرے چہرے کے ساتھ مجھے دیکھ رہی تھی۔
”ہاں‘ تجھے لینے… تیرے سارے سنگی ساتھی ان کے پاس ہیں۔
“ میں نے اسے جواب دیا اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا۔ میں نے اوپر والے کمرے پر پڑے تالے کو مخصوص انداز میں دبایا تو وہ کھل گیا۔ یہ میری خاص تکنیک تھی۔ اس تالے کی چابی نہیں تھی۔ دروازہ کھول کر میں نے اسلحہ ایک طرف رکھا۔ دروازہ بند کیا اور نیچے آگیا۔ اماں اب افسردہ اور حیرت زدہ سی چار پائی پر بیٹھی ہوئی تھی۔
”تو کیا سمجھتا ہے کہ یہ پیرزادے تھے… سردار شاہ دین کی چال بھی تو ہو سکتی ہے۔
“ ماں نے دھیرے سے کہا۔ اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا سوہنی نے خوف زدہ لہجے میں کہا۔
”دیکھو میری وجہ سے خون خرابہ ہوسکتا ہے۔ وہ اب بھرپور حملہ کرسکتے ہیں۔ مجھے بتادو کہ وہ پیر زادہ کدھر رہتا ہے میں خود چلی جاتی ہوں وہاں۔“
”بکواس مت کرو۔“ میں نے انتہائی غصے سے کہا تو اس نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ ”یہ میرے مزاج کے خلاف ہے کہ کوئی زبردستی مجھ سے کچھ چھین لے‘ یا جو میں نے کہا ہے ویسا نہ ہو ۔
میں نے انہیں کہہ دیا ہے کہ وہ تجھے یہاں سے آکر لے جائیں تو لے جائیں۔“
”اس کا مطلب ہے میں اب تمہاری قیدی ہوں؟“ اس کے لہجے میں خوف کے ساتھ تشویش جھلک رہی تھی۔ وہ میری بات کے کچھ اور ہی معنی لے بیٹھی تھی۔ تب میں نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”کوئی یوں دھونس جما کر تمہیں مجھ سے لے جائے‘ ایسا ممکن نہیں، تیرے سنگی ساتھی آجائیں تو لے جائیں تمہیں… مجھے کوئی اعتراض نہیں۔
“
”پتر! میرا من نہیں مانتا کہ پیر زادہ ایسا کرسکتا ہے تم ایسے کرو‘ جاؤ اور اس سے رابطہ کرو تم پر سارا معاملہ کھل جائے گا۔“
ماں کا کہنا میرے لیے حکم کا درجہ رکھتا تھا۔ میں نے سوہنی سے کوئی بات نہیں کی اور باہر نکل گیا۔ میرا رخ پھر سے اچھو کریانے والے کی دُکان کی طرف تھا۔ میں نے جاتے ہی پیر زادہ وقاص کا نمبر ملانے کے لیے کہا ۔
وہ علاقے کا معروف آدمی تھا۔ ایسے سارے لوگوں کے نمبر اس کے پاس ہوتے تھے۔ اس نے نمبر ڈائل کر کے ریسیور مجھے تھما دیا۔ دوسری جانب رنگ بجنے لگی ۔چند گھنٹیوں کے بعد فون ریسیو کرلیا گیا۔
”ہیلو۔“ دوسری جانب سے پیر زادہ وقاص کی آواز اُبھری تو میں نے بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
”میں نورنگر گاؤں کا جمال بات کر رہا ہوں۔ ابھی کچھ بندے بھیجے تھے میری طرف تو نے کیا وہ واپس پہنچ گئے ہیں تیرے پاس؟“
”ابھی تک تو میں نے کوئی بندہ نہیں بھیجا تیری طرف۔
اگر بھیجتا تو وہ تجھے لے کر میرے پاس آجاتے، تم یوں فون پر بات نہ کرتے۔ویسے ابھی مجھے پتا چلا ہے کہ ایک طوائف تیرے پاس ہے۔ تصدیق ہوتے ہی بھیج دوں گا بندے۔ اچھا کیا تو نے فون کرلیا۔ بتا وہ ہے تیرے پاس؟“
”ہاں وہ میرے پاس ہے جو بندے تو نے بھیجے تھے، میں نے انہیں زخمی کرکے واپس تیرے پاس بھیج دیے ہیں۔ جھوٹ کیوں بولتا ہے مرد ہے تو سچ بول۔
“ میں نے تیزی سے کہا۔
”کہا نا میں نے نہیں بھیجے اگر میں اپنے بندے بھیج دیتا نا وہ لڑکی لے کر ہی آتے۔ یہ تم اچھی طرح جانتے ہو۔“ اس نے غراتے ہوئے کہا۔
”تو پھر تجھے کیسے پتا چلا؟ انہوں نے تو یہ بتایا ہے کہ اس لڑکی کے سنگی ساتھی تیرے پاس ہیں اور باقی رہی بندے بھیجنے کی بات تو اپنا یہ شوق بھی پورا کرلے۔ میں تیرے انتظار میں ہوں۔
خود آنا ان کے ساتھ۔“ میں نے بھی اسی لہجے میں جواب دیا تو اس نے کافی حد تک تحمل بھرے لہجے میں کہا۔
”دیکھ جمال‘ میں تیرے جیسے ہیرے کی قدر کرتا ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تو میرے ساتھ اونچی آواز میں بات کرے۔ تیرے جیسے کئی فنکار میرے ڈیرے پر پڑے ہوئے ہیں لیکن میں اسے شہہ زوری نہیں مانتا۔ وقت جس کے ہاتھ میں ہو، وہی شہہ زور ہوتاہے اور وہی طاقت ور… میرے ساتھ دھیمے لہجے میں بات کر بتا اصل بات کیا ہے؟“
”وہی جو میں تم سے پوچھ رہا ہوں۔
“ میں نے سکون سے کہا تو وہ نرم لہجے میں بولا۔
”تو سن اس لڑکی کے سارے ساتھی میرے ڈیرے پر پڑے ہوئے ہیں۔ اس لڑکی کے انتظار میں، مجھے کہا گیا ہے کہ دوپہر سے پہلے وہ ان تک پہنچ جائے گی۔ اب یہ مجھے نہیں معلوم کہ کیسے، لیکن یہ غلط بات ہے کہ میں نے کوئی بندے تمہارے طرف بھیجے ہیں۔“
”تو پھر تو بھی سن‘ تیرا نام لے کر چھ بندے میرے گھر پر حملہ کرنے آئے تھے۔
تاکہ اس لڑکی کو اٹھا کر لے جائیں۔ میں نے تم سے اس لیے پوچھا ہے کہ سازش کرنے والے نامَردوں والا کام کب سے کرنا شروع کردیا ہے“ میرے لہجے میں انتہائی درجے کی تلخی گھلی ہوئی تھی۔
”اچھا کیا‘ اچھا کیا تو نے مجھے بتا دیا ۔میرے بندے مر تو جاتے لیکن لڑکی ضرور لاتے۔ تم نے اپنی باتوں میں خود ہی اشارہ دے دیا ہے کہ سازش کرنے والا نامرد کون ہے۔
میں اسے خود دیکھ لوں گا۔ اب تو دیکھ تجھے کیا کرنا ہے۔“ یہ کہہ کر وہ دھیرے سے ہنس دیا تو میں بھی قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
”وقت جس کے ہاتھ میں ہوگا فیصلہ اسی کے حق میں ہوجائے گا۔ وہ لڑکی میرے پاس ہے اس کے ساتھی بھیج دو‘ میں لڑکی انہیں دے دوں گا۔ حملہ آوروں کی جیپ میرے گھر کے باہر کھڑی ہے، دیکھتا ہوں وہ جیپ کون لے کر جاتا ہے۔“
”چلو‘ طے ہوا لڑکی کے ساتھی تیرے پاس آجاتے ہیں لیکن انہیں ان کے ٹھکانے تک بحفاظت پہنچانا اب تیری ذمہ داری ہوگی۔
ہے تم میں اتنا دم؟“
اس نے بڑا خوب صورت پینترا بدلا تھا۔ اس نے اتنے اچھے انداز میں مجھے دھمکی دی کہ میں ایک بار تو جھوم اٹھا اس نے میرے حوصلے کو چیلنج کردیا تھا۔
”میں یہ ذمہ داری قبول کرتا ہوں پیر زادہ وقاص…!“
”مجھے تم سے یہی امید تھی لو پھر کرو انتظار‘ بھجوارہا ہوں انہیں۔ ربّ راکھا۔“ اس نے جوش سے کہا اور فون بند کردیا۔ میرے ہاتھ میں ریسیور میں ٹوں ٹوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ میں نے بے دھیانی میں ریسیور رکھا اور سوچ میں پڑ گیا وہ کیا کھیل کھیلنا چاہتا تھا۔
#…#…#