Episode 20 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 20 - قلندر ذات - امجد جاوید

ساری رات میرے بدن سے ٹیسیں اٹھتی رہیں۔ رات گئے بدن ٹھنڈا ہونے پر کئی جگہوں سے درد اُگ آیا تھا۔ میری ماں دیسی ٹوٹکے آزماتی چلی جارہی تھی۔ درد کی ہر اٹھتی ہوئی ٹیس کے ساتھ میرے اندر نفرت ابلتی جارہی تھی۔ شاید میں اپنے غصے پر قابو پانے میں ناکام ہوجاتا۔ اگر مجھے یہ معلوم ہوجاتا کہ میں کس کی منافقت کاشکار ہوا ہوں۔ پیرزادہ وقاص‘ شاہ زیب یا پھرملک سجاد؟میرے سامنے تکون تھی اور میں سمجھ نہیں پارہاتھا کہ ان تینوں میں سے کون ہوسکتا ہے۔
پہلے دوکے بارے میں تو پھر بھی سوچاجاسکتا تھا‘ لیکن یہ تیسرا کون ہے؟ کیاوہ کوئی بَلا شخص ہے کہ سامنے آئے بغیر ہی اتنا کچھ میرے ساتھ ہوگیا۔ مگر سوال یہ تھا کہ میری اس کے ساتھ کیا دشمنی ہوسکتی ہے؟ پھر ایک سوچ اور بھی تھی کہ کیا یہ ملی بھگت سے گھڑی ہوئی کوئی کہانی تو نہیں؟ وہ منافقین جن کے بارے میں شک ہوتا ہے وہ ایسی ہی سازشیں کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

نجانے کتنے سوال تھے جو مجھے ذہنی اذیت دے رہے تھے۔ اور یہی ذہنی اذیت میری قوت بنتی چلی جارہی تھی۔ میرے اندر ایسا آتش فشاں اکھٹا ہو رہا تھا کہ جس پر پھٹتا‘ وہاں تباہی لازمی تھی۔چاہے میں نہ رہتا یا پھر سامنے والا ختم ہوجاتا۔ ہمارے گاؤں کا واحد ڈسپنسر کرم علی مجھے کچھ دوائیاں دے گیاتھا۔ جن سے مجھے تھوڑا فرق پڑاتھا۔ صبح دن چڑھے وہ شہر سے اعلیٰ قسم کے انجکشن اور دوائیاں لے کر آیا۔
اس نے جلدی جلدی مجھے لگائے تو بہت زیادہ سکون محسوس ہوا۔ ساری رات کا جاگا ہوا اور کچھ دوائیوں کااثر تھا‘ میری آنکھ لگ گئی۔
میری آنکھ کھلی تو شام کے سائے ڈھل چکے تھے۔ مجھے شدید بھوک کااحساس ہوا۔ میری ماں میرے سرہانے ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ میں نے کچھ کھانے کو مانگا تووہ کچن میں چلی گئی اورمیں منہ ہاتھ دھو کر واپس چارپائی پر آبیٹھا۔
میں کھانا کھاچکاتو ذہن کو ذرا سکون ملا ،تب پھر وہی تکون میرے ذہن پرحاوی ہونے لگی‘ جسے میں نے جھٹک دیا۔خواہ مخواہ دماغ کھپانے کا فائدہ نہیں تھا۔ جب تک ان تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں ملتا‘ میں اندھیرے ہی میں تھا۔ میں ٹامک ٹوئیاں مارنا نہیں چاہتاتھا۔ انہی لمحات میں سوہنی چھم سے میرے خیالوں میں اتر آئی۔ اس کے چہرے کے نقوش ‘بولتی ہوئی آنکھیں‘ لفظوں کومٹھاس بخش دینے والے رسیلے ہونٹ اور جذبات کو گدگدادینے والا تراشیدہ بدن‘ میری نگاہوں میں گھوم گیا۔
وہ چند دن مزید یہاں رہنا چاہتی تھی مگر کیوں…؟یہ احساس جسم میں ایک لذت آگہی لہر دوڑادینے کے لیے ہی کافی تھا۔ میں سوہنی کے خیالوں میں گم تھا کہ کسی کے آنے کی آہٹ پر میں نے دیکھا۔ دروازے کی چوکھٹ میں اشفاق عرف چھاکا کھڑا تھا۔ وہ میری جانب عجیب سی نگاہوں سے دیکھ رہاتھا۔
”اوئے آ چھا کے…ادھر کیوں کھڑا ہے‘ ادھر آبیٹھ۔“ میں نے اس کی طرف دیکھ کرمسکراتے ہوئے کہا۔
وہ خاموشی سے میرے پاس بیڈ پرہی آکربیٹھ گیا۔ وہ یک ٹک میری طرف دیکھے چلاجارہاتھا۔ تب میں نے پوچھا۔”ایسے کیا دیکھ رہا ہے؟“
”میں یہ دیکھ رہا ہوں جمال کہ تو کن چکروں میں پڑگیا ہے۔ زندگی میں پہلی بار پولیس تیرے گھر پر آئی اور تجھے پکڑ کر لے گئی۔ یہ کیسا عجیب اتفاق ہے‘ اس دن تونے بندے زخمی کر کے بھگائے‘ وہ سوہنی تیرے گھر میں تھی۔
یہ اتنا سب کچھ ایک ہی دن میں ہوگیا۔ یہ کیا ہے سب…؟“
”یارتیرے سامنے ہی ہے سب کچھ…“ میں نے عام سے لہجے میں کہا تووہ بڑے گھمبیر لہجے میں بولا۔
”نہیں… میں مانتاہی نہیں… کوئی ایسا چکر ہے‘ جسے تو ہمیں بتانا ہی نہیں چاہتا۔ تو اب اتنا خود سر ہوگیا ہے کہ دوستوں کو بھی نظرانداز کردیا؟“ وہ ایک ہی سانس میں گلے شکوے کرگیاتو مجھے بڑا عجیب سا لگا۔
یہ چھاکا تو ایسا نہیں تھا۔ یہ مجھ سے کیوں بدظن ہو رہا ہے؟ میں نے چند لمحے اس کے چہرے پر دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے بولا۔
”اُوئے نہیں اُوئے چھاکے…! تجھے بتائے بغیر تو میں کچھ بھی نہیں کرتا‘ یقین جانو‘ مجھے خود سمجھ نہیں آرہی کہ سب ہو کیا رہاہے؟“
”نہیں سمجھ آتی تو کسی سیانے بندے سے بات کرلیتے ہیں۔ کسی دیوار ہی سے مشورہ کرلیتے ہیں۔
کوئی نہ کوئی عقل کی بات آجاتی ہے دماغ میں۔“ اس نے آہستگی سے کہا تو میں ہنستے ہوئے بولا۔
”اب تجھ سے زیادہ سیانا بندہ دوسرا کون ہے میری جان۔ لیکن کیا کروں‘ بات کرنے کا وقت ہی نہیں دیا ظالموں نے۔“
”میں تواتنا جانتا ہوں جمالے‘ بچپن سے لے کر اب تک ‘ پہلی بار تونے مجھ سے ہٹ کر ‘مجھے بتائے بغیر کچھ کیا ہے اور تو اس حال کوپہنچ گیا ہے۔
میں کچھ نہ کچھ تو کرتاناتیرے لیے۔“ اس نے چند لفظوں میں میری اوقات میرے سامنے رکھ دی۔ بچپن سے لے کر اب تک نجانے کتنے واقعات چشم زدن میں میری نگاہوں میں گھوم گئے۔ جب چھاکے نے میرے لیے اپنی جان کی بازی تک لگادی تھی۔ میں چند لمحے خاموش رہا پھر آہستہ آہستہ اختصار کے ساتھ اسے ساری بات بتادی۔
”اب بتا‘ میں تجھے کس وقت یہ ساری باتیں بتاتا۔
”تیری سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ تو شاہ زیب کی دعوت پر کسی کو بتائے بغیر اکیلا گیا۔ کیا تو نہیں جانتا کہ اس دفعہ پہلی بار میلے میں لڑائی ہوئی ہے‘ مطلب شاہ زیب کے دماغ میں کچھ تھا‘ جو وہ اپنا لشکر تیار کرکے وہاں گیا۔ مجھے بھی دعوت دی گئی تھی۔ میں تو ان کے ساتھ نہیں گیا۔ مجھے ضرورت ہی نہیں ان کی چاکری کرنے کی۔ میں حیران ہوں کہ تونے کس مقصد کے لیے اس کی دعوت قبول کی۔
“ چھاکے کے لہجے میں دبا دبا غصہ تھا۔
اس کی حیرت بجا تھی۔ میرا شاہ زیب کی دعوت قبول کرلینے میں اپنا مقصد تھا۔ مگرمیری مجبوری یہ تھی کہ میں اپنا مقصد چھاکے ہی کو کیا‘ اپنے سائے کو بھی نہیں بتاسکتاتھا۔ میرے مقصد کی کامیابی ‘اسے رازہی میں رکھنے سے تھی۔ یہی میری قوت تھی اور یہی مجھے بنانے سنوارنے اور میری تربیت کردینے والی ان دیکھی طاقت تھی۔
”بس یونہی یار ! اس نے مجھ سے کہا اور میں نے ہاں کردی۔ پھر میں چلاگیا۔ اب دیکھو‘ اگلے ہی دن ان کامقصد سامنے آگیا۔“ میں نے چھاکے کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
”یار جس طرح پولیس والوں کے بارے میں مشہور ہے ناکہ ان کی دوستی بھی بری اور ان کی دشمنی بھی بری۔ اس طرح ان جاگیرداروں ‘ وڈیروں اور سیاست دانوں کی دوستی دشمنی دونوں ہی بری ہیں۔
یہ انسان کھاجاتے ہیں۔ ووٹوں کی سیاست کرتے کرتے یہ انسانوں کی قسمت سے کھیلنے لگتے ہیں۔ کیا تجھے نہیں پتا۔“اس نے کافی حد تک جذباتی ہوتے ہوئے کہا۔ تب میں نے اسے تھوڑا ٹھنڈا کرنے کے لیے کہا۔
”چل یار غلطی ہوگئی۔ معاف کردے۔ اب بتا باقی کدھر ہیں۔ آئے نہیں۔“ میں نے اس سے دوستوں کے بارے پوچھا۔
”اب نہیں آئیں گے وہ۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی اپنے اپنے گھروں کو گئے ہیں۔
تب سبھی باری باری کئی چکر تیرے گھر کے لگاچکے ہیں۔“ اس نے کہا اور پھرتکیہ اپنی رانوں میں دبا کر بولا۔ ”جمال…! غور کیا ہے تونے ‘وہ جیپ لے کر آنے والے بندے کون تھے؟“
”مجھے تو سردار شاہ دین پرشک ہے۔ اس نے باہر سے بلوا کر یہ بندے‘ مجھے ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی ہے۔ تاکہ میں ان کی بات مان لوں اور شاہ زیب کے ساتھ اس کا باڈی گارڈ بن کر لاہور چلا جاؤں۔
“ میں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
”مگر میرا دل نہیں مانتا۔“ یہ کہہ کر وہ چند لمحے میری طرف دیکھتا رہا۔ پھرمجھے خاموش پاکر وہ کہتا چلا گیا۔ ”میں یہ مانتا ہوں کہ سردار شاہ دین ایک منافق سیاست دان ہے۔ اس سے کچھ بھی توقع کی جاسکتی ہے۔ وہ گھٹیا سے گھٹیا کام بھی کرسکتا ہے لیکن اپنی ہی جُوہ میں اور کم از کم تیرے ساتھ ایسی دشمنی نہیں کرسکتا۔
”کیوں ایسا نہیں کرسکتا؟ وہ سیاست دان ہی نہیں ہوتا جو اپنے مخالفین کو جڑ سے نہ اکھاڑ پھینکے ۔ اس نے میری صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی ناکامی پر سوچاہوگا کہ یہ کسی دن اس کے خلاف بھی استعمال ہوسکتی ہیں۔ سو اس نے فوراً ہی…“
”تم غلط ٹریک پر سوچ رہے ہو… تمہاری بندے پرکھنے کی صلاحیت کدھر گئی یار‘کیا تم نہیں جانتے ہو کہ سردار شاہ دین اس وقت تک مخالف کو کچھ نہیں کہتا‘ جب تک وہ اسے نقصان پہنچانے کے درپے نہ ہوجائے‘ اس کی یہ خوبی ہے‘ جسے ماننا چاہیے‘ آج نہیں تو کل‘ آنے والا وقت بتادے گا کہ یہ حملہ شاہ دین نے نہیں کروایا۔
“ اس نے تیزی سے سمجھانے والے انداز میں کہا۔ تب میں نے تجسس سے پوچھا۔
”توپھر اور کون ہوسکتا ہے؟“
”سوچ… ! اور جتنا چاہے سوچ لے‘ اس حملے کے پیچھے نہ سردار شاہ دین ہے اور نہ ہی پیرزادے ہیں‘ تیسرا اگر کوئی ہے تو اس کاسرا پتا میلے کے اس پنڈال میں ہے چونکہ یہ سب میرے دھیان میں نہیں تھا۔ اس لیے میں بھی تمہاری طرح اندھیرے میں ہوں۔
تو سوچ اور وہ سرا تلاش کر… پھر اس تیسرے تک پہنچ جانا مشکل نہیں ہوگا۔ “ چھاکے نے گہری سنجیدگی سے کہا تومیں چونک گیا۔ اس کی بات سوفیصد درست تھی۔ میرے دل کو لگی تھی۔ پہلے میرا دھیان اس طرف گیاہی نہیں تھا۔ ایک دم سے وہ میلہ ‘اس میں سجا ہوا پنڈال میری نگاہوں کے سامنے واضح ہوگیا۔ چند لمحے غور کرتے رہنے کے باوجود مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ تب میں نے اُلجھتے ہوئے کہا۔
”یار‘ مجھے نہیں لگتا کہ وہاں کچھ ہو۔ یہ جو ہنگامہ وہاں پر ہوا ہے اس میں کسی کی کیا منصوبہ بندی تھی۔ شاہ زیب اگر اپنا لاؤ لشکر بنا کر لے گیا تھا تو یہ کون سی نئی یا انوکھی بات تھی۔ ہر سال ایسے ہی ہوتا ہے۔ اس بار اس نے مجھے دعوت دی اور…“

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط