Episode 121 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 121 - قلندر ذات - امجد جاوید

میری ساری رات اذیت میں گزری تھی۔ بچھڑے کی ٹکر سے زمین پر گرنے کی وجہ سے دائیں پسلی اور ران تک یوں تکلیف ہو رہی تھی جیسے کوئی ہڈی ٹوٹ گئی ہو۔ رات گئے تک جسپال میرے ساتھ لفظوں کی حد تک ہمدردی کرتا رہا۔ وہ بے چارہ اور کربھی کیا سکتاتھا۔ کوئی دوا نہیں تھی جس سے کسی حد تک سکون مل جاتا۔ میں نے اسے سوجانے کے لیے کہہ دیااور خود ساری رات آنکھوں میں کاٹ دی۔
صبح کا سورج طلوع ہوا تو مجھ پر غنودگی طاری تھی۔ ہم ساری رات درختوں کے جھنڈ کے پاس میدان میں چارپائیوں پر پڑے رہے تھے۔ 
مجھے نہیں یاد کہ کوئی ذی روح ہمارے اردگرد بھی پھٹکاہوگا۔ ہم دونوں ہی تھے اوراگر چاہتے تو وہاں سے کسی سمت بھی نکل سکتے تھے۔ مگر جس اعتماد سے مہرخدابخش نے کہا تھا کہ اگر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ جاؤ‘ میری اجازت کے بغیر نہیں جاسکتے تو اس میں ضرور کوئی راز ہوگا۔

(جاری ہے)

رات بھر میں اس کے سیٹ اپ پر غور کرتارہا۔ سب کچھ عام ساتھا لیکن تانی کا وجود سارے ماحول کو منفرد بنارہاتھا۔ اس کاقاتل انداز اوراہمیت سے اس کاوجود ماورائی سا لگ رہاتھا۔ یاتووہ اس ماحول میں مس فٹ تھی یا پھروہ بہت کچھ تھی۔ اس کا حسن، اس پر سادگی ، اور پھر اس سے فائٹ کرنے والی بات، یہ سب سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ لوگ بھی اتنے دکھائی نہیں دے رہے تھے۔
کل ہی چند لوگ دیکھے تھے‘ پھروہ بھی دکھائی نہیں دیئے ۔یہ کیسی پر اسراریت تھی؟ کیا مجھے اسے سمجھنا چاہیے یاپھر یہاں سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے؟ اصل میں میری مجبوری یہی تھی کہ نہ تو مجھے یہ معلوم تھا کہ میں کہاں ہوں اور نہ یہ پتہ تھا کہ جانا کس طرف ہے۔ صحرا کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے کی بجائے‘ یہیں پڑا رہنا بہتر تھا۔ مجھے کسی نہ کسی طرح مہرخدابخش کی خوشنودی حاصل کرناتھی۔
میں نے ان شرائط پر بھی بہت سوچاتھا‘ اگروہ ہم پرمہربان ہوتاتو ایساسب کچھ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ہمیں وہ کسی ٹھکانے پر پہنچادیتا۔ کیا وہ ہمیں یہاں پرروکنا چاہتا ہے؟ اور اگر روکنا ہی چاہتا ہے تو کیوں؟ ایک تو الجھن اور دوسرا تکلیف کے باعث میں کچھ نہ سمجھ سکا۔ میں اپنی غنودگی سے اس وقت نکلا جب ایک نوجوان ہمارے لیے کھانا لے کرآیا۔ جسپال نے چارپائی پر ہی میرا منہ ہاتھ دھلوایااور پھر میرے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے لگا۔
وہ نوجوان خاموشی سے بیٹھا رہا۔ جب برتن خالی ہوگئے تووہ انہیں اٹھا کر لے گیا۔
”جمال یار‘ کہاں آپھنسے ہیں۔“ جسپال نے دوسری چارپائی پر لیٹتے ہوئے کہا۔
”یہاں کم از کم یہ ڈر تو نہیں ہے کہ کوئی آکر ہمیں گرفتار کرلے گا‘ پڑے ہیں‘ جب تک مہرخدابخش چاہتا ہے۔“ میں نے جواب دیا۔
”کب تک …“ اس نے اکتائے ہوئے کہا‘ میں ہنستے ہوئے بولا۔
”اب ملاقات ہوئی تو اس سے پوچھ لینا۔یا پھر باقی شرائط میں سے ایک چُن لو۔“
”یہ بندہ عجیب سالگا ہے مجھے‘ قنوطی سا‘ پاگل سا۔“ اس نے اپنے طور پر تبصرہ کیا۔
”مگرمیرا یہ خیال نہیں ہے۔“ میں نے اپنے طور پر رائے دی۔
”کیوں ؟“ اس نے پوچھا تو میں نے عام سے لہجے میں کہا۔
”بس میرا خیال ہے۔“
لفظ ابھی میرے منہ ہی میں تھے کہ دو تین آدمی ہمیں اپنی طرف آتے ہوئے دکھائی دیئے۔
ان کے ساتھ تانی بھی تھی۔ اس بار وہ کاسنی رنگ کی شلوار قمیص میں تھی‘ جس پرسیاہ پھول بنے ہوئے تھے۔ میں نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی تودرد نے پورے وجود کو ہلا کررکھ دیا۔ شاید میرے چہرے کے زاویے بگڑے ہوں گے کہ تانی نے انتہائی طنزیہ انداز میں کہا۔
”مرد بنو مرد… ایک بچھڑے کی ٹکر سے تم چارپائی پر لگ گئے ہو۔“
”کاش میں لوہے کابنا ہوا ہوتا۔
“ میں نے کہااور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ تبھی ایک ادھیڑ عمر مرد نے درد کے بارے میں پوچھ کرمیرے جسم پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیا۔ درد والی جگہوں پر اچھی طرح ٹٹول لینے کے بعد وہ سیدھا ہو کربولا۔
”کوئی ہڈی نہیں ٹوٹی‘ لیکن پٹھوں کواچھا خاصا دباؤ ہے‘ ایک دو دن میں ٹھیک ہوجائے گا اوراگر میری دی ہوئی دوا پی لوگے تو آج شام تک بھلے چنگے ہوجاؤگے۔
”اگر پی لوگے کاکیامطلب‘ اسے دیں یہ پیئے…“ تانی نے پہلی بار لب کشائی کی تھی۔ اگرچہ بات تھوڑی سخت تھی لیکن لہجہ بڑا نرم تھا۔ اس کے چہرے پر کسی بھی قسم کے جذبات کااظہار نہیں تھا۔ وہ اپنی چمکتی ہوئی آنکھوں سے میری جانب دیکھ رہی تھی۔ میں نے کچھ بھی نہیں کہا تھا‘ اس طبیب نے اپنی پوٹلی میں سے کئی ساری شیشیاں نکالیں‘ ان میں سے ایک منتخب کی اور اس میں سے ذرا ساسفوف نکال کرمیری ہتھیلی پررکھ دیا۔
اس کے ساتھ ہی پانی کاپیالہ میری جانب بڑھادیا۔ میں نے بھی پھانک کر پانی پی لیا۔
”اب آرام کرو میں شام کے وقت تمہیں پھر دیکھنے آؤں گا۔“ طبیب نے کہااور واپس چلا گیا۔ اس کے ساتھ باقی بندے بھی چلے گئے ۔ تانی کچھ دیر تک ہمیں کھڑی گھورتی رہی پھروہ بھی پلٹ کر چل دی۔ ایک لمحے کے لیے تو یوں لگا جیسے کھلے صحرا میں کوئی ہرنی قلانچیں بھرتی ہوئی پھررہی ہے۔
”یاراور کچھ ہونہ ہو‘ یہ ہمیں مار دے گی۔“ جسپال نے یوں کہا جیسے وہ اس پر سوجان سے فریفتہ ہوگیا ہو۔
”اسے چھیڑنا بھی مت مہرخدابخش کی منہ چڑھی لگتی ہے۔“ میں نے چارپائی پر لیٹتے ہوئے کہا۔ اس کے ساتھ ہی میرے منہ سے کراہ نکل گئی۔
”جمال …! یہ سب ان کا مجھے ڈراوا لگتا ہے‘ کچھ بھی نہیں ہے‘ تُوشام تک اگر ٹھیک ہوجاتا ہے تو پھر نکلتے ہیں یہاں سے۔
“ جسپال نے اکتاہٹ بھرے انداز میں کہا۔
”لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ہم ان کی مرضی کے بغیر یہاں سے نکل پائیں گے۔“ میں نے اسے سمجھایا۔
”اگر ایسی بات ہے تو میں ابھی اور اسی وقت نکلتاہوں‘ پتہ چل جائے گا۔“ اس نے بڑے دعوے سے کہا۔
”ٹھیک ہے جاؤ‘ لیکن پھر بعد میں ان کی کسی ہمدردی کی توقع نہ رکھنا۔ میں جانتا ہوں ‘ ان صحرائی لوگوں کو‘ جی بھر کے مہمان نواز ہوتے ہیں لیکن اگر دشمنی پراتر آئیں پھر…“ میں نے کہنا چاہا مگر جسپال نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”تم بتاؤ‘ پھر کیا کریں؟“
”ایک دو دن آرام کرو‘ مہر خدابخش کارویہ دیکھو‘ وہ ہمیں ہماری مرضی کے بغیر تو یہاں نہیں رکھ سکتا۔ میرے خیال میں وہ ہمارے بارے میں تصدیق کرنا چاہ رہا ہوگا کہ ہم کیسے بندے ہیں۔ وہ جو پسٹل ہم دونوں سے نکلے ہیں ‘ اسے ہم نظر انداز نہیں کرسکتے‘ اور میں یہ بھی بتادوں‘ معصوم ہم دونوں ہی نہیں ہیں۔“
”ایسا تو ہے یار‘ مگر یہاں سے نکلنا…؟“
”نکل جائیں گے یار‘ بس صبر کرو۔
“ میں نے کہا ہی تھا کہ دور گوپے کی طرف سے مہرخدابخش کے ساتھ تانی آتے ہوئے دکھائی دیئے۔ ان کے پیچھے ایک نوجوان بھی تھا‘ جس کے ہاتھوں میں فلاسک ٹائپ چیزیں پکڑی ہوئی تھیں۔وہ لمحہ بہ لمحہ ہمارے قریب آتے چلے گئے اور پھر ہمارے پاس آگئے۔ میں اٹھ کر بیٹھنا چاہ رہاتھا کہ اس نے کہا۔
”لیٹے رہو‘ تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔“ یہ کہتے ہوئے وہ سامنے والی چارپائی پر بیٹھ گیا لیکن میں پھر بھی اٹھ کربیٹھ گیا۔
اتنی دیر میں درختوں میں سے دو نوجوان نکلے انہوں نے ہاتھوں میں سرہانے اور گاؤتکیے پکڑے ہوئے تھے اس کے علاوہ دیگر کپڑے‘ وہ انہوں نے آناً فاناً بچھادیئے۔ مجھے لگامہرخدابخش وہاں پرڈیرہ ڈالنا چاہ رہاتھا یا کم از کم وہ ہمارے ساتھ وقت گزارنا چاہتا تھا‘ ایک طرف تانی آن بیٹھی‘ تبھی مہرخدابخش نے کہا۔
”کون لوگ ہو تم… مگریاد رکھنا‘ میں صرف سچ سنناچاہتا ہوں۔
”میں بتاتاہوں۔“ میں نے کہا پھرمہرخدابخش کی طرف دیکھ کر بولا۔ ”کیا آپ میری طویل بات سن لیں گے۔“
”تم جو کہنا چاہتے ہو اور جب تک کہنا چاہتے ہو کہو‘ میں سنوں گا۔“ اس نے کہا تو میں نے اپنی طرف سے اختصار کے ساتھ اپنے بارے میں بتانا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ دوپہر ہوگئی‘ وہیں کھانا چن دیا گیا۔ انہوں نے ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھایا‘ خوب سیر ہوچکے تو مہر خدا بخش نے کہا۔
”جمال نے تو اپنی کہانی سنادی‘ جسپال اب تم کہو۔“
جسپال نے اپنے بارے میں تفصیل سے بتادیا۔ بھارت آنے سے لے کر یہاں صحرا میں پہنچنے تک ساری روداد بیان کردی۔ یہاں تک کہ سہ پہر ہوگئی۔ ساری بات سن کروہ چند لمحے خاموش رہا پھر بولا۔
”یہ اچھی بات ہے کہ تم دونوں نے سچ بولا‘ مجھے تم دونوں کے بارے میں رات ہی معلوم ہوگیا تھا۔
جمال تیرے بارے میں صرف آئی جی آفس میں ایک بندے کی ڈیوٹی لگائی تھی۔ اس نے رات مجھے بتایا کہ تم قیدیوں والی گاڑی سے فرار ہوئے ہو۔ تمہارا جگری دوست چھاکا بچ گیا ہے‘ وہ زندہ ہے مگر پولیس کی حراست میں ہے۔ جانی شوکر مار اگیا ہے۔ اس کے علاوہ دو اور بندے …شاہ زیب کے زیادہ بندے مرے ہیں۔ میں چاہوں تو ابھی اور اسی وقت تمہیں پولیس کے حوالے کردوں۔
مگر میں جانتا ہوں کہ تم فنکار ہو‘ چاہو تو ایک نئی زندگی کی ابتدا کرسکتے ہو‘ پولیس تمہیں بھول جائے گی۔ اور چھاکا‘ آج شام سے پہلے پولیس حراست سے باہر ہوگا۔“ اس نے بڑی سنجیدگی اور یقین سے کہا تھا‘ میں حیران رہ گیا۔ میں نے اس پر کچھ کہنا چاہا تھا کہ اس نے اشارے سے مجھے روک دیا‘ پھر جسپال کی طرف دیکھ کر کہنے لگا۔
”اور تم…! تمہاری سب سے بڑی خامی وہی ہے جو تم نے مجھے نہیں بتائی۔“
”کون سی ؟“ وہ چونکا۔
”جسمیندر سنگھ‘ جس کا سہارا تم نے لیا‘ ارے ایسے کام کرنے ہوتے ہیں تو صرف اپنے زور بازو پربھروسہ کیا جاتا ہے‘ شطرنج کے مہرے تو کسی دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں۔“
”آپ اسے کیسے جانتے ہیں؟“

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط