جالندھر شہر کے باہر ہی انوجیت نے گاڑی ایک ذیلی سڑک پر موڑ دی۔ اس کا سارا دھیان ڈرائیونگ پر تھا۔ دوپہر ڈھل رہی تھی۔ جب انوجیت نے اپنی جیپ میں سے سیل فون نکالا اور نمبر تلاش کر کے پش کردیا۔ لمحوں بعد رابطہ ہوگیا تو اس نے کہا۔
”جی ہم جالندھر سے اوگی کے راستے پر ہیں۔۔۔بس آپ دیکھ لیں کتنی دیر لگے گی۔۔۔ ہاں ۔۔۔بس پہنچ کر اطلاع دیتا ہوں۔
“
اتنا کہہ کر اس نے فون بند کر کے پھر جیب میں ڈال لیا۔ جس پر جسپال نے کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ حالانکہ اندر سے تجسس ابھرا تھا۔ چاہے گاؤں اس کا اپنا تھا لیکن وہاں پر اس کا کوئی جاننے والا نہیں تھا اور اس انوجیت سے بھی تو وہ آج ہی ملا تھا۔ چاہے پچھلے دو برسوں سے رابطہ تھا۔ آگے حالات کیا ہوتے ہیں۔ اس کا اسے خوف نہیں تھا۔
(جاری ہے)
اگر ایسا ہوتا تو وہ اتنا حوصلہ کر کے وینکوور ہی سے نہ آتا۔
ان دونوں کے درمیان خاموشی طویل ہوگئی۔ چونکہ انوجیت کا یہ رستا دیکھا بھالا تھا۔ اس لیے وہ تیز رفتاری سے گاڑی بھگائے جا رہا تھا اور اس کی ساری توجہ سڑک پر تھی۔ یوں جسپال نے بھی اسے باتوں میں لگانا مناسب نہیں سمجھا۔ دوپہر ڈھل رہی تھی جب انوجیت نے اپنی طویل خاموشی توڑتے ہوئے کہا۔
”لے بھئی‘ جسپال سنگھ جی ،وہ سامنے جو گاؤں نظر آرہا ہے نا، وہی تیری منزل ہے۔
تیرا پنڈ اوگی۔“
اس نے دیکھا‘ ہرے بھرے کھیتوں کے سرے پر سے آبادی شروع ہوتی تھی لیکن اس کا دوسرا کنارہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔
”ارے یہ تو کافی بڑا گاؤں ہے۔“
”او یار‘ تقسیم ہند کے وقت اس پنڈ کی تین نمبرداریاں تھیں اور تین پنچوں پر ایک سرپنچ تھا۔ اب تو اتنی آبادی ہوگئی ہے چاہے اس پنڈ کو تحصیل کا درجہ دے دو۔
تم خود دیکھ لینا۔“ اس کے لہجے میں کافی حد تک تفاخر تھا۔
”ہاں‘ وہ تو دیکھوں گا سب کو ہی دیکھوں گا۔“ اس نے ایک طویل سانس لیتے ہوئے کہا۔ شاید انوجیت نے اس کی بات پر دھیان نہیں دیا تھا۔ ورنہ وہ اس کے لہجے پر چونکتا ضرور۔ اس وقت انوجیت نے گاڑی سڑک کنارے کھڑی کردی تھی۔ جبکہ گاؤں ابھی فرلانگ بھر کے فاصلے پر تھا۔ اس سے پہلے کہ جسپال اس سے رکنے کی وجہ پوچھتا وہ خود ہی اپنی طرف سڑک کے دائیں جانب ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
”وہ دیکھو‘ وہ بڑی ساری کوٹھی‘ کھیتوں کے درمیان۔“
”ہاں‘ دیکھ رہا ہوں۔“ جسپال نے سرخ اور سفید دو منزلہ خوب صورت کوٹھی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔ ایک پختہ راستا سڑک سے کوٹھی تک جا رہا تھا۔ سبز کھیتوں کے درمیان چمکتی ہوئی دھوپ میں وہ گھر بہت خوب صورت لگ رہا تھا۔ تبھی انوجیت نے کہا۔
”یہ وہ گھر ہے جہاں میں رہتا ہوں۔
“
”اچھا ہے۔“ جسپال سنگھ نے دل سے تعریف کی۔
”اب بتا پہلے گھر جانا ہے یا سیدھے وہاں جاؤ گے جہاں تمہارا آبائی گھر تھا‘ بولو۔“ اس نے اس قدر اعتماد سے کہا کہ جسپال چند لمحوں کے لیے حیران رہ گیا۔ تبھی اس نے پوچھا۔
”تو میرے آبائی گھر کے بارے میں کیسے جانتا ہے جبکہ میں نے تجھے کبھی نہیں بتایا۔“
”یہ سب کچھ میں نہیں میری بے بے بتائے گی۔
بس تو اپنے دماغ پر بوجھ نہ ڈال۔ تجھے سب پتا چل جائے گا۔“ انوجیت نے اس قدر اپنائیت سے کہا کہ وہ مزید سوال نہ کرسکا۔ اس لیے بڑے سکون سے بولا۔
”تو پھر انوجیت جیسے تمہاری مرضی۔“
”ٹھیک ہے۔“ اس کا عندیہ پاتے ہی انوجیت نے اپنا سیل فون نکالا اور نمبر پش کرکے رابطہ ہوجانے کا انتظار کرنے لگا۔ پھر کچھ لمحوں بعد بولا۔
”جی‘ ہم پہنچ گئے ہیں اور حویلی کی طرف جائیں گے پہلے، پھر واپس آکر باتیں ہوتی رہیں گی۔
“
اس پر جسپال کچھ نہیں بولا اس نے طے کرلیا تھا کہ دیکھیں انوجیت کیا کرتا ہے۔ کچھ ہی دیر بعد انوجیت نے وہ فرلانگ بھر فاصلہ طے کیا اور گاڑی گاؤں کے داخلی راستے پر ڈال دی۔ مختلف گلیوں سے ہوتا ہوا وہ ایک چوراہے میں آگیا، جو کافی کشادہ تھا۔ چوراہے کے درمیان میں ایک برگد کا درخت تھا۔ جس کے ارد گرد گول پختہ تھڑا بنا ہوا تھا اور وہاں پر کافی سارے مختلف عمر کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔
یہ گاؤں کی ”ستّھ“ (چوپال) تھی۔ ان لوگوں سے کچھ فاصلے پر انوجیت نے گاڑی روک دی۔ پھر اترتے ہوئے بولا۔
”اس گاؤں میں ایسی چھ اور ستّھ ہیں لیکن سب سے پرانی یہی ہے۔ یہیں سارا دن یہ بوڑھے اور فارغ لوگ اپنا وقت گزارتے ہیں دیکھو۔! کوئی تاش کھیل رہا ہے، کوئی کنتوری اور کچھ۔۔۔“
”مطلب یہ گاؤں کا کلب ہے۔“ جسپال نے کہا اور دوسری جانب سے اُتر گیا۔
دوسری بار اس گاؤں کی مٹی اس کے پاؤں تلے آئی تھی۔ اس کے لیے یہ سب نیا تھا‘ بالکل انوکھا۔ بھارتی پنجاب کا حقیقی رنگ۔ وہ رنگ جو اس سے پہلے اس نے کبھی فلموں یا تصویروں میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ اس نے سنا ہی تھا کہ پنجاب کا علاقہ بہت امیر ہے اور یہ حقیقت ہے کہ چاہے بھارتی پنجاب ہو یا پاکستانی پنجاب ،علاقہ امیر ہے لیکن وہاں کے بیشتر سے زیادہ لوگ غریب ہیں۔
اس کی وجہ صرف اور صرف وہی لوگ ہیں جو سیاسی اور معاشی طور پر مضبوط ہیں اور دوسرے لوگوں کا حق غصب کرجاتے ہیں۔ یہ سیاست بھی بڑا عجیب کھیل ہے۔ جس کھیل کی بنیاد ہی منافقت ہو۔ اس میں انسانی فلاح کا پہلو کہاں سے آسکتا ہے۔ اب معلوم نہیں اس نے یہاں کے اور کتنے رنگ دیکھنا تھے۔ یہ تو قسمت اور زندگی پر منحصر تھا کہ وہ اس کا ساتھ دیتی بھی یا نہیں۔
وہ ان لوگوں کو غور سے دیکھ رہا تھا جبکہ وہ سارے جو کچھ بھی کر رہے تھے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ اس نے دور ہی سے ہاتھ جوڑ کر سب کو فتح بلائی اور انوجیت کی طرف متوجہ ہوگیا۔ جو اس کی پشت کی جانب ایستادہ بڑی ساری حویلی کو دیکھ رہا تھا۔
”یہ ہے تمہاری آبائی حویلی جسپال۔! اٹھائیس برس سے یہ ویسی کی ویسی ہے۔“ انوجیت نے کہا تو جسپال کے دل پر ایک گھونسہ لگا۔
اس نے اپنی ڈبڈبائی آنکھوں سے اس بد قسمت حویلی کو دیکھا جس کے سارے مکین اٹھائیس سال پہلے قتل کر کے جلا دیے گئے تھے۔ اس حویلی کی حالت اپنی خاموش زبان سے خود ہی بتا رہی تھی کہ اس پر اور اس کے مکینوں پر کیا قیامت گزری ہوگی۔ اٹھائیس برس پہلے اٹھنے والے دھویں سے جو سیاہی آئی تھی وقت نے اسے مزید سیاہ کردیا تھا۔ نجانے کتنے ساون اور کتنی بارشیں ہوئی ہوں گی۔
مگر اس حویلی کی قسمت میں سیاہی ہی رہی۔ جلا ہوا پھاٹک بند تھا۔ شاید لوگوں نے پانی ڈال کر آگ بجھائی ہوگی۔ لوہے‘ پیتل کے کنڈوں کے درمیان میں سے اندر کا بھیانک پن دکھائی دے رہا تھا۔ تبھی اس نے بھیگتے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
”انوجیت‘ کیا کبھی کوئی اس حویلی کے اندر نہیں گیا؟“
”نہیں جسپال سچ پوچھو تو لوگ اس حویلی کے اندر جانے سے ڈرتے ہیں۔
“ انوجیت نے دُکھی لہجے میں کہا۔ تب اس نے حیرت سے پوچھا۔
”وہ کیوں؟“
”یہ حویلی سن چوراسی کے مئی میں مکمل ہوئی تھی اور اسی مہینے سب لوگ اس میں آکر رہنے لگے تھے۔ جولائی میں یہ سانحہ ہوگیا اور لوگ اس حویلی کو منحوس خیال کرنے لگے اور اب تک کرتے ہیں۔“
یہ سن کر جسپال مزید کچھ نہیں بولا بلکہ اسے خود پر قابو پانے میں کئی لمحے لگ گئے۔
پھر اس نے اپنی ہمت جمع کی اور دھکیل کر پھاٹک کو کھولا۔ ذرا سی چرچراہٹ کے بعد وہ کھلتا چلا گیا۔ ڈیوڑھی میں گند بھرا پڑا تھا۔ وہ چلتا چلا گیا۔ آگے صحن میں بھی حالت ویسی ہی تھی۔ صرف ایک سرسبز درخت کھڑا تھا۔ نیم کا سرسبز درخت‘ جس کے پتے اٹھائیس برس سے گر رہے تھے اور ان سے صحن میں سرانڈ بسی ہوئی تھی۔ وہ صحن پار کر کے طویل بر آمدے میں آگیا۔ سیاہ کمرے اس کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ پھر اس کی آنکھوں کے سارے منظر ڈوب گئے۔