Episode 96 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 96 - قلندر ذات - امجد جاوید

”آؤ‘ میرے ساتھ‘ سکون سے چل کربیٹھتے ہیں‘ پھر بات کرتے ہیں۔“ یہ کہہ کر اس نے اپنا ہاتھ چھڑایااور ڈرائیونگ سیٹ پرجابیٹھا۔ میں اس کے ساتھ پسنجر سیٹ پر آیا تو اس نے جیپ بڑھادی۔ اس کا رخ قصبے کی طرف تھا۔ پہلی بار میں نے پیر زادہ وقاص کو اکیلے دیکھا تھا‘ ورنہ ہمیشہ اس کے ساتھ گارڈ ہوتے تھے۔ میں وہاں سے بھاگنا چاہتاتوآسانی سے بھاگ سکتاتھا‘ لیکن اس کی ضرورت نہیں تھی۔
وہ قصبے کی طرف چل پڑاتھا۔میں خاموش رہا اور اسکے بات کرنے کاانتظار کرتارہا۔ا س کی توجہ سڑک پر تھی اور وہ بڑی تیز رفتاری سے جیپ بڑھائے چلا جا رہاتھا۔ وہ قصبے سے پہلے ہی دائیں جانب ایک کچی سڑک پر مڑگیا۔جبکہ ہمارا گاؤں نورنگرقصبہ پار کرکے تھا۔ میں سمجھ گیا کہ وہ نہ تو اپنے گاؤں میران شاہ جانا چاہتا ہے اور نہ ہی نورنگر‘ وہ کوئی تیسری اور نئی جگہ تھی۔

(جاری ہے)

تقریباً تین کلومیٹر کافاصلہ طے کرنے کے بعد ایک جنگل شروع ہوگیا۔ میں پہلے وہ علاقہ دیکھ چکاتھا‘مگریہ بات برسوں پہلے کی تھی۔ جب ہم شکار کے شوق میں ادھر آتے تھے۔ مجھے اچھی طرح علم تھا کہ جنگل کے پار دریائی علاقہ شروع ہوجاتا ہے‘ جنگل تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر تھا‘مگر جنگل کے سامنے سے آدھا کلومیٹر کچی سڑک جاتی تھی‘ جہاں گاؤں اور بستیاں آباد تھیں۔
ہم جنگل کے سامنے سے گزر گئے‘ وہ پھربھی خاموش رہا۔ یہاں تک کہ پھر دائیں جانب ایک تنگ سی کچی سڑک پر آگیا جو ایک ڈیرے پرجاکر ختم ہوئی۔ وہ حویلی نما ڈیرہ کچی مٹی سے بنا ہوا تھا۔ وہ گاڑی لیے حویلی نما ڈیرے کے اندر ہی چلاگیا۔ جیپ رکتے ہی کئی سارے لوگ آگے بڑھے۔ انہوں نے بڑے تپاک اور عاجزانہ انداز میں پیرزادہ کوسلام کیا۔ اس طرح وہ مجھ سے ملے کچھ دیر بعد انہوں نے ہمارے لیے ایک کمرہ کھول دیا‘ جس میں جدید طرز کے بیڈ اور دیگر سامان تھا۔
ہلکی ہلکی گرمی ہو رہی تھی‘ ایک ملازم نے اے سی چلادیا‘ تبھی پیرزادہ جوتے اتارتے ہوئے بولا۔
”جمال…! نہالو‘ اور فریش ہوجاؤ‘ اتنے میں کھانا آجاتا ہے‘ وہ کھا کرباتیں کرتے ہیں۔“ پھر ملازم کی طرف دیکھ کر بولا۔ ”جمال کے لیے کپڑے لے آؤ۔“
یہ سنتے ہی وہ واپس مڑگیا۔ پیرزادہ وقاص بیڈ پر لیٹ گیا‘ میں باتھ روم میں گھس گیا۔
تقریباً ایک گھنٹے بعد ہم کھانے سے فراغت کے بعد چائے پی رہے تھے۔ تب اس نے بڑے سکون سے کہا۔
”جمال! تجھے پولیس کے ہاتھوں مروانے کا پلان شاہ زیب ہی کا ہے۔ اس نے ڈی ایس پی کو مجبور کردیا کہ وہ تجھے ماورائے عدالت ہی قتل کرے۔ ڈی ایس پی نے واقعتا تمہاری گرفتاری نہیں ڈالی‘ جس وقت وہ تجھے گرفتار کرنے گیاتھا‘ اس نے تبھی میرے ساتھ بات کرلی تھی۔
میں جو وہاں پہنچا‘ چیخا ‘ چلایا‘ وہ سب ڈرامہ تھا۔ شام تک ڈی ایس پی نے شاہ زیب کو باور کرادیا کہ وہ مجبور ہوگیا ہے‘ اب کیا کرے؟“
”کیا کہا پھر شاہ زیب نے…؟“ میں نے پوچھا تووہ تیزی سے بولا۔
”اس نے تمہیں رات ہی کومار دینے کے لیے حکم دے دیاتھا۔ اور شاید ڈی ایس پی رات ہی تجھے حوالات سے نکال کرمار دیتا‘ اگر شاہ زیب ایک دوسری طرح کی خباثت نہ دکھاتا۔
”وہ کیا…؟“ میں نے تجسس سے پوچھا۔
”اس نے پلان یہ دیا کہ جمال کوراستے ہی میں کہیں مار کر واپس گھر لایا جائے‘ یعنی نورنگر اوروہیں پولیس مقابلے کا ڈرامہ کیاجائے‘ مطلب پولیس جمال کو گرفتار کرنے آئی مزاحمت میں وہ مارا گیا۔ اور…“
”اور…تمہارے گھر کو آگ لگ گئی۔“ اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
”میرے گھر کو آگ لگ گئی؟“ میں نے تڑپتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں جمال! وہ تیرے گھر کو آگ لگا کر تیری ماں اور سوہنی کو بھی قتل کردینا چاہتاتھا۔ مگر شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔“
”یار وقاص…! تم صاف لفظوں میں بتاؤ۔“ میں نے اکتائے ہوئے کہا۔
”صاف لفظوں میں بات یہ ہے جمال! اس نے تمہارے قتل کاانتظار ہی نہیں کیااور رات تمہارے گھر کو آگ لگوادی ہے۔“
”کیا…؟“ میں تڑپ اٹھا۔
میری نگاہوں میں میری ماں گھوم گئی۔
”لیکن…لیکن…پوری بات سنو… مجھے جب ڈی ایس پی نے بتایا کہ شاہ زیب کیا چاہتا ہے‘ تو میں نے فوراً تمہارے دوست چھاکے کو اطلاع کروادی۔ جس وقت شاہ زیب کے بندے تمہارا گھر جلانے کے لیے پہنچے‘ اس وقت تک وہ وہاں سے نکل چکے تھے۔ کہاں گئے‘ اس کامجھے نہیں علم۔ لیکن میں نے ڈی ایس پی کو سختی سے منع کردیا کہ وہ تجھے کچھ نہ کہے…بلکہ جس طرح تمہیں لے کرآیاہوں اسی طرح اسے واپسی کا کہہ دیا…اس نے اپناوعدہ پورا کیااور تجھے میرے حوالے کردیا۔
”اماں اور سوہنی کے بارے میں کچھ پتہ چلا‘چھاکا کدھر ہے۔“ میں نے تیزی سے پوچھا۔
”باوجود کوشش کے میراان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔ تمہیں ملنے سے پہلے تک میں نے ان کے بارے میں کسی بھی اطلاع کاانتظار کیا‘ ادھر تمہاری طرف بھی آنا تھا۔ اس سے زیادہ میران شاہ نہیں رک سکا‘ ہوسکتا ہے آج کل میں پتہ چل جائے۔ “ پیرزادہ وقاص نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا تو میں بے چین ہوگیا۔
”وہ سب کیسے ہوگیا…میرے دوست تھے وہاں…چھاکا جان دے دیتا‘ پر…ہوسکتا ہے وہ بھی…پیرزادہ وقاص ‘یار مجھے ایک بار نورنگر لے چل۔ پھرمیں دیکھ لیتا ہوں سب کو…“
”میں تجھے لے جانے کو ابھی لے جاتا ہوں‘ مگر تو نہیں جانتا‘ انہوں نے بلوائیوں کی طرح تیرے گھر پر حملہ کیاہے‘ اب کچھ نہیں وہاں پر…اس نے کتوں کی طرح اپنے بندے تیرے پیچھے چھوڑ دیئے ہیں۔
اسے شاید تم نہیں‘ سوہنی درکار ہے‘ جو اس کی جائیداد کی حصہ دار بن گئی ہے۔“
”توکیا تم جانتے ہو…“ میں نے حیرت سے پوچھا۔
”یہ جوڈی ایس پی ہے نا‘ یہ اپنا بندہ ہے‘ نجانے کس کوشش سے یہاں لگوایا ہے اسے‘ اس نے جب مجھے بتایا تو مجھے تیری اور شاہ زیب کی دشمنی کے بارے میں اندازہ ہوا۔ خیر… اگر مجھے سوہنی کے بارے میں معلوم ہوجاتا تو میں پوری جان سے اس کاتحفظ کرتا۔
”میں تلاش کرلوں گا اسے…میری ماں … چھاکا …“ میں روہانسا ہوگیا۔
”جہاں تک میرااندازہ ہے جمال‘ یہ لوگ کسی محفوظ جگہ ہوں گے‘ کیونکہ اس حملے سے کچھ دیر پہلے چھاکے تک اطلاع پہنچ چکی تھی۔ اب اگر قسمت نے ساتھ نہ دیا ہو تو الگ بات ہے۔“ اس نے غیر یقینی انداز میں کہا۔
”وہی تو میں کہہ رہا ہوں‘ میں نورنگر جاتاہوں‘ وہاں جاکر ساری بات معلوم ہوجائے گی۔
اور پھر شاہ زیب نے اتنابڑا ادھارمیرے سرچڑھادیا دہے‘ اسے بھی تو اتارنا ہے۔“
”میں تم سے یہ نہیں پوچھوں گا جمال کہ تم نے سردار شاہ دین کو قتل کیا ہے یانہیں‘ لیکن اب تیری ان کے ساتھ لڑائی بن چکی ہے‘ کیا اب توان کے خلاف میرا ساتھ نہیں دے گا۔“ پیرزادہ وقاص نے وہ بات کہہ دی‘ جس کے لیے اس نے میری مدد کی تھی۔ میں سوچ رہاتھا کہ اب تک اس نے اپنے مطلب کی بات کیوں نہیں کی ہے‘ میں نے ایک لمحہ تاخیر کیے بنا کہا۔
”پیرزادہ… اگرتم یہ کہو کہ میں اب پھنس گیاہوں اورتم مجھے اس مشکل سے نکال رہے ہو‘اس کے عوض تمہارا ساتھ دوں تو میراانکار ہے‘ لیکن اگر دشمن کادشمن سمجھ کرمیرا ساتھ مانگوتو میں تیار ہوں۔ یہ میں نے اس لیے کہا ہے کہ تم جاگیردار وں کا کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ کب ایک دوسرے سے صلح کرکے درمیان کے لوگوں کومسل دو۔“ میں نے صاف گوئی سے کہا تووہ ہنس دیا۔
پھر بڑے گھمبیر لہجے میں بولا۔
”جمال…!سیدھی سی بات ہے‘ اگر اس علاقے پرمیری حکمرانی ہوجاتی ہے تو مجھے اور کیا چاہیے‘ میں سردار شاہ دین کی سوچ اور سیاست کونہیں پاسکتاتھا۔ مگر شاہ زیب کو تو نیچا دکھاسکتا ہوں‘ صاف اور سچی بات یہ ہے کہ تم اپنا انتقام لینا‘ میں پوری مدد میں دوں گا۔ میں اب شاہ زیب کو اپنا ہم پلہ نہیں دیکھنا چاہتا۔
اسے ختم کردینا چاہتاہوں‘ میری سیاست کچھ بھی رہے‘لیکن تمہارے آڑے کبھی نہیں آؤں گا۔“
”مطلب‘ تم میرے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے نہیں ہوگے۔ میرے حلیف کے طور پر سامنے کبھی نہیں آؤگے۔“ میں نے اس کی بات سمجھتے ہوئے کہا تووہ پوری سنجیدگی سے بولا۔
”یونہی سمجھ لو‘ اس کی ایک وجہ ہے ‘جسے تم بخوبی جان سکتے ہو‘ کچھ جگہیں‘ کچھ تعلقات کے دائرے اور کچھ مفادات کے مرکز ایسے ہوتے ہیں کہ بندہ مجبور ہوجاتا ہے‘ وہاں میں کہہ سکتاہوں کہ میں جمال کو نہیں روک سکتا کہ میرااس پر کوئی حق نہیں‘ تم سمجھ سکتے ہونامیرے بات…“
”ٹھیک ہے‘ میں نے مان لی تیری بات‘ اب چل نورنگر۔
“ میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”ہم ابھی چلتے ہیں لیکن یہ ذہن میں رکھنا‘ اس نے اپنے باپ کے قتل میں تیری گرفتاری ضرر ڈلوانی ہے۔ وہ چاہے گا کہ تو پولیس ہی کے ساتھ ٹکرا کر ختم ہوجائے۔“ پیرزادہ نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”یہ ساری بعد کی باتیں ہیں‘ توپہلے مجھے نورنگر پہنچا‘ پھر سب دیکھ لوں گا۔“میں نے کہااور جوتے پہن کراٹھ گیا۔
ہمارے درمیان جو طے پاناتھا‘ وہ پاگیاتھا۔
دوپہر سرپر تھی۔ وہ باہر سے کچا ڈیرہ ، اندر سے جدید طرز پر سجاہوا ‘ مجھے اچھا لگاتھا۔ میں اس علاقے میں بہت پہلے پھرتا رہا تھا‘ لیکن یہ حویلی نما ڈیرہ پہلے کبھی نہیں دیکھاتھا‘ صحن میں آکر میں نے پوچھا۔
”یہ ڈیرہ کس کا ہے؟“
”چوہدری شاہ نواز کا۔“ اس نے بتایا تو وہ گرانڈیل قد کاشخص میرے ذہن میں آگیا۔
”یار وہ توقصبے میں…“
”یہ اس کا وہ ڈیرہ ہے جہاں خاص لوگ ہی آکر ٹھہرتے ہیں۔
باقی تم سمجھ دار ہو۔ “اس نے گول مول سی بات کی تومیں نے بھی زیادہ تجسس دکھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور ویسے بھی اس وقت میرے دماغ میں صرف اور صرف نورنگر چھایاہواتھا۔ میری کوشش تھی کہ میں جلد ازجلد وہاں پہنچ جاؤں۔
جس وقت ہم جیپ میں بیٹھ کر وہاں سے چلے تو میرے اندر بے شمار وسوسے ابھرنے لگے۔ میری اماں کاچہرہ بار بار میری نگاہوں میں پھر رہاتھا۔
وہی ایک گھر جس میں میری ماں نے جوانی بیوگی کی حالت میں گزار دی تھی۔ جسے کبھی وہاں خطرہ نہیں رہا تھا اور نہ کبھی اس نے مجھ پر خوف مسلط ہونے دیاتھا‘ وہی گھرجلا دیاگیاتھا۔میرے اندر جیسے آگ لگی ہوئی تھی ‘وہی آگ جس نے میرے گھر کو جلایاتھا‘ سوہنی کاساتھ اگرچہ چند دنوں کاتھا‘ لیکن انہی چند دنوں میں اس نے میرے انتظار کی طوالت کوختم کرکے میری فتح کو قریب کردیاتھا۔
میں جو ایک طویل سفر طے کرنے کی سوچ رہاتھا‘ وہ اس نے مختصر کردیا‘ اور چھاکا… میرے بچپن کا دوست ہی نہیں ‘میرے بھائیوں جیسا مخص ساتھی تھا‘ جس کے بغیر میں خود کو ادھورا سمجھتا تھا‘ میری آنکھوں کے سامنے ایک تصویر ہٹتی تو دوسری آجاتی‘ جیپ جس طرح تیز رفتاری سے بڑھتی چلی جارہی تھی‘ اس سے کئی گنا رفتار سے میرا خون کھول رہاتھا۔ صور تحال کیا تھی‘ میں اس سے ناواقف تھا‘ دل نہیں مان رہاتھا کہ انہیں کچھ ہوگا‘ لیکن ذہن شاہ زیب کی خباثت سے انکار نہیں کررہاتھا۔ اس نے جواتنابڑا قدم اٹھایا تھا‘ اب اس کاخمیازہ تو بھگتنا تھا‘ شاہ زیب نے ۔میں نے خود کو پرسکون کرنے کے لئے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگالی۔
                                         # # # #

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط