”یہ لسّی جی‘آپ کے لیے۔“ اس نے آہستگی سے کہا تو جسپال کو ہوش آگیا۔ اس نے سامنے پڑے ہوئے بڑے سارے پیتل کے گلاس کو دیکھا جو لبالب لسّی سے بھرا ہوا تھا۔ اس نے یوں اٹھایا جیسے حکم مان رہا ہو۔ پھر گلاس ہونٹوں سے لگا کر اس وقت الگ کیا جب خالی ہوگیا۔
”یہ ہرپریت کور ہے… اپنے انوجیت سے کچھ ہی سال چھوٹی۔“ کلجیت کور نے تعارف کرایا۔جسپال کو احساس تھا کہ سبھی نگاہیں اسے دیکھ رہی ہیں تبھی ہرپریت نے کہا۔
”آئیں… میں آپ کو آپ کا کمرہ دکھادوں …“
”چلو…“ جسپال سنگھ نے اٹھتے ہوئے کہا۔ وہ آگے آگے جارہی تھی اور جسپال کے ذہن میں نجانے کیوں صحرا میں پھرنے والی ہرنی کا تصور ابھر رہاتھا۔ چنچل سی ہرپریت کور اس کے من میں ایک دم سے سماگئی تھی۔ وہ سیڑھیاں چڑھ کر دوسری منزل تک گئے اور پھر ایک کمرے میں داخل ہوکر ہرپریت بولی۔
(جاری ہے)
”لوجی‘ جسّی سنگھ جی‘ یہ ہے آپ کا کمرہ‘ فی الحال فریش ہوجائیں۔
ضرورت کی ہر چیز یہاں موجود ہے۔ پھر بھی اگر ضرورت محسوس ہو تو بہت سارے نوکر ہیں‘ یہاں پر‘ آواز دے لیں۔“
”تمہیں … تمہیں آواز دے لوں‘ تم ان کی ہیڈ ہو۔“ جسپال سنگھ نے شرارت سے کہا۔
”اوہ ہمیں اپنا نوکر ہی سمجھ لیں تو بڑی بات ہے جی‘ آپ آواز دے کر تو دیکھیں جی۔“ ہرپریت نے ہونٹوں پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا تو جسپال ایک دم سے ٹھٹک گیا۔
ہرپریت اُسے بڑی ذہین اور متمل مزاج لگی تھی۔ اُسے لگا کہ شاید اُسے مذاق نہیں کرناچاہیے تھا تب وہ بولا۔
”سوری‘ ہرپریت‘ میں تو مذاق میں…“
”اُونہ جی جسّی جی، ہمیں آپ کامذاق بھی اچھا لگتا ہے۔ آپ فریش ہوجائیں ،باتوں کے لیے بڑا وقت ہے جی‘ میں چلی‘ آپ جلدی آجائیں‘ مہمان کھانے پر آپ کاانتظار کریں گے۔“
یہ کہہ کر وہ مزید کوئی بات سنے بغیر کمرے سے نکلتی چلی گئی۔
جبکہ جسپال کافی دیر تک اس کی سادگی پر اس کے بات کرنے کے انداز میں معصومیت اور اس کے حسن میں کھویا رہا۔
کھانے کااہتمام کوٹھی کے بائیں لان میں کیا گیا تھا ‘ جو کافی بڑا تھا۔ اس کے ساتھ ایک سیدھا راستہ جاتاتھا جس کے ایک جانب سوئمنگ پول اور دوسری جانب لان ٹینس کورٹ تھا۔ آگے پھر ایک لان اور اس کے بعد ملازمین کے کمرے تھے ‘جسے ایک دیوار کے ساتھ الگ کیا ہواتھا۔
کھانے پر زیادہ گفتگو نہیں ہوئی۔ بس اس کے سفر اور ونیکور کے بارے میں باتیں ہوتی رہیں۔ ہر بندے نے اپنا تعارف کرایا اور اپنے ہاں آنے کی بصد شوق دعوت دی۔ کھانے کے بعد گھر میں سناٹا چھاگیا۔ انوجیت مہمانوں کے ساتھ مصروف رہااور یہی حال ہرپریت کور کا تھا۔ آخری مہمان کے رخصت ہوتے ہی کلجیت کور اسے لے کر ڈرائنگ روم میں آگئی۔
”چل پُتر…! اب جا اپنے کمرے میں اور سکون سے جاکرسوجا۔
تو بہت تھک گیا ہوگا نا‘ آرام کر۔“ وہ بڑے خلوص اور مامتا بھرے لہجے میں بولی۔
”نہیں پھوپھوجی‘ مجھے ابھی نیند نہیں آئے گی۔ ہم ابھی کچھ دیر بیٹھتے ہیں۔ باتیں کرتے ہیں۔“ اس نے کلجیت کور کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا۔ اتنے میں ہر پریت اور انوجیت دونوں وہیں آگئے۔ شاید انہوں نے جسپال کی بات سن لی تھی۔ اس لیے ہرپریت بولی۔
”چلیں بیٹھیں‘ میں آپ کے لیے چائے بنا کر لاتی ہوں۔
“
”ابھی تو اتنے ملازم تھے یہاں۔“ جسپال نے بے ساختہ کہا۔
”لیکن خاص مہمانوں کے لیے ‘ خاص سیوا اپنے ہاتھوں سے کی جاتی ہے۔“ وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
”تو چلو‘ مجھے یہ تو معلوم ہوا کہ میں خود کو اس گھر کافرد نہیں‘ بس مہمان ہی سمجھوں۔“ اگرچہ یہ بات جسپال نے یونہی مذاق میں کہی تھی لیکن کلجیت کور نے تڑپ کر کہا۔
”نہ پُتر…! نہ ایسے نہ کہو۔
تو اس گھر کا فرد ہی نہیں‘بلکہ اس گھر کا مالک بھی ہے۔ یہاں بیٹھ ‘ میں تجھے سمجھادوں۔“
”پھوپھو‘ جی‘ یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟“ جسپال نے تجسس سے پوچھا اور وہیں صوفے پربیٹھ گیا۔
”ہرپریت تو جااور جُوتی سے چائے لانے کو کہہ دے۔“ کلجیت کورنے کہا جس پر وہ بولی۔
”جی‘ ابھی کہہ آتی ہوں۔“
یہ کہہ کر وہ پلٹ گئی‘ کلجیت کور چند لمحے جسپال کے چہرے پر پھرانوجیت کی طرف دیکھ کر بولی۔
”یہ تقریباً تیراہم عمر ہے۔ کوئی چند ماہ زیادہ ہوگی‘ تیری پھوپھو سکھ جیت کور اور میں دونوں ایک ہی آنگن میں کھیلتی رہیں۔ کبھی وہ ہمارے گھر ہوتی یا میں اس کے گھر‘ سارا دن یونہی گزر جاتا‘ پھر ایک دن میرے باپو نے ہم دونوں کوپکڑا اور اس پنڈ اُوگی کے اسکول میں چھوڑ دیا، جہاں اور بہت سارے بچے پڑھتے تھے۔ وقت گزرتا گیااور ہم نے جوانی میں قدم رکھا۔
“
”یہ آپ دونوں کے آنگن کہاں تھے…؟“ جسپال نے پوچھا۔
”وہی‘ جس حویلی میں تُوابھی گیا تھا‘ یہ پہلے کچا گھر ہوتا تھا‘ تیرے دادا کے زمانے میں‘ اور اس کے ساتھ والا گھر ہمارا تھا‘ پھر میرے باپو نے گاؤں سے باہر نیا گھر بنوایا تو ہم نے وہ گھر تیرے دادا کو دے دیا تھا تاکہ گاؤں میں کھلی اور اچھی حویلی بن جائے۔“ کلجیت نے بتایا۔
”اچھا توپھر…!“ جسپال نے پوچھا۔
”پھر…“وہ کہتے کہتے رک گئی‘ جیسے حوصلہ جمع کررہی ہو۔ چند لمحے یونہی خاموش رہنے کے بعد بولی۔ ”سن پُتر…!ً وہ باتیں بھی سن لیں جو تو نہیں جانتا۔“
”ہاں پھوپو…!تو آج ہی بتادے مجھے…“ وہ تیزی سے بولا۔
’وہ بڑا کالا دن تھا‘ جب ہم دونوں ‘میں اور سکھ جیت کھیتوں کی طرف سے واپس آرہی تھیں۔
اس دن سرپنچ کا بیٹارویندر سنگھ اپنی کار پرشہر کی طرف جارہاتھا‘ وہ بہت عرصے سے چندی گڑھ میں رہ رہاتھا ‘ وہیں پڑھتا تھا‘ چھٹیوں میں ہی یہاں آتاتھا۔ اس نے ہمیں دیکھ کر اپنی کار روک لی‘ ہمارے تو ذہن میں بھی نہیں تھا کہ یہ کار ہمارے لیے بھی رُک سکتی ہے۔ جیسے ہی ہم قریب گئیں ‘وہ اپنی کار سے باہر نکل آیا‘ اور بڑے بُرے انداز میں سکھ جیت کو دیکھنے لگا۔
ہم چپ چاپ وہاں سے گزرجانا چاہتی تھیں کہ اس نے سکھ جیت کا بازو پکڑ لیا اور ساتھ ہی اس نے کوئی فضول بات کی‘ جسے سکھ جیت برداشت نہیں کرسکی۔ اس نے گھماکے تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا۔ شاید اس کے ذہن میں بھی نہیں تھا کہ سرپنچ کے بیٹے کو ایسے ردعمل کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔ وہ غصے میں پاگل ہوگیا۔ اس نے دست درازی کرنا چاہی‘ لیکن سکھ جیت اس کے قابو کہاں آنے والی تھی‘ اور پھر میں اس کے ساتھ تھی‘ ہمارے شور مچانے اور مزاحمت کی وجہ سے اردگرد کے قریب کھیتوں میں کام کرنے والے لوگ ہماری جانب دوڑے‘ لیکن تب تک رویندر وہاں سے کار میں بیٹھ کر چلا گیا۔
شاید معاملہ وہیں رفع دفع ہوجاتا ‘اگر دو باتیں نہ ہوتیں۔
”کون سی؟“ جسپال نے تیزی سے پوچھا۔ اس دوران ہرپریت وہاں آکر انوجیت کے ساتھ بیٹھ چکی تھی۔
”ایک تو ارد گرد لوگوں کومعلوم ہوگیاتھا‘ اور دوسرا بازو کے قریب سے سکھ جیت کور کے کپڑے پھٹ گئے تھے۔ لازمی طور پر گھر میں پوچھ گچھ تو ہونی تھی کہ یہ کیا ہوا؟ تب سکھ جیت نے گھر جاتے ہی ساری بات اپنے باپو کوبتادی۔
وہ شدید غصے میں آگیا مگر اس نے خود پر قابو رکھا‘ اور بات کرنے سرپنچ کے پاس چلا گیا۔ اب بھائیوں کوبھی معلوم ہوگیا تھا لیکن باپو انہیں روک کر گیاتھا کہ میرے آنے تک کوئی کچھ نہ کرے۔ پھر دوپہر ڈھل گئی۔ باپو واپس نہ آیا تو بھائیوں کو اس کی فکر ہوئی۔ تیرا باپ کلوندر سنگھ اس کا پتا کرنے کے لیے گھر سے نکلا‘ مگر جلدہی دونوں باپ بیٹا واپس آتے ہی دکھائی دیئے۔
“ کلجیت کور سانس لینے کے لیے رک گئی تو جسپال مضطرب ہو کر رہ گیا۔ تبھی وہ پھر بولی۔’سرپنچ نے باپو کی بات ماننے کی بجائے انہیں بے عزت کردیاتھا کہ تو میرے پُتر پر الزام لگاتا ہے۔ شام تک پورے گاؤں میں یہ بات پھیل گئی۔ کچھ لوگوں نے سرپنچ کو بتابھی دیا کہ رویندر نے غلط کیا ہے‘ مگر اس نے اپنے پُتر کو برا نہیں کہا بلکہ یہ کہہ دیا کہ سکھ جیت ہی غلط تھی‘ جس نے خواہ مخواہ الزام لگایا۔
“
”سکھ جیت کے بھائیوں نے کچھ نہیں کیا۔“ جسپال نے حیرت سے پوچھا۔
”نہیں پُتر…! وہ تو چاہ رہے تھے کہ ابھی کے ابھی جائیں اور رویندر سمیت سرپنچ کو بھی ماردیں لیکن باپو نے عقل مندی کی اور انہیں اندر بیٹھ کر انہیں سمجھایا۔ وہ خاموش ہوگئے۔“یہ کہتے ہوئے وہ سانس لینے کے لئے رُکی۔
”وہ کیوں خاموش ہوگئے‘ پھوپھو…“ وہ تڑپ اٹھا۔ اس دوران جُوتی چائے لے کر آگئی تھی۔
”بتارہی ہوں پتر!“ یہ کہتے ہوئے اس نے جُوتی کی جانب دیکھ کر کہا۔
”تم جاؤ‘ اور جلدی سے کام سمیٹ لو‘ چائے ہرپریت بنالے گی۔“
”جی ٹھیک ہے۔“ جُوتی نے ادب سے کہا اور الٹے قدموں واپس پلٹ گئی۔ جسپال سمجھ گیا کہ وہ اس کے سامنے بات نہیں کرنا چاہ رہی تھی۔