”یہی تو معمہ ہے جسے حل کرنا ہے۔ او راہم ترین سوال یہ ہے کہ آپ کو کس نے ان کے متعلق بتایا‘ آپ کب پہنچے؟ اور کسی سے پوچھ تھااطلاع کیے بغیر وہاں سے لاشیں بھی اٹھا کر لے آئے…؟“
”ہاں…! یہ سوال تو بنتا ہے لیکن آپ ایسا کریں ‘ چائے پئیں‘ میں نے پیرزادہ وقاص کو بلوایا ہے‘ وہ یاان کا کوئی بندہ یہاں پرآجائے تو بات کرتے ہیں۔ میں فی الحال کاغذ مکمل کرلوں۔
“ یہ کہتے ہوئے وہ پھر سے کاغذوں میں الجھ گیا۔ بلاشبہ وہ ڈرامہ کررہاتھا۔ کیونکہ اس نے اپنے کسی بندے کو چائے کانہیں کہاتھا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ ہمیں نظر انداز کررہا ہے۔ شاہ زیب پیچ وتاب کھاتا ہوا اس کی طرف دیکھتا رہا۔ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ پیرزادہ وقاص کی سیاہ جیپ وہاں آرُکی ۔ وہ اس میں سے نکلااور سیدھارندھاوے کے دفتر میں آگیا۔
(جاری ہے)
اس نے ہمیں دیکھا‘ ہم سب سے مصافحہ کیااور کرسی پربیٹھ گیا تورندھاوے نے کاغذات ایک طرف کیے اور گہری سنجیدگی سے بولا۔
”پیرزادہ صاحب! آپ کے تین ملازمین قتل ہوگئے۔ میں نے اس سلسلے میں آپ کو بلایا ہے۔“
”ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ہم اپنی فریاد لے کر تھانے میں نہیں آئے‘ بلکہ لاشیں اٹھالینے کے بعد ہمیں تھانے میں بلاکر پوچھ رہے ہیں۔
میں پوچھ سکتاہوں‘ یہ اتنی تیز رفتاری کیوں؟“پیرزادہ وقاص نے کافی حد تک طنزیہ اور غصیلے لہجے میں پوچھا۔
”ابھی آپ کے آنے سے پہلے شاہ زیب نے بھی ایسا ہی سوال کیا ہے۔ تو آپ دونوں غور سے سن لیں۔ مجھے کل شام اوپر سے احکامات ملے تھے کہ علاقے میں کچھ مشکوک لوگ ہیں‘ انہیں پکڑ لیں‘ میرے مخبر بھی اطلاع دے چکے تھے۔ شام ہونے سے پہلے ہی بھاری نفری یہاں بھجوادی گئی۔
غور کریں‘ میری بات پر‘ میں نے نہیں منگوائی‘ بلکہ بھیج دی گئی۔ میں جانتاہوں کہ آپ لوگوں کی رسائی یہاں تک ہے کہ میری اس بات کی تصدیق آپ کرسکتے ہیں۔میں مجبور تھا اور میں نے انہیں پکڑناہی تھا‘ لیکن…“ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوا تو شاہ زیب بولا۔
”لیکن کیا؟“
”میں جس وقت انہیں پکڑنے کے لیے ڈیرے کے قریب پہنچا تو وہاں سے کچھ دور فائرنگ ہوئی‘ میں نے وہ اپنے لیے الجھاواہی سمجھا اور ڈیرے پر گیا۔
وہاں آپ کے ملازمین نے بتایا کہ چھت پر فائرنگ ہوئی ہے۔ میں خود چھت پر گیا‘ وہاں آثار تو ملے مگر بندے نہیں تھے۔ میں نے فوراً علاقہ چھان لینے کا حکم دیا۔ اور یہ ساری لاشیں ایک جگہ سے مل گئیں۔“
”لیکن…“ شاہ زیب نے کہنا چاہا مگر رندھاوے نے سختی سے کہا۔
”لیکن ویکن کچھ نہیں شاہ زیب! سیدھی سی بات ہے‘ یہ دونوں گروپ آپس میں لڑکر مرے ہیں یا پھر انہیں کوئی تیسری پارٹی مارگئی ہے۔
یہ توخیر‘ تفتیش سے معلوم ہوجائے گا‘ آپ لوگوں کو میں نے اس لیے بلایا ہے کہ جوحقیقت ہے وہ مجھے بتادیں‘ یا پھر صلاح ومشورہ کرکے کوئی فیصلہ مجھے دے دیں‘ نہیں تو…“
”نہیں تو کیا کریں گے آپ…؟“ پیرزادے نے پرسکون انداز میں کہا۔
”میں کوئی دشمن دُنیا تو نہیں ہوں‘ پیرزادہ صاحب‘ میں نے جو کچھ دیکھا ہے‘ وہی لکھ دیا ہے‘ ان کاغذات پر‘ فائلوں کاپیٹ بھرلیا ہے میں نے‘ دوچارگھنٹے بعد میں نے یہ رپورٹ ڈی ایس پی صاحب کو دے دینی ہے‘پھروہ جانیں اور آپ ۔
۔۔“ وہ فیصلہ کن انداز میں کہہ چکا تو پیرزادہ بولا۔
”میری طرف سے ابھی یہ طے کرلیں کہ آپ جو رپورٹ دیں گے وہ بالکل سچ پرمبنی ہونی چاہیے۔ باقی جو تفتیش ہونی ہے‘ اس کی نگرانی میں کرلوں گا۔ اب مجھے یہ پتہ نہ چلے کہ آپ نے ڈنڈی ماری ہے‘ اور ان مشکوک بندوں کا یہ ذکر ہی نہ کرو کہ وہ کس کے مہمان تھے۔“
”وقاص…تم غلط سمجھ رہے ہو‘ سچ وہ نہیں جو تم دیکھ رہے ہو۔
“ شاہ زیب تیزی سے بولا۔
”نہیں شاہ زیب‘ نہیں‘ ایسے نہ کہو‘ میرے تین ملازم قتل ہوئے ہیں‘ انہیں چھوڑو‘ تم لوگوں کے ڈیرے پر اشتہاری پہلے بھی آتے جاتے ہیں‘ لیکن یہ کون تھے اور علاقے میں کیوں دندناتے پھررہے تھے۔ مجھے اس سوال کا جواب دو۔“
”یہ بھی انہی اشتہاریوں کی طرح یہاں چند دن رہنے آئے تھے۔“ وہ تیزی سے بولا۔
”تو پھر انہیں بے لگام ہونے کی اجازت کس نے دی؟“ پیرزادہ نے پوچھا تو شاہ زیب خاموش رہا۔
پھر تیزی سے بولا۔ ”ہم بھی ڈیرے دار ہیں‘ اور یہ ساری باتیں سمجھتے ہیں۔“
”میں کہہ رہا ہوں ناکہ ہم بات کرتے ہیں‘ میں تجھے سمجھادوں گا…“اس نے کہنا چاہا لیکن پیرزادہ نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے روک دیا۔
”بس …! مجھے میرے سوال کا جواب دو یا پھر ان بندوں کے قتل کا حساب دینے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ یہ تم اچھی طرح جانتے ہو‘ مجھے اپنا حساب لینا آتا ہے۔
“ یہ کہہ کر وہ کرسی سے اٹھ گیا۔ تبھی رندھاوے نے اس سے پوچھا۔
”توپھر کیا کہتے ہیں؟“
”وہی جو میں نے کہا‘ ہم لوگ زبان رکھتے ہیں اور اپنی زبان کا پاس بھی کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم مردوں والی زبان دیتے ہیں۔“ یہ کہہ کر اس نے شاہ زیب کی طرف دیکھا بھی نہیں اور کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا تو وہاں پر خاموشی چھاگئی۔
”یہ اچھا نہیں ہوا۔
“ شاہ زیب نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
”میں نے تو سوچا تھا کہ آپ دونوں کوبلاکر‘ کوئی مشورہ کرکے ہی رپورٹ فائنل کروں گا‘ مگر لگتا ہے پیرزادہ صاحب کے دماغ میں کچھ اور ہی چل رہا ہے۔“
”جمال‘ تم کیا کہتے ہو؟“ اچانک شاہ زیب نے مجھ سے پوچھا۔
”اس سے کیا پوچھتے ہو آپ‘ جس بندے کواپنی خبر نہیں‘ اگر آپ کا ہاتھ اس پر نہ ہوتا تو اب تک یہ نجانے کس جیل میں پڑا سڑ رہا ہوتا۔
“ رندھاوے نے انتہائی نفرت سے کہا۔
”رندھاوا صاحب‘ خیال کریں کہ یہ میرے ساتھ آیا ہے۔“ شاہ زیب نے غصے میں کہا۔
”یہی تو کررہاہوں‘ ورنہ اب تک اس کے چھتر مار کرتھانے سے بھگانہ دیا ہوتا۔“ اس کا لہجہ ہنوز غصیلہ تھا۔ اس وقت تک پیرزادہ اپنی جیپ سمیت وہاں سے چلا گیاتھا۔ تبھی شاہ زیب اٹھااور بغیر ہاتھ ملائے کمرے سے باہر چلا گیا۔
میں نے بھی وہاں رکنا مناسب نہیں سمجھا‘ میری اور رندھاوے کی نگاہیں ایک لمحے کے لیے چار ہوئیں تو اس نے خفیف سااشارہ کیا۔ میں جسے فوراً تو نہ سمجھ سکا لیکن اس پرغور کرنے لگا۔
ہم دونوں کار کے قریب آگئے تھے۔ شاہ زیب کے چہرے پر انتہائی درجے کی سنجیدگی تھی۔ وہ چند لمحے کھڑا سوچتا رہا‘ پھر فوراً ہی لپک کر اندر چلا گیا۔ اس بار وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر اندر نہیں گیا تھا۔
وہ نجانے کیا بات کرنا چاہتا تھا۔ اس لمحے مجھے رندھاوے کی خفیف اشارے کی سمجھ آگئی۔ میں ٹہلتا ہوا تھانے سے باہر آکر کھڑا ہوگیا۔ تبھی میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ مجھ سے کچھ فاصلے پر چہرے پر کپڑا لیے چھاکا بائیک پر کھڑا تھا۔ میرا دل اچانک ہی خوشی سے بھر گیا۔ میں نے اسے رکنے کااشارہ کیا‘ اور وہیں ٹہلنے لگا‘ تبھی اندر سے شاہ زیب کی کار نکلی اور میرے قریب روک دی۔
تب میں نے ا سکے پاس جاکر کہا۔
”مجھے ذرا یہاں تھوڑا کام ہے‘ میں وہ کرکے آتا ہوں‘ تم جاؤ۔“
”ایسا کام ا چانک کیا پڑگیا؟“ اس نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”کئی دنوں سے سوچ رہاتھا‘ مجھے کسی بندے سے ملنا ہے‘ تم جاؤ‘ میں آجاؤں گا۔“ یہ کہہ کرمیں نے اس کی سنی ان سنی کرتے ہوئے اپنا رخ اس طرف کرلیا جدھر چھاکا میری پشت پر تھا۔
شاہ زیب چلا گیاتو میں کچھ دیر مزید وہیں رکا رہا۔ پھر چھاکے کی طرف چل پڑا۔ وہ بائیک اسٹارٹ کرکے میرے پاس آیا۔ میں اس کے پیچھے بیٹھ گیا تو اس نے بائیک بھگادی۔ میں ایک بہت بڑے خطرے سے دوچار ہونے والاتھا۔یہی اشارہ مجھے رندھاوے نے دیاتھا۔ مجھے میرے سوالوں کا جواب مل گیاتھا‘ اب میں نے صور تحال کے مطابق اپنا آئندہ لائحہ عمل ترتیب دیناتھا۔
# # # #