دلبر کا خون بہت زیادہ بہہ گیاتھا۔ اس کی حالت بہت نازک ہو رہی تھی‘ اس کا ہسپتال پہنچ جانا بہت ضروری تھا۔ مگر گاؤں میں اطلاع دینا بھی ضروری تھا۔ میں نے ایک لمحے کے لیے فیصلہ کیا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔میں نے ہسپتال جانے کو ترجیح دی۔
”اوئے دلبر…! حوصلہ رکھنا‘ میں تجھے ہسپتال لے جارہاہوں۔ ذرا سا وقت لگ جائے گا۔“
”اوئے نہیں اوئے…تو مجھے گاؤں لے چل‘ سمجھ کہانی مک گئی ہے‘ ہسپتال لے کرمیری لاش…“
”اوئے حوصلہ رکھ…“
”نہیں…جمالیا‘نہیں…تجھے نہیں پتہ …“ دلبر نے اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا اس وقت تک میں گاؤ ں جانے والی کچی سڑک پر آگیا تھا۔
میں نے فیصلہ کرلیا کہ چند کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہسپتال میں دلبر کو لے کرجاؤں گا۔ میں اسے بے رحمی سے بے بسی کی موت نہیں مرنے دینا چاہتاتھا۔
(جاری ہے)
میں نے تڑپ کر کہا۔
”دلبر…! میرے ویر بس ‘ ذراسا دم لے… میں تجھے ہسپتال ضرور لے جاؤں گا‘ میرے ویر بس ذرا سا حوصلہ۔“
”چل تو کرلے…کوشش…“ اس نے بے دم ہوتے ہوئے کہااور میں نے بائیک کی اسپیڈ بڑھادی ۔
میں ابھی کچھ ہی آگے گیاتھا کہ سڑک کے ایک طرف مجھے کچھ موٹر سائیکل کھڑے ہونے کا شک ہوا۔ میں ٹھٹک گیا‘ اگر دشمن ہوئے تو مجھے بھی یہیں ڈھیر کردیں گے‘ اور اگر زندگی ہوئی تو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ میں نے رفتار کم نہیں کی اور زن سے ان کے پاس سے گزر گیا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ بائیک میرے پیچھے لگ چکے ہیں۔ دلبر نے یقینا پیچھے مڑ کر دیکھاتھا‘ اس لیے بولا۔
”چند موٹرسائیکل والے …ہمارے …پیچھے… ہیں…“
”آنے دو…بس تو قابو ہو کربیٹھ…“ میں نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا لیکن حیرت یہ تھی کہ ابھی تک کسی نے فائر نہیں کیا تھا۔ میں اگر ان کی جگہ ہوتا تو اب تک بائیک گرالیتا۔بہرحال میں اپنی پوری توجہ سامنے رکھے ہوئے تھا‘ اورقصبے کے ہسپتال پہنچ گیا۔ میں نے بائیک روکی تو دلبر ایک طرف لڑھک گیا۔
میرا دل دھک سے رہ گیا۔ میں نے بائیک کو ایک طرف پھینکااور دلبر کوقابو میں کرلیا۔ آس پاس کوئی نہیں تھا‘ جومیری مدد کرتا‘ میں نے اسے قابو کیااور وہیں زمین پر لٹادیا۔اتنے میں موٹر سائیکلوں کی روشنی ہم پرپڑی‘ میں دیکھ ہی نہ سکا کہ دلبر کیسا ہے؟
”اوئے کیا ہوگیا اس کو…”چھاکے نے چیخ کر کہا تو میرے حواس ایک دم سے بحال ہوگئے‘ دشمنی والی لہر ایک دم سے ختم ہوگئی تھی۔
جس وقت تک وہ اتر کر میرے قریب آتے‘ میں نے اس کی نبض دیکھی جو بہت آہستہ چل رہی تھی۔
”اوئے دیکھو‘ یہاں کوئی بندہ ہے؟“
فوراً ہی وہ سب اردگرد پھیل گئے۔ ایک نے میرے ساتھ دلبر کو اٹھایااور اسے قریب پڑے ایک بینچ پر لٹادیا‘ اس کے خون سے میرے بدن پر چپچپاہٹ ہونے لگی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد ایک ڈسپنسر آنکھیں ملتاہوااندر سے نکلا‘ پھر یوں ایک بندے کوخون میں لت پت دیکھ کر حواس باختہ ساہوگیا۔
اس نے جلدی سے چوکیدار کو آواز دی‘ پتا نہیں کیا نام لیاتھا اس نے‘ وہ بھاگتا ہوا آیا تو ڈسپینسر نے کہا۔
”ڈاکٹر صاحب کوبلاکرلاؤ فوراً ایمرجنسی ہے۔“
وہ بھاگتا ہوا رہائشی کوارٹر کی طرف چلا گیا۔ میرے اندر ایک دم سے بے چینی اتر آئی تھی۔ دلبر‘ موت اور زندگی کی دہلیز پر پڑاتھا۔اب ڈاکٹر آنے میں پتا نہیں کتنا وقت لگاتا ہے‘ میں نے اس بے چینی میں قریب کھڑے چھاکے سے کہا۔
”تم وہاں کیسے…؟“
”تمہیں آنے میں بڑی دیر ہوگئی تو میں نے تمہارے پیچھے جانے کے لیے ان کو ساتھ لیا اور گاؤں سے باہر آگیا۔ ابھی یہاں پہنچے ہی تھے کہ حویلی کے پیچھے فائرنگ کا سن کر یہاں رک گئے‘ ابھی مجھے سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ قصبے کی طرف جاؤں یا پھر حویلی کی طرف… اتنے میں بائیک دکھائی دی‘ اندھیرے میں پتا نہیں چلا کہ کون ہے‘ جب توبالکل سامنے سے گزرا تو پتا چلا‘ بس پھر تیرے پیچھے پیچھے یہاں تک آگئے۔
“
”اچھا ہوگیا…لیکن مجھے لگتا ہے ڈاکٹر پولیس کیس کابہانہ کرکے اس کوہاتھ نہیں لگائے گا۔“ میں نے بے چینی اور بے یقینی میں کہا تووہ بولا۔
”پھر کیا کریں…“
”تو کسی طرح جااور رندھاوے کو یہاں لے آ… اسے صورت حال بتادینا‘ کوئی اور ہو تو کہنا راستے میں ڈکیٹ پڑگئے تھے۔“ میں نے سوچ کرسمجھاتے ہوئے کہا۔
”میں سمجھ گیا۔
“ یہ کہہ کر وہ تیزی سے اپنے موٹر سائیکل کی جانب بڑھا‘ تب تک ڈاکٹر تیزی سے آتا ہوادکھائی دیا۔ اس نے دلبر کو ایک نگاہ سے دیکھااور کہا۔
”مریض کو آپریشن تھیٹر میں لاؤ فوراً۔“
”تم نے …جلدی آنا ہے۔“ میں نے چھاکے کو ایک دم رکتے ہوئے دیکھ کر کہا۔ باقی سب نے دلبر کواٹھایااور آپریشن تھیٹر میں جالٹایا۔ ڈسپنسر آکسیجن سلنڈر لے آیا تو ڈاکٹر نے پوچھا۔
”ہوا کیا ہے ‘ اتناخون…“
”میں اوریہ ادھر سے اپنے گاؤں جارہے تھے۔ راستے میں ڈکیٹ پڑگئے‘ بس انہوں نے گولیاں ماری ہیں‘ اب پتا نہیں…“ میں نے تیزی سے کہا تو ڈاکٹر نے میری حالت پر ایک نگاہ دوڑائی‘ وہ تجربہ کار شخص لگتاتھا‘ ادھیڑ عمر تھا‘ اب پتا نہیں میری بات کایقین کیاتھایانہیں‘ تاہم وہ تیزی سے اپنا کام کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد دلبر کی سانس بحال ہونے لگیں تھیں۔
اس نے تیزی سے ایک کاغذ پر کچھ دوائیں وغیرہ لکھ کر دیں‘ اور کہا۔
”یہ کسی نہ کسی طرح لے آئیں‘ رات اگرچہ کافی ہوگئی ہے ممکن ہے کوئی ایک دُکان ابھی کھلی ہو۔“
میں نے کاغذ کا پرچہ لیااور اپنے دوساتھیوں کو دیتے ہوئے کہا۔
”فوراً لے آؤ۔ دیر نہیں کرنی۔“
انہوں نے کاغذ پکڑااور آناً فاناً چلے گئے۔
تقریباً ایک گھنٹے کے بعد دلبر کی حالت بحال ہوگئی۔
اسے دوگولیاں لگی تھیں۔ تب تک ڈاکٹر اس کے ساتھ مصروف رہا۔ اتنے میں ایک پولیس والا اے ایس آئی‘ وہاں آگیا۔ اس کے ساتھ دوسپاہی تھے۔ وہ بھی ڈاکٹر کے انتظار میں تھے۔ کچھ دیر بعد وہ باہر آیا اور مجھے دیکھ کر بولا۔
”بلاشبہ مریض کی یہ اپنی قوت مدافعت تھی کہ وہ اب تک زندہ ہے ورنہ خون بہت بہہ گیا ہے‘ ایک تو خون کا فوری بندوبست چاہیے …دوسرا خدشہ ہے کہ اس کے بدن میں زہر کااثر ہوجائے… اس لیے جس قدر جلدی ممکن ہوسکے‘ اسے ضلعی ہسپتال میں لے جائیں۔
وہاں سہولتیں ہیں‘ یہاں نہیں ہیں۔“
”ایمبولینس تو ملنے سے رہی۔“ میں نے بڑبڑاتے ہوئے کہا پھر ڈاکٹر کی طرف دیکھ کر کہا۔”آپ خون لے لیں‘ تب تک کچھ نہ کچھ ہوجائے گا۔“
”ٹھیک ہے۔“ اس نے کہااور واپس پلٹ گیا۔ چھاکا آگیاتھا‘ تبھی مجھے پولیس والوں کا خیال آیا تو میں نے اے ایس آئی سے پوچھا۔
”رندھاوا صاحب‘ وہ کہاں ہیں؟“
”پتہ نہیں جی‘ وہ کچھ دیر پہلے آپریشن کے لیے نکلے ہیں۔
آپ رپورٹ وغیرہ لکھوائیں چل کر تھانے میں…“
”مجھے اس وقت گاڑی چاہیے… جو مریض کو لے کر ضلعی ہسپتال جائے ‘رپورٹ تو رندھاوا صاحب آئیں گے تو لکھواؤں گا۔“ میں نے کافی حد تک غصے میں کہا‘ جس پرپولیس والے نے مجھے گھور کر دیکھا‘ میں سمجھ رہاتھا کہ اس وقت اس کی کیاحالت ہوگی‘ میں نے کوئی پروا نہیں کی۔