”کدھر جانا ہے باؤجی۔“
”جہاں اچھی سی فلم لگی ہو…“کمل نے تیزی سے اُکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔یہ سنتے ہی وہ چل پڑا۔ کمبل نے تیزی سے ایس ایم ایس کرن کو بھیج دیا۔ مگران کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا‘ وہ دونوں کسی حد تک پریشان ہوگئے۔ تبھی اس نے کرن کو فون کردیا۔
”کدھر ہو۔“ رابطہ ہوتے ہی اس نے پوچھا۔
”ٹیکسی میں بیٹھ کرنکل پڑے ہیں۔
“ کرن نے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے۔“ اس نے یہ کہہ کر فون بند کردیا۔
رکشا کچھ دیر تک چلتا رہا ‘تبھی کمل نے اس سے کہا۔
”اوئے یار… کدھر لے کرجارہا ہے کچھ بتاؤ تو…“
”باؤجی‘ دوسرا شو تو شروع ہوگیاہوگا‘ میں اب تک سوچ رہا ہوں کہ آپ کو کدھر لے جاؤں‘
”چل پھر تو ایسا کرہمیں کسی کھانے پینے والی دکان پر چھوڑ‘ اور تو جا…“ اس نے ایک قریب آتی ہوئی مارکیٹ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
(جاری ہے)
رکشے والے نے انہیں وہاں چھوڑ دیا‘ اور آگے بڑھ گیا۔ وہ مارکیٹ میں چلے گئے‘ کچھ دیر ٹہلنے کے بعد جسپال نے کہا۔
”اب چلیں‘ رات گہری ہو رہی ہے‘ زیادہ رسک نہ لیں۔“
”اب ہم نے ادھر نہیں جانا‘ بلکہ جب تک کسی نئے ٹھکانے کے بارے میں کرن نہ بتادے‘ اب ہم نے ادھر نہیں جانا۔“
”وہ کیوں…؟“ اس نے پوچھا۔
”وہ اس لیے کہ ہماری جیپ پکڑی گئی ہے‘ اگرچہ وہ چوری کی تھی لیکن دو دن سے وہ میرے استعمال میں تھی۔
لوگوں نے دیکھا ہے…“ کمل نے ہنستے ہوئے کہا۔
”وہ گھر…“ جسپال نے حیرت سے پوچھا تووہ ہنستے ہوئے بولا۔
”چوکیدار جانے اور وہ گھر… ایسے کئی ٹھکانے مل جاتے ہیں‘ وہاں سے اپنا سامان شفٹ ہو چکاہوگا۔“
”واہ…! کیاپلاننگ ہے۔“
”پچھلے دو ہفتے سے جسمیندر بائی جی نے میرے ذمے یہ کام لگایا ہوا ہے‘ میں نے …“ لفظ اس کے منہ ہی میں تھے کہ اس کا سیل فون بج اٹھا‘ دوسری جانب کرن تھی‘ اس نے کالونی اور گھر کانمبر بتادیااور پہنچ جانے کو کہا‘ تبھی فون بند کرکے بولا۔
”لو بائی جی‘ ٹھکانہ مل گیا‘ چلیں۔“ یہ کہہ کر اس نے ادھر ادھر دیکھا‘ ایک ٹیکسی پکڑی اور وہ دونوں اس میں بیٹھ گئے۔
وہ ایک اوسط درجے کے سرکاری ملازمین کی کالونی تھی۔ وہاں پہنچ کر لگ رہاتھا کہ جیسے یہ تاحد نگاہ پھیلی ہوئی ہے‘ جلد ہی وہ اپنے مطلوبہ نمبر والے مکان پر پہنچ گئے‘ کمل نے ٹیکسی چھوڑ دی‘ پھر کرن سے کنفرم کیا‘ وہ بالکونی میں آگئی‘ کچھ دیر بعد وہ کمرے کے اندر تھے۔
دوسری منزل پر قدرے سکون تھااور کافی حد تک خاموشی۔ انہوں نے جوتے اتارے اور پلنگ پر دراز ہوگئے۔
”ہرپریت کدھر ہے؟“ جسپال نے پوچھا تووہ واپس پلٹتے ہوئے بولی۔
”کچن میں ہے‘ ہم نے راستے میں کچھ کھانے پینے کے لیے لے لیاتھا۔“ یہ کہہ کر وہ کمل ویر کی جانب دیکھ کر بولی۔ ”ہم نے یہاں نہیں رہنا‘ اس لیے سونانہیں‘ ہم نے صبح ہونے سے پہلے یہاں سے نکلنا ہے۔
“ یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔
”اوکے میم صاحب۔“ کمل ویر نے کہااور سامنے پڑا ٹی وی چلادیا۔ دو چار چینل بدلتے ہی اس کا مطلوبہ چینل مل گیا۔ نیوز کاسٹر پورے جوش وجذبے کے ساتھ ایک ایم ایل اے کے بیٹے کے قتل کی خبر کے ساتھ اس کی جزئیات بتارہی تھی۔ پس منظر میں کھڑکی سے دیوار کی کٹی ہوئی تاریں‘ صوفے پر خون کے دھبے‘ مین گیٹ والے گارڈ کابیان‘ غم زدہ بیوی اور بیہوش بچہ دکھایاجارہاتھا۔
کچھ دیر بعد رویندر سنگھ دکھایا گیا‘ وہ کہہ رہاتھا۔
”میں ابھی اس قتل کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا‘ مجھے اور میرے بیٹے کو کئی دنوں سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔ یہ کسی کھاڑ کو(دہشت گرد) گروپ کی کارروائی لگتی ہے‘ میں انہیں بتادینا چاہتاہوں کہ نہ ہم بکنے والے ہیں اور نہ جھکنے والے‘ اپنے دیش کے لیے ہم قربان ہوجانے کاجذبہ رکھتے ہیں…“
”بند کر اس بہن …“ جسپال سنگھ نے غصے میں کہا تو کمل ویر نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پھر ٹی وی بند کرتے ہوئے بولا۔
”یار…! میں یہ سمجھنے کی کوشش کررہاہوں کہ ملزموں کی تلاش کس سطح پرکی جارہی ہے اور مزید آگے کس ٹریک پر تلاش ہوگی۔“
”تمہاری سوچ سے بھی زیادہ۔“ جسپال نے کہا
”کیوں…؟“ اس نے حیرت سے پوچھا۔
”میں نے کمیشن کے دو بندے بھی پھڑکائے ہوئے ہیں‘ اور وہ …“ جسپال نے کہناچاہا تو وہ حیرت سے بولا۔
”اوہ …اس کامطلب ہے مجھے بھی اسی سطح پر سوچنا ہوگا۔
“ یہ کہہ کر وہ چند لمحے سوچتا رہا‘ پھر ہنستے ہوئے بولا۔ ”اوہ واہ یار… میں بھی پاگل ہوں…جتنا پروٹوکول نظر آئے گا‘ اتناہی پھنسیں گے۔ تو چل سکون سے دو دن آرام کر…پھر دیکھی جائے گی۔“
یہ لفظ کرن نے سن لیے تھے‘ وہ کھانا لے کر آئی تھی‘ اس لیے بولی۔
”کچھ بھی ہے یہاں سے نکلناہے‘ ادھر کی عورتیں بڑی کن سوئی رکھتی ہیں‘ فی الحال کھانا کھائیں‘ آؤ ہرپریت۔
“
”لیکن میں کچھ اور سوچ رہا ہوں۔“ جسپال نے کہا۔
”کیا…؟“ کمل ویر نے پوچھا۔
”یہیں کہ ابھی یہاں سے نکل جاؤں‘ ورنہ اوگی میں وہ انوجیت کو تنگ کریں گے۔ اور یہ امرتسر میرے لیے چوہے دان بن سکتا ہے۔“ جسپال نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ چند لمحے سوچتا رہا پھر بولا۔
”کہاں جاؤگے۔“
”نکودر یاپھر دہلی…“ جسپال نے حتمی انداز میں کہا تووہ بولا۔
”چل ٹھیک ہے‘ پہلے کھانا کھا‘ پھر سوچتے ہیں۔“
وہ چاروں کھانے کے لیے بیٹھ گئے اور ان کے درمیان خاموشی آن ٹھہری۔
# # # #