Episode 91 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 91 - قلندر ذات - امجد جاوید

”دیکھ سوہنی‘تجھے چاہے جائیداد کی بھوک ہے یانہیں لیکن شاہ زیب کو ہے‘ وہ کسی صورت بھی تجھے زندہ نہیں دیکھنا چاہے گا۔ اب تجھے اپنے اپنے راستے سے ہٹانے کا وہ کوئی طریقہ بھی آزمائے‘ممکن ہے وہ تجھے بہن کامان اور عزت دے کر حویلی بھی لے جائے یاپھر سیدھے سبھاؤ قتل کروانے کی کوشش کرے یاممکن ہے کوئی سازش کرکے قتل کروائے… اس سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔

”میں جانتی ہوں جمال…! مجھے جائیداد کی قطعاً کوئی بھوک نہیں۔ اور نہ ہی میں اس کے لیے کوشش کروں گی‘ میری ماں کے پاس اتنا سرمایہ ہے کہ میں سکون سے زندگی گزار لوں‘ اور اگر میری ماں بھی مجھے اپنے گلے نہ لگائے تو مجھے اتنا یقین ہے ‘تُو مجھے ضرور اپنی جوتیوں میں جگہ دے دے گا۔“ سوہنی نے کچھ اس انداز سے کہا کہ میرے دل میں اس کے لیے ہمدردی‘ پیار اور محبت کی لہریں ایک دوسرے سے اٹھکیلیاں کرتی ہوئی کہیں دور تک پھیل گئیں۔

(جاری ہے)

”یہ یاد رکھو‘ میں اب تجھے کبھی نہیں چھوڑوں گا‘ لیکن کبھی بھی تم پر نہ اپنا دعویٰ رکھوں گا اور نہ جبر کروں گا‘ تم اپنی مرضی کی مالک ہو‘ جو چاہو سوفیصلہ کرو۔“ میں نے اپنی سوچ کا اظہار کردیا۔ تبھی اس نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھااور بولی۔
”میں تجھے اپنا دل دے چکی ہوں جمال‘ ایک عام لڑکی جب اپنا دل دے دیتی ہے نا‘ تو پھر وہی اس کا سب کچھ ہوتا ہے‘ وہ چاہے جان لے لے یازندہ رکھے…میں تو پھرایک طوائف ہوں‘ طوائف کا جس پر دل آجائے نا‘ وہ…“ سوہنی نے کہناچاہا تو میں نے اس کے ہونٹوں پراپنا ہاتھ رکھ دیا۔
پھر گہری سنجیدگی سے کہا۔
”کیاتم ایسا نہیں کرسکتی ہو کہ خود کو طوائف سمجھنا چھوڑ دو‘ اس زندگی کو بھول جاؤ؟“
”تم چاہو تو…“ اس نے بڑے گھمبیر لہجے میں جواب دیا۔
”سوہنی…! میں تم سے جھوٹ نہیں بولوں گا‘ میں تم سے محبت محسوس کرتاہوں اوربلاشبہ تم اتنی پیاری ہو‘ ایسی ہو کہ تم سے محبت کی جائے‘ لیکن مجھے خود پر اعتماد نہیں ہے‘ آج میں ہوں‘ پتہ نہیں اگلے چند لمحوں میں‘ یامحض چند گھڑیوں میں نہ رہوں‘ کوئی بھی سنسناتی ہوئی گولی‘ میرا جسم ٹھنڈا کردے …اور پھر…“
”ایسا نہ کہو جمال…!“ اس نے تڑپ کر کہا۔
”نہیں…مجھے کہنے دو… جس طرح کی جنگ میں نے چھیڑلی ہے اس میں بہت کچھ بھی کچھ نہیں ہے۔ کل اگر شاہ زیب مجھے اپنے ڈیرے پرمار دیتاتو کیاہوتا‘ زندگی اور موت بے شک اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن یوں بھی تو ہوسکتا ہے نامیری باقی زندگی کسی جیل خانے میں گزر جائے‘ یا میں اشتہاری بن جاؤں۔ زندہ ہوتے ہوئے بھی تم تک رسائی نہ ہو؟“ میں نے اسے اس حقیقت سے آگاہ کیا جس کے بارے میں وہ بھی اچھی طرح آگاہ تھی۔
وہ چند لمحے سوچتی رہی پھر بولی۔ 
”تم ایسا کیوں نہیں سوچتے ہو کہ تمہارا جو مقصد تھا‘ وہ پورا ہوچکا ۔ ہم یہ جگہ‘ یہ علاقہ ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ میں اپنی زندگی کو چھوڑ دیتی ہوں۔ ہم کسی دوسری جگہ ایک نئی زندگی کاآغاز کریں۔“
”بہت اچھی بات ہے۔ میں بھی ایک پرسکون زندگی چاہتاہوں‘ ایک پرسکون گھر کاخواب میرے اندر بھی ہے‘ لیکن سوہنی‘ کیایہ سب ایک دو دن میں ہوسکتا ہے‘ ہمیں یہاں سے سمیٹ کر کسی نئی جگہ پرجاکر‘ نئی زندگی شروع کرنے میں کچھ دن تو لگیں گے۔
میں تیری بات مان لیتاہوں‘ پھر بھی اگر میری زندگی میں سکون نہ رہا‘ وہی سب کچھ ہوا‘ جومیں نے تمہیں پہلے کہا ہے تو پھر…؟“ میں نے تیزی سے کہتے ہوئے اس سے پوچھا۔
”وہ جب وقت آئے گا تو دیکھاجائے گا۔“
”سوہنی… تب مجھے وہ زندگی چھوڑتے ہوئے بہت دکھ ہوگا۔ اتنا دکھ کہ شاید تم اس کاتصور بھی نہ کرسکتی ہو۔ اس وقت میری اکیلی جان ہے‘ میرے ساتھ کچھ بھی ہوجائے‘ مجھے کچھ فرق نہیں پڑنا۔
”تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ اس وقت تم اکیلی جان ہو‘ کیااماں نہیں ہے ‘کیامیں نہیں ہوں۔“ اس نے تڑپ کر کہا۔
”سن…! جب اماں نے مجھے یہ راستہ دکھایا تھا تو ساتھ میں یہ سبق بھی دے دیاتھا کہ پتر‘خود کو اکیلا ہی سمجھنا‘ میری فکرمت کرنا‘میرے بارے میں سوچوگے تو کچھ بھی نہیں کرپاؤگے‘ یہ سبق میں نے یاد رکھا‘ اس نے مجھے حوصلہ دیا‘ آج میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکا ہوں لیکن یہ کامیابی ابھی ادھوری ہے‘ شاہ زیب نے پلٹ کرمجھ پروار کرنا ہے ‘ اور میں بزدلوں کی طرح یہاں سے بھاگ جانانہیں چاہتا ‘ یہیں رہنا چاہتا ہوں‘ اور جہاں تک تمہاری بات ہے ‘ تمہارا یہ چند دن کا ساتھ مجھے یوں لگتا ہے جیسے ہم صدیوں سے ایک ہوں۔
بلاشبہ تم مجھے اچھی لگتی ہو‘ لیکن تم بتاؤ‘ کیامیں ان حالات میں ایک گھر بنا سکتاہوں‘ تمہارے خوابوں میں رنگ بھرسکتا ہوں۔“ میں بے حد جذباتی ہوگیا تھا‘ اس لیے کہتا چلاگیا۔
”جمال…! تم جو سوچو‘ جو چاہو‘ میں تمہاری ہوں‘ زندگی کے آخری لمحے تک میں تیری منتظر رہوں گی‘میں اپنا آپ تیرے لیے وقف کرچکی ہوں۔“ اس نے آہستگی سے کہااور اپنا سر میرے کاندھے پررکھ دیا۔
تبھی میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”زندگی میں بھی جینا چاہتا ہوں‘ لیکن اک ذرا صبر‘ میں نے خود یہاں نہیں رہنا‘ یہاں سے دور بہت دور چلے جانا ہے‘ تم جانتی ہو کہ میں یونہی اچانک اس کھیل سے نہیں نکل سکتا۔ ذرا وقت لگے گا‘ اور تم میرے ساتھ اس وقت تک کاانتظار کرلو۔“
”میں تمہاری ہوں‘ تم میری زندگی کے مالک ہو۔ جو چاہو اور جیسا فیصلہ کرو‘مجھے قبول ہوگا۔
“ اس نے حتمی انداز میں کہا۔تبھی میں نے اس کی زلفوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔
”بس یہی یقین رکھنا کہ میں تمہارا ہوں اور تمہارا ہی رہوں گا۔ یہ چند دن‘ چند ہفتے بھی ہوسکتے ہیں‘ چند مہینے‘پھر ہم ایک نئی زندگی کاآغاز کریں گے اور اگرمیں نہ رہاتو…“
”ایسا مت سوچو…“ اس نے جلدی سے خود کو الگ کرکے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔
”تم یہ باتیں برداشت نہیں کرپارہی ہو‘ تمہیں تومیرے ساتھ چلتے ہوئے بہت بہادر ہونا پڑے گا۔ بہت حوصلہ رکھناپڑے گا۔“میں نے اس کے ہونٹوں کی نرماہٹ کو اپنی انگلی کی پور سے محسوس کرتے ہوئے کہا۔
”تم دیکھنا جمال‘ میں تیرے رنگ میں خود کوکیسے رنگتی ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ دوبارہ میرے کاندھے سے لگ گئی۔ میں کچھ دیر اس کی پیٹھ تھپکتا رہا ‘ایسے میں گیٹ بجنے کی آواز آئی …وہ مجھ سے الگ ہوگئی‘ میں اٹھا اور گیٹ تک گیا۔
باہر چھاکا تھا‘ وہ خاموشی سے چلتا ہوا میرے ساتھ دالان میں آکربیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد ادھر ادھر دیکھااور پوچھا۔
”اماں نہیں ہے؟“
”وہ حویلی گئی ہے۔ سنا ہے سردار شاہ دین قتل ہوگیا ہے۔“ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔مقصد یہی تھا کہ وہ اس حوالے سے مجھے مزید باتیں بتائے۔
”ہاں…سنا تو یہی ہے‘ کوئی کہتا ہے اس نے خودکشی کرلی ہے‘ اور کوئی کہتا ہے قتل ہوا ہے‘ وہ کوئی بہت ہی ظالم قاتل تھا جس نے اس کے نرخرے پرخنجر پھیردیا۔
ویسے اگر وہ خودکشی کرلیتاتو زیادہ اچھا نہیں تھا؟“ چھاکے نے سرسری انداز میں پوچھا۔
”میرے خیال میں اس کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی ہوگی۔ خیر… پتہ چلا کہ شاہ زیب کیا کہتا ہے؟“ میں نے پوچھا۔
”وہ ابھی تک خاموش ہے۔ پولیس آئی تھی صبح صبح… کیونکہ قتل کا پتہ ہی صبح چلا ہے۔ رات سارے ملازمین اورسیکیورٹی گارڈ ڈیرے پر تھے۔ وہاں کیا کھچڑی پکتی رہی ہے یہ تو ابھی معلوم نہیں ہوا۔
مجھے چاچا بیرو ابھی نہیں ملا‘ میں ایک چکر اس کے گھر کا لگاآیاہوں‘ وہ حویلی میں ہے‘ آتا ہے تو معلوم ہوجائے گا۔“
”توپولیس کے آنے کے بارے میں بتارہاتھا۔“ میں نے پوچھا۔
”ہاں پولیس آئی تھی‘ انہوں نے لاش کو قبضے میں لے لیا ہے اور قصبے والے ہسپتال میں لے گئے ہیں۔ شاہ زیب بھی ساتھ ہے‘ یقینا اب ایف آئی آر درج ہوگی‘ سردار تو پورا زور لگادیں گے قاتل پکڑنے کے لیے۔
”علاقے کی کیا صور تحال ہے‘ کیا علاقے میں یہ بات گردش نہیں کررہی ہے کہ شاہ زیب اپنے باپ کا قاتل خودبھی ہوسکتا ہے‘ اس نے کسی کرائے کے قاتل سے یہ قتل کروایا‘ کیونکہ وہ اپنے باپ سے ناراض تھا‘ سیکیورٹی والوں کے ساتھ ڈیرے پرتھا‘ شک تو جاتا ہے نااس کی طرف…“ میں نے سوچتے ہوئے کہا۔
”ہاں…یہ تو ممکن ہے کہ ایسی بازگشت بھی ہو‘ پھرناراضگی کی وجہ بھی سامنے آئے گی‘ پولیس والے تو جانتے ہیں ناکہ شاہ زیب ناراض تھا‘ ایک دوسرے کے ساتھ اچھی خاصی جھڑپ بھی ہوچکی تھی۔
“ چھاکے نے بھی سوچتے ہوئے کہا۔
”تواچھا ہے ناراضگی کی وجہ معلوم ہوجائے‘ علاقے میں پتہ چلے گا تو ساری کہانی لوگوں پر کھل جائے گی‘ میرا خیال ہے سوہنی کو اس علاقے میں عزت واحترام ملنا چاہیے۔ یہ ثابت کرناہوگا کہ وہ طوائف نہیں ہے۔“ میں نے چھاکے کی طرف دیکھ کر کہا۔
”سب کچھ ممکن ہے‘ جمالے…د یکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ شاہ زیب پر ہی ہے نا کہ وہ شک کی انگلی کس کی طرف کرتا ہے۔
پھر وہیں سے بات چلے گی۔ میرے خیال میں یہ چند دن تو وہ کچھ نہیں کرپائے گا۔ ظاہر ہے ان کے تعلق کا دائرہ وسیع ہے۔ اس کا اپنا ایک سیاسی اثرورسوخ بھی تھا‘ یہ سلسلہ چلے گا‘ پھر دیکھیں گے کیاہوتا ہے۔“ وہ یوں بولا جیسے راوی ابھی چین ہی چین لکھتا ہے۔
”گاؤں کے لوگ کیا کہتے ہیں۔ نور نگر میں تو حیرت پھیل گئی ہوگی۔“ میں نے پوچھا۔
”ہاں‘ حیرت تو ہے وہ سوچ رہے ہیں کہ اتنے بڑے بندے پر ہاتھ کس نے ڈال دیا۔
خیر…! جمالے جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا‘تم ذہن میں رکھنا کہ اس قتل کی تفتیش بڑے اعلیٰ پیمانے پر ہوگی اور ہوسکتاہے اگر شاہ زیب نے چاہا تو …ورنہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔“ اتنا کہہ کر اس نے آہستگی سے کہا۔”تم بہت محتاط رہنا۔“
”میں محتاط ہی ہوں۔ میں بہت کچھ سوچ چکا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ شاہ زیب کیسی سوچ رکھتا ہے۔ میں نے اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کرنا‘ ہاں اگر اس نے کچھ کیا تو اپنا دفاع کرنا تو بنتا ہے چھاکے…“
”وہ تو ہے… خیر…! اب دیکھتے ہیں کہ اپنے منہ سے ہوا کیانکالتا ہے تو پھر سوچیں گے کہ ہمیں کیا کرنا ہے…“ یہ کہہ کر اس نے ادھر ادھر دیکھااور پوچھا۔
”اماں تو حویلی گئی ہے‘ کیا سوہنی بھی گھر پر نہیں ہے۔“
اس نے اتنا ہی پوچھا تھا کہ کچن میں سے سوہنی نے آواز دی۔
”ہاں چھاکے کیا بات ہے‘ میں ادھر چائے بنا رہی ہوں تمہارے لیے۔“
”بس یہی کہنا تھا میں نے… جلدی سے بنالاؤ…“ اس نے کہااور میری طرف دیکھ کر مسکرادیا۔ اس سے پہلے کہ ہم کوئی بات کرتے‘گیٹ پر دستک ہوئی‘ میں قدرے حیران ہوا کہ اماں کو دستک دینے کی کیا ضرورت‘ دروازہ تو کھلا ہوا ہے ممکن ہے کوئی اور ہو ‘یہی سوچ کر میں اٹھااور گیٹ تک گیا۔
میں نے باہر جھانکا تو سامنے ڈی ایس پی کھڑا تھا‘ اس کے اردگرد بہت ساری پولیس کی نفری تھی۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”میں باہر والاکمرہ کھولتا ہوں۔“
یہ کہہ کرمیں نے گیٹ بند کرنا چاہا تو اس نے میرا بازو پکڑلیا‘ پھر بڑے سرد سے لہجے میں بولا۔
”میں تمہیں گرفتار کرنے کے لیے آیا ہوں۔ چالاکی دکھانے کی کوشش کی تو گولی ماردوں گا۔“ میں نے اس کے چہرے پر دیکھااور پھر پلٹ کر اندر کی جانب نگاہ دوڑائی‘ سوہنی اور چھاکا مجھے دیکھ رہے تھے۔ میرے سامنے ڈی ایس پی‘ میرا بازو پکڑے ہوئے میری گرفتاری کا اعلان کر چکاتھا۔
                                         # # # #

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط