Episode 57 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 57 - قلندر ذات - امجد جاوید

ایک طرف جہاں میں حیران تھا کہ سوہنی یہاں آکر اماں کو لے گئی ہے‘ وہاں میں حد درجہ پریشان بھی تھا کہ اماں اس کے ساتھ کیوں چلی گئی‘ مجھ سے پوچھے بغیر‘ کوئی بات کیے بغیر وہ یوں کیسے اس کے ساتھ چلی گئی‘ کئی خیال میرے ذہن میں آرہے تھے‘ کیاسوہنی نے اماں سے جھوٹ بولا‘ اسے کوئی دھمکی دی‘ یاپھر ڈرادھمکا کر لے گئی‘ سوہنی نے ایسا کیوں کیا؟ یہی بات میرے دماغ میں تیر کی طرح کھب گئی تھی‘ کیونکہ یہ سب ایسے موقع پر ہوا تھا جب ملک سجاد موت وحیات کی کشمکش میں تھا۔
جب سے سوہنی اتفاقیہ طو رپرمیری زندگی میں آئی تھی‘ تب سے انجانے میں ملک سجاد کے ساتھ دشمنی شروع ہوگئی تھی۔ عورت اور وہ بھی طوائف‘ اس کا کیا بھروسہ‘ وہ ایک طرف خود کو مظلوم ثابت کررہی تھی تو دوسری جانب ممکن ہے پیسے اور لالچ کے باعث ملک سجاد سے مل گئی ہو۔

(جاری ہے)

یا پھر دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے راتب بن گئے ہوں‘ میں سمجھتاہوں کہ کتے کاپھر بھی بھروسہ کیا جاسکتا ہے‘ مگر سانپ کانہیں‘ میرے دماغ میں سے سب شے نکل گئی تھی اور صرف میری ماں کا چہرہ میری نگاہوں کے سامنے ٹک گیاتھا۔

میں نے گھر ویسے ہی کھلا رہنے دیا اور بائیک پر سیدھا چوک میں اچھو کریانے والے کی دکان پرپہنچا‘ اگرچہ میرے ذہن میں یہی تھا کہ یہاں سے فون نہیں کرنا چاہیے‘ کیونکہ اس سے میری بہت بڑی کمزوری دشمنوں کے ہاتھ میں آسکتی تھی‘ لیکن پتا توپھر بھی لگ جاناتھا‘ ماسی مختاراں سے کہاں یہ بات چھپائی جاسکتی تھی۔ آج نہیں تو کل پورے گاؤں کوپتہ چل جاناتھا‘ میں نے جاتے ہی ریسیور اٹھایا تو اچھو فوراً بولا۔

”جمال بھائی‘ فون کل سے خراب ہے‘ کوئی کال نہیں ہوگی‘ ٹھیک کررہے ہیں‘ ممکن ہے ابھی ٹھیک ہوجائے۔“ اس کے یوں کہنے پر مجھے یوں لگا جیسے میری ماں‘ میری دسترس سے دور ہوتی چلی جارہی ہے۔ میں کافی دیر تک وہاں کھڑا رہا‘ممکن ہے فون جلدی ٹھیک ہوجائے اور میں کال کرلوں‘ یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہوگیا پھر میں نے وہاں مزید ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھا‘ اور سیدھا دلبر کے گھر کی طرف بڑھا۔
جہاں اب تک لوگوں کا رش لگ چکاتھا۔ میری نگاہیں چھاکے کو تلاش کررہی تھیں۔ جلد ہی مجھے معلوم ہوگیا کہ وہ ساتھ والی بیٹھک میں پولیس والوں کے پاس بیٹھا ہے۔ میں اس جانب بڑھ گیا۔ دروازہ ویسے ہی بند تھا‘ میں نے کھولااور اندر دیکھا‘ رندھاوے کے ساتھ دو پولیس والے‘ گاؤں کے بزرگ اور چھاکا بیٹھے ہوئے تھے۔
”لوجی‘ جمال بھی آگیا ہے۔“ ایک بزرگ نے کہا تو میں بولا۔
”میں ابھی حاضر ہوتاہوں۔ دو منٹ چھاکے سے بات کرنی ہے‘میں نے…“
”خیریت تو ہے ناجمال…“ رندھاوے نے میرے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا۔ شاید میرا چہرہ پڑھ لیا تھا۔
”بتاتاہوں‘ ذرا چھاکے سے بات کرلوں۔“ میں نے کہا‘ تب تک وہ اٹھ کر میرے پاس آگیا۔ میں اسے لے کربیٹھک سے باہر آگیا۔
”اوئے جمالے بتا خیر تو ہے۔“ اس نے گلی میں آکر پوچھا۔
تو میں نے ساری روداد اسے سنادی۔ پھر کہا۔
”ممکن ہے!وہ ہمیں بلیک میل کریں۔“
‘”دیکھ جمالے… تو اپنے آپ پر قابو رکھ‘ دلبر کی تدفین ہوجانے دے‘ تب تک جوبھی ہوگا‘ وہ سامنے آجائے گا‘ ورنہ پھر سوہنی کو تلاش کرنا کون سا اتنا مشکل ہوگا۔“
”اگر…اگراس کی نیت ٹھیک نہ ہوئی تو سوہنی کو تلاش کرنابہت مشکل ہوجائے گا۔“ میں نے کہا تو اس نے سوچتے ہوئے کہا۔
”نیت کاپتہ کیسے چلے گا…؟اس سے رابطہ ہوگا‘ یاپھر اس سلسلے میں ہم سے کوئی ر ابطہ کرے گا۔“
”توپھر کیا کرنا چاہیے ؟“ میں نے زچ ہوتے ہوئے پوچھا۔
”کچھ دیر تک خاموش رہ… دلبر کودفناتے ہی کچھ کرتے ہیں۔“ لفظ ابھی اس کے منہ ہی میں تھے کہ گلی میں پانچ چھ کاریں آگئیں۔ ان کے درمیان ایک ہیوی فوروہیل جیپ تھی۔ وہ دلبر کے گھر سے ذرا فاصلے پررک گئیں۔
میں ٹھٹک گیا۔ آنے والے پتا نہیں کون تھے۔ دوست تھے یا دشمن۔ میں انہیں غور سے دیکھ رہا تھا۔ تبھی فور وہیل جیپ سے پیرزادہ وقاص باہر نکلا‘ اس سے پہلے کئی لوگ کاروں سے نکل آئے تھے۔ یہ سب علاقے کے مختلف لوگ تھے۔ اس نے ماحول پرطائرانہ نگاہ ڈالی اور مجھ پررک گئی۔ ہم دونوں کی نگاہیں چار ہوئیں تووہ سیدھامیری طرف بڑھا‘ میری سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ ان لمحات میں مجھے کس طرح کے ردعمل کااظہار کرنا چاہیے‘ وہ بڑھتا ہی چلا آرہا تھااور لازمی طور پر اس کے ساتھ آئے ہوئے لوگ بھی اس کے ہمراہ تھے۔
میں کھڑا رہا‘ مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر اس نے اپناہاتھ بڑھایا‘ میں نے بڑھ کر اس سے مصافحہ کیاتو اس نے مجھے گلے لگاتے ہوئے کہا۔
”مجھ سے ملو جمال‘ تجھ سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں۔“
”ابھی یا…“ میں نے سرگوشی میں کہا۔
”ہاں شام تک کسی بھی وقت…“ اس نے بھی دھیرے سے کہا۔
”چلیں‘ ملتے ہیں کہیں…“ یہ کہہ کر میں اس سے الگ ہوا‘ پھر دوسرے لوگوں سے ملنے لگا۔
اتنے میں رندھاوے کو اطلاع مل گئی‘ وہ بھی آگیا۔ یوں گلی میں ایک ہجوم سا اکھٹا ہوگیا‘ دریاں بچھادی گئیں تو سارے لوگ وہیں جمع ہوکربیٹھ گئے۔ میرے دماغ میں پیرزادے کی بات سن کر یونہی ہلچل مچ گئی تھی۔ ”کیا سوہنی کارابطہ پیرزادے سے ہے‘ اگر ہے تو…“ میں مزید اس سے آگے کچھ نہ سوچ پارہاتھا‘ میرے اندر سنسنی بڑھتی چلی جارہی تھی۔ جنازہ تیار ہونے میں تھوڑا ساوقت تھا۔
لاشعوری طو رپر لوگوں کے ذہن میں تھا کہ گاؤں میں ہونے والی اس فوتیدگی پر شاہ زیب ضرور آئے گا‘ مگر حویلی والوں کی طرف سے دور دور تک کسی کی آمد نہیں ہوئی تھی۔ لوگوں کی باتوں کی ہلکی ہلکی بھنبھناہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ کچھ وقت گزرگیا‘ جنازہ تیار ہوگیا اور پھر لوگ لے کر قبرستان کی طرف چل دیئے۔ 
نورنگر کے لوگوں کے لیے پہلی مرتبہ یہ دیکھنے میں آیا تھا کہ کوئی بڑا زمیندار یوں جنازے کے ساتھ پیدل چلتا چلاجارہا ہے۔
ورنہ پہلے تو یہی ہوتا تھا کہ وہ عین جنازہ پڑھنے کے وقت پہنچتے‘ یاان کاانتظار کیا جاتا‘ یاپھر دوسرے تیسرے دن دعا کے وقت وہ لوگ اظہار ہمدردی کے لیے آموجود ہوتے۔ میں خود پر جبر کرتے ہوئے چلتا چلاجارہاتھا۔ میری تمام تر سوچیں سوہنی اور اپنی ماں کی طرف تھیں۔ یہاں تک کہ قبرستان آگیا۔ نماز جنازہ کے بعد لوگ دلبر کودفنانے لگ گئے جبکہ پیرزادے نے دھیرے سے میرا ہاتھ پکڑااور ایک طرف کو چل دیا۔
مجھے بھی تجسس تھا‘ لہٰذا اس کے ساتھ چلتا ہوا لوگوں سے کافی دور آگیا۔
”جمال…! کیا تیری میری کوئی دشمنی ہے؟“ پیرزادے نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
”بالکل نہیں۔“ میں نے فوراً جواب دیا۔
”اگرمیری اور سرداروں کی لڑائی ہوجائے‘ تو تم کس کاساتھ دوگے؟“ اس نے پوچھا۔
”کسی کابھی نہیں۔“ میں نے اسی لہجے میں جواب دیا۔
”کیوں…؟“ اس نے براہ رست میری آنکھوں میں جھانک کر کہا۔
”مجھے کسی کی لڑائی لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور پھر مجھے یقین ہے کہ تم دونوں کبھی آپس میں نہیں لڑوگے۔“ میں نے بیزاری سے کہا۔
”نہیں‘ میں فیصلہ کرچکاہوں جمال‘ آج تک بابا سائیں مجھے روکتے آئے ہیں کہ میں سردار شاہ دین کے خلاف نہ جاؤں‘ مگر میری اس خاموشی نے انہیں شہ دی ہے‘ اگرچہ یہ تیرا اچھا فیصلہ ہے کہ تم اس لڑائی میں نہیں آؤگے‘ مگر…وہ لوگ تجھے اس طرح استعمال کرچکے ہیں کہ تجھے پتا تک نہیں چلا۔
“ اس نے کسی حد تک طنزیہ لہجے میں کہا۔
”ممکن ہے‘ انہوں نے ایسا کرلیاہو‘ لیکن…“
”لیکن… شک نہیں‘ حقیقت ہے یہ…غور کرو‘ میلے سے لے کر اب تک کے واقعات پر…وہ سیاسی طور پر اس علاقے سے اب پنجاب کی سطح پرحکمرانی کرنا چاہتا ہے‘ ملک سجاد جیسے کئی دوست بنائے ہیں اس نے… بڑی مچھلی بن کر چھوٹی مچھلیوں کو نگل جانا چاہتا ہے۔ اب یہ ہماری بقا کی جنگ ہے…ورنہ وہ ہمیں اپنا مطیع بنا کررکھے گا‘ یا ختم کردے گا…یہ ہے تمہاری اس بات کا جواب کہ میں اس سے کیوں لڑنا چاہتا ہوں…“ اس نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں سمجھانے والے انداز میں کہا۔
”لڑو… لیکن ہم پر تو عرصہ تنگ ہوگیانا… بقول آپ کے ہم استعمال ہوگئے‘ وہ غریبوں کو اور آپ بھی غریبوں ہی کو اس جنگ میں جھونک دوگے…“ میں نے غصے میں کہا۔
”یہ تو ہوگا… جنگ میں پیادے زیادہ مارے جاتے ہیں۔اور تم کیا سمجھتے ہو‘ سردار نے اپنی قوت نہیں بڑھائی‘ کیا ملک سجاد اگر موت وحیات کی کشمکش سے نکل آیا تو وہ ان لوگوں سے بدلہ لینے کی کوشش نہیں کرے گا‘ جنہوں نے اسے اس حال تک پہنچایا۔“

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط