Episode 31 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 31 - قلندر ذات - امجد جاوید

”ہاں… دیکھتے ہیں‘ ان کی تفتیش کس رخ پر جاتی ہے۔“ وہ بے خیالی کے سے انداز میں بولی پھراس نے خبر کا متن پڑھ کرسنادیا‘ کسی رپورٹر نے باوثوق ذرائع سے وہ خبر دی تھی۔ وہ ناشتہ آجانے پر اس خبر کے حوالے سے باتیں کرتے رہے۔ وہ ناشتہ کرنے لگا تو ہرپریت اندر چلی گئی۔
اس وقت وہ دونوں کاریڈور میں آکربیٹھ چکے تھے۔ ہرپریت نے نیلی جین کے ساتھ ہاف سلیوٹی شرٹ پہن لی تھی۔
اپنے کھلے ہوئے بال پونی میں باندھ لیے تھے۔ اس کامیک اپ سے بے نیاز چہرہ تروتازہ لگ رہاتھا۔ جسپال کے اندر بڑے خوشگوار جذبے اُسے مسحور کررہے تھے۔ اگرچہ اس نے ہرپریت کے بارے میں سوچا نہیں تھا لیکن اس کا ساتھ اچھا لگ رہاتھا۔ اس کے ہونے سے ماحول بھرا بھرا سا لگتاتھا۔ جیسے ہر منظر میں رنگ گہرے ہوگئے ہوں۔

(جاری ہے)

اس نے بھرپور نگاہوں سے ہرپریت کودیکھا ‘ شاید پنجاب کے ماحول کی کشش تھی یا پھر آب وہوا کا اثر‘ کچھ تھا کہ اس کا دل اتھل پتھل ہونے لگاتھا۔

بات یہ نہیں کہ اس نے وینکوور میں حسن نہیں دیکھا تھا‘ وہاں بھی پنجابی لوگوں کی بھرمار تھی اور ایک سے ایک بڑھ کر حسین تھیں۔ لیکن جو کچھ وہ ہرپریت میں دیکھ رہاتھا وہ کچھ انہونی تھی‘ ایک الگ سی‘ جس کی اسے خود سمجھ نہیں آرہی تھی۔ اسے یوں گہری نگاہوں سے اپنی طرف دیکھتے ہوئے پاکر وہ آہستگی سے بولی۔
”جسّی جی… کہاں ہو؟“
”یہیں ہوں‘ تمہارے پاس۔
“ اس نے اچانک چونکتے ہوئے کہا پھر ہلکے سے مسکرا کر کوئی ایسی بات کرنا چاہتاتھا کہ اس کے جذبات کی ترجمانی ہوسکے‘ انہی لمحات میں گیٹ واہوااور ایک نیلے رنگ کی کار اندر آتی ہوئی دکھائی دی۔ بلاشبہ بنتا سنگھ کو معلوم ہوگا کہ وہ کون شخص ہے‘ اس لیے کار اندر آنے دی‘ تبھی ہرپریت نے بڑبڑانے والے انداز میں کہا۔
”ایڈووکیٹ گل…آگئے۔“
کار پورچ میں روک کر‘ وہ اُترااور پھر انہی کی جانب بڑھ آیا‘ واہ گرو‘ واہ گرو کہتے ہوئے انہوں نے ایک دوسرے کو وِش کیااور انہی کے پاس بیٹھ گیا۔
”انکل…اندر چل کربیٹھتے ہیں۔“ ہرپریت نے کہا تووہ بولا۔
”اونہیں پُتر… ادھر ہی بیٹھ جاتے ہیں۔“
”ٹھیک ہے جی۔“ یہ کہتے ہوئے وہ اُٹھ کر اندر کی جانب چلی گئی۔ ایڈووکیٹ گل نے ایک نگاہ جسپال پر ڈالی اور پوچھا۔
”جسپال…! تجھے میرے آنے کے بارے میں انوجیت نے بتادیاہوگا۔“
”ہاں جی‘ اس سے میری بات ہوئی ہے‘ بتایا تھااس نے۔
“وہ آہستگی سے بولا۔
”وہ اچانک ہی تم سے ملنے کے لیے آناپڑا‘ میں یہ بھی نہیں چاہتاتھا کہ تم یہاں سے کہیں اِدھر ُادھر جاؤ‘ وہ اصل میں کچھ باتیں کرنا تھی تیرے ساتھ۔“
”جی بولیں‘ میں سن رہاہوں۔“ اس نے کہا تووہ کہنے لگا۔
”وہ جس پولیس آفیسر کاقتل ہوا ہے نا‘ اس کے لیے حکومت نے ایک تفتیشی ٹیم بنادی ہے‘ جو اس کے قتل کی وجہ اور محرکات کی چھان بین کرے گی۔
تمہارا اس قتل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن پتہ نہیں مجھے یہ گمان ہوتا ہے کہ تجھے بھی اس قتل کی تفتیش میں ذہنی اذیت دینے کی کوشش کی جائے گی۔“
”وہ کیوں انکل…!“ اس نے آہستگی سے پوچھا۔
”اس کی کچھ وجوہات ہیں۔ پہلے وہ بنیادی وجہ سن لو‘جس کے بارے میں تجھے معلوم ہے کہ نہیں‘ خیر… انگریز نے جہاں جہاں اور جس قوم سے بھی خوف محسوس کیا‘ اسے کسی نہ کسی طرح متحد نہیں رہنے دیا۔
جیسے مسلمانوں میں مرزائی پیدا کرکے ایک خاص قسم کا فتنہ پیدا کردیا‘ اسی طرح سکھوں میں بھی نرنکاری بنا کرنہ صرف دھرم کے طورپر ان کونقصان پہنچایابلکہ سکھوں کوسکھوں کے ساتھ لڑانے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ آج جس طرح مرزائی بڑے پیمانے پرمسلمانوں کے خلاف یہودیوں والا کام کررہے ہیں‘ اسی طرح نرنکاری بھی ہندوؤں والا کام کررہے ہیں۔ انگریز جو کام مرزائیوں اور نرنکاریوں سے لے رہے تھے‘ آج وہی کام مرزائیوں سے انگریز اور نرنکارریوں سے ہندو لے رہے ہیں۔
اب تک خالصتان بن چکا ہوتا‘ اور سانحہ 1984پیش ہی نہ آیا ہوتا‘ اگر یہ نرنکاری نہ ہوتے۔ اب تک سکھوں نے جب بھی متحد ہونے کی کوشش کی ہے‘ انہی نرنکاریوں کو استعمال کیا گیا‘ یہی امرت دھاری سکھوں کے خلاف سازش میں مصروف ہیں۔وہ پولیس آفیسر بھی نرنکاری تھا۔ جس کی تفتیشی ٹیم میں پانچ لوگوں کو شامل کیا گیا ہے۔ جن میں تین نرنکاری پولیس آفیسر ہیں۔
ایک ہندو‘ اور ایک اکالی دل کا لیڈر رویند سنگھ ہے۔ وہی رویند سنگھ جو تیرے خاندان کی تباہی کا باعث بنا تھا۔“
”گل صاحب! آپ کی ساری بات ٹھیک ہے‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ مجھے کیوں ذہنی اذیت دیں گے‘ یہ بات کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں؟“ جسپال نے استفہامیہ لہجے میں پوچھا تو ایڈووکیٹ گل نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”ہاں…! میں اس سوال کا جواب دینے اور اس کے تناظر میں پیش بندی کے طو رپر بات کرنے یہاں آیا ہوں۔
پہلی بات تویہ ہے کہ تم یہ مت خیال کرو کہ انہیں تمہاری یہاں آمد کے بارے میں علم نہیں‘ جیسے ہی تم نے یہاں قدم رکھا تھا‘ انہیں معلوم ہوگیاتھا‘ اتنے عرصے بعد تمہاری آمد کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ تمہارا ،جاتے ہی اپنی حویلی دیکھنا ایک بہت بڑا اشارا تھاہی ‘دوسرا تم نے اگلے ہی دن درخواست گزار دی۔ جس کے ردعمل میں ایک ہلچل سی پیدا ہوگئی۔
وہ بظاہر دکھائی نہیں دے رہی لیکن یہاں کے گاؤں کے پنچ‘سرپنچ‘ تحصیل دار کے آفس او ران کے متعلقہ لوگوں کو پوری طرح الرٹ کردیا گیا کہ جسپال سنگھ کے اگلے قدم کے بارے میں پوری جانکاری رکھی جائے۔ وہ تمہارے راستے میں رکاوٹوں پررکاوٹیں پیدا کریں گے۔ پولیس آفیسر کے بارے میں تم سے پوچھ گچھ کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آخری بار تم ہی اس سے ملے تھے اور تمہاری اس سے تلخ کلامی ہوگئی تھی اور بس…“
”میں سمجھ گیا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں مگر ایڈووکیٹ صاحب… ! یہ تو بہت اچھی خبر ہے کہ انہیں یعنی میرے دشمنوں کو میرے بارے میں معلوم ہوگیا ہے۔
اب مجھے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑے گی۔ “ جسپال نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”تمہاری بات سے میں خوش ہوا‘ لیکن اس کے ساتھ تمہارا زیادہ محتاط ہوجانا بھی ضروری ہے۔“ ایڈووکیٹ گل نے کہا۔
”اس کی آپ فکر نہ کریں۔ “ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو ان میں ایک طرح سے چند لمحوں کی خاموشی چھاگئی۔ تبھی ہرپریت خود ہی ٹرے میں لسّی کے گلاس رکھے نمودار ہوئی۔
اس نے ٹرے میز پررکھی اور وہیں جابیٹھی جہاں سے اٹھ کر گئی تھی۔ ایڈووکیٹ گل نے گلاس اٹھاتے ہوئے کہا۔
”جسپال…! تمہارا اعتماد بڑااچھا ہے۔ لیکن تم یہاں کی پولیس اور ان تفتیشی اداروں کے بارے میں نہیں جانتے ہو۔ یہاں پر انگریز کا وہی کالاقانون چل رہا ہے۔ جسے وہ اپنی مرضی سے استعمال کیا کرتاتھااور ان غلاموں پر اپنی حکومت بنائے ہوئے تھا۔
اس لیے احتیاط میرے پتر! بڑی احتیاط۔“
”جی‘ آپ ٹھیک کہتے ہیں۔“ جسپال نے سوچتے ہوئے کہا اور خاموش ہوگیا۔ ایک دم سے اس کے ذہن میں بہت ساے سوال جنم لینے لگے تھے۔ اسے اندازہ تو تھا کہ اوگی پنڈ میں آمد کے بارے میں اس کے دشمن جان جائیں گے لیکن اتنی جلدی؟ اس بارے میں امید نہیں تھی۔ وہ ابھی کسی نئی بات کا سرا تلاش کررہاتھا کہ گیٹ پر کال بیل ہوئی۔
انہوں نے فطری طو رپر ادھر دیکھا تو بنتاسنگھ باہر جاچکاتھا۔ کچھ ہی لمحوں بعد وہ باہر سے اندر کی طرف آیا اور سیدھا ان کی طرف بڑھتا چلاآیا۔ انہیں تجسس ہوگیا کہ باہر کون آیا ہوگا‘ بنتا سنگھ کو ان کے پاس آتے ہوئے چند منٹ لگے اور آتے ہی ہرپریت کور کی طرف دیکھ کر بولا۔
”باہر ایک جیپ میں دوبندے ہیں‘ کہہ رہے ہیں کہ وہ انوجیت یا آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔
”نام نہیں بتایا انہوں نے؟“ ہرپریت نے پوچھا۔
”ایک نے اپنا نام بتایاہے۔ من راج سنگھ‘ کہہ رہا ہے کہ اس کاتعلق پولیس سے ہے۔“
”اوہ…! اس تفتیشی ٹیم سے… “ ایڈووکیٹ گل نے بے ساختہ کہا تو ہرپریت نے کہا۔
”اچھا بلاؤ۔لیکن ان کی جیپ باہر رہے۔“
بنتاسنگھ چلاگیا تو تینوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا‘ جس پر جسپال نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”گل صاحب…آپ بالکل پریشان نہ ہوں میں دیکھتا ہوں…“
یہ کہہ کر اس نے گیٹ کی طرف دیکھا‘ کچھ ہی دیر بعد ایک لمبا تڑنگا ادھیڑ عمر شخص اندر داخل ہوا‘ جس نے میرون رنگ کی پگڑی اور گرے رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا‘ داڑھی اس نے سنواری ہوئی تھی۔ جو زیادہ تر سفید ہوچکی تھی۔ وہ نپے تلے قدم رکھتا ہوا ان کے پاس آگیا‘ اور ہاتھ جوڑ کرفتح بلاتے بولا۔
”ست سری اکال … واہ گرو… کی فتح “
انہوں نے جواب دیا اور ہرپریت نے اسے بیٹھنے کااشارہ کیا۔ وہ بیٹھ گیا تو ہرپریت بولی۔
”جی فرمائیں…! انوجیت تو اس وقت گھر پرنہیں ہے۔“
”آپ تو ہیں ہرپریت کورجی…“ یہ کہہ کر اس نے دونوں کی طرف دیکھااور پوچھا۔”میرے خیال میں آپ ہی جسپال سنگھ ہیں جو ابھی وینکوور سے آئے ہیں۔ اور ایڈووکیٹ گل صاحب‘ آپ کویہاں دیکھ کر مجھے زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔
آپ کو یہاں ہونا چاہیے تھا۔“
”میں سمجھا نہیں‘ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔“ گل نے بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
”دراصل‘ میں جس سلسلے میں یہاں آیا ہوں ‘ وہ ایک پولیس آفیسر کے قتل کے بارے میں تفتیش ہے۔ اور بہت ساری وجوہات‘ قتل کے محرکات اور اندازے ہیں‘ جن میں مضبوط ترین وجہ سکھ تنظیم بھی ہے جو وقتاً فوقتاً اس پولیس آفیسر کو قتل کی دھمکیاں دیتے رہتے تھے۔ آپ کا بھی اس تنظیم سے تعلق ہے۔انوجیت اور یہ ہرپریت بھی اس سے تعلق رکھتی ہیں۔ ظاہر ہے تنظیم کے لوگ ایک جگہ ہوں تو حیرت کی کیا بات ہے؟“

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط