”آپ کا تعارف…“ جسپال سنگھ نے سرد سے لہجے میں پوچھا تو من راج سنگھ نے چونک کر اس کی طرف دیکھااور پھر ہلکے سے مسکراتے ہوئے کہا۔
”من راج سنگھ‘ سی بی آئی سے…آپ شاید مجھے نہ جانتے ہوں‘ لیکن سکھ تنظیم کے لوگ مجھے بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔“
”آپ کے آنے کامقصد؟“ جسپال نے پوچھا تو من راج سنگھ نے انتہائی سنجیدگی سے پوچھا۔
”آپ اس پولیس آفیسر سے آخری بار ملے تھے…اور آپ کی تلخ کلامی بھی ہوگئی تھی‘ آپ اس واقعے کو دہراسکتے ہیں… مطلب‘ آپ کی تلخ کلامی کیوں ہوئی تھی؟“
”پہلی اور آخری بار… اس کا بات کرنے کا انداز بہت گھٹیا قسم کا تھا۔
جس کا بہرحال میں عادی نہیں تھا۔ اس لیے مجھے غصہ آگیا۔“ جسپال سنگھ نے یوں کہا جیسے یاد کرنے کی کوشش کررہاہو۔
(جاری ہے)
”پھربھی…کوئی بات…؟“اُسنے کریدنے کی کوشش کی۔
”چونکہ میرے لیے اتنااہم نہیں تھا وہ شخص‘ اس لیے میں نے ذہن میں نہیں رکھا‘ کیونکہ ہمیں تھانے میں ایک دوسرے بندے نے کہاتھا کہ وہ پولیس آفیسر فطری طور پر ایسا ہی ہے۔
“ اس نے پھر لاپرواہی کے سے انداز میں کہا۔
”جسپال…! آپ خود کو زیر تفتیش سمجھیں۔“ من راج نے ظنزیہ لہجے میں کہا۔
”وجہ…؟“ وہ بولا۔
”اس گیٹ کے پار‘ میرا خیال کچھ اور تھا‘ لیکن یہاں آکر جو میں نے سمجھا‘ وہ کہہ دیا۔ اب اپنے ذمے دار آپ خود ہوں گے۔ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوجاتا…“ من راج نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا تو ایڈووکیٹ گل نے بھی سخت لہجے میں کہا۔
”کانگریس حکومت اور خصوصاً سکھوں کے بارے میں ان کی پالیسی میں کوئی نرم گوشہ نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی ان کے بارے میں کوئی مسئلہ حل ہوتا ہے۔ اٹھائیس سال ہوگئے ۔ سن چوراسی کاانصاف نہیں ملا‘ اور نہ ہی کسی کو اس کاذمے دار ٹھہرا کر مسئلہ حل کیا گیا ہے‘ اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے مسئلے…آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ یہ کیوں کہہ رہے ہیں۔ اور ہم بھی سمجھتے ہیں کہ آپ نے ایسا کیوں کہا؟“
”اگر آپ سمجھ گئے ہیں تو پھر مزید سمجھ جائیں‘ زیادہ سمجھانا نہ پڑے… چلتاہوں۔
“ اس نے اٹھتے ہوئے کہا تو جسپال نے سرد سے لہجے میں کہا۔
”آفیسر…!میں نہیں جانتا‘ آپ ایسا کیوں کہہ کرجارہے ہیں‘ لیکن میں خود چاہوں گا کہ آپ اپنے یہ لفظ یاد رکھیں کسی جگہ آپ کو یہ لفظ دہرانے بھی پڑسکتے ہیں۔“
”میں انتظار کروں گا…“ من راج نے اس کی نگاہوں میں دیکھتے ہوئے کہا اور پھر تیزی سے واپس مڑگیا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ گیٹ پار کرکے نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔
تبھی ہرپریت بولی۔
”من راج… یہ لدھیانے کا رہنے والا ہے نا…؟“
”ہاں‘ وہی ہے…“ گل نے کہا پھر اٹھتے ہوئے بولا۔ ”مجھے امید نہیں تھی کہ وہ اتنی جلدی یہاں پہنچ جائیں گے‘ خیر دیکھتے ہیں۔اب میں چلتا ہوں ۔ “
”ٹھیک ہے گل صاحب…! لیکن یہ یاد رکھیں‘ میرے معاملے میں جتنی مرضی یہ دشمن رکاوٹ کھڑی کریں‘ کام جاری رہنا چاہیے۔
آپ اپنا اکاؤنٹ اور بینک کے بارے میں معلومات مجھے دے دیں۔ رقم کی کمی نہیں ہوگی۔“ وہ سنجیدگی سے بولا۔
”انوجیت کے پاس ساری معلومات ہیں‘ لیکن تم مت گھبراؤ۔ میں اسے دیکھتا رہوں گا۔یہ الجھن تو اب رہے گی۔“ ایڈووکیٹ گل نے تشویش سے کہا تو جسپال خاموش رہا۔ وہ چند لمحے کھڑا رہا پھر تیزی سے پورچ تک گیا‘ اپنی گاڑی لی اور گیٹ پار کرگیا۔
”یہ پولیس آفیسر ہمارے لیے پھندا بنانے کی کوشش کرے گا۔“ ہرپریت نے مترشح لہجے میں کہا۔
”کوئی بات نہیں‘ تم پریشان نہ ہو۔“ یہ کہہ کر وہ چند لمحے سوچتا رہا پھر بولا۔ ”آؤ… میرے کمرے تک چلیں۔ جُوتی سے کہو‘ ہم کھاناباہر سے کھائیں گے اور ممکن ہے‘ گھر ذرا لیٹ آئیں۔“
”خیریت۔“ ہرپریت بولی۔
”بتاتاہوں نا…آؤ۔“ یہ کہہ کر وہ اٹھ گیا تو ہرپریت بھی اس کے ساتھ چل دی۔
جس وقت ہرپریت اس کے کمرے میں گئی‘ وہ اپنا لیپ ٹاپ لیے بیڈ پر بیٹھا تھا۔ اور بڑی گہری نگاہوں سے اسکرین پر نگاہیں جمائے ہوئے تھا۔ ہرپریت اس کے ساتھ ہی جاکربیٹھ گئی اور اسکرین پر دیکھنے لگی۔ وہاں کوئی آن لائن تھااور وہ اس سے باتیں کررہاتھا۔ ہرپریت جب اسکے پاس بیٹھ گئی تو جسپال نے پوچھا۔
”وہ کونسااخبار تھا‘ جس کی خبر تم نے مجھے صبح دکھائی تھی۔
وہ اخبار آن لائن ہے؟‘
”ہاں ہے…“ اس نے جواب دیا پھر مزید قریب ہو کر اس کے ساتھ لگ گئی‘ اس کے بدن سے اٹھنے والی مسحور کن مہک اس کے نتھنوں سے ٹکرائی‘ اس نے سرچ میں اخبار کانام ڈالااور پھر وہ اخبار لے آئی ‘جلد ہی اس کا وہ صفحہ کھول لیا‘ جس پر خبر تھی۔ جسپال نے اس صفحے کا لنک اُسے بھیج دیا جس سے بات کررہاتھا۔ پھر کچھ دیر انتظار کاکہہ کر لیپ ٹاپ بند کردیا۔
ہرپریت اس سے ذرا ہٹ کر بیٹھ گئی۔
”یہ سب کیا تھا جسپال؟“ اس نے تجسس سے پوچھا۔
”یہیں پنجاب میں کچھ لوگ ایسے ہیں ،جنہیں میں نہیں جانتا‘ لیکن وہ میرے ہر طرح سے کام آتے ہیں۔ انہیں میں نے ایک ٹاسک دیا ہے‘ کچھ دیربعد وہ اس کاجواب دیں گے۔“ جسپال نے جواب دیا۔
”اس لیے تم میری تنظیم کے ساتھ…“ اس نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ کراس کی آنکھوں میں دیکھا۔
”ہاں… میں ان سے بچنا چاہ رہا ہوں‘ ابھی تم نے نہیں دیکھا‘ ایڈووکیٹ گل کی وجہ سے ‘ وہ میری طرف سے اپنا خیال بدل جانے کی بات کرگیاہے۔“
”ہوں…“ ہرپریت نے ہنکارہ بھرا۔ تب جسپال نے اس کاہاتھ پکڑ کر نرمی سے دبایا اور بولا۔ ”ہرپریت… کیا تم میرا ساتھ دوگی۔“
”ساتھ کیا… میں تودل بھی دے چکی ہوں۔ جان ہے وہ بھی جب چاہے لے سکتے ہو۔
“ اس نے اپنی نگاہوں میں سارے جہان کاپیار سمیٹتے ہوئے کہااور پھر اپنے دونوں ہاتھوں میں اس کاچہرہ لے کر پیار کی مہر اس کے ہونٹوں پرثبت کردی تووہ شدت جذبات سے بولا۔
”ٹھیک ہے ہرپریت… میں دعویٰ نہیں کرتا لیکن آخری سانس بھی تیری امانت ہوگی۔“
اس نے کہا تو ہرپریت اس کے سینے کے ساتھ لگ گئی۔ جسپال کو یوں لگا جیسے اس کی تلاش یہاں آکر ختم ہوگئی ہے۔
اب تک وہ یونہی بھٹکتا رہاتھا۔ چند لمحوں بعد وہ اس سے الگ ہوگئی اور اس کے چہرے پر دیکھتی رہی‘ پھر شرما کرنگاہیں جھکالیں۔ جسپال ہنس دیا۔ اچانک وہ اٹھی اور کمرے سے نکلتی چلی گئی۔ وہ کتنی دیر تک ان لذت آفریں خیالوں میں کھویا رہا۔ ان لمحات میں اُسے یوں لگ رہاتھا کہ ساری دنیا خاموش ہوگئی ہے اور وہ فقط ایک گمنام جزیرے پرخاموشیوں میں ڈوب گیا ہے جہاں سے نکلنے کو اس کا دل نہیں چاہ رہاتھا ‘اچانک اس کے سیل فون پر بجتی ٹون نے اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ اس نے جلدی سے لیپ ٹاپ کھولااور اسکرین پر نگاہیں جمادیں۔
# # # #