”ہردیپ سنگھ ‘ اپنی پتنی اور بیٹے کے ساتھ‘ اس وقت اوپر والے پورشن میں موجود ہے‘ وہ ان کے ساتھ بیٹھا ایک دلچسپ انڈین فلم دیکھ رہا ہے‘ جو زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ مزید چلے گی۔“
”سیکیورٹی کی کیا پوزیشن ہے؟“ کمل نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”وہ تووہی ہے‘ رہائش گاہ کے سامنے کی طرف ڈرامہ کرناہوگا۔“ کرن نے کہا۔
”اوکے…!آؤ چلیں۔
“ کمل نے کرسی پرہاتھ مارتے ہوئے کہا تووہ سبھی اٹھ گئے۔
وہ ایک ہی جیپ میں نکلے تھے۔ لیکن دو تین چوراہوں کے بعد دو کاروں نے ان کاپیچھا کرنا شروع کردیاتھا۔یہ انہی کے ساتھ تھے۔ تقریباً آدھے گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد وہ اس پوش علاقے میں پہنچ گئے۔ تبھی کمل نے بڑبڑانے والے انداز میں کہا۔
”جسپال۔! یہاں کچھ کرنا اتنامشکل نہیں ہے لیکن کرکے فرار ہونابہت مشکل ہے‘ اس لیے کسی کاانتظار کیے بغیر جسے نکلنے کاچانس ملتا ہے‘ وہ نکل جائے۔
(جاری ہے)
“
سب نے سن لیا‘ مگر بولا کوئی نہیں ‘ وہ کچھ فاصلے پر کھڑی سیکیورٹی گارڈز کی ایک گاڑی کو دیکھ رہے تھے۔ اگلے چند منٹ میں وہ اس رہائش گاہ پر پہنچ گئے۔ کمل نے وہاں گاڑی نہیں روکی بلکہ سڑک کے ساتھ ہی ٹرن لے لیا‘ اور عمارت کی پچھلی طرف جاکررک گئے ۔ اسٹریٹ لائٹ ہر جانب روشن تھی۔ انہوں نے گاڑی رکتے ہی چشم زدن میں ادھر ادھر دیکھااور باؤنڈری وال کے ساتھ لگ کربیٹھ گئے۔
اس طرف جھاڑی نما پودے اور چھوٹے پھول دار درخت تھے۔ چند لمحے دبکے رہنے کے بعد کمل کھڑا ہوا۔ کرن بھی اس کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ کمل نے اپنے ہاتھ جوڑ کرپیٹ کے ساتھ لگائے۔ کرن نے اس پرپاؤں رکھااور خاردار تاروں کے تلے چار دیواری پرہاتھ کو مضبوطی سے جمایا۔ دوسرے ہاتھ سے کٹر نکالا‘ پھربڑی احتیاط سے لوہے کی تار کاٹ دی۔ ایک لمحے کے لیے وہ ساکت ہوگئی۔
انہیں بتادیاگیاتھا کہ خاردار تاروں میں بجلی کی روکوبند کردیاگیا ہے لیکن پھربھی احتیاط ضروری تھی۔ تار کٹتے ہی الارم بجتے تو سارا معاملہ ہی ٹھپ ہوجاتا۔ مگر کچھ نہ ہوا‘ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اندر کی معلومات درست ہیں۔ تبھی کرن نے ہولے سے کہا۔
”اوکے…کٹ گئی۔“
”گارڈ…“ کمل نے ہلکے سے پوچھا۔
”سامنے تو نہیں ہیں۔“ اس نے سرگوشی میں کہا۔
”چلوپھر…“ اس نے کہا تو کرن اُچک کر اوپر اٹھ گئی۔ اسی لمحے جسپال اور ہرپریت نے بھی ایسا ہی کیا۔ ہرپریت اوپرپہنچ گئی۔ اس وقت تک دونوں چار دیواری کی دووسری طرف کود گئی تھیں‘ جب کمل نے جسپال کو اوپر چڑھنے میں مدد دی‘ جسپال دیوار پر چپک کر لیٹ گیا اور اس نے ایک بازو سے کمل کو سہارا دیا۔ وہ آناً فاناً پیرجماتا‘ اوپر اٹھ گیا۔ اس سارے عمل میں ایک سے دو منٹ صرف ہوئے اور وہ چاردیواری کی دوسری طرف دبک کربیٹھے ہوئے تھے۔
اسی اثنا میں دو کاروں کے ٹائروں کے چرچرانے کی تیز آواز گونج اٹھی۔ پلان یہی تھا کہ رہائش گاہ کے سامنے دو کاریں آمنے سامنے یوں رکیں گی جیسے حادثہ ہوجانے والا ہو پھر دونوں طرف سے لوگ اترکر ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہوجائیں گے‘ یہاں تک کہ اسلحہ نکل آئے گا‘ یہی وہ وقت تھا جب ہم نے اپنے طور پر ہردیپ سنگھ تک پہنچنے کی کوشش کرنی تھی۔
وہ رہائشی عمارت کاپچھلاحصہ تھا۔ اس طرف گارڈز ہونے چاہیے تھے لیکن وہ اس وقت موجود نہیں تھے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ ادھر نہ آئیں گے۔ ایک بڑے سارے برآمدے میں اندر کی طرف ایک دروازہ تھا اس کی حالت سے لگتاتھا کہ وہ بند ہی رہتا ہوگا‘ جس کمرے میں متوقع طو رپر ہردیپ موجود تھا‘ اس کے ساتھ ہی ایک لوہے کا پائپ اوپر تک جاتاتھا‘ جسپال تیزی سے اس پائپ پر چڑھنے لگا‘ جبکہ کمل اور کرن اسی دالان میں تاریکی کا حصہ بن گئے‘ نیچے ہرپریت کور کھڑی تھی‘ جسپال کواوپر پہنچے میں زیادہ سے زیادہ ایک منٹ لگا ہوگا‘ وہ کھڑکی تک پہنچ گیا۔
باہر کی طرف سے لوگوں کے ہلکے ہلکے شور کی آوازیں آنے لگی تھیں جویقینا وہاں پر بہت اونچی ہوں گی۔
جسپال نے کھڑکی میں سے دیکھا‘ سامنے ٹی وی چل رہاتھا۔ اس کے سامنے پڑے صوفے پر ایک مرد‘ عورت اور بچے کی گردنیں دکھائی دے رہی تھیں۔ بلاشبہ کھڑکی کا شیشہ ٹوٹنے سے آواز پیدا ہونی تھی۔ مگر یہ رسک اسے لینا تھا۔ اس کے ساتھ اندر کی طرف تو شیشہ تھا‘ لیکن باہر لوہے کی مضبوط جالی تھی‘ جسے وہ فوراً کاٹ نہیں سکتاتھا۔
یہی اس کی راہ میں رکاوٹ تھی‘ ورنہ اس کا دل چاہ رہاتھا کہ اندرجاکر خود اپنے ہاتھوں سے ہردیپ سنگھ کا گلا دبادے‘ پھراس پر مٹی کا تیل چھڑک کر اپنی آنکھوں سے اس کے جلنے کاتماشہ کرے‘ اس کے پاس اپنی ان خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے وقت نہیں تھا۔ اس نے آناً فاناً شیشہ توڑ دیا۔ جس سے اندر بیٹھے ہوئے لوگوں نے چونک کر کھڑکی کی طرف دیکھا‘ اس کے سامنے ہردیپ سنگھ تھا جو حیرت سے کھڑکی کی جانب دیکھ رہاتھا‘ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتا اور کسی پناہ میں چھپ جاتا‘ اس نے ٹریگر پرانگلی رکھ دی‘ یکے بعد دیگرے تین فائر ہوئے ‘ ایک فائر اس کے چہرے پرلگاتھا جس سے خون کے فوارہ ابل پڑا تھا‘ وہ مزید وہاں رکنا نہیں چاہتاتھا‘ وہ فوراً نیچے کی جانب لپکا‘ کھڑکی میں سے چیخنے چلانے اور کراہوں کی آوازیں آنے لگی تھیں۔
اس وقت تک کمل دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہوگیاتھا۔ کرن نے اپنا پاؤں اس کے ہاتھوں پررکھااور چار دیواری پرجاپہنچی‘ ایساہی ہرپریت نے کیا‘ پھر جسپال اور آخر میں کمل نے اسے اوپر اٹھالیا‘ چشم زدن میں وہ چاروں دیوار کے پار تھے۔ رہائشی عمارت کے اندر بھگڈر مچ چکی تھی۔ ایک کہرام تھا جو اٹھ گیاتھا۔ اب ان کے پاس ایک ایک لمحہ قیمتی تھا۔
وہ چاروں تقریباً ایک ہی وقت میں بیٹھے تھے۔ چابی اگنیشن میں تھی‘ کمل نے سٹارٹ کے لیے چابی گھمائی‘ انجن جاگتے ہی اس نے گاڑی بھگادی۔وہ اس پوش کالونی کامین گیٹ بند ہوجانے سے پہلے وہاں سے نکل جانا چاہتاتھا‘ ورنہ گاڑی چھوڑ کر گلیوں اور دکانوں کے راستوں میں سے نکلنا تھااور یہ انتہائی درجے کا رسک تھا۔ وہ کالونی میں کہاں تک بھاگتے‘ کرن‘ ہرپریت اور جسپال ہتھیار لیے بیٹھے ہوئے تھے۔
وہ پکڑے جانے سے زیادہ‘ لڑنازیادہ پسند کرتے تھے۔ دو تین موڑ مڑنے کے بعد سامنے مین گیٹ تھا‘ کمل نے رفتار دھیمی کرلی‘ رہائشی کالونی کے اس گیٹ پر سیکیورٹی گارڈ بھی زیادہ تھے۔
”جسپال‘ ذرا سا رسک بھی نہ لینا‘ اگر انہوں نے روکنے کی کوشش بھی کی تو اُڑادینا۔“کمل نے دانت بھینچتے ہوئے کہا۔ اس کی پوری توجہ ڈرائیونگ پرتھی۔ تبھی ان کی نگاہ گیٹ کے باہر والی طرف پڑی‘ جہاں ان کے پیچھے آنے والی کاروں کے لوگ کھڑے تھے۔
وہ کسی بھی ہنگامی صور تحال ہی کے لیے تھے‘ وہ لوگ اپنا ڈرامہ ختم کرکے کالونی سے باہر آچکے تھے۔ اس وقت کالونی سے نکلنے والے مین گیٹ کا فاصلہ تقریباً دو گز رہا ہوگا‘ جب ایک طرف بنے ہوئے سیکیورٹی گارڈز کے کیبن سے ایک شخص تیزی سے نکلا‘ اس کے کان کے ساتھ سیل فون لگاہواتھا۔ اس نے چیخ کر کہا۔
”روکو…روکو… اس گاڑی کو روکو…“
کمل نے ایک دم سے اسپیڈ بڑھادی‘ اگلے ہی لمحے وہ گیٹ سے باہر تھے۔
جس وقت وہاں موجود گارڈز سمجھتے ‘ وہ گیٹ پار کرچکے تھے۔ جیپ کو انتہائی خطرناک انداز میں دائیں جانب موڑا تو فائرنگ کی آواز آئی‘ دونوں سیاہ کاریں چل پڑی تھیں۔ بلاشبہ اب نہ صرف ان کا تعاقب کیاجاناتھا‘ بلکہ پورے امرتسر کی پولیس ان کی تلاش میں نکل پڑنے والی تھی۔ تقریباً پندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد وہ رنجیت ایونیو کے گول چکر کے پاس آگئے‘ تبھی کمل نے گاڑی کو ٹرن دیااور ایک بڑی ساری شاپ کے سامنے جیپ روک لی‘ پھر ہنستے ہوئے بولا۔
”شریف لوگوں کی طرح اپنے اپنے ہتھیار چھپاکرباہر نکلو‘ فوراً۔“ یہ کہتے ہوئے‘ اس نے گاڑی بند کی اور اتر کر یوں دکان کی جانب چل پڑا جیسے اسے کوئی جلدی نہ ہو‘ وہ وقت ضائع کرنے کے لیے آیا ہے‘ اتنے میں وہ بھی اس کے پاس آگئے تو اس نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔” اس شاپنگ مال کے اندر ہی اندر سے دوسری جانب نکلنا ہے۔ کرن اور ہرپریت الگ ہوجاؤ‘ کسی ٹیکسی میں بیٹھو… رابطہ ہوجائے گا۔
“ وہ شاپنگ سینٹر کی اندر چلے گئے‘ دونوں لڑکیاں یوں دکھائی دے رہی تھیں جیسے ان کے ساتھ کوئی مرد نہیں ہے‘ بظاہر مطمئن دکھائی دینے والے‘ تیزی سے دوسری طرف کے راستے کی جانب بڑھ رہے تھے۔ جسپال نے یونہی پیچھے مڑ کر دیکھا‘ ایک پولیس گاڑی ان کی جیپ کے پاس آکر رک گئی تھی۔
”کمل نکلو۔“ اس نے بے ساختہ کہا‘ اور قدم بڑھادیئے۔ دوسری جانب ٹیکسیاں اور رکشے کھڑے تھے۔ انہیں دیکھتے ہی ایک رکشے والا ان کے قریب آگیا۔وہ لپک کر اس میں بیٹھ گئے۔