”میں ڈیرے کی پچھلی طرف سے اندر جاتاہوں‘ پہلے چھت پر جاؤں گا‘ اور پھر اندر اتروں گا۔ تم تیار رہنا‘ جیسے ہی اندر سے گولی چلنے کی آواز آئے‘ تم دروازے کی طرف سے اندر آنا‘ جو بھی سامنے آئے ایک لمحہ کی تاخیر کیے بنا گولی ماردینا‘ ورنہ وہ تجھے گولی مار دے گا۔“
”سمجھ گیا۔“ اس نے گردن ہلاتے ہوئے کہا۔میں نے بائیک وہیں کھڑی کی اور تیزی سے ڈیرے کے پچھواڑے چلاگیا‘جہاں سے میں ایک بار پہلے بھی چھت پر گیاتھا۔
اس وقت تواندھیرا تھا‘ اس لیے بہت محتاط تھا۔ لیکن اب دن کے وقت سب کچھ صاف تھا۔ میں تیزی سے چڑھتا چلا گیا تھا۔ چھت پر پہنچ کر میں نے منڈھیر سے نیچے جھانکا‘ صحن میں کوئی بھی نہیں تھا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اندر کتنے لوگ ہوں گے۔ میں نے چھت پرسے گھوم کر نیچے اندازہ لگانے کی کوشش کی ‘برآمدے میں بھی مجھے کوئی بندہ دکھائی نہیں دے رہاتھا۔
(جاری ہے)
وہاں کوئی ہلچل نہ پاکر مجھے الجھن ہونے لگی۔ ایسا ہو نہیں سکتاتھا‘جانی نے مجھے پکی خبر دی تھی کہ اندرپانچ سات بندے تو ہیں۔
جنہوں نے میرے گھر کوآگ لگائی تھی۔ میں کئی منٹ تک تذبذب کاشکار رہا‘ میں انتظار کروں یانیچے جاؤں‘ یہ تو ہونہیں سکتاتھا کہ ڈیرہ خالی ہو۔ میں نے انتظار کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔ تقریباً پندرہ منٹ گزر جانے کے بعد ایک بندہ برآمدے میں سے وارد ہوااور وہ ٹہلنے والے انداز میں باہر کی طرف جانے لگا‘ میں مزید صبر نہ کرسکا اور میں نے اس پرفائر داغ دیا۔
اس کی چیخ فضا میں بلند ہوگئی۔ اس کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ کوئی اس پرفائر کرسکتا ہے۔ میں نے اس کے شانے کے قریب کانشانہ لیاتھا۔اگلے ہی لمحے وہ مچھلی کی مانند تڑپتاہوازمین پرآرہا۔ تقریباً دو منٹ کے اندر اندر چھ سات بندے برآمدے کی مختلف اطراف سے برآمد ہوئے‘ اس سے پہلے کہ وہ صورت حال کوسمجھتے میں نے ان پرفائر کھول دیا۔ تبھی دروازے کی طرف سے جانی اندر داخل ہوا‘ اس نے اپنے سامنے ان بندوں کو پاکر گن سے فائر کرنا شروع کردیا۔
کس کے کہاں گولی لگتی ہے یہ قطعاً اندازہ نہیں تھا۔وہ تقریباً سارے ہی خون میں لت پت صحن میں پڑے ہوئے تھے۔ ان کے علاوہ کوئی اندر سے باہر نہیں نکلا تھا۔ مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اب مزید کتنے بندے اندر ہیں۔ میں جانی کو نیچے اکیلا نہیں چھوڑ سکتاتھا‘ اس لیے آناً فاناً سیڑھیاں پھلانگتا ہوا نیچے صحن میں آگیا۔ پہلے وہ میرے فائر کی زد میں تھے اب کوئی بھی گولی کسی بھی کمرے سے میرے بدن کوچاٹ سکتی تھی لیکن یہ رسک لینا تھا۔
اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ میں نے محتاط انداز میں چاروں طرف دیکھا توچاچابیرو کچن کے دروازے کے پیچھے چھپا ہوا دکھائی دیا۔ میں نے جانی کوچھپنے کااشارہ کرکے سیدھا چاچے بیرو کے پاس چلاگیا۔ صحن میں چیخ وپکار اور کراہیں اٹھ رہی تھیں۔
”ان کے علاوہ کتنے بندے ہیں اور کہاں ہیں؟“
”اس میں ہیں۔“چاچے بیرو نے انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
وہ دائیں طرف کاایک لمبا کمرہ تھا۔ میں نے اسے نگاہوں میں رکھتے ہوئے جانی کواشارہ کیا وہ تیزی سے بھاگتا ہوا اس کے دروازے کے ساتھ جالگا۔ صحن میں پڑے زخمی بندے کچھ بھی کرسکتے تھے۔ اپنی بقا کے لیے توبلی بھی گلے پڑجاتی ہے وہ تو پھر سمجھ بوجھ والے انسان تھے۔ میں ان کے سر پرجاکھڑا ہوا اور زور سے پکار کرپوچھا۔
”تم میں سے کس کس نے میرے گھر کو آگ لگائی تھی…؟“
ان میں سے کوئی نہیں بولا بلکہ موت کو اپنے سامنے دیکھ کر ان کی آنکھوں میں دہشت کے ساتھ ساتھ وحشت بھی دکھائی دے رہی تھی۔
”ہمیں…معاف…معاف کردے۔“ ان میں سے ایک تنومند بندے نے کہا۔
”اس کی ایک ہی صورت ہے‘ تم میں سے جو بھاگ کے یہاں سے جاسکتا ہے وہ چلاجائے‘ جونہ جاسکا اس کی قبریہیں اس ڈیرے میں بنی ہوگی۔ میں دس تک گنوں گا…ایک…“
انہوں نے ناقابل یقین انداز سے میری طرف دیکھا‘ پھران میں ہلچل آگئی۔ وہ کل سات لوگ تھے۔ ایک بے ہوش پڑاتھا۔
وہ اسے گھسیٹتے ہوئے لے جانے لگے۔
”دو…“
ان میں تیزی آگئی۔ اپنے زخموں کی پروا نہ کرتے ہوئے وہ باہر نکلنے کو بے تاب تھے۔ دو لوگوں نے بے ہوش بندے کو ڈنڈا ڈولی کیااور باہر کی جانب چل پڑے۔
”چار…پانچ…چھ…“
وہ ڈیوڑھی کے پاس پہنچ گئے۔
”آٹھ…“
وہ دروازہ پار گئے۔تب میں نے اس کمرے کی طرف توجہ کی‘ جدھر چاچے بیرو نے اشارہ دیاتھا۔
میں نے دروازہ کھولا اور باہر ہی سے جھانک کر دیکھا‘ اندر کوئی ہلچل نہیں تھی۔ میں نے جانی کوباہر کادھیان رکھنے کو کہا اور ایک دم سے اندر چلاگیا۔اندر سے ذرا بھی مزاحمت نہیں ہوئی ۔ میں یہ دیکھ کرحیران رہ گیا کہ ایک کونے میں دو لڑکیاں اور ایک بوڑھا آدمی بندھے ہوئے پڑے تھے ‘ ان کی آنکھوں میں خوف تیررہاتھا اور وہ سہمے ہوئے تھے۔جلدی سے باہر آ گیا ۔
میں نے جانی کو بتایا تو اس نے کہا
تُو ان سے پوچھ کہ یہ کون ہیں۔ میں دروازہ بند کرکے آتاہوں۔“
”نہیں‘ دروازہ بند نہیں کرنا‘بلکہ چھت پر چلاجا‘ دور دور تک دشمن کے بارے میں پتہ چلے گا۔ اور جوبندے ابھی باہر گئے ہیں انہیں دیکھ اگر کوئی گڑبڑ کریں تو گولی ماردینا‘ ابھی تووہ صرف زخمی ہیں۔“
میری مزید بات سنے بغیر وہ سیڑھیوں کی جانب بھاگا‘ میں کمرے میں چلاگیا۔
اس بارمیں نے ان”قیدیوں“ کو دیکھا۔ ایک بوڑھا دیہاتی اور دونوں لڑکیاں بھی دیہاتی ہی تھیں۔ ایک لمبے قد کی‘ جس پرجوانی ٹوٹ کر آئی تھی۔ گورا رنگ اور جسم کے نشیب وفراز سے کوئی بھی مرد متوجہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ دوسری چھوٹے قد کی اور موٹے نقوش والی تھی‘ اس کاجسم قدرے بھاری تھا‘ میں نے انہیں رسیوں سے آزاد کیااور بوڑھے سے پوچھا۔
”بابا…کون ہو تم…ا وریہاں کیسے ؟“
”میں بتاتی ہوں۔“ اس لمبی لڑکی نے رندھے ہوئے انداز میں کہا۔ ”رات ہی یہ لوگ ہمیں چک سندر سے اٹھا کر لائے ہیں۔“
‘”کیوں…؟“ میں نے پوچھا۔
”ہمارا کوئی بھائی نہیں ہے‘ یہی بوڑھا باپ ہے‘ ہماری تھوڑی سی زمین ہے‘ اور شاہ زیب وہ زمین ہم سے لینا چاہتا تھا۔اب ہماری روزی روٹی وہی ہے تو کیا کریں‘ کب تک زمین کے پیسے کھائیں گے‘ ہم نے انکار کیا تو…“ اس نے روتے ہوئے بتایا۔
”کوئی زیادتی تو نہیں کی…“ میں نے پوچھا۔
”ہمیں مارا بہت ہے‘ باقی دھمکیاں دیتے رہے ہیں کہ عزت لوٹ لیں گے…مگر ابھی…“ اس نے سرجھکاتے ہوئے کہا۔
”بابا…تو یہاں بیٹھ‘ اور تم لوگ آؤ میرے ساتھ‘ ایک ایک کمرے کی تلاشی لینی ہے۔“ میں نے کہااور کمرے سے باہر نکلنے لگا۔
”پرپتر…توہے کون…؟“ بوڑھے نے پوچھا۔
”میں کوئی بھی ہوں‘ لیکن تیری عزت کا رکھوالاہوں۔
اب کوئی تجھے تنگ نہیں کرے گا۔ آج ہی تجھے تیرے گھر پہنچا دیا جائے گا۔“
”اللہ سلامت رکھے تجھے۔“ بوڑھے نے دعادی تومیں باہر نکل آیا۔میں نے تقریباً آدھے گھنٹے میں وہاں پرموجود ہر کمرہ دیکھ لیا‘ کوئی بندہ نہیں تھا ‘ دو کمرے خاص اہمیت کے حامل تھے۔ایک شاہ زیب کا کمرہ جس میں فون رکھا ہوا تھا‘ اور دوسرا اس کے ساتھ والا جہاں سے اسلحہ ملا تھا‘ پورااطمینان کرنے کے بعد میں نے جانی کو بلالیا۔
وہ نیچے آیا تو ساری صورتحال اس کو سمجھ آگئی۔ اس نے لڑکی سے کہا۔
”تم لوگ منہ ہاتھ دھو کر وہاں جاؤاور کھانا وانا کھاؤ… اب یہ ڈیرہ ہمارے قبضے میں ہے۔ تم اطمینان رکھو‘شام سے پہلے تم چک سندر پہنچ جاؤگے۔ جاؤ۔“ اس کے یو ں کہنے پر وہ لڑکیاں تیزی سے واپس اسی کمرے میں چلی گئیں۔میں شاہ زیب کے کمرے کی طرف گیا۔ ٹیلی فون چل رہاتھا۔ میں نے پیرزادہ وقاص کے نمبر ملائے‘کچھ دیر بعد رابطہ ہوگیا۔
میں نے اسے ساری صورتحال بتائی‘ جسے سن کر وہ بولا۔
”واہ …!اب تو شاہ زیب واپس نہیں آئے گا وہ تو بھاگتا پھررہا ہے تاکہ پولیس تجھے گرفتار کرلے۔“
”تجھے کیسے پتہ؟“ میں نے پوچھا۔
”وہ پوری کوشش کرکے ڈی ایس پی کا تبادلہ کروارہا ہے۔ وہ اعلیٰ حکام کے سامنے بیٹھا رو رہا ہے کہ اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ اب دیکھیں کیا بنتا ہے۔
خیر! میں بندے بھیجتاہوں‘ آدھے پونے گھنٹے تک تیرے پاس پہنچ جائیں گے۔ وہ سمجھو تیرے دوست ہیں‘ میرا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ گاڑی بھی آرہی ہے۔ اس پر ان لڑکیوں اور بابے کو بھیج دینا۔“
”ٹھیک ہے۔“ میں نے اطمینان سے کہا۔
”اور ہاں… اس ڈیرے میں آج دن تک یا رات… بس اس سے زیادہ نہیں رہنا‘ خطرناک ہوگا۔“ اس نے مجھے سمجھایا۔
”میں سمجھتا ہوں۔
“ میں نے اسے باور کرایا۔
”پھر اپنا ٹھکانہ چوہدری شاہنواز کے ڈیرے پر…“ اس نے مجھے بتادیا کہ آئندہ کیا کرنا ہے‘ میں نے الوداعی کلمات کے ساتھ فون بند کردیا۔ میں کافی حد تک مطمئن ہوگیا تھا‘ لیکن جیسے ہی مجھے شاہ زیب کا خیال آتا‘میرے اندر نفرت اور غصے کی لہریں سر ٹکرانے لگتیں۔
# # # #