Episode 66 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 66 - قلندر ذات - امجد جاوید

”جی…! ایک ہی تھا… اب یہ نہتا ہے۔“
”ٹھیک ہے…“ شاہ زیب نے کہا پھر میری طرف دیکھ کربولا۔ ”میں نے تمہیں بہت عزت دینا چاہی تھی جمال…! مگر تیرے جیسے بے اوقات لوگ عزت کے قابل ہی نہیں ہیں۔ تجھے تو اس دن شوٹ کردینا چاہیے تھا جب میلے سے اگلے دن تم حویلی میں آکر کتے کی طرح بھونکے تھے۔ یہ میں ہی تھا‘ جس نے تیری باباسے وکالت کی تھی۔ میں نے بابا سے کہا تھا کہ تیرے جیسے کتے کومیں سدھارلوں گا‘ مگر بابا سچے تھے‘ انہوں نے کہا تھا کہ نہیں‘ تم سانپ ہو،ڈنگ ماروگے… اور تم نے ثابت کردیا۔
”شاہ زیب…! بے اوقات میں نہیں‘ تم ہو۔ دوسروں کے بازوؤں کا سہارا لے کر‘ دھوکا دے کر وار کرنے والا تو کتے سے بھی بدتر ہوتا ہے۔ اور تم منافقت کرتے رہے‘ پتہ ہے‘ مرد منافقت نہیں کرتا‘ ہیجڑا کرتا ہے منافقت … اورتیرے جیسے کئی خواجہ سرا میرے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں‘تو اگر مرد کابچہ ہے ناتو میرے ہاتھ میں ہاتھ ڈال ،کتوں کے غول میں کھڑا کیوں بھونک رہا ہے۔

(جاری ہے)

“میں نے اسے شدید غصہ دلانے کے لیے انتہائی طنزیہ لہجے میں کہا تووہ ایک دم سے باؤلا ہوگیا‘وہ بھنا کر کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ایک دم سے سرد پڑگیا۔ شاید اسے کوئی سوچ آگئی تھی۔ اس لیے مسکراتے ہوئے بولا۔
”یہ چلتر کسی اور کو دکھانا… ابھی تیرے ساتھ بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ میں اپنے ہاتھ گندے نہیں کرنا چاہتا۔“پھر میری پشت پر کھڑے اس بندے سے کہا۔
”لے جاؤ اسے اور شام ہونے تک اس کا جوڑ جوڑ الگ کردو‘ پھر پولیس والے خود ہی اسے پار کردیں گے‘ جب تک پولیس والے نہیں آتے‘ اس کی دھنائی ہوتی رہنی چاہیے۔“
”شاہ زیب … میری تم سے کوئی دشمنی نہیں‘ لیکن تم مجھ سے دشمنی کی ابتدا خود کررہے ہو‘ یہ دیکھ لو… اتنا کچھ ہی کرنا‘ جتنا تم سہہ سکو… “میں نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے نفرت سے کہا۔
”اوئے تیری اوقات ہی کیا دشمنی کرنے والے کی… تیرے جیسا بندہ اور ہمارا دشمن، فضول سوچ رہے ہو تم… میں چاہوں توابھی تیری سانسیں بند کردوں… مگر میں نہیں سمجھتا کہ تجھ جیسے حقیر اور گھٹیابندے کومیں ماروں‘ تیرے جیسے سنپولیے جب بھی سراٹھاتے ہیں‘ ہم انہیں کچل دیتے ہیں۔“
”شاہ زیب …! میں تمہیں اب بھی سمجھارہا ہوں‘ دشمنی مت کر‘ورنہ تجھے بہت مہنگا پڑے گا۔
اتنا ہی بول‘ جتنے لفظوں کی تو قیمت ادا کرسکتا ہے۔ بہت زیادہ بول رہا ہے تو۔“ اس بارمیں نے ٹھنڈے لہجے میں سکون سے کہا۔ کیونکہ اس وقت میں شاہ زیب کے بارے میں فیصلہ کرچکاتھا۔
”بابا نے اس دن کہہ دیاتھا کہ میں تجھے مار دوں…اور میری غلطی تھی کہ میں نے تجھے نہیں مارا‘ میں دیکھتا رہا کہ تو کرتا کیا ہے‘ تونے جو کچھ بھی کیاہے‘اپنی اوقات سے بڑھ کر کیا ہے جمالے…“ یہ کہہ کر اس نے مجھے لے جانے کااشارہ کیا۔
تبھی میرے پیچھے کھڑے بندے کی گرفت مجھ پر سخت ہوگئی۔ اس نے مجھے ایک جھٹکادیااور کمرے سے باہر لے جانے کے لیے دھکا دیا۔ تبھی میرے اندر آگ بھرگئی۔ اس سے پہلے کہ میں اس آگ میں خود جل جاتا‘ میں نے خود پرقابو پالیا۔ اس وقت ان لوگوں سے بھڑجانے کا مطلب نری خودکشی تھی۔ میں کسی نہ کسی طرح کچھ وقت لینا چاہ رہاتھا۔ ان لوگوں نے مجھے دھکے دے کر وہاں کمرے سے نکالااور باہر برآمدے میں لے آئے۔
بلاشبہ انہوں نے مجھے کہیں بند کرکے ہی تشدد کرناتھا۔ میں ذہنی طور پر شدیدسے شدید تشدد کے لیے تیار ہوگیا۔
میں زیادہ سے زیادہ وقت اس لیے لینا چاہ رہاتھا کہ اچھو کی دکان سے محض دو گلیاں پار دلبر کے گھر میں چھاکا موجود تھااور دوگلیاں دور ہی میر اگھر تھا‘ بیچ چوراہے میں ان لوگوں نے مجھ پرحملہ کیااورمجھے وہاں سے اٹھا کر لے آئے۔ کیا گاؤں نورنگر میں کوئی بھی ہلچل نہیں ہوئی ہوگی؟ کیا چھاکے کومعلوم نہیں ہوا ہوگا؟ ایساممکن ہی نہیں تھا۔
وہاں گاؤں میں پتہ چل گیاہوگا‘ لیکن اس میں شک کیا جاسکتاتھا کہ انہیں یہ معلوم نہ ہو کہ میں کہاں ہوں چلتے چلتے اچانک مجھے یہ خیال آیا کہ کیامجھے تشدد سہتے رہنا چاہیے؟ اور پولیس کاانتظار کرنا چاہیے کہ وہ کب آئے اور مجھے لے جاکر”پار“ کردیں۔ کیامیں اتنی آسانی کے ساتھ موت کے منہ میں چلاجاؤں گا؟ کیا رندھاوا بھی اب تک میرے ساتھ دوہری چال چلتا آیاہے‘ ایک طرف اس نے اپنے آفیسر کے ساتھ مل کر ملک سجاد اور سرداروں کوبتادیا کہ وہ بہت کچھ کرسکتے ہیں اور دوسری طرف اس نے مجھ سے سب کچھ کرواکر‘ مجھے ہی نشانہ بنانے کے لیے ماحول بنادیا۔
 بلاشبہ اس نے اپنی بے عزتی کا بدلہ لیاتھا۔ اس وقت پہ درپے میرے ذہن میں یہ سوال آتے چلے جارہے تھے۔ مجھے لگا کہ جیسے ساراماحول ہی میرے خلاف سازش کرچکا ہے۔ مایوسی تھی کہ بڑھتی چلی جارہی تھی۔ ایک طرف میں نے ملک سجاد جیسے بندے کوموت کے منہ میں پہنچادیاتھا‘ یہ خیال آتے ہی میرے اندر ایک دم سے حوصلہ ابھرا… میں نے اپنے ساتھ چلتے ہوئے لوگوں پرنگاہ ڈالی‘ وہ تین ہی تھے۔
باقی شاید کہیں اور ہوں‘ اچانک میری نگاہ‘ ایک ایسے بندے پرپڑی جس کے ہاتھوں میں دیسی ساخت کی ایک کاربین پرپڑی‘تب میں نے لمحوں ہی میں فیصلہ کرلیا کہ مجھے کیا کرنا ہے‘ میں نے اپنے اردگرد کا جائزہ لیا۔ وہ کاربین والا میرے دائیں ہاتھ پر ذرا سا آگے چل رہاتھا۔ ایک میری بائیں جانب ساتھ چل رہاتھا اورایک میری پشت پر تھا‘ ممکن تھا کہ اس کے پاس کوئی ہتھیار ہو‘ مگرمیں نے رسک لینے کا فیصلہ کرلیاتھا‘ کاربین والا کاریڈِر کے ستون سے چند قدم پیچھے تھا جیسے ہی وہ ستون کے پاس پہنچا‘میں نے دائیں ہاتھ کوبڑھا کر اس کی گردن کوپکڑااور چشم زدن میں ستون کے ساتھ دے مارا‘ اس دوران بائیں ہاتھ سے کاربین چھین لی‘ اس اچانک افتاد پروہ نہ سمجھ سکے کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں‘میں نے کاربین والا ہاتھ گھمایا اور بائیں طرف چلنے والے کے منہ پر مارا‘ اس سے پہلے کہ میری پشت پر آنے والا مجھے قابو کرتا‘میں ایک دم نیچے بیٹھ گیا‘ میرے پیچھے آنے والا اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکااور میرے اوپر سے اگلی جانب گرپڑا۔
میں نے اسے وہیں دبوچ لیااور غراتے ہوئے کاربین اس کے سر پر رکھتے ہوئے کہا۔
”ایسے ہی پڑے رہنا ورنہ بھیجا نکال دوں گا۔“
اس کے ساتھ ہی میں نے تیزی سے اس کی تلاشی لی ‘میرا کولٹ پسٹل اس کی ڈب میں تھا۔ میں نے وہ نکال لیا‘ وہ وہیں دبکا ہوا تھا‘ میں نے انہیں قابو تو کرلیامگر اب انہیں سنبھالنا مشکل لگ رہاتھا۔ ستون سے ٹکرانے والا اپنے حواس بحال کررہاتھا‘ جبکہ دائیں جانب والا حیرت سے مجھے دیکھ رہاتھا‘ میں نے پسٹل اس کی طرف کرتے ہوئے کہا۔
”آگے چل…!“ پھر کھڑے ہوتے ہوئے نیچے پڑے بندے کوپاؤں کی ٹھوکر مارتے ہوئے کہا۔ ”چل‘ اوئے‘ تو بھی اٹھ…آگے لگ…“
میں نے ان دونوں کو آگے لگالیا‘ یہ سب کچھ تقریباً ایک سے ڈیڑھ منٹ کے دورانیے میں ہوا‘وہ میرے آگے آگے جارہے تھے اورمیں ان کے پیچھے تھا‘ آگے ڈیوڑھی تھی‘ چند گز کے بعد گیٹ تھا‘ جبکہ کاریڈور آگے تک تھا۔ میں اچانک ہی مڑااور ڈیوڑھی میں چلاگیا‘ سامنے ہی دوگن بردار چوکیدار تھے‘ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے گنیں سیدھی کیں‘ انہوں نے تو گن سیدھی کرکے ٹرائیگر دبانا تھا‘جبکہ میں نے یکے بعد دیگرے دوفائر کردیئے‘ وہ بدحواس ہو کرباہر کی جانب بھاگے‘ میں تیزی سے گیٹ تک گیا‘ ممکن تھا کہ وہ گیٹ پر دائیں بائیں چھپے ہوتے اور میرے باہر نکلتے ہی فائر کردیتے‘ میں نے پہلے دائیں جانب فائر کیے اور پھر بائیں جانب اور اگلے ہی لمحے جست لگا کر گیٹ سے باہر آگیا۔
میرا اندازہ درست تھا‘ دائیں طرف والا گارڈ زمین پرپڑا ہواتھا اور بائیں جانب والا دکھائی نہیں دیا۔میں پھر وہاں نہیں رکا‘ جس قدر تیزی سے بھاگ سکتاتھا بھاگتا چلا گیا‘ میں نے زیادہ سے زیادہ تین یا چار ایکڑ کافاصلہ طے کیاہوگا‘ ڈیرے کی چھت سے فائرنگ ہونا شروع ہوگئی۔ میں نے پلٹ کر ایک نگاہ دیکھا تھا۔ ڈیرے سے کئی بندے باہر کی جانب بھاگتے ہوئے نکل رہے تھے۔
بلاشبہ انہوں نے مجھے پکڑنا تھا۔ میں بھاگتا چلاگیا۔ میں کسی نہ کسی طرح پکی سڑک تک پہنچ جانا چاہتاتھا۔ میں فصلوں کے درمیان سے آگے بڑھتے رہنا چاہتاتھا۔وہاں سے گاؤں تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ اگر گھوم کر جاتاتوزیادہ وقت لگتاتھا۔ میں بغیر رکے بھاگتاجارہاتھا‘ میرے بدن میں سکت ختم ہورہی تھی۔نجانے کیوں جب بقا کامسئلہ درپیش ہوتوقوت کہاں سے آجاتی ہے‘ اب فائرنگ نہیں ہو رہی تھی۔
میں ہانپتا ہوا پکی سڑک تک پہنچ گیا۔
جہاں یہ ممکن تھا کہ وہاں مجھے کوئی جاننے والا مل جاتاتو یہ بھی تھا کہ میرے دشمن میری تاک میں ہوں۔اگر میں گاؤں کی طرف جاتاتو راستے میں حویلی تھی ‘ورنہ شہر جانے والی سڑک توتھی ہی‘ مجھے ادھر جانا تھا۱‘ اس وقت میں ان لوگوں کی دسترس سے نکلنا چاہتاتھا‘ میں ایک درخت کے ساتھ لگ کر کھڑا ہوگیااور اپنی سانسیں بحال کرنے لگا‘ میری پشت پر پکی سڑک اور رخ اس طرف تھاجہاں سے میں بھاگ کر آیا تھا۔
مجھے اپنی سانسیں بحال کرنے میں چند منٹ لگے۔ میں درخت کی جڑ میں بیٹھ گیا۔ اردگرد جھاڑیاں اور پودے اُگے ہوئے تھے۔ میری نگاہ پکی سڑک پرتھی کہ کوئی تو جاننے والاادھر سے گزرے گا۔ تب اچانک مجھے دور سے پولیس جیپ اور اس کے پیچھے وین نظر آئی۔ اسے دیکھتے ہی شاہ زیب کی بات میرے ذہن میں گونج گئی کہ پولیس مجھے ”پار“ کرنے کے لیے پہنچنے ہی والی ہے‘ کیا رندھاوا مجھے ڈبل کراس کرگیا یاپھرمعاملہ ہی کچھ اور ہے؟ وہ سڑک پر سے گزر گئے۔
اب میرے لیے وہاں پربیٹھے رہنا ٹھیک نہیں تھا۔ میں اٹھ کر پکی سڑک پر آگیا۔ میں حیران تھا کہ مجھے تلاش کرنے کے لیے کوئی بھی نہیں نکلا ہے۔ میں سڑک کی دوسری طرف چلاگیا۔ مجھے وہاں کھڑے چند منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ میرے ہی گاؤں کاایک لڑکا فیض موٹر سائیکل پر آرہاتھا۔ مجھے یوں کھڑا دیکھ کراس نے موٹر سائیکل روک لیا۔
”جمال بھائی‘ یوں کیسے کھڑے ہو‘ خیر تو ہے…؟“
”توکہاں سے آرہاہے؟“ میں نے پوچھا‘ کیونکہ مجھے لگا جیسے اسے میرے اغوا کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہے۔ تبھی وہ بولا۔

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط