”میں اسے ہی نہیں‘ جس ریکٹ کے لیے وہ کام کررہا ہے‘ میں اس کے چلانے والے کوبھی جانتا ہوں‘ تم نے محض بچوں والا کھیل کھیلا ہے‘ اب سنو…! بے چارہ انوجیت پولیس حراست میں ہے اوراس پردباؤ ہے کہ تمہیں پیش کیا جائے‘ مگر تم تو یہاں ہو۔ بچپن سنگھ نے بہت بڑی غلطی کی کہ تمہیں سرحد پار بھیج دیا۔ یہ بھی ایک طرح سے اچھا ہوا‘ وہاں تمہاری بنیاد ہی نہیں تھی۔
“
”اوہ…! بے چاراانوجیت۔“ جسپال نے روہانسا ہوتے ہوئے کہا۔
”فکرنہیں کرو‘ وہ بھی آج شام سے پہلے پولیس حراست سے باہر آجائے گا‘ ایف آئی آر بھی لکھوادی ہے کہ رویندر سنگھ نے تمہیں اغوا کرالیا ہے‘ اس سے بازیاب کروایا جائے۔ نیوز چینل پر جو کچھ بھی چل رہا ہے وہ سب غلط ہے اور ڈرامہ ہے۔“ مہر نے سکون سے کہا تو جسپال نے انتہائی حیرت سے اسے دیکھا۔
(جاری ہے)
”آپ سب کچھ جانتے ہیں…؟“
” ہاں ایک اور بات، کیشیومہرہ نے تمہاری طرف سے مقدمہ دائر کردیا ہے۔ جائیداد والا، اس کی بھی فکر نہ کرو“ یہ کہتے ہوئے میر خدا بخش کے چہرے پر انتہائی درجے کی سنجیدگی تھی ۔ اس پر جسپال یوں ہوگیا جیسے وہ ابھی پاگل ہو جائے گا۔ اس نے بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں پوچھا
” آپ کون ہیں؟“ جسپال کے پوچھنے پر وہ دھیرے سے مسکرادیا۔
اس پر تانی بھی ہنس دی‘ یوں لگاجیسے صحرا میں نقرئی گھنٹیاں بج گئی ہوں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی میرے بدن میں سنسنی پھیل گئی۔ جو کچھ دکھائی دے رہا تھا ویسا نہیں تھا۔
میں حیرت سے مہر خدابخش کے چہرے پر دیکھ رہاتھا، جہاں رعب ودبدبہ کے ساتھ سکون پھیلا ہوا تھا۔ اس نے ہماری روداد بڑے تحمل سے سنی تھی اور پھر چند لفظوں میں اپنی اُن رسائیوں کے بارے میں آگاہ کردیا‘ جس نے مجھے گھما کررکھ دیا تھا۔
بظاہر بے ضرر دکھائی دینے والا مہرخدابخش اندر سے کتنا گہرا ‘ خطرناک اور طاقتور شخص ہے میں اس کااندازہ نہیں لگاسکتا تھا۔
ساحل پہ کھڑے ہو کر سمندر کے بارے میں اتنا علم تو ضرور ہوتا ہے کہ اس میں گہرائی ہے لیکن کتنی گہرائی ہے‘ اس بارے میں فقط اندازہ ہی کیا جاسکتا ہے۔ سمندر سے اگر دوستی ہوجائے تو وہ بے تحاشا نواز دیتا ہے‘ اپنے سینے پر تیرنے کااذن دینے پر اپنی ساری وسعت بخش دیتا ہے لیکن اگر دشمنی پراتر آئے تو اپنے اندر اٹھنے والے طوفانوں میں مار کر یوں گم کر دیتا ہے کہ وجود کو زمین ہی نصیب نہیں ہوتی‘ جسپال کے سوال پر اس کی خاموشی سے میرے وجود میں تجسس پھوٹ پڑا تھا۔
تبھی اس نے بڑے دھیمے سے لہجے میں مسکراتے ہوئے کہا۔
”میں صرف مہرخدابخش ہوں اور میرے ذمے محض یہاں کی رکھوالی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں ۔ رہی یہ بات کہ میں یہ سب کچھ کیسے جانتا ہوں تویہ اس جدید دور میں اتنی حیرت انگیز بات نہیں۔ یہ تو چند جدید آلات کامعمولی سا کھیل ہے۔“
”میں سمجھا نہیں مہرصاحب۔“میں نے کہا تو مجھے احساس ہوا کہ میرا لہجہ لاشعوری طور پر مودب ہوگیا ہے ۔
اس کی شخصیت نے مجھے اندر سے مودب کردیاتھا۔
”یار جدید دور کی ایجاد یہ آلات…جیسے یہ کمپیوٹر‘ اب اس سے بندہ جوچاہے اور جیسا چاہے فائدہ لے لے… اب یہ اس آلے کو استعمال کرنے کی سمجھ بوجھ اور نیت پرمنحصر ہے کہ وہ اس سے کیا اور کیسا فائدہ حاصل کرسکتا ہے۔“
”تو کیا یہاں انٹرنیٹ بھی ہے؟“ جسپال نے یوں سوال کیا جیسے وہ حیرت کی آخری حدوں کو چھو رہا ہو۔
”اس سے بھی آگے کی بہت ساری چیزیں۔“ یہ کہہ کر وہ دھیرے سے مسکرادیا۔ اس کالہجہ بہت حد تک دوستانہ ہوگیاتھا۔ تبھی جسپال نے پوچھا۔
”مگر لگتا نہیں ہے کہ ہوسکتا ہے؟“ اس کے یوں کہنے پر مہرخدابخش نے گہری سنجیدگی سے کہا۔
”یہ جو انسان ہے نہ ‘ یہ ہونے اور نہ ہونے کے درمیان ہی بھٹکتا رہ جاتا ہے۔ ہونے کو کیا نہیں ہوسکتا‘ اسے چھوڑ و…“ یہ کہہ کر وہ چند لمحے خاموش رہا‘ پھر گویا ہوا۔
”آج شام تم لوگ میرے گوپے پر آکر چائے پیوگے۔“
”لیکن میں چاہوں گا کہ مجھے کسی طرح یہاں سے جانے کی اجازت دی جائے۔“ جسپال نے تیزی سے کہا۔
”کہاں جاؤگے؟“مہرخدابخش نے پوچھا۔
”یہیں پاکستان میں کہیں کسی نزدیکی شہر میں‘ وہاں سے میں اپنے سفارت خانے سے رابطہ کرلوں گا اور…“ یہ کہتے کہتے وہ رک گیا‘ پھر سانس لے کر دھیمے لہجے میں بولا۔
”اب شاید میں واپس پنجاب نہ جاسکوں۔“
”ٹھیک ہے‘لیکن اس کے لیے وہی شرطیں ہیں‘ کہو تو دہرادوں یا تمہیں یاد ہیں۔“ مہرخدا بخش نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ہمارے پاس اس کے لیے کوئی جواب نہیں تھا۔وہ چند لمحے ہمارے ردعمل کاانتظار کرتا رہا‘ پھر اٹھتے ہوئے کہنے لگا۔”یاد سے آجانا۔ تم لوگوں سے ملنے کے لیے کوئی آرہے ہیں۔“
”ہم سے ملنے کے لیے؟یہاں…؟“ میں نے چونکتے ہوئے پوچھا۔
میرے ذہن میں ایک دم ہی سے کئی خیال رینگ گئے۔ مہرخدابخش نے میری بات کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھابلکہ واپس جانے کے لیے چل دیا۔ اس کے دائیں جانب تانی اور بائیں جانب خوبصورت جسم والا لڑکا سرمد تھا۔وہ چلے گئے تو جسپال نے فکرمندانہ لہجے میں کہا۔
”یار کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم کسی فورسز کے حوالے کردیئے جائیں۔ ہمارا تو سارا کچا چٹھا انہیں معلوم ہوگیا ہے۔
میرے خیال میں یہ لوگ یہاں رہ بھی اسی لیے رہے ہیں کہ سرحدوں کی حفاظت کریں یاممکن ہے یہ کوئی جرائم پیشہ لوگ ہوں اور ہمیں …“
”لیکن مجھے نہیں لگتا جسپال کہ ایسے ہوگا‘ کیونکہ اگر انہوں نے ہمیں حوالے ہی کرنا ہوتا تو رات ہی ہم کسی وقت اٹھالیے جاتے‘ اتنی مہمان نوازی نہ ہوتی۔“ میں نے اپناخیال ظاہر کیا۔
”جمال۔! میرا خیال تو یہ کہتا ہے اگر یہ لوگ تمہیں ذرا سی بھی آفر کریں تو تم یہیں ٹک جاؤ‘ کیونکہ یہاں سے نکلنے کے بعد تم سیدھے جیل جاؤگے۔
“ اس نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”تم نے کون سا خالہ کے گھر چلے جانا ہے۔“ میں نے کہا تو وہ ہنس دیا۔ مجھے اس کا یہ انداز اچھا لگا۔ اس قدر نازک حالات میں بھی وہ ہنس رہاتھا۔
”یہ تو ہے ۔“ اس نے سرہلاتے ہوئے کہا۔
”دیکھو۔! کل جو شرطیں مہرخدابخش نے ہمارے سامنے رکھی تھیں‘ وہ دعویٰ یونہی نہیں تھا‘ اور تم نے بھی جو،جواب دیا تھا وہ نری مصلحت تھی، دل سے نہیں کہا تھا۔
ہم اپنی شکست کی ذلت سے بچنا چاہ رہے تھے۔ جو بہرحال میں نے اپنی بے وقوفی سے پائی۔ میں ذلیل ہوا‘ یہ بات تو سچ ہے نا؟“ میں نے اس کی تصدیق چاہی۔
”ہاں‘ یہ تو ہے‘ وقت کی نزاکت تھی۔“ اس نے کسی حد تک سنجیدگی سے کہا۔
”آج اگر اس نے ہمیں سب کچھ بتادیا ہے تو اس کامطلب ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ تو ہے‘ یوں ویرانے میں بیٹھ کر دنیا کے بارے میں خبر دینے والا عام سابندہ نہیں ہوسکتا۔
کل میں نے بھی اس کے دعوے کو یونہی خیال کیا تھا‘ لیکن آج مجھے یقین ہے کہ ہم مہرخدابخش کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے۔“ میری بات اس نے بڑے غور سے سنی‘ پھر سنجیدہ لہجے میں بولا۔
”دیکھ‘ صرف معلومات کاحصول ،ایک الگ بات ہے ۔جدید دنیا میں بستی ہو یا ویرانہ‘ اب کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ یہ سیٹلائٹ فون انہی ویرانوں میں کام آتے ہیں۔
اب انسانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات بہت وسعت رکھتے ہیں۔ صرف معلومات سے مرعوب ہوجانا میرے خیال میں ٹھیک نہیں ہے۔“
”یار‘ انہیں معلوم ہوگیا نا کہ ہم کون ہیں۔“ میں نے کہا۔
”یہ تو ہے ؟“ اس نے سرہلاتے ہوئے کہا۔
”وہ ہمارے ساتھ کچھ بھی کرسکتے ہیں‘ جبکہ ہمیں ان کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ مجھے یقین ہے کہ ہم ان کی شرطیں پوری نہیں کرپائیں گے کیونکہ ان شرطوں سے ہم خود انکار کرچکے ہیں۔
“ میں نے اسے یاد دلایا۔
”یار ہم خواہ مخواہ بحث کررہے ہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ابھی کچھ دیر بعد مہرصاحب کے گوپے میں ہم سے کون ملنے آرہا ہے‘ کوئی تیرے ہیں ‘یامیرے ہیں۔“ یہ کہہ کروہ ہنس دیا۔
”چلو دیکھتے ہیں کون ہیں‘ پھر اس کے بعد ہی یہاں سے نکلنے کی سوچیں گے۔“ میں نے خود کلامی کے سے انداز میں کہا ۔گویا ہماری بات اس موضوع پر ختم ہوگئی۔