”بکواس ہی کرتاجائے گا یاجومیں کہہ رہاہوں اس پریقین کرے گا۔“
”یقین تو تیراہی کرنا ہے جمالے …“ ا س نے اسی طرح لیٹے لیٹے جواب دیا۔
”توچل آپھر پہلے تجھے ساری بات بتادوں‘ پھر آکے ناشتہ کرتے ہیں۔“ میں نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”نہیں‘مجھے اتنی بھی جلدی نہیں ہے۔“ اس نے کہااور اٹھ کربیٹھ گیا۔تبھی میں نے بھیدے کے شک کے بارے میں اسے بتایا تو وہ سرہلاتے ہوئے بولا۔
”پیرزادوں اور سرداروں کی لڑائی تو چھڑ گئی ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں‘ مگرسردار ابھی ہچکچا رہا ہے۔ علاقے کے جو دوسرے زمیندار ہیں‘ ان میں ایک دو ہی ابھی غیر جانبدار ہیں‘ باقی سارے ادھر یا پھر ادھر گئے ہوئے ہیں‘ ایک ہلچل سی مچ گئی ہے‘ ممکن ہے کوئی کسی داؤ پر ہو۔
(جاری ہے)
“
”ظاہر ہے ہربندے کواپنا تحفظ کرنا ہے ‘سیاسی معاملات توہیں ہی‘ان کی اتنی اہمیت نہیں‘اصل بات لوگوں کے بغاوت کردینے کی ہے‘ یہی میں چاہتا ہوں۔
“ میں نے سوچتے ہوئے کہا۔
” ہمارے اس علاقے کے ہرگاؤں میں اور ہربستی میں وہاں کے زمیندار یاجاگیردار کہہ لو‘ اس کے خلاف کچھ نہ کچھ بندے ضرور موجود ہیں‘ وہ خاموش ہیں‘ کیونکہ نہ انہیں سہارا ہے‘ نہ طاقت ہے اور نہ ہی ان کے پاس وسائل‘ ان سب کو ایک جگہ اکھٹا کرناہوگا۔“
”یار یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ طاقت کی طرف اپنا جھکاؤ کرتا ہے۔
انہیں کسی دوسری طرف طاقت دکھائی دی تووہ ادھر ہوجائیں گے‘ اس میں بڑا وقت لگے گا‘ تو یہ مت سوچ ‘اس منزل تک پہنچنے کے لیے ابھی بڑا وقت پڑا ہے اور بہت کچھ کرنا ہوگا‘ جب میں تجھے سوہنی کے یہاں آنے کے بارے میں بتاؤں گانا‘ تو پھرمجھے بتانا‘ سمجھ لو‘ سارا کھیل ہی بدل گیاہے۔“ لفظ ابھی میرے منہ ہی میں تھے کہ سوہنی کچن میں سے نکلی‘ اس کے ہاتھ میں ٹرے تھا‘ میں ہاتھ منہ دھونے کے لیے اٹھ گیا‘ تووہ سوالیہ انداز میں بولی۔
”جمال…! ناشتہ تو کرلو…؟“
”میں ہاتھ دھو آؤں۔“ میں نے آہستگی سے کہاتووہ تیزی سے بولی۔
”تم یہیں بیٹھو‘ میں دھلوادیتی ہوں ہاتھ۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے ٹرے چارپائی پررکھی‘ جہاں چھاکااب اٹھ بیٹھا تھا‘ وہ بڑے غور سے سوہنی کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں تجسس بھری حیرت تیر رہی تھی۔ وہ ٹرے رکھ کر پلٹ گئی تومیں پائنتی کی طرف چارپائی پر بیٹھ گیا‘ تبھی چھاکابولا۔
”یار…! کیا جادو کردیاہے تونے اس پر‘ ایسی خدمت…؟“
”ناشتہ کرلے‘ پھر بتاتاہوں‘ ورنہ یہ کھانا پینا یہیں بھول جائے گا۔“ میں نے پھر آہستگی سے کہاتووہ بے چین ہو کرمیری طرف دیکھنے لگا۔ سوہنی آئی اورمیرے ہاتھ دھلوا کر چلی گئی۔ جب ہم ناشتہ کرچکے اور چائے کی پیالیاں خالی کرکے رکھ دیں تو میں نے باہر والے کمرے کی طرف جانے کااشارہ کرکے اٹھ گیا۔
چھاکا بھی میرے پیچھے پیچھے آگیا۔ اطمینان سے بیٹھ جانے کے بعد میں سوہنی کی بتائی ہوئی بات اسے بتادی۔ تو حیرت کی انتہا پر بولا۔
”یہ تو غضب ہوگیا جمالے …سوہنی سردار شاہ دین کی بیٹی ہے؟“
”ہاں چھاکے …! غضب ہی ہوا ہے‘ اب بتا‘ میرا اسے یہاں لانا بنتا ہے کہ نہیں؟“
”لیکن اگر یہ سب جھوٹ ہوا تو‘ نری کہانی… توپھر…؟“وہ تشویش سے بولا۔
”توپھر کیاہوا‘ ایک بار تو ہلچل مچ جائے گی نا…“میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”یار سیانے کہتے ہیں کہ ایسا کوئی دعویٰ نہیں کرناچاہیے جس پربات دینی آجائے۔یہ ہم کیسے ثابت کریں گے؟“ اس نے الجھتے ہوئے پوچھا۔
”یار…ثابت جب ہوگا سوہوگا‘ مجھے ثابت کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے‘ تو دیکھتاجا‘ میں کرتا کیاہوں۔“ میں نے ہنستے ہوئے کہا تو چھاکا چند لمحے خاموش رہاپھر چونک کربولا۔
”بھیدے نے جوبندوں والی بات بتائی ہے‘ اگراس کاشک درست ہوا تو…ہمیں اپنابندوبست کرنا چاہیے۔“
”ہاں‘بندوبست توہوناچاہیے۔ اب تو بندوبست ہروقت رکھنا ہوگا‘ ہم صرف سرداروں کے ساتھ ہی نہیں کھیل رہے ہیں‘ہمیں پیرزادوں سے بھی اتناہی خطرہ ہے۔ اب تو علاقے کے لوگ بھی اس کھیل میں شامل ہوچکے ہیں۔“میں نے تحمل سے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”توچل پھر اٹھ جا‘ دوستوں کواکھٹا کرتے ہیں۔ کوئی ادھر ادھر کی خبر لیتے ہیں‘ کون‘ کس کے بارے میں ‘ کیا کررہا ہے۔ یونہی بیٹھے رہنے سے کیا ہوگا۔“ چھاکے نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”وہ تو کرنا ہے… ابھی نکلتے ہیں‘ لیکن میراخیال ہے‘ کل دلبر کے سوئم کی دعا ہے‘ اس پر پورے علاقے کے لوگ آئیں گے ‘میراخیال ہے ‘ تب تک نہ پیرزادے کچھ کرسکیں گے‘ اور نہ سردار‘ ورنہ وہ علاقے میں مزید گندے ہوجائیں گے۔
“میں نے اپنا خیال ظاہرکیا۔
”یہ صرف تو سوچتا ہے نا‘ جس نے اپناکام دکھانا ہے‘ وہ دکھاجائے گا‘ ہوسکتا ہے ملک سجاد کے بندے آگئے ہوں…یا سردار ہی کوئی اور کھیل کھیلنا چاہتا ہو۔ وہی جوہم نے ان کے ساتھ کیا…“ چھاکے نے ایک پہلو کے بارے میں توجہ دلائی تومجھے خیال آیا۔
”یار…! اب تک رندھاوے نے بھی کوئی رابطہ نہیں کیا۔ ممکن ہے‘ باہر ہی باہر سے معاملہ ہی کچھ دوسرا ہوگیاہو۔
“
”اس لیے کہہ رہاہوں نہ کہ باہرنکلیں گے تو آس پاس کی خبر ملے گی۔“ چھاکا چارپائی سے اٹھ گیا۔
”ہاں‘ وہ تو ہے‘ چل‘ دلبر کے گھر ہی چلتے ہیں۔ وہاں باہر لوگ فاتحہ خوانی کے لیے بیٹھے ہی ہوں گے۔ وہاں سے کچھ معلوم ہو۔“ میں نے کہااور اس کے ساتھ اٹھ گیا۔ دھوپ چڑھ آئی تھی‘ جو سارے صحن میں پھیلی ہوئی تھی۔ چند منٹوں میں چھاکے نے میرا بائیک نکالا اور ہم اس پرسوار ہو کر دلبر کے گھر کی جانب چل پڑے۔
دلبر کے گھر کے باہر کافی سارے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں کچھ گاؤں کے تھے اور ادھر ادھر کے علاقے سے آئے ہوئے تھے‘ وہ سبھی زمین پر بچھی ہوئی دریوں پر تھے۔ چھاکے نے ایک طرف بائیک روکی‘ میں اترااورجاکر ان میں بیٹھ گیا۔ فاتحہ پڑھی اور پھر حسب معمول باتیں ہونے لگیں۔ میں نے محسوس کیا کہ کچھ لوگ میری طرف بڑی گہری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔
وہ گاؤں سے باہر ہی کے لوگ تھے۔ چھاکا اس وقت تک دلبر کے گھر کے اندر چلا گیا تھا کیونکہ اس وقت تمام ترمعاشی معاملات اس کے سپرد تھے۔
میں خاموشی سے وہاں بیٹھا رہا اور لوگوں کی باتیں سنتا رہا۔ وہاں یہ شکوہ موجود تھا کہ پیرزادے آکر چلے گئے‘ علاقے کے دوسرے زمیندار بھی کسی نہ کسی طرح انہیں پرسہ دینے آئے لیکن اپنے ہی گاؤں کے سردار نہیں آئے۔
سردار شاہ دین نہیں آیا‘ نہ سہی لیکن شاہ زیب کو ایک بار ان کے ہاں آجانا چاہیے تھا۔ میں نے وہاں کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی کرنے کی ضرورت تھی۔ چاہے دبی دبی زبان ہی میں سہی‘ سرداروں کے خلاف لوگ بولنا شروع ہوگئے تھے۔ لوگ آتے جاتے رہے اور میں وہیں بیٹھا رہا‘ دوپہر ہونے کوآگئی تھی جب سرداروں کا خاص ملازم فخرو وہاں آگیا۔
روایت کے مطابق اس نے فاتحہ پڑھی اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔
لوگوں نے دبے دبے لفظوں میں اس سے سرداروں کے نہ آنے کا گلہ بھی کیا‘ اس نے بتایا کہ بڑے سردار صاحب تو شہر میں ہیں اور وہاں بہت مصروف ہیں‘ جبکہ شاہ زیب لاہور گیا ہوا ہے۔ اپنے داخلے وغیرہ کے سلسلے میں۔ وہ صریحاً جھوٹ بول رہاتھا۔ میری اطلاع کے مطابق دونوں حویلی میں تھے۔ نجانے کیوں میرے دماغ میں اس کا جھوٹ کھٹکنے لگا۔ وہ ایسا کیوں کہہ رہا ہے؟ ممکن ہے سردار شاہ دین چلاگیاہو‘ ملک سجاد کی حالت خاصی خراب تھی۔
مجھے یہ سوچ آنے لگی کہ اگر فخرو درست کہہ رہاہے تو پھر کم از کم سرداروں کی طرف سے خطرے والی بات نہیں ہے‘ میرے بارے میں جو لوگ پوچھتے پھرتے ہوں گے‘ وہ کوئی اور ہوں گے‘ لیکن اگر فخرو جھوٹ بول رہا ہے تو پھر مجھے کسی نئی صور تحال کے لیے پوری طرح تیار رہنا چاہیے۔ میں یہی سوچ رہاتھا کہ ایک دم مجھے خیال سوجھا‘ کل آنے سے پہلے ہی ہلچل مچادی جائے۔ میں فخرو کے اٹھنے کاانتظار کرنے لگا۔ کچھ دیربعد وہ اٹھ گیا‘ انہی لمحات میں ‘جبکہ وہ آہستہ آہستہ اٹھ رہاتھا‘میں تیزی سے اٹھااور جوتے پہن لیے۔ فخرو آرام سے جوتے پہن کر چند قدم چلاہی تھا کہ میں اس کے برابر جاکر بولا۔