Episode 103 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 103 - قلندر ذات - امجد جاوید

”میں آجاؤں واپس یا…“ اس نے رکتے ہوئے پوچھا۔
”وہ اگر فوراً تیرے ساتھ چل پڑے تو ساتھ ہی آجانا‘ ورنہ جیسے تیرا دل چاہے۔“میں نے کہااور سکون سے آنکھیں موند لیں۔ کچھ دیر بعد بھیدہ چلا گیا اور میری کب آنکھ لگی‘ یہ مجھے پتہ ہی نہ چلا۔
اس وقت اندھیرا ہی تھا‘جب میری آنکھ کھلی‘ میں نے آسمان پر نگاہ ڈالی تو ستاروں کی چال بتارہی تھی کہ رات گزر چکی ہے اور کچھ دیر میں صبح صادق ہونے والی ہے۔
ایسے وقت میں ڈنگروں کا اپنا ایک مخصوص شو ر ہوتا ہے ۔میں بستر سے اُٹھ بیٹھا۔ تبھی مجھے بھیدہ دکھائی دیا جو چارے کی ٹوکری اٹھائے ڈنگروں کی طرف جارہاتھا۔ وہ چارہ ڈال کرواپس پلٹا تو اس کی نگاہ مجھ پرپڑی۔ تبھی وہ سیدھا میرے پاس آگیا۔ میں نے پوچھا۔
”ہاں…! کیا کہاتھا جائی شوکرنے…؟“
”اس نے کہاتھا توجا‘ میں آجاتاہوں۔

(جاری ہے)

میں تو پھر واپس آگیا‘ مگر وہ نہیں آیا ابھی تک۔

”چل کوئی بات نہیں۔ آجائے گا۔“ میں نے کہااور اٹھ کرنہانے کے لیے چل دیا۔
میں نہا کرواپس اپنی چارپائی پر آیا تو جائی شوکر آیا ہواتھا۔ علیک سلیک کے بعد اس نے کہا۔
”اچھاہوا تم کل فوراً ہی نکل گئے۔پولیس تیرے لیے ہی کل آئی تھی۔اسے شاہ زیب نے بھجوایا تھا۔وہ کل پورے گاؤں میں تجھے تلاش کرتے رہے ہیں۔ لگتا ہے تیری مخبری ہوئی ہے۔
”وہ تو ہونی ہی تھی جائی‘ میں کل جان بوجھ کر چوک میں بیٹھا رہاتھا۔ گاؤں میں سارے ہی لوگ میرے سجن نہیں ہیں‘ ان میں بہت سے دشمن بھی ہیں۔ تومجھے صرف اتنا بتا کہ شاہ زیب حویلی میں آیا ہے یانہیں؟“
”نہیں آیا۔“ اس نے انکار میں سرہلاتے ہوئے کہا۔
”پکی خبر ہے؟“ میں نے تصدیق چاہی۔
”پکی خبر ہے۔“ اس نے زور دیتے ہوئے کہا۔
”میرا بڑا بھائی حویلی میں ملازم ہے۔ اسے حویلی کے ہر معاملے کی خبر ہوتی ہے ابھی اس سے تصدیق کرکے تیرے پاس آیاہوں۔“
”ہے کہاں وہ؟“ میں نے پوچھا۔
”شہر ہی گیا تھا‘ ابھی تک واپس نہیں پلٹا‘ ممکن ہے وہیں سے کہیں دوسری طرف نکل گیاہو۔ہاں! ان بندوں کے بارے میں جان گیاہوں جنہوں نے تیرا گھر جلایا تھا۔“
”واہ…کتنے بندے تھے… سبھی کے … “ میں نے تیزی سے پوچھا تو اس نے مجھے ٹوکتے ہوئے کہا۔
”بندے تو بہت تھے لیکن وہ چار پانچ بندے جو سب سے آگے تھے اور ان کی رہنمائی کررہے تھے۔ وہ اس وقت ڈیرے پر ہیں۔ شیدا چدھڑ گاؤں میں ہے۔شاہ زیب نے تیرے گھر کوجلانے کی ذمے داری اس کو دی تھی۔“
”کیا اس وقت وہ گھر پر ہوگا؟“ میں نے پرجوش ہوتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں…! وہ گھر ہی ہے‘ باقی ڈیرے پر ہیں۔“ جانی شوکر نے مجھے بتایا تو میں اٹھ کھڑا ہوا۔
”چل جانی…! تومجھے گاؤں کے باہر چھوڑ دینا‘سامنے مت آنا‘باقی میں سب دیکھ لیتاہوں۔“ میں نے کہا تووہ بھی اٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد ہم ڈیرے سے نکل کر گاؤں کی طرف جارہے تھے۔
جانی شوکر مجھے گاؤں کی نُکر پراتار کر چلاگیا۔ صبح صادق کانور ہر طرف پھیلا ہواتھااور میں تیز تیز قدموں سے شیدے چدھڑ کے گھر کی طرف بڑھ رہاتھا۔ چند گلیاں پار کرکے میں اس کے گھر کے سامنے تھا۔
میں یقین کرناچاہ رہاتھا کہ وہ گھرپر ہے بھی یانکل گیا ہے۔میں یہی سوچ رہاتھا کہ اس کے گھر کادروازہ کھلا اور وہ اپنی بائیک پرباہر نکلا۔ میں نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اپنا پسٹل نکالا اور یکے بعد دیگرے دوفائر اس کی ٹانگوں میں دے مارے۔ وہ اس اچانک افتاد پر گھبرا گیا اور اس کے منہ سے چیخیں نکلنے لگیں۔ اگلے ہی لمحے میں اس کے سرپر تھا۔ وہ آنکھیں پھاڑے میری طرف دیکھ رہا تھا۔
اس کی آنکھوں میں دہشت کے ساتھ حیرت جمی ہوئی تھی۔ وہ چیخنا بھول گیا اور کراہنے لگا۔ صبح ہی صبح فائرنگ کی آواز سے نورنگر گونج اٹھاتھا۔ یہ تو اب ممکن ہی نہیں تھا کہ لوگ اپنے گھروں سے نہ نکلتے‘وہ زمین پر گرچکاتھا اور اسکی بائیک اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر ایک طرف گر گئی تھی۔ میں نے اسے جاکر بالوں سے پکڑلیااور انتہائی غصے میں کہا۔
”تونے میرے گھر کو آگ کیوں لگائی؟“
”سردار… نے کہا…معاف کرد و … میں …“ وہ انتہائی مشکل سے بول رہاتھا۔
اتنے میں اس کے گھر کے اندر سے اس کی بیوی اور بچے نکل آئے۔ اس نے اپنے شوہر کی حالت دیکھی تو چیخ مار کر بڑھی۔
”خبردار! کوئی آگے بڑھا تو گولی ماردوں گا۔“میرے یوں کہنے پر وہ وہیں رک گئی۔ گاؤں کے ہربندے کوخبر تھی کہ شیدے چدھڑ نے کیا جرم کیا ہے تو اس کی بیوی کو کیوں معلوم نہ ہوتا۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ میں ا سکے سر پر سوار کیوں ہوں۔ سو وہ منتوں پر اتر آئی۔
”خدا کے لیے اسے معاف کردو… اس سے غلطی ہوگئی… ہم تیرا سارا نقصان پور اکردیں گے۔“ وہ چیخ رہی تھی۔ گلی کے لوگ نکل کرتماشہ دیکھ رہے تھے۔ میں اسے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتا ہواگلی کے درمیان میں لے آیااور پھراسے ٹھوکروں پررکھ لیا۔ چند لمحوں ہی میں وہ بے دم ہو کر بے ہوش ہوگیا۔ تب میں نے پسٹل سیدھا کیااور اس کے سر کانشانہ لے کر ٹرائیگر دباناہی چاہتاتھا کہ اس کی جوان بیٹی میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہوگئی۔
اس نے نہایت آزردہ لہجے میں روتے ہوئے کہا۔
”میرے باپ کومعاف کردو…“
میں نے ایک لمحہ اسے دیکھا ‘پھرپسٹل ہٹاتے ہوئے کہا۔
”جابیٹی‘ تیرے صدقے معاف کیا۔“
یہ کہہ کر میں پلٹا ‘ اس کی بائیک اٹھائی اور کسی کی طرف دیکھے بغیر وہاں سے نکلتا چلاگیا۔ میرا رخ دلبر کے ڈیرے کی طرف تھا۔ جہاں مجھے جانی شوکر نے ملنا تھا۔ وہ میرا ناشتہ لے کر وہاں پہنچا ہوا تھا۔
میں نے تیزی سے ناشتہ کیا‘ شیدے چدھڑ کے بارے میں اسے بتایاتووہ بولا۔
تو اکیلا کب تک ان کی ساتھ لڑتا رہے گا۔ چند بندے تیرے ساتھ ہونے چاہئیں۔“
”یار بندے اکھٹے کرنے کو تو میں ایک گھنٹے میں کرلوں‘ پتہ نہیں کون کون علاقے بھر میں میرے انتظار میں بیٹھا ہوگا‘ مگر میں ان میں سے کسی کابھی نقصان نہیں چاہتا‘ اب میری اور شاہ زیب کی جنگ شروع ہوگئی ہے۔
دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے؟“
”نہیں جمالے! تو اکیلا ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا‘تجھے ساتھیوں کی ضرورت پڑے گی‘ میں بہت سارے ایسے شہ زوروں کوجانتاہوں جوشاہ زیب کے مخالف ہیں انہیں ساتھ…“
”جس طرح سانپ اور شیر کے بارے میں پتہ نہیں ہوتا کہ وہ جنگل میں کب اور کہاں مل جائیں‘ اسی طرح میرے بارے میں کسی کومعلوم نہیں ہوناچاہیے کہ میں کہاں ہوں‘ لوگوں کی بھیڑ تو ہروقت نشاندہی کرتی رہے گی۔
“ میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”جیسے تیری مرضی‘ پرایک اکیلا اور دو گیارہ ہی ہوتے ہیں۔“ جانی شوکر نے دوبارہ مجھے یاد دلاتے ہوئے کہا۔ میں اسے اب کیابتاتا کہ میرا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے‘ مجھے خود سر چھپانے کوجگہ نہیں تھی‘ اتنے لوگوں کو کہاں رکھتا۔ میں نے یہی بات جب جانی شوکر کو سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے کہا۔
 ”واہ …! جمالے واہ! شاہ زیب نے تیرا ٹھکانہ چھین لیا تو اس کا چھین لے۔
حویلی پر قبضہ نہیں کرسکتانہ کر‘ کم از کم اس کاڈیرہ تو تیرے قبضے میں ہو۔ پھر دیکھنا کتنے لوگ تیرے ساتھ آکر شامل ہوتے ہیں۔ ان جاگیرداروں‘ زمینداروں کے ظلم وستم کے ستائے نہ جانے کتنے لوگ اپنے دل میں غصہ دبائے بیٹھے ہیں۔ ناراض مت ہونا‘ میں کوئی تیری محبت میں تیرا ساتھ نہیں دے رہا‘بلکہ میرے دل میں ان بے غیرت جاگیرداروں کی نفرت تیری مدد پر مجبور کررہی ہے۔
”چل پھر اٹھ‘ آر یاپار‘ ڈیرے پرقبضہ جماتے ہیں‘ یاپھرہم نہیں…بول کیا کہتا ہے؟“ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تووہ فوراً اٹھ گیا۔
”چل…پہلے گاؤں چلتے ہیں وہاں سے کچھ اسلحہ لے لیں‘ممکن ہے میرے دوچار بندے بھی ساتھ ہو جائیں۔“ ہم دونوں ڈیرے پر سے اٹھے اور اپنی اپنی بائیک پر گاؤں چلے گئے۔ سورج کی روشنی ہر طرف پھیل گئی تھی۔
میرے گاؤں میں داخل ہوتے ہی لوگ مجھے یوں دیکھنے لگے تھے جیسے پہلی بار دیکھ رہے ہوں۔ ظاہرہے انہیں شیدے چدھڑ کے بارے میں پتہ چل گیا ہوگا۔ میں نے کسی کی پروا نہیں کی اور نہ ہی کسی کے ساتھ بات کرنے کی کوشش کی۔ جانی شوکر اپنے گھر سے دو گنیں اٹھالایاتھا۔ میں نے پسٹل کے لیے کچھ فاضل راؤنڈ بھی منگوالیے تھے۔ ہم صرف دو تھے اور ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ڈیرے پر کتنے لوگ ہوں گے۔
مجھے جانی شوکر کا حوصلہ دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہورہی تھی۔ ہم دونوں ہی ڈیرے کی جانب چل نکلے۔
گاؤں سے نکل کر ہم پکی سڑک پر آگئے۔ صبح کے وقت لوگ اپنے اپنے کام کی طرف جارہے تھے۔ ہم ان کی قریب سے تیزی کے ساتھ نکلتے ہوئے اس کچی سڑک پرآگئے جہاں سے ڈیرے کی طرف جایاجاتاتھا۔ ہم تیزی سے ڈیرے کے قریب ہوتے چلے جارہے تھے‘ یہاں تک کہ ڈیرے سے دو تین ایکڑ کے فاصلے پررک گئے۔ تبھی میں نے جانی سے کہا۔

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط