”بالکل…! لیکن اس میں تم بالکل یوں دکھائی دوگے کہ جیسے تمہیں کچھ بھی معلوم نہیں‘ تم پریشان ہو رہے ہو کہ آخر یہ کیا ہو رہا ہے‘ اس دفتر میں ہمیں تقریباً دو گھنٹے ضائع کرنے ہیں۔“مہرہ نے سوچتے ہوئے کہا۔ وہ سوڈا پیتا رہااور سوچتا رہا ‘پھراٹھ کر اس دکان کے اندر چلاگیا۔ وہاں سے اس نے ایک فون کال کی‘ جو تقریباً پانچ منٹ تک چلتی رہی‘ پھر پیسے ادا کرکے وہ واپس مڑا‘ جسپال کو ساتھ لیااور تھانے کی پارکنگ تک چلے گئے۔
وہ اے سی پی آفس میں پہنچے تووہ اپنے آفس میں نہیں تھا۔ کیشیو مہرہ نے وہیں بیٹھ کر درخواست لکھی اور اس کے ماتحت عملہ کو دے کر ڈائری نمبر لے لیا‘ اس مرحلے میں تقریباً ایک گھنٹہ صرف ہوگیا۔ اگلا ایک گھنٹہ انہوں نے وہیں بیٹھ کر اے سی پی کاانتظار کیا۔
(جاری ہے)
بالکل آخری چند منٹ میں وہ اپنے آفس آیا تو وہ دونوں اس کے آفس میں چلے گئے۔ وہ ادھیڑ عمر اورتجربہ کار آدمی تھا۔
کیشیو نے جب معاملہ اس کو بتایا تو وہ بولا۔
”اوہ…! یہ تووہی معاملہ ہے جس کی خبر ابھی چینل پر چل رہی ہے۔“
”لیکن آپ کے انسپکٹر نے ہماری کوئی بات نہیں سنی‘ وہ تو بات ہی کچھ اور طرح سے کررہا ہے۔“ جسپال نے شکایتی لہجے میں کہا۔
”آپ نے درخواست دے دی ہے نا‘ شام تک اگر وہ اس پر کوئی کارروائی نہیں کرتاتو میں اس معاملے کو خود دیکھوں گا‘ آپ فکر مند نہ ہوں‘ میں چھان بین کروں گا کہ ایسا کیوں ہوا۔
“ اے سی پی نے تشویش زدہ لہجے میں کہااور پھر کچھ تسلی آمیز باتوں کے بعد انہیں بھیج دیا۔ وہ دونوں اس کے آفس سے نکل آئے۔
”اب واپس تھانے جانا ہے‘ میرے پیچھے آنا لیکن بہت محتاط ہو کر…“ کیشیو نے کہااور اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔
وہ جب تھانے پہنچے تو وہاں پر کچھ مزید چینل کے لوگ پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے انسپکٹر کو گھیرا ہوا تھااوراس سے سوال کررہے تھے ۔
انسپکٹر بڑے اعتماد سے جواب دے رہا تھا۔ پھر جیسے ہی ان دونوں پر نگاہ پڑی‘ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
”دیکھیں‘ میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا ہے کہ جس طرح پرتاپ چینل نے رپورٹ دی ہے اور جس طرح خبر کو بگاڑ کرپیش کیا ہے‘ اصل واقعہ ویسے نہیں ہے‘ میں نے چھان بین کی ہے۔ فائرنگ کا سرے سے کوئی واقعہ پیش آیاہی نہیں ہے۔“
”یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں‘ وہ لڑکی ہسپتال میں ہے اور زندگی اورموت کی کشمکش میں ہے۔
“ ایک خاتون صحافی نے جذباتی انداز میں پوچھا۔
”آپ میری پوری بات سنیں گے تو آپ کومعلوم ہوگا نا۔ “ اس نے طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا اور پھر بولا۔ ”اصل واقعہ صرف اتنا ہے کہ اس موٹر سائیکل سوار کی بائیک غلطی سے ان کی گاڑی کے ساتھ ٹکراگئی‘ انہوں نے اتر کر اسے مارا پیٹا‘ جس کے گواہ موجود ہیں‘ بھرے بازار میں اسے رگیدا‘ اسے بری طرح زدوکوب کیاگیا‘ اور پھر تھانے میں لاکر یہ کہہ دیا کہ اس نے فائرنگ کی ہے۔
“
”اس لڑکی کے جو فائر لگے‘ وہ کہاں سے لگ گئے۔ وہ کس کھاتے میں ہیں…“ ایک رپورٹر نے سوال کیا۔
”اب صرف یہی مسئلہ حل کرنے والا رہ گیا ہے‘ میرے خیال میں دوباتیں ہیں‘ ایک تو کیس مضبوط بنانے کے لیے انہو ں نے خود فائر کرلیے ہیں‘ اور دوسرا خواہ مخواہ کی سنسنی پھیلانے کے لیے یہ ڈرامہ رچایا گیا ہے۔ بہرحال تفتیش جاری ہے اورمیں پوری توجہ سے اس کیس کو دیکھ رہا ہوں۔
“
”یہ معاملہ کب تک صاف ہوجائے گا۔“ ایک دوسرے صحافی نے پوچھا۔
”دیکھتے ہیں‘ کب تک ہوتا ہے‘ کیانتیجہ نکلتا ہے۔“ انسپکٹر نے کہااور پھر ہاتھ کے اشارے سے انہیں روکتا ہوا بولا۔ ”اب بس کریں‘ مجھے اب کچھ مزید کام بھی کرنے ہیں۔“
”انہی لمحات میں جسپال نے ان رپورٹرز کے سامنے اپنی بات کہنا ہی چاہی تھی کہ کیشیو نے اسے روک دیا۔
اس نے مضبوطی سے جسپال کاہاتھ پکڑ لیاتھا۔ چند منٹ بعد وہ چلے گئے تو انسپکٹر نے کہا۔
”آپ لوگ پھر آگئے ہو‘ ممکن ہے میں آپ ہی کو ان سلاخوں کے اندر کردوں‘ معاملہ وہی ہے جو میں نے ابھی میڈیا کو بتایاہے۔“
”انسپکٹر…! ہم نہیں جانتے کہ تم ایسا کیوں کررہے ہو‘ تمہیں ایساکرنا چاہئے بھی یانہیں‘ تمہاری مرضی ہے کہ تم اس واقعے کو کیارنگ دے رہے ہو لیکن کب تک…“ کیشیو نے کہا تووہ مسکراتے ہوئے بولا۔
”تو جائیں نا‘ جاکر ایسے وسائل تلاش کریں جن سے آپ کی آواز سنی جاسکے۔ میں جانتاہوں کہ تم لوگ ابھی اے سی پی صاحب کے آفس سے آئے ہو‘ کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘ میری مانو‘ تو خاموشی کے ساتھ یہاں سے نکلو‘ اور جاؤ اپنے اپنے گھر… سکون کرو… وہ لڑکی ٹھیک ہوجائے تو اسے گھر میں آرام کرنے دیں…گڈ لک…“ انسپکٹر نے کہااور باہر کی جانب چل پڑا۔
اسے گئے چند منٹ ہی ہوئے تھے جسپال نے کیشیو سے پوچھا۔
”اب کیا کریں…؟“
”بس چند منٹ…“ یہ کہتے ہوئے اس نے گھڑی دیکھی اور پرسکون ساہو کر کرسی پربیٹھارہا۔ چند منٹ ہی گزرے تھے کہ لاک اپ کے اندر سے ایک دم سے اونچی اونچی آوازیں آنے لگیں‘ پھر آپا دھاپی شروع ہوگئی‘ تبھی ایک چیخ بلندہوئی‘ جس وقت تک دوسرے اہلکار وہاں پہنچتے‘ اندر سے کسی کی بلبلانے کی آوازیں آتی رہیں۔
وہ دونوں بھی باہر نکلے اور لاک اپ کی سلاخوں کے سامنے چلے گئے۔ وہ جو حملہ آور تھا‘ وہ بے ہوش پڑاتھا‘ اس کے سر سے خون بہہ رہاتھا اور اس کے پیچھے چند سپاہیوں نے ایک لمبے تڑنگے شخص کو روکا ہوا تھا جو بپھرے ہوئے انداز میں اسے مارنے کے درپے تھا۔ وہ اونچی اونچی آواز میں اسے گالیاں نکال رہاتھا۔
”یہ کیا ہوا؟“ جسپال کے منہ سے سرسراتے ہوئے نکلا۔
”دیکھتے جاؤ‘ ہوتا کیا ہے‘ کھیل شروع ہوگیا ہے۔“ کیشیو نے سرد مہری سے ہلکی آواز میں کہا۔ اور واپس انسپکٹر کے کمرے کی طرف بڑھا‘ تبھی کسی کانسٹیبل نے کہا۔
”ارے یہ مرجائے گا… اس کے خون بہت بہہ رہا ہے۔“
”وہ دوسرے کے بھی تو اتنا بڑازخم ہے۔“
”ہسپتال تو لے جانا پڑے گا۔ ورنہ یہ تو ہمارے گلے میں اٹک جائیں گے۔“
”وہ باہر ہیں۔“
”تو پھر جلدی بلاؤ یار۔“
وہاں پر اودھم مچ گیا‘ مہرہ اور جسپال تماشائیوں کی مانند انہیں دیکھتے رہے۔ جسپال کے ذہن میں آرہاتھا کہ اگر حملہ آور کہیں مرگیا تو سارا ثبوت اور وہ راستہ ختم ہوجائے گا جس سے وہ اپنے اس دشمن تک پہنچتے جس نے حملہ کروایا تھا۔ چند منٹ گزرے ہوں گے کہ انسپکٹر بھاگتا ہوا آگیا۔ حملہ آور فرش پرپڑا تھا۔ وہ ایک ہی نگاہ میں حالات کی نزاکت بھانپ گیا۔ ان دونوں کے خون بہہ رہاتھا۔ انسپکٹر دونوں ہی کو ہسپتال لیجانے پر مجبور تھا۔وہ چند لمحے سوچتا رہا پھر تیزی سے بولا۔
”فوراً… فوراً انہیں ہسپتال لے چلو۔“