Episode 17 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 17 - قلندر ذات - امجد جاوید

”وہ چوہدری حفیظ… ابھی کچھ دیر پہلے یہاں تھا۔ اس نے بتایا تو میں نے چھاپہ مارا‘ اور گاڑی مل گئی۔“ رندھاوے نے پورے اعتماد سے کہا۔ وہ اس وقت تک کافی حوصلہ پکڑ چکاتھا۔
”یہ تصدیق کیے بغیر کہ گاڑی اس نے چرائی ہے یانہیں‘ تم اُسے پکڑ کر یہاں تھانے میں لے آئے ہو‘ اور وہ بھی اس قدر ذلیل کرکے… کیوں…اس کا جواب دو…“ شاہ زیب نے غصے میں کہا۔
”سچ کیا ہے وہ بولو انسپکٹر… یہ بچوں جیسی باتیں مت کرو‘ ورنہ مجھے اور شاہ زیب کو یہاں دیکھ کر تمہیں سمجھ جاناچاہیے کہ یہ علاقہ تمہارے لیے عذاب بن جائے گا۔“ پیرزادہ وقاص نے سخت لہجے میں کہا تووہ چند لمحے خاموش رہاپھر الجھتے ہوئے بولا۔
”دیکھئے‘ ابھی آپ اسے لے جائیں۔ میں آپ کو بعدمیں بتادوں گا۔“
رندھاوے نے یہ لفظ بہت مشکل سے کہے تھے۔

(جاری ہے)

شاید اس کے اندر ہی اندر کچھ اور لاوا پک رہاتھا یا پھر وہ خجالت کے باعث بات نہیں کرپارہاتھا۔ کچھ ایسا تھا‘ جس کی وجہ سے وہ اذیت محسوس کررہاتھا‘میں نے اس کی اذیت میں اضافہ کرنے کی خاطر کہا۔
”دراصل‘ یہ جو ہمارا سسٹم ہے نا‘اس میں بے چارے پولیس والے بھی کیا کریں جاگیرداروں‘ وڈیروں ‘ سیاسی لیڈروں اور سرکاری افسروں کی حفاظت کرتے کرتے‘ ان میں غلامی کی عادت آچکی ہے۔
یہ طاقت کی زبان سمجھتے ہیں یا رشوت کی‘ انہیں صرف غریبوں پر تشدد اور مظلوموں پر ظلم کرنا آتا ہے… ورنہ یہ مجھے میرے گھر کے سامنے سے یوں ذلیل کرکے نہ لاتا‘پتا نہیں اس نے کس کی غلامی کی ہے‘ رندھاوے بول دے‘ کس کی غلامی کی ہے تونے…؟“ میرے لہجے میں طنز کی کاٹ کچھ زیادہ ہی آگئی تھی۔ میرا اُگلا ہوا زہر برداشت کرتے ہوئے اس نے تحمل سے کہا۔
”تیری طرح جوخواہ مخواہ اپنی جرات دکھاتے پھرتے ہیں نا‘جب ان کی چمڑی اُدھڑتی ہے تو پہچانے نہیں جاتے۔ ان دو معزز لوگوں کی وجہ سے میں تمہیں چھوڑ رہا ہوں۔ اب اپنی زبان کو لگام دے۔“ افضل رندھاوے اپنی مزید بے عزتی برداشت نہیں کرسکا‘ تبھی پیرزادہ وقاص بولا۔
”میرے سوال کا جواب نہیں دیا انسپکٹر‘ تم نہیں جانتے‘ تیری خاموشی سے علاقے میں کتنی بڑی الجھن پیدا ہوسکتی ہے۔
تم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔“اس کے یوں کہنے پر رندھاوے نے خود پر قابو پاتے ہوئے پیرزادہ وقاص کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”آپ مجھ پریقین کریں گے؟“
”کروں گا۔“ اس نے ایک دم سے کہا۔
”تو پھرسنیں…! مجھے میرے اعلیٰ آفیسر کا فون ملا۔ یہ جیپ جو اس کے گھر کے سامنے سے ملی ہے‘ یہ ملک سجاد کے بیٹے کی ہے۔ وہی ملک سجاد جو اس وقت وفاقی وزیر ہے۔
چوہدری حفیظ اس کا بھیجا ہوا بندہ تھا۔اب میں نہیں جانتا کہ کیا ہوا‘ کیا نہیں۔ میں نے افسر کا حکم مانا ہے۔ چند دن پہلے ڈکیتی میں یہ گاڑی چھینی گئی تھی ،جو میں نے برآمد کی ہے۔ درمیان کی کہانی کیا ہے‘ میں نہیں جانتا۔“ وہ تذبذب بھرے انداز میں بولتا چلا گیا تھا جس پر شاہ زیب بولا۔
”توپھر اپنے اس اعلیٰ افسر کو رپورٹ کرو اور اس سے پوری کہانی سمجھاؤ‘ کیونکہ اس گاڑی پر چھ مسلح افراد اس پرقاتلانہ حملہ کرنے آئے تھے اور دوسری بات… اپنے اعلیٰ افسر کو یہ سمجھا دو…جمال کو ہاتھ لگانے سے پہلے حویلی سے اجازت لینا ہوگی…“ یہ کہہ کر وہ اٹھ گیا۔
تبھی پیرزادہ وقاص بھی اٹھ گیا۔ ہم تینوں باہر صحن میں آگئے۔ میری حالت خاصی خراب تھی۔
”چلو‘ ہسپتال چلتے ہیں۔“ پیرزادہ نے کہا۔
”نہیں‘ میں گھر جاؤں گا۔ میں اپنی چوٹوں کا علاج خود کرلوں گا۔“ میں نے کہا تو شاہ زیب نے کار کا گیٹ کھول دیا۔ تبھی پیرزادہ بولا۔
”شاہ زیب… مجھ پر کسی قسم کا شک مت کرنا‘ میں منافقوں کی طرح سیاست نہیں کرتا۔
یہ ان لوگوں کا کام ہے جن کی ولدیت میں کچھ شک ہوتا ہے۔ میں میدان کابندہ ہوں۔ ہار جیت اپنی جگہ‘ زندگی رہی تو تیرے ساتھ مقابلہ کرتارہوں گا۔ مگر جمال کے بارے میں میری کوئی سازش نہیں ہے۔ یہ ذہن میں رکھنا۔“
”میں تم پر یقین کرتا ہوں وقاص‘ بس یہ جیپ والے معاملے میں تعاون کرو‘ ورنہ میں جمال کاشک دورنہیں کرپاؤں گا۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھادیا۔
پورے تھانے کے لوگ یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ اس وقت میرے بدن میں ٹیسیں اٹھ رہی تھیں اور میں جلد از جلد گھر پہنچ جانا چاہ رہا تھا۔ رات تیزی سے سر پرآرہی تھی اور میرا ذہن تیزی سے سوچ رہاتھا کہ اگر یہ دونوں نہیں ہیں تو پھر تیسرا کون ہے؟
                                        # # # #
وہ پھر وہیں پر آگئے ‘جہاں سے انوجیت نے اپنا گھر دکھایا تھا۔
گاڑی پکی سڑک سے اتر کر پختہ راستے پر چل پڑی‘ کچھ ہی فاصلے پر وہ سرخ اور سفید حویلی نما کوٹھی دکھائی دے رہی تھی‘ جسپال سنگھ کا دماغ ابھی تک گرم تھا۔ اسے پولیس چوکی میں آفیسر کی باتیں بہت بری لگی تھیں مگر، اس کے ساتھ ہی لاشعوری طور پر اس کے دماغ میں بہت سارے سوال جنم لینے لگے تھے۔ یہ ایک طرح سے اچھا ہی ہوا تھا کہ اسے اس نہج پر سوچنے کا موقع مل گیا کہ یہاں بھارت میں اس کی حیثیت کیا ہے؟ ہر سوال اپنی توجہ چاہ رہاتھا لیکن وہ وقت نہیں تھا کہ اس پر سوچ سکتا۔
وہ پوری توجہ سے اس پرغور کرنا چاہ رہاتھا۔ گھر بہت قریب آگیا تھا۔ جیسے ہی گاڑی گیٹ کے سامنے رکی چوکیدار نے گیٹ کھول دیا۔
”اوئے تونے ہارن تو دیانہیں اور…“ جسپال سنگھ نے یونہی کہا۔
”یار‘ اندر ہماراانتظار ہو رہا ہے اور جس راستے سے ہم آئے ہیں وہ چھت سے صاف دکھائی دیتا ہے۔“
”اوہ…تبھی کہوں…“ جسپال کے چہرے پر بشاشت اتر آئی تھی۔
کوٹھی کے اندر بڑا سالان تھا جس کے گرد ایک سیاہ سڑک بڑے سارے پورچ سے ہو کر دوسرے گیٹ تک چلی گئی تھی۔ انوجیت نے گاڑی پورچ میں روکی تو سیاہ داخلی دروازہ کھل گیا‘ جس کے درمیان کلجیت کور کھڑی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک بڑاسا تھال تھا۔ وہ گاڑی سے اتر کر ان کی جانب بڑھا‘ کلجیت کور نے کٹوری میں پڑا تیل دروازے کے دونوں جانب ڈالا‘ اس کی نذر اتاری اور پھر تھال قریب کھڑی لڑکی کو تھما کر جسپال کو گلے لگالیا۔
”آپُتر…!دَھن بھاگ ہمارے کہ تو نے اس گھر میں اپنا قدم رکھا۔“
پھر وہ راہداری کی جانب چل پڑے۔ ڈرائنگ روم میں کچھ لوگ موجود تھے۔ جن میں کچھ مرد اور زیادہ خواتین تھیں۔ وہ سب بڑی عمر کے تھے۔ اس نے سب کوہاتھ جوڑ کر فتح بلائی‘ جس کا سبھی نے جواب دیا۔ پھر اس نے مرد حضرات سے ہاتھ ملایا‘ خواتین سے پیار لیا‘ تبھی کلجیت کور نے کہا۔
”ادھر آپُتر… ادھر بیٹھ میرے پاس… “ ایک صوفے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وہ خود بھی بیٹھ گئی تھی۔ اس کے بیٹھتے ہی کلجیت کور نے کہا۔ ”یہ سب تیری آمد کا سن کربہت خوش ہوئے تھے۔ یہ سب تیرے باپو اور ماں کے ملنے والے ہیں۔ شاید اس ملاقات میں تو ان کے نام بھی یاد نہ رکھ سکے مگر یہ تیرے لیے یہاں پر ہیں۔ ہم سب تیری آمد پر بہت خوش ہیں۔ ایک خواب تھا جو پورا ہوتا ہوا لگتا ہے۔
”بہت شکریہ جی آپ سب کا۔ آپ سب میرے والدین کے ملنے والوں میں سے ہیں تو میرے لیے اتنے ہی محترم ہیں‘ جتنے میرے والدین۔ اس عزت افزائی پرمیں آپ کا احسان مانتا ہوں۔“ جسپال سنگھ نے پھر سے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔ تبھی ایک بزرگ سے شخص نے کہا۔
”اور دیکھ بھئی کاکا…! تونے وینکوورسے بھارت تک کا ایک طویل سفر کیا اور صبح امرتسر پہنچا پھر یہاں تک تونے ایک لمبا سفر کیا۔
تو ایسے کر فریش ہوجا‘ پھر کھانا کھا کر آرام کرنا۔ تو بھی یہاں اور ہم بھی یہاں‘ ملتے رہیں گے۔ باتیں ہوتی رہیں گی۔“
سبھی نے اس کی بات سے اتفاق کیا۔ انہی لمحات میں اندرکی جانب سے ایک لڑکی نمودار ہوئی۔ دراز قد‘ کومل سی، گلابی گورا رنگ‘ جس پر ہلکے کاسنی رنگ کے شلوار اور ہاف سلیو قمیص خوب جچ رہی تھی۔ کھلے گلے میں لمبا سا مہین آنچل دونوں جانب ڈھلکا ہوا تھا۔
سیاہ درازگیسواس کی کمر تک پھیلے ہوئے تھے۔ سفید نازک سا جوتا پہنے وہ بڑے انداز سے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی‘ ہاتھ میں ٹرے پکڑے چلتی چلی آرہی تھی۔ جسپال ایک لمحے کے لیے اسے دیکھ کر مبہوت ہو کر رہ گیا۔ کیا بھرپور حسن تھا۔ اگرچہ اس مہ جبیں کے نقوش تیکھے تھے مگر اس کے بدن کی طرح ہر خط اس طرح مناسب تھا کہ حسن خودبخود چھلک رہاتھا۔ پنجاب کا حسن‘ موٹی آنکھیں‘ جو کاجل کی مانند سیاہ بھنورا تھیں‘ بھاری پلکیں‘ تیکھی تلوار ناک‘ پتلے رسیلے ہونٹ اور دائیں گال میں ڈمپل‘ وہ اسے دیکھتا رہ گیا۔ اس نے ٹرے میز پررکھی تو جدید پرفیوم کی مہک نے ایک دم سے اسے فریش کردیا۔ وہ اسے اتنے قریب سے دیکھ کر نہال ہوگیاتھا۔

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط