”چلو جو بھی ہوگا وہ دیکھاجائے گا‘تم جاؤ اورناشتہ بھجواؤ‘ میں مزید تفصیل معلوم کرتاہوں۔ نمریتا اس کے پاس سے اٹھ کر چلی گئی۔ وہ کچھ دیر اس موجودہ صور تحال کے بارے میں سوچتا رہا کچھ سمجھ میں آیا کچھ نہ۔ جسپال نے اس وقت انوجیت کو فون کیا۔ وہاں سے بھی یہی معلومات ملیں جو نمرتیا اسے دے چکی تھی۔ وہ کچھ دیر گپ شپ کے بعد رابطہ منقطع کرچکے تو ناشتے کے لیے بلاوا آگیا۔
اس وقت نمریتا اسے اپنے بارے میں بتارہی تھی کہ وہ مقامی کالج میں پڑھنے کے بعد اب آزاد ہے‘ وہ اپنے چاچا کے ساتھ رہتی تھی‘ ساکا چوراسی ہی میں اس کے والدین بھی مارے گئے۔ وہ اس لیے بچ گئی کہ وہ ان دنوں گاؤں میں اپنے چاچا کے پاس ہی تھی۔ اس کے دو بھائی بھی اس ظلم کی نذر ہوگئے۔ بچپن ہی سے یہ غصہ اس کے اندر تھا‘ اس نے باقاعدہ تعلیم کی ساتھ فریڈیم موومنٹ کو جوائن کیااور اس کے لیے کام کرتی رہی‘ پھرایک بار پولیس کے ہتھے چڑھ گئی۔
(جاری ہے)
مگر کوئی جرم ثابت نہ ہوا۔تب سے وہ پوری طرح اپنی تنظیم کے ساتھ چل رہی ہے۔ بظاہر وہ ایک کمپنی میں جاب کررہی تھی۔ وہ باتوں میں مصروف تھے کہ کیشیو مہرہ کا فون آگیا۔ کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد اس نے کہا۔
”جسمیندر تم سے نیٹ پر رابطہ چاہتا ہے‘ یہ نمریتا سے کہو‘ تمہیں لیپ ٹاپ دے۔“
”اوکے…! میں کہتاہوں۔“
”پھر جو بھی صور تحال ہو‘ مجھے بتانا‘ میں جالندھر ہی میں ہوں اور تمہاری ضمانت کی کوشش نکودر میں ہو رہی ہے ورنہ پھر یہاں…“
”اوکے…!“ میں نے کہااور فون بند کردیا۔
میں نے نمریتا سے لیپ ٹاپ لانے کو کہاتو وہ اٹھ گئی۔ میرے دل میں اچانک تجسس بیدار ہوگیا۔ کیونکہ جسمیندر نے جو مجھ سے براہ راست بات کرنا چاہی تھی‘ لازمی طور پر وہ بہت اہم تھی۔ ورنہ جہاں وہ کیشیو کو یہ پیغام دے سکتاتھا وہاں دوسرا کوئی پیغام بھی دے سکتاتھا۔ مجھے بے چینی ہونے لگی تھی‘ اور یہ بے چینی اس وقت عروج پر تھی جب وہ لیپ ٹاپ لے کر آئی‘ اس نے نیٹ ساکٹ میں پلنگ لگادیا۔
”نمریتا…! تم ایسا کرو‘ اچھی سی چائے بنا کر لاؤ۔“
میرے یوں کہنے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ مجھے اکیلا چھوڑ دے۔ وہ سمجھ گئی۔ اور فوراً ہی واپس چلی گئی۔ کچھ دیر بعد میں آن لائن تھااور خوش ہوگیا جب جسمیندر کو بھی آن لائن دیکھا۔ اس سے باتیں ہونے لگیں۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا۔
”تم جانتے ہو کہ رویندر سنگھ کا ایک بیٹا چندی گڑھ میں ہے اور بزنس کرتا ہے۔
“
”ہاں میں جانتا ہوں۔“ یہ جواب دیتے ہی میرے بدن میں سنسنی پھیل گئی۔
”وہ سیکٹر سولہ میں رہتا ہے‘ لیکن اس کاآفس وہاں سے دور مال روڈ پر ہے۔“
”یہ مجھے نہیں معلوم۔“
”میں تمہیں معلومات دے رہاہوں۔ اسے ذہن نشین کرنے کے بعد صاف کردینا کمپیوٹر سے‘ تم وہاں جاؤ اور اس کاپتہ صاف کردو۔“
”واؤ…!“ میں نے خوش ہوتے ہوئے جواب دیا۔
”اس بار تمہیں بہت محتاط رہنا پڑے گا۔ جالندھراور اس کے گردونواح میں تمہاری تلاش بہت شدت سے شروع ہوگئی ہے۔ صرف پولیس والے ہی تلاش نہیں کررہے بلکہ خفیہ والے بھی ہیں۔ یہاں معاملہ کیشیو مہرہ سے اوپر کا ہوگیا ہے۔ وہ نہیں سنبھال پائے گا۔ میں اس لیے بھی تمہیں جالندھر سے نکال رہاہوں کہ وہ جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے تم تک پہنچ سکتے ہیں۔
اس لیے بات مکمل ہوتے ہی چندی گڑھ کے لیے نکل جاؤ‘ تم کدھر جارہے ہو‘ اس بارے میں نمریتا کوبھی معلوم نہ ہو۔“
”ٹھیک ہے۔“
”میں تمہیں ایک تصویر بھیج رہاہوں‘ یہ لڑکی تمہارے ساتھ ہوگی۔ یہ لڑکی تمہیں جالندھر اسٹیشن پر ملے گی یا پھر چندی گڑھ اسٹیشن پر‘ اس کا نمبر بھی میں بھیج رہا ہوں‘ میں پھرتمہیں کہہ رہاہوں کہ بہت محتاط رہنا۔
”معصوم سانپ“ کے ذاتی دوست تمہاری تلاش میں لگ چکے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ نہیں معلوم کہ وہ ڈیوٹی پر ہیں یا اپنے دوست کاانتقام لینے کے لئے بغیر ڈیوٹی کے ہیں۔ جالندھر سے نکلنا اب تمہاری اپنی صلاحیت پر ہوگا۔ کیونکہ ممکن ہے تم یہاں دھوکا کھاجاؤ‘ میرے بندوں کے چکر میں کہیں تم رویندر سنگھ کے بندوں کے ہاتھ ٹریپ نہ ہوجاؤ‘ کسی پر اعتماد کیے بغیر ابھی نکل جاؤ۔
“
تصویر تو بھیجو۔“
کچھ ہی دیر بعد تصویر آگئی۔ وہ خوابیدہ آنکھوں والی لڑکی یوں دکھائی دے رہی تھی جیسے ابھی سو کر اٹھی ہو۔ سفید‘ گلابی اورپیلے پھولوں والی قمیص پہنے‘ کھلے گیسوؤں کے ساتھ‘ اس کے چہرے کی معصومیت دیدنی تھی۔ لگ ہی نہیں رہاتھا کہ وہ کسی سنڈیکیٹ ‘ ریکٹ یا خفیہ تنظیم کے ساتھ کام کرتی ہوگی‘ اس کاچہرہ دیکھ کر تو یوں لگ رہاتھاجیسے وہ معصوم سی اسکول ٹیچر ہو‘ جو سوئی چبھنے پر بھی واویلا مچادے۔
اس کاچہرہ ایسا تھا کہ جسے ایک بار دیکھاجائے تو وہ تادیر ذہن نشین رہے۔ اس کامعصوم چہرہ دیکھ کر مجھے تازگی کااحساس ہواتھا۔چند لمحوں کے لیے تو میں بھول گیا کہ میں کہاں بیٹھا ہوں اور کن الجھنوں میں گھرا ہوا ہوں۔
”اوکے گڈ لک جسپال…! چندی گڑھ پہنچو۔ وہاں باتیں ہوں گی۔“
”ٹھیک ہے‘ میں ابھی نکلتاہوں۔“ میں نے جواب دیا تووہ آف لائن ہوگیا۔
اس نے جو مجھے ضروری معلومات بھیجی تھیں ‘ انہیں دیکھتے ہوئے مجھے تقریباً ایک گھنٹہ لگ گیا۔ جسمیندر نے یہ بڑے اہم وقت پر میری توجہ اس طرف دلائی تھی۔ وہ لوگ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ بلجیت سنگھ کامعاملہ حل ہوئے بغیر میں کوئی اور کارروائی کا سوچ سکوں گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ پہلی بار جسمیندر نے مجھے اس قدر محتاط رہنے کا کہاتھا۔ میں نے اس کی طرف سے دی گئی تمام معلومات ختم کردیں‘ میں نے چندی گڑھ نہیں دیکھاتھا‘ اور نہ ہی اس بارے میں اتنی معلومات تھیں۔
سنا تھاکہ وہ جدید شہر ہے‘ جسمیندر کی دی ہوئی معلومات میرے ذہن نشین ہوگئی تھیں۔ اس سے پہلے مجھے بھارتی ریلوے کاتجربہ نہیں تھا۔ اک نیا جہان میرے سامنے وا ہونے کو تھا۔ اس لیے میں اپنے بدن میں سنسنی محسوس کررہاتھا‘ مجھے اب نمریتا کی نگاہیں بچا کر نکلنا تھا۔ فی الحال تووہ چائے لینے گئی تھی۔ میں سوچ رہاتھا کہ یہاں سے کیسے نکلوں‘ انہی لمحات میں جبکہ میں وہاں سے نکلنے کے لیے سوچ رہاتھا۔
نمریتا حواس باختہ سی کمرے میں داخل ہوئی‘ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن پھولے ہوئے سانس کی وجہ سے کہہ نہیں پارہی تھی‘ اچانک ہی میرے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بج گئی۔
# # # #
تقریباً چند لمحوں تک نمریتا سے بولاہی نہیں گیا۔ پھر جب بولی تواُ کھڑے ہوئے سانسوں میں آدھے ادھورے لفظوں میں کہا۔
”جس…پال… جلدی نکلو… بھاری تعداد میں پولیس نیچے آچکی ہے۔
“
”ہم نکلیں گے کہاں سے؟“ جسپال سوچتے ہوئے اس سے پوچھا تو نمریتا نے انگلی سے اوپر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”اُوپر… اُ وپر،چھت پر سے…آؤ۔“
یہ کہہ کر وہ بھاگتے ہوئے تیزی سے واپس پلٹ گئی۔ جسپال اس کے پیچھے بھاگا‘ وہ آگے پیچھے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے چھت پر آگئے۔ وہ ساری چھتیں ایک دوسرے کے ساتھ منسلک تھیں۔ انہوں نے نیچے جھانکنے کی زحمت نہیں کی بلکہ عقب میں جو چھت تھی اس پر کود گئے۔
ایک کے بعد اگلی اور پھر اس سے اگلی چھت پر کودتے ہوئے وہ اپنی عمارت سے کافی دور نکل آئے۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ان کے لئے یہ تھا کہ وہ یہاں سے سڑک تک کیسے جائیں۔ تبھی جسپال نے ایک لمحے کو سوچا، پھر ادھر اُ دھر تاکا۔ وہ جس چھت پر تھے اس کی سیڑھیاں دکھائی دے رہی تھیں‘ تبھی جسپال نے کہا۔
”ہمیں اس طرح چھتیں کودتے ہوئے پولیس دیکھ سکتی ہے۔
“ اس کے ساتھ ہی اس نے نیچے اترتی سیڑھیوں کی جانب اشارہ کیا۔
”تمہارا کیا خیال ہے ‘گرو کانام لیں اور…“ باقی فقرہ نمریتا نے اشارے سے مکمل کردیا۔
”نکل“ جسپال نے کہا تووہ دونوں سیڑھیاں اترتے چلے گئے۔ دوسری منزل پہ کوئی نہیں تھا۔ اس لیے وہ اگلی سیڑھیاں بھی اتر گئے جو صحن میں کھلیں۔ وہاں سامنے ہی تخت پر ایک بوڑھی عورت بیٹھی ہوئی تھی ‘ اس کے قریب ایک جوان سی عورت کے پاس چھوٹا بچہ کھیل رہاتھا۔
ان دونوں کو اچانک یوں اپنے سامنے دیکھ کر جوان عورت کی چیخ نکل گئی۔جسپال نے وہاں کھڑے ہوکربحث کرنا فضول سمجھا۔ انہیں سمجھانا وقت ضائع کرنے کے مترادف تھا‘جبکہ ان کے لیے ایک ایک لمحہ قیمتی تھا۔ جسپال نے نمریتا کابازو پکڑا اور باہر کی جانب نکلتا چلاگیا۔ وہ عورت گھگھیانے والے انداز میں چور چور کاشور مچانے لگی تھی۔ ڈیوڑھی میں جسپال نے نمریتا کوسمجھایا۔
”ہم دونوں یہاں سے نکلتے ہی مخالف سمت میں ہوجائیں گے۔ بالکل نارمل انداز میں۔“
”اوکے …!“ اس نے کہاپھر چند لمحے بعد وہ ڈیوڑھی سے باہرنکل کر دروازہ پار کرگئے۔ ان کے سامنے ایک کھلا بازار تھا، جو کافی بڑا تھا اور اس پر خاصی ٹریفک رواں دواں تھی۔ وہی بازار کا مخصوص شور تھا۔ اس کی قریب سے سائیکل رکشہ اور موٹر رکشہ والے گزر رہے تھے مگر وہ تیزی سے سڑک کراس کر کیا۔
وہ سکون سے چلتے ہوئے اگلا موڑ مڑ گیا۔ وہاں سے بھی اس نے سڑک پار کی اور ایک جگہ کھڑے رکشوں میں سے ایک رکشہ منتخب کرکے اس کے پاس گیا۔
”ریلوے اسٹیشن چلو گے؟“
”جائیں گا بھائی۔“ اس نے کہا تو جسپال سوار ہوتے ہوئے بولا۔
”چل پھر…! جانا ذرا جلدی‘ بندہ کہیں گاڑی ہی نہ چڑھ جائے‘ اسے واپس لانا ہے۔“
”تیز چلنے کے ایکسٹرا پیسے ہوں گے‘ ابھی پہنچادیتاہوں۔“