”تانی۔! ہم دونوں میں بہت اچھا تعلق رہا ہے‘ تم نجانے کس محبت کی بات کررہی ہو۔“
”میں تم سے اپنی محبت کا جواب نہیں مانگ رہی‘ میں تو محض تمہیں بتارہی ہوں کہ تم میری پہلی اور شاید آخری محبت ہو۔ پہلے دن‘ جمال پہلے دن، جب میں نے تمہیں دیکھا تھا‘ میں گھائل ہوگئی‘ تم پہلی نگاہ ہی میں مجھے اچھے لگے تھے۔ میں نے دل ہی دل میں دعا کی تھی کہ تم یہیں رہ جاؤ‘ میں نے خود نہیں سوچا تھا کہ میں تمہارے اتنے نزدیک آجاؤں گی۔
پہلے دن جب تم نے نشانے کے لیے اپنے ساتھ لگایا تھا‘ تو مجھے خود کسی مرد کے لمس کااحساس ہواتھا۔ میں اس وقت سے منتظر تھی کہ تم میری جانب توجہ کرتے‘ مگر تم تو پاگلوں کی طرح سب کچھ سیکھ جانے میں مگن تھے۔ کچھ دنوں سے میں نے فیصلہ کرلیاتھا کہ تمہیں اپنی محبت کااحساس دلاؤں گی‘ کم از کم جتنے دن تم یہاں ہو‘اتنے دن…مگر شاید قدرت کو یہ منظور نہیں۔
(جاری ہے)
میں اسے کھودوں گی، جسے میں نے چاہا ہے۔پتہ نہیں ہم دوبارہ کبھی مل بھی پائیں گے یانہیں۔کیسی قسمت ہے میری…“ اس نے کہا‘ اور میری طرف غور سے دیکھنے لگی‘ اس کے گال‘ ناک کی پھنک اور ہونٹ سرخ ہو رہے تھے۔
”تم یہاں رہ کر بھی میرے ساتھ رابطے میں …“میں نے کہا تووہ تیزی سے بولی۔
”نہیں، جمال نہیں۔ساتھ، میں ساتھ چاہتی ہوں۔ نجانے کیوں مجھے یقین ہے جمال کہ ہم دوبارہ ضرور ملیں گے۔
“
”ٹھیک ہے تب ہم کوئی نہ کوئی فیصلہ کرلیں گے۔“ میں نے کہاتو وہ ایک دم کھل گئی۔
”سچ۔! یہ کہہ کر وہ مجھ سے لپٹ گئی۔ پھر اپنی گال میرے سر سے ہولے ہولے رگڑنے لگی۔ پھر الگ ہوتے ہوئے بولی۔”شاید وہی میری نئی زندگی ہو۔“
”شاید۔! “ میں نے کہا‘ پھر اس کاہاتھ پکڑ کربولا۔”آؤ‘ چلتے ہیں۔ جسپال کو میں بتا کر نہیں آیا تھا وہ میری راہ دیکھتا ہوگا۔
“
وہ میرے ساتھ یوں چل دی جیسے ٹرانس میں ہو‘ اور میں اس وقت تک نہیں سمجھ پایا تھا کہ وہ ایسا کیوں کررہی ہے۔ مجھے تو یہ سمجھ بھی نہیں آرہی تھی کہ میں یہ بات جسپال کو بتاؤں کہ نہیں ؟
رات گئے تک میں اسی الجھن میں رہا۔ مجھے تانی سے زیادہ اس بات کی فکر ہو رہی تھی کہ اب ہمیں یہاں سے بھیج دیا جائے گا۔ مجھے یوں لگ رہاتھا جیسے بہت جلدی میں ہمیں یہاں سے روانہ کیا جارہا ہے‘ اپنے آپ کو دریافت کرنے کا مزہ تو اب آنے لگا تھا۔
مجھے افسوس ہونے لگا تھا‘ میں اتنی جلدی یہاں سے جانا نہیں چاہتاتھا۔ میں یہ سوچ ہی رہاتھا کہ اچانک مجھے خیال آیا‘ یہ تو محض تانی کا خیال تھا‘ مہر صاحب نے تو مجھے نہیں کہا جب وہ کہیں گے تو دیکھا جائے گا۔ نجانے جذبات کی رو میں وہ کیا کچھ کہتی چلی گئی تھی۔ میں نے سب کچھ ذہن سے نکالااور پرسکون انداز میں سونے کے لیے لیٹ گیا۔
# # # #
آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔
سارا دن سورج دکھائی نہیں دیاتھا مگر بارش نہیں ہوئی تھی۔ سہ پہر کے بعد ہمیں کچھ دیر کے لیے آرام کرنے کی فراغت ملتی تھی‘ ہم اس وقت بستی کی طرف جارہے تھے کہ مہرخدابخش کے گوپے کے پاس بہت سارے لوگوں کا رش دیکھ کر ہم ٹھٹک گئے۔ پھر ہم تیزی سے اس طرف بڑھ گئے۔وہاں کچھ بھی نہیں تھا‘ مگر لوگ یوں گوپے کی طرف دیکھ رہے تھے جیسے وہاں کچھ دیکھنے کے منتظر تھے۔
تقریباً سبھی لوگ وہاں موجود تھے جو بستی میں یا ادھرادھر رہتے تھے۔ بستی کی طرف سے ابھی کچھ لوگ آبھی رہے تھے۔ تبھی گوپے کادروازہ کھلااور مہرخدابخش کے ساتھ وہی باباجی بھی نمودار ہوئے۔ انہوں نے آتے ہی مجھے یوں دیکھا جیسے وہ گوپے ہی سے مجھے دیکھ رہے تھے۔
مہرخدابخش نے مجھے آگے آنے کااشارہ کیا۔ میں آگے بڑھا‘ ان کی طرف جاتے ہوئے جب میں میدان کے درمیان میں گیا تو ایک جانب سے اچانک بچھڑا چھوڑ دیاگیا۔
میں لمحوں میں سمجھ گیا کہ میرے امتحان کا وقت آگیا ہے۔ جس وقت میں نے بچھڑے پر نگاہ جمائی ہوئی تھی‘ انہی لمحات میں تانی نے بلم نما چھری اپنے ہاتھ میں لہرائی اور میری جانب پھینک دی۔ میں اگر چھری پر توجہ دیتا تو بچھڑا مجھے ٹکرماردیتا‘ مگر یہ میری توہین تھی کہ چھری زمین پر گرجاتی‘ میں نے ہوا میں قلا بازی لگائی اور چھری کو پکڑ لیا‘ تب تک بچھڑا عین میرے نیچے تھا‘ میں نے پوری قوت سے وہ بلم نما چھری بچھڑے کے اوپری بدن پر گھونپ دی۔
پھر چھری کے سہارے ہی گھوم کر زمین پرآن کھڑا ہوا۔ بچھڑا درد کی شدت سے پاگل ہوگیا تھا‘ میں نے ایک جست لی اور اس کے سامنے آگیا‘ وہ ٹکرمارنے کے لیے لپکا تو میں نے اس کے سینگ پکڑ لیے۔ اس نے زور زور سے اپنا سر مارنا شروع کردیا‘ میں اس کے ساتھ لڑھکتا‘ کبھی ایک طرف چلاجاتااور کبھی دوسری طرف‘ وہ اچھلتا تو میں اس کے ساتھ اچھل جاتا‘ تقریباً تین منٹ تک یہی چلتا رہا‘ تبھی بچھڑے کا زور ٹوٹ گیا۔
میں نے اپنا دباؤ ایک طرف ڈال دیا۔ دو تین زور کے جھٹکے دیئے تو اس کے قدم اکھڑ گئے اور وہ زمین پر آگرا۔ میں نے اس کے سینگ چھوڑ کر چشم زدن میں چھری اس کے بدن سے نکالی‘ اس کا خون بہہ نکلا تھا‘ بچھڑا تڑپ کے اٹھنا چاہتا تھا کہ میں نے پاؤں کی ٹھوکر اس کی تھوتھنی پرماری‘ اس کے حواس مختل ہوگئے‘ تبھی میں نے ایک لات اس کے سرپررکھی اور تکبیر پڑھتے ہوئے اس کی گردن پر چھری پھیر دی۔
خون کافوارہ چھوٹ پڑا‘ بچھڑا تڑپ رہاتھا‘ وہ اٹھنا چاہتاتو میں اس کے ٹھوکر مار دیتا‘ یہ تیز چھری کا کمال تھا ورنہ شاید مجھے اسے ذبح کرنے میں کچھ مزید دشواری ہوتی‘کچھ دیر بعد وہ ساکت ہوگیا۔ جبکہ میں خون سے لت پت ہو گیا تھا ۔ تبھی چند لوگ وہاں آگئے‘ انہوں نے میرے ہاتھ سے چھری لیتے ہوئے کہا۔
”جاؤ، نہا کر باباجی کے پاس جاؤ۔“
میں نے سامنے کھڑے باباجی کودیکھا‘ انہوں نے ہاتھ کااشارہ کیا‘ جس کامطلب تھا کہ وہ خوش ہوگئے‘ میں تیزی سے پلٹااور بستی کی جانب چل دیا۔
کچھ دیر پہلے جو کچھ میں نے کیا تھا‘ مجھے خود اس کی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ ایسا سب کچھ ہوکیسے گیا۔ شاید میرے اندر بچھڑے کو ذبح کرنے کی خواہش شدت پکڑ گئی تھی لیکن نری خواہش سے کیا ہوتا ہے۔بچھڑے اور میری قوت میں بہت فرق تھا۔ شاید میں نے لاشعوری طور پر اسی تکنیک پر سوچا ہوگا‘ مگر نہیں‘ لمحوں میں فیصلے اور ان پرعمل کرنا یونہی نہیں تھا۔
میرے اندر کچھ ایسا بھر گیاتھا جس کی مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی۔ بلاشبہ میں اسی وجہ سے حیران تھا۔ مجھے احساس ہو گیاتھا کہ جب میں یہاں آیا تھا تو اندر سے خالی تھا۔
میں واپس گوپے کے پاس پہنچا تو وہاں سامنے میدان میں کوئی بھی نہیں تھا۔ میں گوپے کے اندر چلاگیا۔ جسپال پہلے ہی سے وہاں موجود تھا۔ میں نہیں جانتا ان کے درمیان کیا باتیں ہوئی ہوں گی۔
میرے جاتے ہی ایک لمحہ کے لیے خاموشی چھاگئی۔ باباجی نے میری طرف نگاہوں سے دیکھا‘ پھر کوئی بات کیے بغیر کھڑے ہوگئے۔ انہو ں نے مجھے اپنے گلے لگایا‘ مجھے تھپکی دی اور کہا۔
”یہ دنیا جنگل تو نہیں ہے پتر‘ مگر کچھ جانور نما انسانوں نے اسے جنگل بنا دیا ہے۔ ان جانوروں کا بھی تو کوئی سدباب کرنا ہے نا۔ کوشش کرو…“یہ کہہ کر چند لمحے میری طرف دیکھا اور باہر کی جانب چل پڑے۔
میں ان کی یہ ادا نہیں سمجھ سکا۔ میں ان کے پیچھے لپکا اور گوپے سے باہر آگیا۔ وہ تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے میدان میں پہنچ گئے تھے اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ صحرا میں اوجھل ہوگئے۔ میں واپس پیڑھے پر آکربیٹھ گیا۔ نجانے میں کیوں یہ چاہ رہاتھا کہ باباجی میرے پاس کچھ دیر مزید ٹھہرتے اور باتیں کرتے۔
”یہ اچانک آتے ہیں اور اسی طرح چلے جاتے ہیں۔
“ مہرخدابخش نے کہا تو میں چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوگیا۔ ”اب میری بات ذرا دھیان سے سنو۔“یہ کہتے ہوئے وہ چند لمحے میری جانب دیکھتا رہا پھر بولا۔ ”آج رات تم دونوں یہاں سے جارہے ہو‘ یہاں سے جانے کے بعد تم نے بھول جانا ہے کہ کبھی یہاں آئے تھے۔“
”ایسا کیوں مہر صاحب؟“ میں نے الجھتے ہوئے پوچھا۔ وہ چند لمحے سوچتا رہا پھر بولا۔
”ہم دنیا میں ہر اس جگہ پر ہیں جہاں ہماری ضرورت ہے‘ میں اس کاایک حصہ ہوں۔
لیکن تم دونوں کے بارے میں ایک عجیب بات یہ ہے کہ تمہاری آمد سے تقریباً دو ماہ قبل باباجی اچانک یہاں آئے‘ انہوں نے مجھے بتایا کہ دو مخالف سمتوں سے دو لوگ یہاں آئیں گے‘ انہیں سنبھال لینا‘ اس سے زیادہ انہوں نے بات نہیں کی تھی۔ پھرتم لوگ آگئے ‘ یہ بات میں نے تمہیں پہلے بھی بتائی تھی لیکن یہ بات اب تم سمجھ سکتے ہو۔“
”مہر صاحب‘ ایک منٹ!“ میں نے کہا تووہ میری طرف دیکھنے لگا۔
تب میں نے کہا۔ ”آپ لوگ اور باباجی دونوں ایک …“
”نہیں۔! شاید تم بھول رہے ہو‘ میں بابا جی کانام تک نہیں جانتا‘ میں یہاں پر‘ یہ سیٹ اپ بنانے کے لیے آیا تھا‘کیونکہ یہ میرا علاقہ تھا اور میری بودوباش یہیں کی ہے۔یہ میری ڈیوٹی ہے اور میں یہ ڈیوٹی دے رہا ہوں۔ جب میں یہاں آیا تو انہی دنوں میری ان سے ملاقات ہوئی۔ میں سمجھتا ہوں‘ انہوں نے روحانی طور پر میری بہت مدد کی ہے‘ سمجھ لو‘ مجھے اب یہ سمجھ لگ گئی ہے کہ کس ریچھ کو کہاں سے پکڑنا ہے‘ کس کتے کو کیا اشارہ کرنا ہے اور کس بندر کو کیسے نچانا ہے‘ یہ چیزیں مجھے وہ نہیں سکھا سکے جن کے لیے میں نے ساری جوانی تیاگ دی۔
“
” وہ لوگ کون؟“ میں نے تیزی سے پوچھا۔
”یہ راز ہے‘ مجھے کچھ نہیں معلوم کہ کون کس جگہ پر کیا کررہا ہے‘ لیکن سبھی انسانیت کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وقت کے ساتھ تمہیں بھی معلوم ہوتا چلاجائے گا۔ یہ ذہن میں رکھو‘ تم ہمارے نیٹ ورک کا حصہ نہیں ہو‘ ممکن ہے کبھی ہوجاؤ‘ میں نے تمہیں یہاں پر فقط باباجی کی وجہ سے رکھا ہے‘ اب تم نے جانا ہے، لیکن اپنے گھر نہیں، جسپال کے ساتھ اس کے گاؤں۔
“
”میں،اوگی جاؤں گا؟“ میں نے چونکتے ہوئے پوچھا تو جسپال بھی میری طرح چونک گیا۔
”یہ جمال کاامتحان ہے‘ اوراس کے بعد جسپال تمہارا امتحان ہوگا۔ شام ڈھلنے والی ہے‘ کھانا کھا ؤ اور جانے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ تم لوگوں نے آج رات ہی سرحد پار کرنی ہے، اب جاؤ تیاری کرو۔“ اس نے اٹھتے ہوئے کہا تو ہم بھی اٹھ گئے۔
ذہن میں ایک دم سے نجانے کتنے سوال گونج اٹھے تھے۔ میں جب وہاں سے نکلا تو مجھے یوں لگاجیسے میں کوئی دنیا تسخیر کرنے وہاں سے نکلا ہوں۔
(بقیہ واقعات حصہ دوم میں ملاحظہ فرمائیں)