میں اپنی گلی میں پہنچا تو مجھے دور ہی سے اپنا گھر جلنے کے آثار دکھائی دے گئے۔ میرے دل میں بھڑکتی ہوئی آگ کادھواں میرے دماغ کو بوجھل بنارہاتھا۔ میرا دوران خون تیز ہونے لگا تھا اور میرا غصہ میرے دماغ میں ٹھوکریں مارنے لگا۔ میں جوں جوں اپنے قدم گھر کی جانب بڑھا رہاتھا‘میری حالت غیر ہوتی جارہی تھی۔ پیرزادہ وقاص مجھے گاؤں کے قریب اتار کرچلا گیا تھا۔
جس وقت میں جیپ سے اتررہاتھا۔اس وقت اس نے ایک پسٹل میری جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔
”جمال…! اگرتم میرے پاس آنا چاہو تو پھر دیرمت کرنا‘جو کہوگے وہی کرلیں گے۔ میرامشورہ یہی ہے کہ گاؤں میں زیادہ دیر نہ رہنا۔“
میں نے اسے کوئی جواب نہیں دیاتھااور چپ چاپ اپنے گھر کی جانب چل پڑاتھا۔ میں اپنے گھر کے گیٹ پر رکا‘ جلے ہوئے گھر کو دیکھ رہاتھا‘ میرا دل کٹ کررہ گیا۔
(جاری ہے)
میں صحن میں گیا تو ہر کمرہ ہی نہیں دیواریں بھی سیاہ ہوچکی تھیں۔ چھت والا کمرہ ٹوٹ کرگرچکاتھا‘ ایک ہی نگاہ میں اندازہ ہوگیا تھا کہ اب وہاں کچھ بھی نہیں بچا ہے‘سب کچھ خاکستر ہوگیا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ اگر میں زیادہ دیر وہاں رہا تو میرا دماغ خراب ہوجائے گا‘ جس گھر میں‘میں نے شعور کی آنکھ کھولی‘ جو صحن میرے بچپن اور جوانی کا گواہ تھا‘ وہاں اب کچھ نہیں بچاتھا۔
اگرچہ میرا دل رو رہا تھا‘ لیکن میری آنکھوں میں نمی نہیں اتری تھی۔ شاید میرے اندر آگ ہی اس قدر زیادہ تھی۔
میں پلٹ کر گھر سے باہر آگیا۔ اب میرے لیے دنیا بھر کے کاموں سے زیادہ یہی اہم ترین کام تھا کہ میری ماں کہاں ہے؟ میری آمد کے بارے میں شاید معلوم ہوگیاتھا‘ اس لیے گلی کے لوگ باہر نکلناشروع ہوگئے تھے۔ سبھی مجھے یہ بتانا چاہ رہے تھے کہ انہوں نے آگ لگتے ہوئے دیکھا‘بندے شاہ زیب کے پروردہ تھے۔
لیکن کسی کے پاس اس سوال کاجواب نہیں تھا کہ میری ماں کدھر ہے؟میں کچھ دیر ان کے پاس رہا‘ پھر چوک کی طرف چل پڑا۔
شاید میر آمد کی اطلاع جنگل کی آگ کی طرح پورے گاؤں میں پھیل چکی تھی‘ اس لیے جیسے ہی میں چوک میں برگد کے درخت تلے پہنچا ‘وہاں کئی نوجوان اوربزرگ جمع ہوگئے تھے۔ بھیدہ مجھے دور سے آتا ہوا دکھائی دیا۔ وہ تیز تیز آرہا تھا۔
اس نے دور ہی سے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا۔
بلاشبہ وہ اکیلے میں بات کرنا چاہ رہاتھا۔ میں ان سب لوگوں سے نکل کر بھیدے کے پاس چلا گیا۔
”چلو آ…گھر چل کربات کرتے ہیں؟“
”نہیں ! گھر نہیں جانا‘ تو صرف یہ بتا کہ اماں کے…“
”وہی تو کہہ رہا ہوں‘ سکون سے بتاتاہوں۔ چل آ…!“ بھیدے نے کہا تو میں اس کے ساتھ چل پڑا۔ لیکن چند قدم چلنے کے بعد کہا۔
”نہیں بھیدے…میں نہیں چاہتا کہ تو بھی دشمنوں کے ظلم کاشکار ہوجائے ‘تونے مجھے جو بتاناہے یہاں بتادے ‘یا پھر ڈیرے پر چل‘ میں وہیں آتاہوں۔“
وہ چند لمحے میری طرف دیکھتا رہا‘ پھر بولا۔
”چھاکا مجھے بتا کر گیا ہے۔ وہ اماں کے ساتھ سوہنی کو لے کر قصبے میں چلاگیا ہے۔ وہ وہیں ہے، لیکن چھپا ہوا ہے‘ کہہ رہاتھا کہ جب تک تُو پولیس کے چنگل سے نکل نہیں آتا‘ تب تک وہ وہیں رہے گا‘ قصبے میں‘ وہ کہاں ہیں‘ یہ مجھے نہیں معلوم۔
“
”ٹھیک ہے تو جا‘ ڈیرے کا خیال رکھنا۔ میری اگر قسمت میں ہوا تو دوبارہ آن ملوں گا۔“ میں نے کہااور واپس درخت تلے آبیٹھا۔
میں درخت کے تلے صرف اس لیے جاکربیٹھا تھا کہ جہاں گاؤں والوں کومعلوم ہوجائے کہ میں واپس آگیا ہوں‘ وہاں شاہ زیب تک بھی اطلاع پہنچ جائے۔ تیسرا یہ‘ مجھے یہ خودبخود معلوم ہوجانا تھا کہ میرے ٹولے کے لڑکے گاؤں میں ہیں یا کہیں چھپ چھپا گئے ہیں۔
ظاہر ہے اگر کوئی گاؤں میں ہوتا تو ضرور سامنے آجاتا کسی سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وہاں مجھے کوئی بھی نظر نہیں آیا‘ میں کچھ دیر وہاں بیٹھ کر اٹھ گیا۔ میر ارخ اب قصبے کی طرف تھا۔
اس وقت سہ پہر کے بعد سورج مغرب کی طرف ڈھل رہاتھا۔میں پیدل چلتاہوا سڑک پر آگیا۔ وہاں چند دُکانیں تھیں اور ذرا سا آگے جاکر حویلی کی طرف جانے والا راستہ تھا‘ میں ایک دکان کی طرف بڑھا‘ جہاں سے چائے وغیرہ کے ساتھ کھانے پینے کو مل جاتاتھا۔
میں جاکر وہاں بیٹھ گیااور دکان دار کو اچھی سی چائے بنانے کو کہا۔ میر امقصد وہاں چائے پینا نہیں تھا‘بلکہ کسی ایسے بندے کی تاڑ میں تھا جس کاتعلق کسی نہ کسی طرح حویلی سے ہو۔ دراصل اس وقت میں سخت الجھن میں تھا۔ایک طرف دماغ یہ کہہ رہاتھا کہ سب سے پہلے اپنی اماں کوتلاش کروں پھراطمینان کے بعد شاہ زیب سے دو دو ہاتھ کرنا ہوں گے لیکن دوسری طرف میرے اندر کا جانور مطمئن نہیں ہو رہاتھا‘ وہ چاہتاتھا کہ شاہ زیب کو اس کا سبق سکھا کر ہی جاؤں‘ میں دراصل وہاں فیصلہ کرنے کے لیے بیٹھا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔
مگرمیں فیصلہ نہیں کرپارہاتھا۔
میری نگاہوں میں ان تینوں کے چہرے گھوم رہے تھے اور میری تمام تر توجہ ان کی طرف تھی۔ اماں اور سوہنی کا تو معاملہ ایک طرف رہا‘ میں اپنے جگری دوست چھاکے کے گھر جانے کی ہمت نہیں کرسکا۔وہاں تھا بھی کون؟ اس کا ایک اکیلا باپ ،اگر وہ مجھ سے یہ سوال کردیتا کہ وہ میری وجہ سے غائب کیوں ہے تو میں اسے کیاجواب دیتا۔
اگر انہی لمحات میں مجھے یہ معلوم ہوجاتا کہ وہ تینوں کہاں ہیں اور خیریت سے ہیں تو میں پوری توجہ سے شاہ زیب کو ختم کرنے کے بارے میں سوچتا۔ مگر مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہاتھا۔ میں انہی سوچوں میں الجھا ہواتھا کہ میرے سامنے چائے آگئی۔ میں دھیرے دھیرے سپ لے رہاتھا اور سوچتا چلاجارہاتھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ بھیدے نے اگرچہ مجھے اشارہ دے دیاتھا لیکن اسے بھی پوری امید نہیں تھی کہ وہ قصبے میں کہیں ہوں گے بھی یانہیں۔
مجھے بہرحال انہیں تلاش کرنے جاناتھا۔ اگر میں انہیں تلاش کربھی لیتاہوں تو پھر انہیں کہاں رکھوں گا‘ یہاں گاؤں میں‘ جہاں وہ ہر وقت غیرمحفوظ ہوں گے؟ یاپھرمجھے سوہنی کی بات مانناپڑے گی‘ اوراس کے پاس اماں کورکھنا ہوگا؟ کیا وہ ملک سجاد اور شاہ زیب کا مقابلہ کرپائے گی؟ کیا وہ وہاں پرمحفوظ ہوگی؟میں خیالوں کی راہ پر بہت دور تک سوچتا چلاگیاتھا۔
میں یہی سوچتا رہا‘ اور میری چائے ختم ہوگئی۔ اسی دوران میں نے سڑک پر دیکھا‘ دلبر کا دوست جانی شوکر بائیک پر بیٹھا آہستہ آہستہ آرہاتھا۔ بلاشبہ وہ مجھے تلاش کررہاتھا کیونکہ اس کی جیسے ہی مجھ پر نگاہ پڑی‘ وہ چونک گیااور میری طرف بڑھ آیا۔ چند لمحوں بعد میرے پاس بیٹھتے ہوئے اس نے کہا۔
”بڑا زور دار حملہ تھایار، شاہ زیب کے بندوں کا‘ ہمیں تو بعد میں پتہ چلا…“
”توپتہ کرسکتا ہے کہ اس وقت شاہ زیب کہاں ہے؟“ میں نے سرد سے لہجے میں پوچھا تووہ فوراً بولا۔
”وہ کل رات سے یہاں پر نہیں ہے۔ سنا ہے شہر گیا ہوا ہے‘ ہوسکتا ہے شام تک واپس آجائے۔“
”یہ پکی خبر ہے؟“ میں نے پوچھا۔
”ہاں یہ پکی خبر ہے۔“ اس نے تصدیق کی۔
”چلوپھر تو ایسے کر‘ مجھے اپنا بائیک دے‘ میں رات کسی بھی وقت تیرے پاس آؤں گا‘ تو ادھر میرے ڈیرے پر رہنا‘ اور یہ خبر ضرور لینا کہ شاہ زیب واپس آگیا ہے یانہیں۔“
”ٹھیک ہے۔“ اس نے بائیک کی چابی مجھے تھماتے ہوئے کہاتو ایک دم سے مجھے خیال آیا۔
”نہیں…! تو اپنے گھر ہی رہنا‘میں تمہیں تلاش کرلوں گا۔ پھرتو شاہ زیب کی پکی خبر رکھنا۔“ میں نے کہااور اٹھ گیا۔