Episode 29 - Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 29 - قلندر ذات - امجد جاوید

حسب معمول صبح ہوتے ہی میں نے اپنی بائیک نکالی اور ڈیرے کی طرف چل پڑا۔ سوہنی رات ہی کسی وقت چلی گئی تھی جس کامجھے قطعاً افسو س نہیں تھا۔ ماں نے بتایا تھا کہ قریبی قصبے سے اس نے کوئی گاڑی منگوائی تھی اور پھر اس میں چلی گئی۔ وہ خود گئی تھی، اچھو کریانے والے کی دکان پر فون کرنے۔وہ چلی گئی تو دماغ پر سے ایک بوجھ اتر گیا لیکن کئی سوال چھوڑ گئی۔
اب اگر مجھے انتظار تھا تو فقط ملک سجاد کا‘ چاہے غلط فہمی ہی میں سہی‘ اس نے دشمنی توپال لی تھی۔ میں بڑھ کر وار نہیں کرناچاہتا تھا۔ ہاں اگر اس نے کچھ کہاتو اسے سبق سکھانا بنتاتھا۔ میں اس کے لیے پریشان نہیں تھا۔ میں اصل میں سازش بے نقاب کرنے کے لیے کچھ دیر خاموش رہاتھا۔ میں ڈیرے کے قریب پہنچا تو سورج کی نکلتی ہوئی کرنوں میں ایک سیاہ رنگ کی کار کو دیکھا‘ جو گیٹ کے باہر کھڑی تھی۔

(جاری ہے)

میں ایک دم سے چونک گیا۔
 پہلا خیال جومیرے ذہن میں آیا وہ یہی تھا کہ بھیدہ خیریت سے ہو‘میں نے کار ہی کے قریب بائیک روکی اور اپنا پسٹل نکال لیا۔ میں نے کار کو غور سے دیکھا‘ اس میں کوئی نہیں تھا۔میں نے فوراً ہی گیٹ کھولا تو وہ کھلتا چلا گیا۔ اندر سناٹا تھا‘ لیکن سب کچھ معمول کے مطابق لگ رہاتھا۔ مویشی بڑے سکون سے تھے۔ تبھی بھیدہ ٹوکری میں چارہ لیے نمودار ہواتومیری سانس میں سانس آئی۔
میں نے اشارے سے پوچھا کہ سب خیریت ہے تو اس نے سرہلاتے ہوئے اندر کی جانب اشارہ کیااور بولا۔
”ایک بندہ تمہارا اندربیٹھاانتظار کررہا ہے۔“
”کون ہے۔“ میں نے پوچھااوراندر کمرے کی سمت بڑھا۔
”میں نہیں جانتا۔“ اس نے کہا اور چارہ مویشیوں کے آگے پھینک دیا۔ میں اندر گیا۔ تو سادہ لباس میں بیٹھے ہوئے افضل رندھاوے کو دیکھ کر چونک گیا۔
اس وقت وہ اپنی عمر سے کہیں زیادہ دکھائی دے رہاتھا۔ مجھے دیکھتے ہی اٹھ گیا۔ میں نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اس نے مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
”جمال…! میں اس وقت تیرے ڈیرے پر ایک دوست کی حیثیت سے آیا ہوں۔ میری باتیں سن لینا‘ پھر فیصلہ تو بہرحال تم نے ہی کرنا ہے۔“
”آپ بیٹھیں‘ اور جی بھر کے باتیں کریں… اگر آپ دوست بن کرآئے ہیں تو مجھے بھی اپنا دوست ہی پائیں گے…“میں نے سامنے پڑی چارپائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا‘ جہاں وہ پہلے بیٹھا ہواتھااور خود دوسری چارپائی پربیٹھ گیا۔
وہ چند لمحے خاموش رہا‘ پھر سوچتے ہوئے لہجے میں بولا۔
”دیکھو‘ میں جو بھی ہوں لیکن آخر کار ایک سرکاری ملازم ہوں۔ میری حدود ہیں جن میں رہ کر میں اپنا کام کرتاہوں اس کے ساتھ ساتھ میں‘ اپنے افسروں کے حکم کابھی پابند ہوں۔ میں اعتراف کرتاہوں کہ میں نے تمہارے ساتھ زیادتی کی‘ اور یہ زیادتی سراسر غلط فہمی کی بنیاد پر تھی۔ مجھے حکم دیا گیا تھا اور اس کے ساتھ جومعلومات دی گئی تھیں‘ اس میں تمہیں ایک ایسا جرائم پیشہ شخص بتایا گیاتھا جس کا پورایک گروہ ہے‘ خیر… جو کچھ ہوا تمہارے ساتھ وہ اچھا نہیں ہوا‘ میں اس پر معذرت خواہ ہوں۔
”مجھے نہیں معلوم کہ رندھاوا صاحب کہ آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں‘ لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ آپ اتنا سب کچھ کرنے کے بعد‘ جبکہ نوکری کرنے ‘افسروں کاحکم ماننے کی مجبوری کے ساتھ معذرت کرنے کیوں چلے آئے۔ آپ نے تو اپنی نوکری کی‘ پھریہ شرمندگی کیوں؟“
”نہیں‘مجھ سے غلطی ہوئی‘ مجھے بھی اپنی پیشہ وارانہ دیانت داری نبھانا چاہیے تھی‘میں یہ نہیں کہتا کہ تم میری بات کایقین کرو‘ میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ تم میری معذرت قبول کرو‘ کیونکہ تم مجھے شک کی نگاہ ہی سے دیکھوگے۔
ایسا کبھی ہوا نہیں ہے کہ کوئی میرے ڈیپارٹمنٹ کا بندہ یوں معذرت کرنے آجائے‘ یہاں تک کہ اُسے کوئی مجبوری نہ ہو؟“
”چلیں‘ میں آپ پر شک نہیں کرتا‘ معذرت بھی مان لی‘ اب…؟“
 میں نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا تووہ دھیرے سے مسکراتے ہوئے بولا۔
”جمال …! تم کیا سمجھتے ہو کہ دنیا اتنی ہی سادہ ہے‘ جتنی تم سمجھتے ہو یاپھر جتنے تم سادہ ہو؟“
”میں سمجھا نہیں؟“ میں نے اس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”جودلیر آدمی ہوتا ہے وہ ہمیشہ سچ پر کھڑا ہوتا ہے‘ چاہے وقتی طور پر اسے ہزیمت اٹھانی پڑے۔ اس دنیا کا اصل مسئلہ منافقت ہے‘منافق‘ آدمی ہی ہوتا ہے‘ کبھی تم نے کسی جانور میں منافقت نہیں دیکھی ہوگی۔ منافق انسان ہوتے ہوئے بھی حیوانوں سے بدتر ہوتا ہے۔ بظاہر منافق وقتی فتح حاصل کرلیتا ہے لیکن دراصل وہ پہلے خود ہارتا ہے‘ پھر ساری زندگی اپنی آگ میں چلتا رہتا ہے۔
کیونکہ حسد کی آگ ہی منافقت کی طرف لے کر جاتی ہے۔ خیر…؛ کہنا میں یہ چاہ رہا ہوں کہ وہ معاشرہ پر امن ہوتا ہے جہاں منافقت نہیں ہوتی۔“وہ گھمبیر لہجے میں کہتا چلا گیا۔
”میں اب بھی نہیں سمجھا کہ آپ کہنا کیا چاہ رہے ہو؟“ اس دفع میں نے زچ ہوتے ہوئے پوچھا۔
”وہی بتارہاہوں‘ دلیر اور سچا آدمی ہمیشہ منافقوں سے مار کھاتا ہے۔ اگرچہ منافقوں کی یہ وقتی فتح ہوتی ہے ‘ کہنا میں یہ چاہ رہا ہوں کہ اپنے اردگرد منافقوں سے بچو‘ کیونکہ ہمیشہ منافق ہی اعتماد حاصل کرکے اپنا وار کرتا ہے۔
“ اس نے پہلے سے بھی سنجیدہ لہجے میں کہاتومیں نے محسوس کیا کہ جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن کہہ نہیں پارہا ہے ۔ اس لیے میں نے اپنے لہجے کو نرم بناتے ہوئے پوچھا۔
”رندھاوا صاحب‘ دراصل میں یہ سمجھنا چاہ رہا ہوں کہ آپ مجھ سے کہنا کیا چاہتے ہیں۔ آپ صاف لفظوں میں کہیں‘ یقین رکھیں ‘یہ آپ کے اور میرے درمیان ہی رہے گی۔“
”توپھر سنو…! یہ پیرزادوں کو اور شاہ فیملی کو اچانک ہی تم میں اتنی دلچسپی کیوں پیدا ہوگئی ہے؟“ اس نے میری جانب سوالیہ انداز سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
تومیں نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”میں نہیں جانتا۔“
”مگرمیں جانتاہوں۔“ اس نے ڈرامائی انداز میں کہا۔پھرمیرے کچھ کہنے سے پہلے یہی بولا۔ ”اس پورے علاقے میں تیرے جیسا ‘بہادر‘ نڈر اور فنکار قسم کا کوئی دوسرا بندہ نہیں ہے۔ دونوں خاندان بظاہر ایک دوسرے کے دشمن اور حریف دکھائی دیتے ہیں لیکن اندر سے یہ دونوں ایک ہی ہیں۔
ان کی ساری پلاننگ دو باتوں پر ہوتی ہے‘ ایک تو یہ کہ عوام کوآپس میں لڑاتے رہیں تاکہ ان کی حکمرانی قائم رہے‘ دوسرا عوام میں سے اٹھنے والے تیرے جیسے بندے یا کوئی بھی طاقت ورگروہ کو وہ اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ نہ قابو میں آئیں تو انہیں ختم کردیتے ہیں اور یہ سارا عمل منافقت کا ہے۔ کیا تم اور میں نہیں جانتے کہ ان کے ڈیروں پر کیسے کیسے اشتہاری پڑے ہوتے ہیں۔
انہیں کیوں رکھا ہوا ہے۔حالانکہ وہ معاشرے کے ‘عوام کے اور قانون کے مجرم ہیں۔ میرے ہاتھ بندھے ہیں کہ میں ان پر ہاتھ ڈالنے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی ہاتھ نہیں ڈال سکتا کہ سیاسی دباؤ اور گروپ بندیوں نے میرے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں اور تم جیسے لوگ شعور نہیں رکھتے‘ بس لاشعوری طور پر ان کی انگلیوں پرناچتے چلے جاتے ہیں۔“ وہ بے حد جذباتی ہوگیا تھا۔
”آپ ٹھیک کہتے ہیں رندھاوا جی‘ لیکن جب قانون کچھ نہیں کرسکتا تو ہم کیا کریں‘ آپ لوگ کس لیے ہیں؟ ہم اگر ہتھیار اٹھاتے ہیں تو مجرم بن جاتے ہیں ایک اور اشتہاری پیدا ہوجاتا ہے۔“
”یہی تو ‘یہی تو میں سمجھانے کی کوشش کررہاہوں جمال کہ اس سسٹم میں سوائے اشتہاری پیدا ہونے کے کیاہوتا ہے۔ کیونکہ جہاں انہیں یہ پیدا کرتے ہیں‘ وہاں انہی کی حفاظتی دیوار بنا کر خود کو محفوظ کرلیتے ہیں۔
کیا یہ ایک دوسرے کے بارے میں نہیں جانتے کہ یہ کتنے بڑے جرائم پیشہ ہے لیکن سیاسی میدان میں نوراکشتی کرتے ہیں۔ خیر…!میں تمہیں یہ بات اس لیے سمجھانے آیاہوں کہ مجھے یہ پتاچلا ہے کہ شاہ دین تجھے اپنے پتر شاہ زیب کا باڈی گارڈ رکھنا چاہتا ہے اور پیرزادہ ایسا نہیں چاہتا‘ وہ تم سے لڑے گا نہیں بلکہ تم پر مزید احسان کرنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن خدا کے لیے تم اپنی طاقت بچا کررکھنا۔
“ اس بار اس کے لہجے میں درد تھا۔
”میں سمجھ گیا ہوں‘آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہوگا۔“ میں نے اسے یقین دلایاتھا اسی لمحے میرے ذہن میں ایک خیال رینگ گیا۔ میں نے شدت سے یہ خواہش کی کہ کاش رندھاوا اپنے طورپر یہ خواہش مجھ سے کہہ دے۔
”اگر تم سمجھ ہی گئے ہو تو یاد رکھو‘ وقت تمہارا ہوگا۔ میرے لائق اگر کوئی خدمت ہو تو بتانا۔
“ اس نے اٹھتے ہوئے کہا تو مجھے مایوسی ہونے لگی۔ تبھی میں نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
”آپ بھی‘ اگر کوئی ضرورت محسوس کریں تو میں حاضر ہوں۔“
”عوام اور قانون کا ایک ساتھ ہوجائے تو جرائم ختم کیے جاسکتے ہیں‘ مگر ہماری ڈیپارٹمنٹ کی کالی بھیڑیں ان جرائم کوختم نہیں‘ ان کی پرورش کررہے ہیں ورنہ ان کی کمائی کیسے ہو؟جیسے میرے ہی آفیسر نے مجھے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرلیا۔
صرف ملک سجاد کوخوش کرنے کے لیے۔ ویسے اگر تم میرا ساتھ دو توہم بہت کچھ کرسکتے ہیں۔“
” آپ جو حکم کریں لیکن…“ میں کہتے کہتے رُک گیا
” لیکن کیا؟“ وہ تیزی سے بولا
”بس رندھاوا جی پیٹھ میں چھرا مت گھونپنا‘ باقی آپ میری مدد کریں‘ میں آپ کی کردوں گا‘ یہ تعلق تو اعتماد پر آگے بڑھے گانا۔“ میں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو اس کی آنکھیں چمک گئیں۔
اس نے اپنے اندرونی جذبات کو دباتے ہوئے کہا۔
”توپھر شروعات میں کرتا ہوں۔ ملک سجاد نے اپنے کچھ بندے یہاں بھیجے ہیں‘ تمہارے لیے‘اور جانتے ہو وہ اس وقت کہاں ہیں؟“
”کہاں ہیں؟“ میں نے چونکتے ہوئے پوچھا۔
”تیرے گاؤں کے حکمران‘ شاہ دین کے ڈیرے پر… دونوں ایک ہی پارٹی کے ہیں‘ اور پہلے بھی ایک دوسرے کی مدد کرتے رہتے ہیں۔
آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں‘ کسی بھی دن‘ وہ اچانک تیرے سامنے نمودار ہوں گے اور…“ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
”میں وہ وقت آنے ہی نہیں دوں گا۔ آپ پکی نشاندہی کرو‘ انہیں قانون کے ہاتھ میں دینا اور اس کی پیروی کرنا میرا کام ہے…“میں نے عزم سے کہا تووہ خوش ہوتے ہوئے بولا۔
” نہ قانون کے ہاتھ نہ پیروی…“
”مطلب انہیں دنیا ہی سے…“ میں نے کہا تو یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا دایاں ہاتھ بڑھایا
”توپھر ہوگیا طے…میں ان کے ساتھ کیا کرتاہوں… یہ تم دیکھنا…“ 
میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا‘ گرمجوشی سے ہاتھ ملا کر ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا تو اس نے اپنی آنکھیں بند کرکے مجھے پھر سے یقین دلایا اور پھر تیز تیز قدموں سے ڈیرے سے باہر چلتا چلاگیا۔
کچھ دیر بعد گاڑی جانے کی دھیمی دھیمی آواز آئی تومیں بھیدے کے پاس جانے کے لیے بڑھا۔ میں نے اس کے پاس جاکر کہا۔
”بھیدے…! ممکن ہے آج کے بعد میں ڈیرے پر نہ آسکوں‘ تم کسی بندے کابندوبست کر لینا ‘اور خیال رکھنا… آج میں دودھ لے کرجا رہا ہوں۔“
”جاؤ…! اور فکرنہ کرنا…“ اس نے کہا تو میں دودھ والا برتن اٹھا کر ڈیرے سے نکل گیا۔
سورج کی تیز روشنی نے پورے ماحول کو چمکا کے رکھ دیا تھا۔ سرد ہوائیں اب گرمی کا چولابدل رہی تھیں۔ میں نے دودھ کابرتن ماں کودیا‘ پھر ڈٹ کر ناشتہ کرچکا تو چھاکا آگیا۔ تیکھے نقوش والے چھاکے کے چہرے پر گہری سنجیدگی طاری تھی۔ اس کی آنکھیں بتارہی تھیں کہ ان میں کوئی بے چینی کروٹ لے رہی ہے۔ وہ خاموشی سے میرے پاس آکربیٹھ گیاتو میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”کیوں اس قدر بے چین ہو؟“
”بس ویسے ہی یار‘ جب سے ملک سجاد کی دھمکی سنی ہے‘ میں اسے دیکھنا چاہتاہوں۔ فون پر دھمکیاں تو ہر کوئی دے لیتا ہے‘اصل بات تو یہ ہے کہ وہ سامنا کرے۔“

Chapters / Baab of Qalandar Zaat By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

آخری قسط