”سر… ایمبولینس کے لیے فون کردیں سر…“ ایک کانسٹیبل نے تیزی سے کہا۔
”اوئے نہیں‘ بہت دیر ہوجائے گی‘ باہر دیکھو‘ کوئی وین وغیرہ مل جائے‘ نہیں تو ٹیکسی ہی پکڑ لینا۔“ انسپکٹر نے حکم دیا تو دوچار کانسٹیبل باہر کی جانب لپکے‘ تبھی مہرہ نے جسپال سے آہستگی کے ساتھ کہا۔
”چلو‘ نکلتے ہیں۔“
وہ دونوں اٹھے ہی تھے کہ ایک کانسٹیبل نے مہرہ سے کہا۔
“آپ کی گاڑی بھی تو ہے ناشاب‘ ان کو لے چلیں۔“
تبھی مہرہ نے ایک نگاہ انسپکٹر پر ڈالی اور طنزیہ لہجے میں بولا۔
”سوری… ان دونوں میں سے کوئی مرگیا تو تیرے انسپکٹر نے سارا مدعا مجھ پر ڈال دینا ہے جاؤ…جاکر کوئی دوسری گاڑی تلاش کرو۔“
وہ کانسٹیبل عجیب سی نگاہوں سے گھورتا ہوا ایک طرف ہوگیا جبکہ انسپکٹر نے انہیں غصے میں دیکھا۔
(جاری ہے)
مہرہ نے اس کی کوئی پروا نہیں کی اور آہستہ قدموں سے چلتے ہوئے تھانے سے باہر آگئے۔ جہاں ایک وین کو ان کانسٹیبلوں نے گھیرا ہوا تھا۔انہوں نے ڈرائیور کو نیچے اتار اہواتھا‘ ایک ان سے بات کرنے لگا تو دوسرے تھانے کی طرف لپکے‘ مہرہ پارکنگ میں اپنی گاڑی کے پاس رک گیا۔ پھرجسپال کی طرف دیکھ کر بولا۔
”تم نے اپنی گاڑی میں میرے پیچھے پیچھے آنا ہے‘ اگر میں گم بھی ہوجاؤں تو فون پر رابطہ کرلینا۔
کسی بھی غیر یقینی صورتحال میں واپس ہسپتال چلے جانا۔“
”کیا ایسی کوئی خطرناک بات ہے؟“ اس نے تیزی سے پوچھا۔
”میں ایک رسک لینے جارہاہوں۔ ہوگیا تو دیکھنا… “اس نے یہ کہاہی تھا کہ ان دونوں حوالاتیوں کو باہر لایا گیا۔ وہ دونوں بے ہوش تھے اور کانسٹیبلوں نے انہیں ڈنڈاڈولی کے انداز میں اٹھایا ہوا تھا۔ انہیں وین میں لاپھینکا توہ چل دی۔
اس وقت مہرہ بھی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔
رش والے علاقے سے نکلتے ہی وہ ایک بڑی سڑک پر آگئے ‘ جیسے ہی وہ ایک موڑ مڑنے کے لیے آہستہ ہوئے‘ پیچھے سے آنے والی ایک سفید ویگن نے ان کاراستہ روکنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ ایک سائیڈ دبا کر انہیں رکنے پرمجبور کردیا۔ تبھی ویگن بھی رک گئی اور اس میں سے پانچ چھ نوجوان گنیں لے کر باہر آگئے۔
شاید کانسٹیبلوں کے ذہن میں بھی نہیں تھا کہ ایسا ممکن ہوجائے گا۔ ایک نوجوان نے آگے بڑھ کر سائیڈ ڈور کھولااور انہیں نیچے اترنے کااشارہ کیا۔ وہ ایک ایک کرکے اترنے لگے‘ تب تک ایک اور نوجوان ڈرائیور کو نیچے اتار چکاتھا۔ جیسے ہی دونوں حوالاتی اندر وین میں رہ گئے، وہ اس وین میں بیٹھ گئے‘ دونوں ویگنیں چل پڑیں اور وہ کانسٹیبل اور ڈرائیور وہیں کھڑے منہ تکتے رہ گئے۔
جسپال یہ سب دیکھ رہاتھا‘ اور سمجھ چکاتھا کہ مہرہ نے کیا کھیل کھیلا ہے‘ اس لیے دھیرے سے مسکرادیا۔
آگے دو ویگنیں تھیں‘ اس کے پیچھے مہرہ اور اس کے بعد جسپال ‘ تیزی سے جارہے تھے۔ اچانک حوالاتیوں والی وین سیدھی نکلتی چلی گئی اور کراس پر سے دوسری وین دائیں جانب مڑگئی اور مہرہ بائیں جانب چلا گیا‘ جسپال کو سمجھ نہیں آئی کہ ایسا کیوں ہوا لیکن اس نے مہرہ کاتعاقب جاری رکھا۔
تقریباً دس منٹ کی ڈرائیونگ کے بعد وہ ایک ایسی جگہ آنکلے جہاں بہت کم آبادی تھی۔ زیادہ تر فیکٹریاں تھیں۔ اسے لگا کہ یہ فیکٹری ایریا ہے‘ مہرہ پختہ تارکول والی سڑک سے اتر کرنیم پختہ راستے پر چل پڑا اورپھر ایک فیکٹری کے آگے جارکا‘ اگلے ہی لمحے گیٹ کھل گیا اور وہ اس کے پیچھے پیچھے اندر چلا گیا۔ وہ سفید وین وہاں کھڑی تھی‘ کچھ ہی دیر بعد وہ ایک ہال نماکمرے میں تھے‘ جہاں اچھا خاصا کاٹھ کباڑ پڑا ہواتھا۔
وہیں زمین پر وہ دونوں حوالاتی پڑے ہوئے تھے۔چند نوجوان ان کے اردگرد کھڑے تھے۔ مہرہ کو د یکھتے ہی ایک نے کہا۔
”سر…!جگ دیو کو لے جائیں۔“
”ڈاکٹر نہیں آیا…؟“ اس نے سوال نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا۔
”وہ اس وقت نہیں ہے مگر ڈسپنسر ہے‘ وہ آرہا ہے۔“ لفظ اس کے منہ ہی میں تھے کہ ایک ادھیڑ عمر سابندہ ہال میں داخل ہوا۔ اس کے پاس میڈیکل بیگ تھا۔
اس نے آتے ہی ان دونوں کو دیکھا جو اس وقت ہوش میں تھے۔
”پہلے جگ دیو کی پٹی وغیرہ کرو‘ اسے بعد میں دیکھنا شاید اس کی ضرورت نہ پڑے۔“ مہرہ نے سرد لہجے میں کہاتو حملہ آور نے حسرت بھری نگاہوں سے مہرہ کو دیکھا‘ ڈسپنسر نے جگ دیو کو دیکھنا شروع کیا‘ تو مہرہ اس حملہ آور کے پاس بیٹھ گیا‘ پھر سرد سے لہجے میں غراتے ہوئے بولا۔
”دیکھ…! اب زندگی اور موت دونوں تیرے اپنے اختیار میں ہے جو کچھ میں پوچھنا چاہتا ہوں‘ وہ اگر سچ بتادے گا تو تیری مرہم پٹی کرکے تجھے اچھا کھانا دیاجائے گا‘ اور شہر میں سکون سے چھوڑ دیں گے۔
اور اگر نہیں بتائے گا تو تجھے مار کر ایسی گندی جگہ پھینکوں گا‘جہاں پر کتے تجھے نوچ نوچ کر تیری شناخت ہی ختم کردیں گے…اب بول کیا کرنا ہے تجھے۔“
کیشیو مہرہ کہتا چلاجارہاتھا اوراس حملہ آور کی آنکھوں میں وحشت کے ساتھ خوف پھیلتا چلا گیا۔ وہ چند لمحے سوچتا رہاپھر بولا۔
”انسپکٹر رن ویر… ہم اس کے لیے کام کرتے ہیں۔“ اس نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
”تمہارا تعلق فورسز سے ہے؟“ مہرہ نے پوچھا۔
”نہیں…وہ وقتاً فوقتاً ہم سے کام لیتا ہے اور ہماری مدد کرتا رہتا ہے۔“ اس نے کہا تووہ اٹھ کربولا۔ ”بھگوان کے لیے… میرا اتنا جرم نہیں ہے… جتنا…“
”تم نہیں جانتے۔ تم نے کیا کیا ہے ‘خیر…! اگر تمہارا کہا جھوٹ ہواتو…“ مہرہ نے پوچھا تو ایک دم سے وہ مایوس ہوگیا ‘پھر گھگھیائے ہوئے لہجے میں بولا۔
”آپ تصدیق کرلیں۔“
”وہ تو میں کروں گا… تب تک تم یہاں ہمارے مہمان رہوگے… سچ ہواتو چھوڑ دیں گے‘ جھوٹ ہواتو…“
جسپال یہ سب دیکھ رہاتھا اور سن رہاتھا۔ ذہن کے کسی گوشے میں یہ خیال توتھا کہ رن ویر اسے نقصان پہنچانے کے لیے ہی اس کے ساتھ جڑا ہوا ہے لیکن وہ قانونی تناظر میں سوچ رہاتھا‘ اسے یہ گمان بھی نہیں تھا کہ وہ یوں غنڈہ گردی کرے گا‘ اس کی رگوں میں خون تیزی سے دوڑنے لگا تھا۔
اس کا من چاہ رہاتھا کہ ابھی جائے اور رن ویر سنگھ کو شوٹ کردے‘ تاہم سوچنے اور اس پرعمل کرنے میں کچھ فرق ضرور ہے اوراس کے لیے وقت چاہیے ہوتا ہے۔
”آؤ چلیں…“ مہرہ نے اس کابازو پکڑااور باہر کی جانب چل دیا۔ باہر برآمدے میں آکر جسپال نے بڑے جذباتی انداز میں کہا۔
”کیشیو… رن ویر پارٹی بن جائے گا‘ یہ تومیں نے سوچابھی نہیں تھا۔
“
” جسپال …! تمہارے بارے میں میرا اندازہ یہ ہے کہ تم نہ یہاں کی ودستی سمجھ سکتے ہو اور نہ ہی دشمنی۔ یہاں قانون کی پاسداری نہیں ہے ‘سب سے پہلے دھرم‘ پھر مفاد اور اکثر اوقات دھرم کہیں پیچھے رہ جاتا ہے اور مفاد ہی سب سے پہلے ہوتا ہے۔ رن ویر کس کی لڑائی لڑ رہا ہے‘ نرنکاریوں کے لیے … اپنے ڈیپارٹمنٹ کے لیے…یاقانون کے لیے… میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرتا‘ لیکن جو حقیقت تمہارے سامنے آئی ہے‘ اس پر تم خود فیصلہ کرسکتے ہو۔
“
”توپھر فیصلہ کیشیو مہرہ… مجھے پنڈ اوگی ہی میں رہ کر سب کچھ کرنا ہے…“ جسپال نے سرد لہجے میں کہا تو مہرہ چونک گیا‘ چند لمحے سوچتا رہا پھر جوشیلے انداز میں بولا۔
”بالکل درست…! تم اپنی زمین اور حویلی کے بارے میں فکر مت کرنا‘ جائیداد کامسئلہ مجھ پر رہا‘ جب تک تم بلجیت سنگھ کو اپنے پاؤں کے نیچے نہیں لے لیتے ہو‘ تب تک تم جو بھی کروگے… یہ تمہارا تعاقب کریں گے۔“
”ٹھیک ہے…“ جسپال نے فیصلہ کن انداز میں کہااور وہاں سے چل دیئے۔ دونوں گاڑی تک آئے اور آگے پیچھے نکلتے چلے گئے۔
# # # #