Episode 8 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 8 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

جنگ احد کے بہت دن بعد اسے پتہ چلا تھا کہ جب مکہ میں قریش لشکر جمع کر رہے تھے تو اس کی اطلاع رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مل گئی تھی اور جب یہ لشکر مدینہ کے راستے میں تھا تو رسول خدا کو اس کی رفتار، پڑاؤ اور مدینے سے فاصلے کی اطلاعیں مسلسل ملتی رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لشکر کے مکہ سے کوچ کی اطلاع حضرت عباس نے دی تھی ۔ 
قریش کے اس لشکر نے مدینہ سے کچھ میل دور کوہ احد کے قریب ایک ایسی جگہ کیمپ کیا تھا جو ہر بھری تھی اور وہاں پانی بھی تھا۔
خالد کو معلوم نہ تھا کہ مسلمانوں کے دو جاسوس اس لشکرکی پوری تعداد دیکھ آئے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاچکے ہیں۔ 
21مارچ625ء کے روز رسول کریم نے اپنی فوج کو کوچ کا حکم دیا اور شیخین نام کی ایک پہاڑی کے دامن میں جاخیمہ زن ہوئے۔

(جاری ہے)

آپ کے ساتھ ایک ہزار پیادہ مجاہدین تھے جن میں ایک سو نے سروں پر زرہ پہن رکھی تھی۔ مجاہدین کے پاس صرف دو گھوڑے تھے جن میں سے ایک رسول کریم کے پاس تھا ۔

 
اس موقع پر مسلمانوں کے نفاق کا پہلا خطرناک مظاہرہ ہوا جو غداری کے مترادف تھا ۔ مدینے کے بعض ایسے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تھا جو دل سے مسلمان نہیں ہوئے تے۔ انہیں رسول مقبول نے منافقین کہا تھا۔ کسی کے متعلق یہ معلوم کرنا کہ وہ سچا مسلمان ہے یا منافق، بہت مشکل تھا جب مجاہدین مدینے سے شیخین کی پہاڑی کی طرف کوچ کرنے لگے تو ایک بااثر آدمی جس کا نام عبداللہ بن ابی تھا ، رسول اللہ ٴ کے ساتھ اس بحث میں الجھ گیا کہ قریش کا لشکر تین گنا ہے اس لیے مدینے سے باہر جاکر لڑنا نقصان دہ ہوگا۔
 
آپ نے مجاہدین کے دوسرے سرداروں سے رائے لی تو اکثریت نے کہا کہ شہر سے باہر لڑنا زیادہ بہتر ہوگا۔ آپ عبداللہ بن ابی کے ہی ہم خیال تھے لیکن آپ نے اکثریت کا فیصلہ قبول فرمایا اور کوچ کا حکم دے دیا۔ عبداللہ بن ابی نے شہر سے باہر جانے سے انکار کردیا۔ اس کے پیچھے ہٹنے کی دیر تھی کہ مجاہدین اسلام میں سے تین سو آدمی پیچھے ہٹ گئے تب پتہ چلا کہ یہ سب منافین تھے اور عبداللہ ان کا سردار ہے ۔
 
اب تین ہزار کے مقابلے میں مجاہدین کی نفری صرف سات سو رہ گئی تھی ۔ رسول اللہ دل برداشتہ نہ ہوئے اور سات سو کو ہی ساتھ لے کر کوہ احد کے دامن میں شیخین کے مقام پر مجاہدین کو جنگی ترتیب میں کردیا۔ خالد نے ایک بلند ٹیکری پر کھڑے ہوکر مسلمانوں کی یہ ترتیب دیکھی تھی اور اس نے اپنے سالار ابوسفیان کو بتاکر اپنے دستے کی جگہ طے کرلی۔ 
رسول اکرم نے مجاہدین کو کم و بیش ایک ہزار گز لمبائی میں پھیلادیا۔
پیچھے وادی تھی مجاہدین کے ایک پہلو کے ساتھ پہاڑی تھی لیکن دوسرے پہلو پر کچھ نہیں تھا۔ اس پہلو کو مضبوط رکھنے کے لیے رسول کریم نے پچاس تیر اندازوں کو قریب کی ایک ٹیکری پر بٹھادیا۔ ان تیراندازوں کے کماندار عبداللہ بن حبیر تھے ۔ 
”اپنی ذمہ داری سمجھ لو عبداللہ !“…رسول خدا نے اسے ہدایات دیتے ہوئے فرمایا …”اپنے عقب کو دیکھو ۔
دشمن ہمارے عقب میں نقل و حرکت کرسکتا ہے جو ہمارے لیے خطرہ ہے دشمن کے پاس گھوڑ سوار زیادہ ہیں وہ ہمارے پہلوپر گھوڑ سواروں سے حملہ کرسکتا ہے۔ اپنے تیر اندازوں کو گھوڑ سواروں پر مرکوز رکھو ۔ پیادوں کا مجھے کوئی ڈر نہیں “
تقریباً تمام مستند مورخین جن میں ابن ہشام اور واقدی خاص طور پر قابل ذکر ہیں، لکھتے ہیں کہ رسول کریم نے عبداللہ بن حبیر کو واضح الفاظ میں کہا تھا …”ہمارا عقب صرف تمہاری بیداری اور مستعدی سے محفوظ رہے گا ۔
تمہاری ذرا سی کوتاہی بھی ہمیں بڑی ذلت آمیز شکست دے سکتی ہے…یاد رکھو عبداللہ ! اگر تم دشمن کو بھاگتے ہوئے اور ہمیں فتح یاب ہوتے ہوئے دیکھ لو تو بھی اس جگہ سے نہ ہلنا۔ اگر دیکھو ہم پر دشمن کا دباؤ بڑھ گیا ہے اور تمہیں ہماری مدد کے لیے پہنچنا چاہیے تو بھی یہ جگہ نہ چھوڑنا ۔ پہاڑی کی یہ بلندی دشمن کے قبضے میں نہیں جانی چاہیے۔ یہ بلندی تمہاری ہے ۔
وہاں سے تم نیچے اس تمام علاقے کے حکمران ہوگے جہاں تک تمہارے تیر اندازوں کے تیر پہنچیں گے “
خالد نے مسلمانوں کی ترتیب دیکھی اور ابو سفیان کو بتایا کہ مسلمان کھلے میدان کی لڑائی نہیں لڑیں گے ۔ ابو سفیان کو اپنی کثیر نفری پر ناز تھا ۔ وہ چاہتا تھا کہ لڑائی کھلے میدان یعنی لامحدود محاذ پر ہو تاکہ وہ اپنے پیادوں اور گھوڑوں کی افراط سے مجاہدین اسلام کو کچل ڈالے۔
خالد کو اپنے باپ نے جنگی چالوں کی تربیت بچپن سے دینی شروع کردی تھی۔ دشمن پر بے خبری میں پہلو یا عقب سے جھپٹنا، دشمن کو چکر دے دے کر مارنا، اپنے دستوں کی تقسیم اور ان پر کنٹرول اس تربیت میں شامل تھا جو اسے باپ نے دی تھی ۔ اس نے تجربہ کار سردار کی نگاہوں سے مجاہدین کی ترتیب دیکھی تو اس نے محسوس کیا کہ مسلمان فن و حرب کے کمالات دکھاسکتے ہیں۔
 
ابو سفیان اپنی فوج کو مسلمانوں کے بالمقابل لے گیا۔ اس نے گھوڑ سواروں کو مسلمانوں کے پہلوؤں پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا۔ ایک پہلو پر خالد اور دوسرے پر عکرمہ تھا۔ دونوں کے ساتھ ایک سو گھوڑ سوار تھے۔ تمام گھوڑ سواروں کا کمانڈر عمرو بن العاص تھا۔ پیادوں کے آگے ابو سفیان نے ایک سو تیر انداز رکھے۔ قریش کا پرچم طلحہ بن ابو طلحہ نے اٹھا رکھا تھا ۔ اس زمانے کی جنگوں میں پرچم کو دل جیسی اہمیت حاصل تھی۔ پرچم کے گرنے سے فوج کا حوصلہ ٹوٹ جاتا اور بھگدڑ مچ جاتی تھی ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط