”قلعے کا دروازہ کھول دو “…عورت کی تحکمانہ آواز سنائی دی ۔
اس آواز کے ساتھ ہی قلعے کا دروازہ کھل گیا ۔ معنیٰ نے اپنے سواروں کو اشارہ کیا تین چار سو گھوڑے سرپٹ دوڑتے آئے ۔ معنیٰ نے انہیں صرف اتنا کہا کہ قلعے کی صرف تلاشی ہوگی کسی چیز اور کسی انسان کو ہاتھ تک نہیں لگایا جائے گا معنیٰ کا گھوڑا قلعے میں داخل ہوگیا۔ اس کے تمام سوار اس کے پیچھے پیچھے قلعے میں گئے ۔
معنیٰ نے ایک جگہ رک کر قلعے کی دیواروں پر نظر دوڑائی ۔ ہر طرف تیر انداز کھڑے تھے ۔ نیچے اسے کہیں بھی کوئی سپاہی نظر نہ آیا۔ معنیٰ کے سوار قلعے میں پھیل گئے تھے ۔
”تم نے ٹھیک کہا تھا “…عورت نے نے معنیٰ سے کہا …”میں فارسیوں سے ڈرتی ہوں اس قلعے میں کوئی بھی طاقتور لشکر آئے گا تو میں اس کے رحم و کرم پر ہوں گی …مسلمانوں کو میں پہلی بار دیکھ رہی ہو “
”اور تم انہیں ساری عمر یاد رکھو گی “…معنیٰ نے کہا…”خدا کی قسم، تم باقی عمر ان کے انتظار میں گزاردوگی …مسلمانوں کے لیے حکم ہے کہ قلعوں کو نہیں دلوں کو سر کرو لیکن قلعوں والوں کے دل قلعے کی دیواروں جیسے سخت ہوجائیں تو پھر ہمارے لیے کچھ اور حکم ہے جب ہم اس حکم کی تعمیل کرتے ہیں تو فارس کی طاقت بھی ہمارے آگے ٹھہر نہیں سکتی ۔
(جاری ہے)
کیا تم نے انہیں بھاگتے دیکھا نہیں ؟کیا وہ ادھر سے نہیں گزرے ؟“
”گزرے تھے “…قلعہ دار عورت نے جواب دیا …”ذرا سی دیر کے لیے یہاں رکے بھی تھے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ وہ مسلمانوں سے بھاگ کر آرہے ہیں۔ وہ دس بارہ آدمی تھی میں حیران تھی کہ اتنے ہٹے کٹے سپاہی خوف سے مرے جارہے ہیں میں اس پر بھی حیران تھی کہ وہ کون ہیں جنہوں نے فارس کے لشکر کو اس قدر دہشت زدہ کرکے بھگادیا ہے۔
تم نے جب کہا کہ تم ہو وہ لوگ جنہوں نے فارسیوں کو شکست دی ہے تو میری ہمت جواب دے گئی ۔میں نے قلعے کا دروازہ خوف کے عالم میں کھولا تھا میں تم سے اور تمہارے سواروں سے اچھے سلوک کی توقع رکھ ہی نہیں سکتی تھی ۔ مجھے ابھی تک یقین نہیں آیا کہ تم اپنے متعلق جو کہہ رہے ہو وہ سچ کہہ رہے ہو “
یہ خاتون معنیٰ کو اس عمارت میں لے گئی جہاں وہ رہتی تھی وہ تو شیش محل تھا اس کے شارے پر دو غلاموں نے شراب اور بھنا ہوا گوشت معنیٰ کے سامنے لارکھا۔
معنیٰ نے ان چیزوں کو پرے کردیا ۔
”ہم شراب نہیں پیتے“…معنیٰ نے کہا…”اور میں یہ کھانا اس لیے نہیں کھاؤں گا کہ تم نے مجھے ایک طاقتور فوج کا آدمی سمجھ کر خوف سے مجھے کھانا پیش کیا ہے ۔ میں اسے بھی حرام سمجھتا ہوں “
”کیا تم مجھے بھی حرام سمجھتے ہو ؟“…اس خوبصورت اور نوجوان عورت نے ایسی مسکراہٹ سے کہا جس میں دعوت کا تاثر تھا۔
”ہاں“…معنیٰ نے جواب دیا …”مفتوحہ عورت کو ہم شراب کی طرح حرام سمجھتے ہیں وہ اس وقت تک ہم پر حرام رہتی ہے جب تک کہ وہ اپنی مرضی سے ہمارے عقد میں نہ آجائے “
معنیٰ کو اطلاع دی گئی کہ اس کے سوار قلعے کی تلاشی لے کر آگئے ہیں معنیٰ تیزی سے اٹھا اور اسی تیزی سے باہر نکل گیا ۔
###
سواروں کے کمانداروں نے معنیٰ کو تفصیل سے بتایا ہ انہوں نے تلاشی کس طرح لی ہے اور کیا کچھ دیکھا ہے کہیں بھی انہیں کوئی ایرانی سپاہی نظر نہیں آیا تھا۔
اس عورت کا اپناقبیلہ تھا جس کے آدمی تیروں تلواروں ور برچھیوں وغیرہ سے مسلح تھے ۔ ان میں معنیٰ کے سواروں کے خلاف لڑنے کی ہمت نہیں تھی ۔ قلعے کی مالکن نے انہیں لڑنے کی اجازت بھی نہیں دی تھی۔ اس قلعے کو اپنی اطاعت میں لینا ضروری تھا کیونکہ یہ کسی بھی موقع پر ایرانیوں کے کام آسکتا تھا ۔ معنیٰ نے ادھر ادھر دیکھا۔ وہ عورت اسے نظر نہ آئی ، معنیٰ اندر چلا گیا ۔
”کچھ ملا میرے قلعے سے …“…عورت نے پوچھا۔
”نہیں“…معنی نے جواب دیا …”میرے لیے شک رفع کرنا ضروری تھا اور اب یہ پوچھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے کسی سوار نے تمہارے کسی آدم یا عورت کو یا میں نے تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں دی ؟“
”نہیں “…عورت نے کہا اور ذرا سوچ کر بولی …”لیکن تم چلے جاؤ گے تو مجھے بہت تکلیف ہوگی “
”کیا تم ایرانیوں کا خطرہ محسوس کر رہی ہو …“معنیٰ نے پوچھا …’یا تمہارے دل میں مسلمانوں کا ڈر ہے ’“
”دونوں میں سے کسی کا بھی نہیں “…عورت نے جواب دیا …”مجھے تنہائی کا ڈر ہے تم چلے جاؤ گے تو مجھے تنہائی کا احساس ہوگا جو تمہارے آنے سے پہلے نہیں تھا ۔
“
معنیٰ نے اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
”تم اپنے فرض میں اتنے الجھے ہوئے ہو کہ تمہیں یہ بھی احساس نہیں رہا کہ تم ایک جوان آدمی ہو “…عورت نے کہا …”فاتح سب سے پہلے مجھ جیسی عورت کو اپنا کھلونا بناتے ہیں۔ میں نے تم جیسا ایک آدمی کبھی نہیں دیکھا۔ اب دیکھا ہے تو دل چاہتا ہے کہ دیکھتی ہی رہو ں …کیا میں تمہیں اچھی نہیں لگی ؟“
معنیٰ نے اسے غور سے دیکھا۔
سر سے پاؤں تک پھر پاؤں سے سر تک ۔ اسے ایک آواز سنائی دی …”خدا کی قسم ، میں نے قلعے سر کرنے والوں کو ایک عورت کی تیکھی نظروں اور اداؤں سے سر ہوتے دیکھا ہے “
”کیا تم ہوش میں نہیں ہو ؟“…عورت نے پوچھا ۔
”میں شاید ضرورت سے زیادہ ہوش میں ہوں “…معنیٰ نے کہا …”تم مجھے اچھی لگتی ہو یا نہیں یہ بعد کی بات ہے اس وقت مجھے تمہارا قلعہ اچھا لگ رہا ہے ۔
“
”کیا میرا یہ تحفہ قبول کروگے؟“…عورت نے کہا …”طاقت سے قلعہ سر کرنے کی بجائے مجھ سے یہ قلعہ محبت کے تحفے کے طور پر لے لو تو کیا یہ اچھا نہیں رہے گا ؟“
”محبت!“…معنیٰ نے زیر لب کہا پھر سر جھٹک کر جیسے بیدار ہوگیا ۔ کہنے لگا …”محبت کا وقت نہیں میں تمہارے ساتھ شادی کرسکتا ہوں اگر تم رضا مند ہو تو پہلے اپنے سارے کے سارے قبیلے سمیت اسلام قبول کرو “
”میں نے قبول کیا “…عورت نے کہا …”میں اس مذہب پر جان بھی دے دوں گی جس کے تم پیروکار ہو“
دو مورخوں طبری اور ابن رستہ نے اس خاتون کا ذکر ذرا تفصیل سے کیا ہے لیکن دونوں کی تحریروں میں اس خاتون کا نام نہیں ملتا ۔
###
شہنشاہ فارس اردشیر آگ بگولہ ہوا جارہا تھا۔ اسے ہرمز پر غصہ آرہا تھا جس نے کمک مانگی تھی کمک بھیجنے کے بعد اسے ابھی کوئی اطلاع نہیں ملی تھی کہ میدان جنگ کی صورت حال کیا ہے ۔ وہ دربار میں بیٹھتا تو مجسم عتاب بنا ہوتا۔ محل میں وہ کہیں بھی ہوتا تو اس کیفیت میں ہوتا کہ بیٹھے بیٹھے اٹھ کھڑا ہوتا۔ تیز تیز ٹہلنے لگتا اور بلاوجہ کسی نہ کسی پر غصہ جھاڑنے لگتا۔
اسے اطلاع ملی کہ قاصد آیا ہے وہ قاصد کی طرف بڑی تیزی سے چل پڑا
”کیا فارن نے ان صحرائی گیدڑوں کو کچل ڈالا ہے “…اردشیر نے پوچھا ۔
”شہنشاہ فارس!“…قاصد نے کہا …”جان بخشی ہو شہنشاہ کا غلام اچھی خبر نہیں لایا “
”کیا قارن نے بھی کمک مانگی ہے ؟“…ارد شیر نے پوچھا ۔
”نہیں شہنشاہ فارس!“…قاصد نے کہا …”سالار ہرمز مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا ہے “
”مارا گیا ہے ؟“…اردشیر نے حیرت سے کہا …”کیا ہرمز کو بھی مارا جاسکتا ہے …نہیں ۔
نہیں۔ یہ غلط ہے یہ جھوٹ ہے “…اس نے گرج کر قاصد سے پوچھا …”تمہیں یہ پیغام کس نے دیا ہے ؟“
”سالار قارن بن قریانس نے “…قاصد نے کہا …”ہمارے دو سالار قباذ اور انوشجان پسپا ہوکر آرہے تھے۔ باقی سپاہ بھی جو زندہ تھی ۔ ایک ایک دو دو کرکے ان کے پیچھے آرہی تھی ۔ انہوں نے بتایا کہ سالار ہرمز نے مسلمانوں کو انفرادی مقابلے کے لیے للکاراتو ان کا سالار خالد بن ولید ہمارے سالار کے مقابلے میں آیا۔
سالار ہرمز نے اپنے محافظوں کو ایک طرف چھپادیا تھا انہوں نے مسلمانوں کے سالار کو گھیرے میں لے کر قتل کرنا تھا انہوں نے اسے گھیرے میں لے بھی لیا تھا لیکن کسی طرف سے ایک مسلمان سوار سرپٹ گھوڑا دوڑاتاآیا اس کے ایک ہاتھ میں برچھی اور دوسرے میں تلوار تھی دیکھتے ہی دیکھتے اس نے سالار ہرمز کے چھ سات محافظوں کو ختم کردیا۔ عین اس وقت مسلمانوں کے سالار نے سالار ہرمز کو گرالیا اور خنجر سے انہیں ختم کردیا “
اردشیر کا سر جھک گیا اور وہ آہستہ آہستہ محل کی طرف چل پڑا۔ جب وہ محل میں پہنچاتو اس نے یوں دیوار کا سہار لے لیا جیسے اسے ٹھوکر لگی ہو اور گرنے سے بچنے کیلئے اس نے دیوار کا سہارا لیا ہو۔ اردشیر کے لیے یہ صدمہ معمولی نہیں تھا۔
####