عیسائیوں کا لشکر الیس کے مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے مدائن سے اپنے وفد کی واپسی کا انتظار کر رہا تھا ۔
”ہوشیار دشمن آرہا ہے “…عیسائی لشکر کے سنتریوں نے واویلا بپا کردیا …”خبردار! ہوشیار!تیار ہوجاؤ “
ہربونگ مچ گئی ۔ ان کے سرداروں نے درختوں پر چڑھ کر دیکھا۔ ایک لشکر چلا آرہا تھا ۔ سرداروں نے حکم دیا کہ تیر انداز اگلی صف میں آجائیں ۔
یہ لوگ چونکہ باقاعدہ فوجی نہیں تھے اس لیے ان میں نظم و ضبط اور تحمل کی کمی تھی ۔
آنے والا لشکر قریب آرہا تھا جب یہ لشکر اور قریب آیا تو سرداروں کو شک ہونے لگا تب ایک سالار نے کہا یہ لشکر مسلمانوں کا نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ اس طرف سے آرہا ہے جدھربہمن جاذویہ کا لشکر ہونا چاہیے تھا ۔ سالار نے دو گھوڑسواروں کو یہ کہہ کر دوڑایا کہ جاکر دیکھو، یہ کس کا لشکر ہے ۔
(جاری ہے)
”یہ دوست ہیں “…ایک سوار نے پیچھے مڑ کر بلند آواز میں کہا …”یہ فارس کی فوج ہے “
”یسوع مسیح کے پجاریو!“…درخت سے سالار اعلیٰ نے چلا کر کہا …”تمہاری مدد کے لیے مدائن سے فوج آگئی ہے“
عیسائی نعرے لگانے لگے اور تھوڑی دیر بعد جابان کا لشکر عیسائیوں کے پڑاؤ میں آگیا۔ جابان نے اس تمام لشکر کی کمان لے لی اور عیسائی سرداروں سے کہا کہ اب وہ اس کے حکم اور ہدایات کے پابند ہوں گے ۔
جابان نے عیسائیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لے پرجوش تقریر کی جس میں اس نے انہیں بتایا کہ اب انہیں پہلی تینوں شکستوں کا انتقام لینا ہے ۔
”…اور تم اپنی جوان عورتوں کو بھی ساتھ لائے ہو “…جابان نے کہا …”اگر تم ہار گئے تو یہ عورتیں مسلمانوں کا مال غنیمت ہوں گی ۔ انہیں وہ لونڈیاں بناکر لے جائیں گے۔ انہی کی خاطر اپنی جانیں لڑادو “
عیسائیوں کی صفوں میں جوش و خروش بڑھتا جارہا تھا۔
وہ تو پہلے ہی انتقام کی آگ میں جل رہے تھے ۔
مدینہ کی فوج کی پیش قدمی خاصی تیز تھی ۔ مثنیٰ اپنے دستے کے ساتھ دائیں طرف کہیں آگے نکل گیا تھا۔ وہ سرسبز اور شاداب علاقہ تھا درختوں کی بہتات تھی ۔ ہری جھاڑیاں اور اونچی گھاس تھی ۔ تھوڑی دور جاکر آدمی نظروں سے اوجھل ہوجاتا تھا ۔ یہ وہ علاقہ تھا جہاں فارس کے بڑے بڑے افسر سیر و تفریح اور شکار وغیرہ کے لیے آیا کرتے تھے ۔
الیس سے آگے حیرہ ایک شہر تھا جس کی اہمیت تجارتی اور فوجی لحاظ سے خاصی زیادہ تھی ۔ آبادی کے لحاظ سے یہ عیسائیوں کا شہر تھا جو ہر لحاظ سے خوبصورت شہر تھا ۔
###
سبزہ زار میں ایک گھوڑسوار جیسے تیرتا چلا آرہا ہو ۔ خالد اپنے لشکر کے وسط میں تھے کسی اور کو اس کی طرف بھیجنے کی بجائے انہوں نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اس سوار کو راستے میں جالیا۔
وہ مثنیٰ بن حارثہ کے دستے کا ایک سوار تھا ۔
”ابن حارثہ کا پیغام لایا ہوں “…سوار نے خالد سے کہا…”الیس کے میدان میں آتش پرستوں کی فوج بھی آگئی ہے ۔ ابن حارثہ نے کہا ہے کہ سنبھل کر آگے آئیں “
”فوراً واپس جاؤ “…خالد نے سوار سے کہا …”اور مثنیٰ کو کہو کہ اڑکر مجھ تک پہنچے ۔ “
مثنیٰ کا قاصد یوں غائب ہوگیا جیسے اسے زمین نے نگل لیا ہو ۔
اس کے گھوڑے کے ٹاپ کچھ دیر تک سنائی دیرتے رہے جو درختوں میں سے گزرتی ہوا کی شاں شاں میں تحلیل ہوگئے ۔ خالد واپس اپنے لشکر میں آئے اور اپنے سالاروں کو بلا کر انہیں بتایا کہ آگے صرف بن بکر وائل کے لوگ ہی نہیں بلکہ مدائن کا لشکر بھی ان کے ساتھ آملا ہے ۔ انہوں نے اپنے سالاروں کو یہ بھی بتایا کہ مثنیٰ بن حارثہ آرہا ہے ۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ مثنیٰ یوں آن پہنچا جیسے وہ واقعی اڑ کر آیا ہو ۔
”ابن حارثہ!“…خالد نے کہا…”کیا تم نے اپنی آنکھوں سے فارس کے لشکر کو عیسائیوں کے ساتھ دیکھا ہے؟“
مثنیٰ بن حارثہ نے صرف دیکھا ہی نہیں تھا بلکہ اس نے جانبازی کا مظاہرہ کرکے بہت کچھ معلوم کرلیا تھا ۔ اس نے اپنے جاسوس آگے بھیج رکھے تھے ۔ انہوں نے اسے اطلاع دی تھی کہ مدائن کی فوج عیسائیوں سے آملی ہے ۔ مثنیٰ نے پوری معلومات حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔
رات کو اس نے اپنے ساتھ تین سوار لیے اور دشمن کے پڑاؤ کے قریب جاکر گھوڑوں سے اترے اور انہیں ایک درخت کے ساتھ باندھ دیا۔ وہاں سے وہ چھپ چھپ کر اور جہاں ضرورت پڑی وہاں پیٹ کے بل رینگ کر پڑاؤ کے قریب چلے گئے ۔ آتش پرستوں کے سنتری پڑاؤ کے ارد گرد گھوم پھر رہے تھے ۔ یہ صفر ۱۲ ہجری کے وسط کی راتیں تھی۔ آدھے چاند کی چاندنی تھی جو فائدہ بھی دے سکتی تھی ۔
نقصان بھی ۔
دوسنتری ان کے سامنے سے گزر گئے ۔ انہیں پیچھے سے جاکر پکڑا جاسکتا تھا لیکن ان کے پیچھے پیچھے ایک گھوڑ سوار آرہا تھا۔ اس نے اپنے سنتریوں کو آواز دے کر روک لیا اور ان کے پاس آ کر انہیں بیدار اور ہوشیار رہنے کو کہنے لگا ۔ وہ کوئی کماندار معلوم ہوتا تھا ۔
”مسلمان رات کو تو حملہ نہیں کرسکتے “…ایک سنتری نے کہا …”پھر بھی ہم بیدار اور ہوشیار ہیں “
”تم سپاہی ہو “…گھوڑ سوار نے حکم کے لہجے میں کہا …”جو ہم کماندار جانتے ہیں وہ تم نہیں جانتے مسلمانوں کا کچھ پتہ نہیں وہ کس وقت کیا کرگزریں۔
انہیں عام قسم کا دشمن نہ سمجھو ۔ کیا تم نے مثنیٰ بن حارثہ کا نام نہیں سنا ؟کیا تم نہیں جانتے کہ کسریٰ نے مثنیٰ کے سر کی کتنی قیمت مقرر کر رکھی ہے ۔ تم اگر اسے زندہ یا مردہ پکڑ لاؤ یا اس کا صرف سرپیش کردو تو تم مالا مال ہوجاؤ گے لیکن تم اسے پکڑ نہیں سکو گے ۔ وہ جن ہے کسی کو نظر نہیں آتا …چلو آگے چلو …اپنے علاقے کی گشت کرو“
سنتری آگے نکل گئے اور گھوڑ سوار وہیں کھڑا رہا۔
مثنیٰ بن حارثہ اپنے تین جانبازو کے ساتھ ایک گھنی جھاڑی کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔ گھوڑ سوار اس طرف جانے کی بجائے جس طرف سنتری چلے گئے تھے دوسری طرف چلا گیا ۔ گھوڑے پر اسے پکڑنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ مثنیٰ نے اپنے ایک جانباز کے کان میں کچھ کہا اور گھوڑ سوار کماندار کو دیکھا جو آہستہ آہستہ چلاجارہا تھا ۔
مثنیٰ قریب کے ایک درخت پر چڑھ گیا اس کے جانباز نے ذرا اونچی آواز میں کچھ کہا۔
کماندار نے گھوڑا روک لیا۔ جانباز نے اسے واپس آنے کو کہا ۔ وہ اس آواز پر واپس آرہا تھا اچانک درخت سے مثنیٰ کودا اور گھوڑسوار کے اوپر گرا اور اسے گھوڑے سے گرادیا مثنیٰ کے ایک آدمی نے دوڑ کر گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور دو نے کماندار کو دبوچ لیا اور اس کا منہ باندھ دیا ۔ اسے اور اس کے گھوڑے کو وہاں سے دور لے گئے ۔ انہوں نے اپنے گھوڑے کھولے اور وہاں سے اتنی دورنکل گئے جہاں وہ چیختا چلّاتا تو بھی اس کی آواز اس کے پڑاؤ تک نہ پہنچی ۔
”زندہ رہنا چاہتے ہو تو بتاؤ کہ تمہاری فوج کہاں سے آئی ہے “…مثنیٰ نے تلوار کی نوک اس کی شہ رگ پر رکھ کر پوچھا۔
وہ بہمن جاذویہ کے لشکر کا کماندار تھا ۔ اس نے جان بچانے کی خاطر سب کچھ بتادیا ۔ یہ بھی کہ جاذویہ مدائن چلا گیا ہے اور اس کی جگہ جابان سالار ہے اور بکر بن وائل کا لشکر انہیں اتفاق سے مل گیا ہے ۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اس قبیلے کے کچھ سردار مدائن سے فوج اپنے ساتھ لائیں گے ۔
”کیا تمہیں معلوم ہے کہ مدینہ کی فوج کہاں ہے ؟“…مثنی نے اس سے پوچھا۔
”وہ بہت دور ہے “…کماندار نے جواب دیا …”ہم اس پر حملہ کرنے جارہے ہیں …شاید دو روز بعد “
جب اس سے ہر ایک بات معلوم ہوگئی تو اسے ہلاک کرکے لاش وہیں دفن کردی گئی ۔
###