مسلمان ابھی کراع الغمیم سے پندرہ میل دور عسفان کے مقام پر تھے کہ خالد اس سلسلہ کوہ میں داخل ہوگیا ۔ اس نے اپنے دستے کو پہاڑیوں کے دامن میں ایک دوسرے سے دور دور رکنے کو کہا اور خود گھات کی موزوں جگہ دیکھنے کے لیے آگے چلا گیا۔ وہ درے تک گیا ۔ یہی راستہ تھا جس سے قافلے اور دستے گزار کرتے تھے ۔ وہ یہاں سے پہلے بھی گزرا تھا لیکن اس نے اس درے کو اس نگاہ سے کبھی نہیں دیکھا تھا جس نگاہ سے آج دیکھ رہا تھا ۔
اس نے اس درے کو دائیں بائیں والی بلندیوں پر جاکر دیکھا۔ نیچے آیا۔ چٹانوں کے پیچھے گیا اور گھوڑوں کو چھپانے کی ایسی جگہوں کو دیکھا جہاں سے وہ اشارہ ملتے ہی فوراً نکل آئیں اور مسلمانوں پر بے خبری میں ٹوٹ پڑیں۔
وہ مارچ ۶۲۸ء کے آخری دن تھے۔ موسم ابھی سرد تھا مگر خالد کا اور اس کے گھوڑے کا پسینہ بہہ رہا تھا۔
(جاری ہے)
اس نے گھات کا علاقہ منتخب کرلیا اور اپنے دستے کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے گھوڑوں کو درے کے علاقے میں چھپادیا۔
اب اس نے اپنے ان آدمیوں کو جو مسلمانوں کی پیش قدمی کی اطلاعیں لاتے تھے ، اپنے پاس روک لیا کیونکہ خدشہ تھا کہ مسلمان ان کی اصلیت معلوم کرلیں گے ۔ مسلمان قریب آگئے تھے ۔ رات کو انہوں نے پڑاؤ کیا تھا ۔
###
اگلی صبح جب نماز فجر کے بعد مسلمان کوچ کی تیاری کر رہے تھے ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا ۔
”تمہاری حالت بتارہی ہے کہ تم دوڑتے ہوئے آئے ہو “…رسول اکرم نے کہا …”اور تم کوئی اچھی خبر بھی نہیں لائے “
”یا رسول اللہ !“…مدینہ کے اس مسلمان نے کہا …”خبر اچھی نہیں اور اتنی بری بھی نہیں…مکہ والوں کی نیت ٹھیک نہیں۔
میں کل سے کراع الغمیم کی پہاڑیوں کے اندر گھوم پھر رہا ہوں ۔ خدا کی قسم، وہ مجھے نہیں دیکھ سکے جنہیں میں دیکھ آیا ہوں۔ میں نے ان کی تمام نقل و حرکت دیکھی ہے “
”کون ہیں وہ؟“
”اہل قریش کے سوار اور کون ہوسکتا ہے “…اس نے جواب دیا …”وہ سب گھوڑ سوار ہیں اور درے کے ارد گرد کی چٹانوں میں چھپ گئے ہیں “
”تعداد؟“
”تین اور چار سو کے درمیان ہے “…رسول کریم کے اس جاسوس نے کہا …”میں نے اگر صحیح پہچانا ہے تو وہ خالد بن ولید ہے جس کی بھاگ دوڑ کو میں سارا دن چھپ چھپ کر دیکھتا رہا ہوں ۔
میں اتنی قریب چلا گیا تھا کہ وہ مجھے دیکھتے تو قتل کردیتے۔ خالد نے اپنے سواروں کو درے کے ارد گرد پھیلاکر چھپادیا ہے کیا یہ غلط ہوگا کہ وہ گھات میں بیٹھ گئے ہیں ؟“
”مکہ والوں کو ہمارے آنے کی اطلاع ملی تو وہ سمجھے ہوں گے کہ ہم مکہ کا محاصرہ کرنے آئے ہیں “…صحابہ کرام میں سے کسی نے کہا ۔
”قسم خدا کی جس کے ہاتھ میں ہم سب کی جان ہے “…رسول اکرم نے فرمایا …”اہل قریش مجھے لڑائی کے لیے للکاریں گے تو بھی میں نہیں لڑوں گا ۔
ہم جس ارادے سے آئے ہیں اس ارادے کو بدلیں گے نہیں۔ ہماری نیت مکہ میں جاکر عمرہ کرنے کی ہے اور ہم یہ دنبے اور بکرے قربانی کے لیے ساتھ لائے ہیں۔ میں اپنی نیت میں تبدیلی کرکے خدائے ذوالجلال کو ناراض نہیں کروں گا ۔ ہم خون خرابہ نہیں عمرہ کرنے آئے ہیں “
”یارسول اللہ !“…ایک صحابی نے پوچھا …”وہ درے میں ہمیں روکیں گے تو کیا ہم پر اپنے دشمن کا خون خرابہ جائز نہیں ہوگا ؟“
صحابہ کرام رسول خدا کے ارد گرد اکٹھے ہوگئے۔
اس صورت حال سے بچ کر نکلنے کے طریقوں اور راستوں پر بحث مباحثہ ہوا۔ رسول کریم اچھے مشورے کو دھیان سے سنتے اور اس کے مطابق حکم صادر فرماتے تھے ۔
آخر رسول خدا نے حکم صادر فرمایا۔ آپ نے بیس گھوڑ سوار منتخب کیے اور انہیں ان ہدایات کے ساتھ آگے بھیج دیا کہ وہ کراع الغمیم تک چلے جائیں لیکن درے میں داخل نہ ہوں۔ وہ خالد کے دستے کا جائزہ لیتے رہیں اور یہ دستہ ان پر حملہ کرے تو یوں لڑیں کہ پیچھے کو ہٹتے آئیں اور بکھر کر رہیں۔
تاثر یہ دیں کہ یہ مدینہ والوں کا ہراول جیش ہے ۔
ان بیس سواروں کو دعاؤں کے ساتھ روانہ کرکے باقی اہل مدینہ کا راستہ آپ نے بدل دیا۔ آپ نے جو راستہ اختیار کیا وہ بہت ہی دشوار گزار تھا اور لمبا بھی تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم لڑائی سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے ایک مشکل یہ بھی کہ اہل مدینہ میں کوئی ایک بھی آدمی نہ تھا جو اس راستے سے واقف ہوتا۔
یہ ایک اور درہ تھا جو ثنیہ المرار کہلاتا تھا۔ اسے ذات الحنظل بھی کہتے تھے ۔ رسول کریم اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس درے میں داخل ہوگئے اور سلسلہ کوہ کے ایسے راستے سے گزرے جہاں سے کوئی نہیں گزرا کرتا تھا ۔ وہ راستہ کسی کے گزرنے کے قابل تھا ہی نہیں۔
###
خالد کی نظریں مسلمانوں کے ہر اول دستے پر لگی ہوئی تھیں لیکن ہر اول کے یہ بیس سوار رک گئے تھے ۔
کبھی ان کے دو تین سوار درے تک آتے اور ادھر ادھر دیکھ کر واپس چلے جاتے ۔ اگر وہ بیس کے بیس سوار درے میں آبھی جاتے تو خالد انہیں گزر جانے دیتا کیونکہ اس کا اصل شکار تو پیچھے آرہا تھا ۔ ان بیس سوارو ں پر حملہ کرکے وہ اپنی گھات کو بے نقاب نہیں کرنا چاہتا تھا۔
یہ کوئی پرانا واقعہ نہیں تھا ۔ چند دن پہلے کی بات تھی ۔ خالد پریشان ہورہا تھا کہ مسلمانوں کا لشکر ابھی تک نظر نہیں آیا۔
کیا اس نے کوچ ملتوی کردیا ہے یا اسے گھات کی خبر ہوگئی ہے ؟…اس نے اپنے ایک شتر سوار سے کہا کہ وہ اپنے بہروپ میں جائے اور دیکھے کہ مسلمان کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔
اس دوران بیس مسلمان سواروں نے اپنی نقل و حرکت جاری رکھی۔ ایک دو مرتبہ وہ درے تک آئے اور ذرا رک کر واپس چلے گئے ۔ ایک دو مرتبہ وہ پہاڑیوں میں کسی اور طرف سے داخل ہوئے۔
خالد چھپ چھپ کر ادھر ہوگیا۔ وہ سوار وہاں سے بھی واپس چلے گئے ۔ اس طرح انہوں نے خالد کی توجہ اپنے اوپر لگائے رکھی۔ خالد کے سوار اشارے کے انتظار میں گھات میں چھپے رہے ۔
سورج غروب ہوچکا تھا جب خالد کا شتر سوار جاسوس واپس آیا۔
”وہ وہاں نہیں ہیں “…جاسوس نے خالد کو بتایا ۔
”کیا تمہاری آنکھیں اب انسانوں کو نہیں دیکھ سکتیں؟“…خالد نے طنزیہ لہجے میں پوچھا ۔
”صرف ان انسانوں کو دیکھ سکتی ہیں جو موجود ہوں“…شتر سوار نے کہا …”جو نہیں ہیں وہ نہیں ہیں۔ وہ کوچ کرگئے ہیں کدھر گئے ہیں؟میں نہیں بتاسکتا “
خالد اور زیادہ پریشان ہوگیا صحرا کی شام گہری ہوگئی تو اس نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کے ہر اول کے سوار بھی وہاں نہیں ہیں۔ اسے ان کے کسی گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی ۔
###