وہ دو ہزار مجاہدین جو خالد کے ساتھ رہ گئے تھے ۔ یمامہ کے ایک میدان میں خالد کے سامنے کھڑے تھے ۔ خالد گھوڑے پر سوار تھے۔
”مجاہدین اسلام!“…خالد اپنی اسی قلیل فوج سے بڑی بلند آواز میں مخاطب ہوئے …’اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کا نام دور دور تک پہنچانے کے لیے چنا ہے ۔ وہ جنہیں اپنے گھر اور اپنے مال و عیال عزیز تھے وہ چلے گئے ہیں ہمیں ان سے گلہ نہیں۔
انہوں نے خاک و خون کے راستوں پر ہمارا ساتھ دیا تھا ۔ بڑے لمبے عرصے تک وہ ہمارے ہمسفر رہے۔ اللہ انہیں جہاد کا صلہ عطا فرمائے …تم نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا اس کا اجر میں نہیں اللہ دے گا ۔ ہم بہت ہی طاقتور دشمن پر حملہ کرنے جارہے ہیں مت دیکھو ہماری تعداد کتنی ہے بدر کے میدان میں تم کتنے او رقریش کتنے تھے احد میں بھی مسلمان تھوڑے تھے میں اس وقت مسلمانوں کے دشمن قبیلے کا فرد تھا ۔
(جاری ہے)
تم میں بھی ایسے موجود ہیں جو قبول اسلام سے پہلے بدر کے میدان میں مسلمانوں کے خلاف لڑے تھے ۔ کیا ہم نے کہا نہیں تھا کہ ان تھوڑے سے مسلمانوں کو ہم گھوڑوں تلے کچل ڈالیں گے …کیا تمہیں یاد نہیں کہ ہم جو تعداد میں بہت زیادہ تھے ان کے ہاتھوں پسپا ہوئے تھے جو تعداد میں بہت تھوڑے تھے …کیوں؟ایسا کیوں ہوا تھا ؟…اس لیے کہ مسلمان حق پر تھے اور اللہ حق پرستوں ے ساتھ ہوتا ہے ۔
آج تم حق پرست ہو“
خالد کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا جو انہوں نے کھول کر اپنے سامنے کیا ۔
”امیر المومنین نے ہمارے نام ایک پیغام بھیجا ہے انہوں نے لکھا ہے …‘”میں خالد بن ولید کو فارسیوں کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے بھیج رہا ہوں تم سب خالد کی قیادت میں اس وقت تک جنگ جاری رکھوں گے جب تک تمہیں خلافت کی طرف سے حکم نہیں ملتا ۔ خالد کا ساتھ نہ چھوڑنا اور دشمن کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، بزدلی نہ دکھانا۔
تم ان میں سے ہو جنہوں نے اس اجازت کے باوجود کہ جو گھروں کو جانا چاہتے ہیں جاسکتے ہیں۔ اللہ کی تلوار کا ساتھ نہیں چھوڑا، تم نے اپنے لیے وہ راستہ منتخب کیا ہے جو اللہ کی راہ کہلاتا ہے ۔ تصور میں لاؤ اس ثواب عظیم کو جو اللہ کی راہ پر چلنے والوں کو ملتا ہے ۔ اللہ تمہارا حامی اور ناصر ہو ۔ تمہاری کمی وہی پورے کرے گا ۔ اسی کی رضا اور خوشنودی کے طلبگار رہو “
ایک مورخ ازدی نے اس خط کا پورا متن اپنی تاریخ میں دیا ہے ۔
معلوم نہیں ابن خلدون اور ابن اثیر نے جن کی تحریریں مستند مانی جاتی ہیں اس خط کا ذکر کیوں نہیں کیا ۔
ان دو ہزار مجاہدین کو کسی وعظ کی یا اشتعال انگیزی کی ضرورت نہیں تھی ۔ یہ تو رضاکارانہ طور پر خالد کے ساتھ رہ گئے تھے۔ ان میں بیشتر ایسے تھے جنہوں نے رسول کریم کے دست مبارک پر بیعت کی اور اسلام قبول کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں لڑائیاں لڑی تھیں۔
حضور اکرم کے وصال کے بعد وہ یوں محسوس کرتے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مقدس ان کی قیادت کر رہی ہو ۔
رسول اللہ کے ان شیدائیوں نے خالد کی اجازت سے ایک کام یہ بھی کیا کہ گھوڑوں پر سوار ہوکر یمامہ کے گردونواح میں نکل گئے اور بستی بستی جاکر لوگوں کو گھوڑ سواری کے کرتب دکھانے لگے ۔ مثلاً دوڑتے گھوڑوں سے اترنا اور سوار ہونا۔
سرپٹ دوڑتے گھوڑوں سے نشانے پر تیر چلانا، نیزہ بازی اور گھوڑوں کو دوڑاتے ہوئے تیغ زنی کے کمالات وہ جوانوں کو فوج میں بھرتی ہوجانے پر اکساتے اور انہیں بتاتے کہ جنگ میں جاکر انہیں کیا کیا فائدے حاصل ہوں گے ۔
اس کے علاوہ وہ ان لوگوں کو یہ بھی بتاتے کہ وہ فوج میں بھرتی نہ ہوئے تو ایرانی آکر انہیں اپنا غلام بنالیں گے ۔ جو ان سے بیگار لیں گے ۔
انہیں دیں گے کچھ بھی نہیں اور ان کی جوان بہنوں، بیویوں اور بیٹیوں کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا کریں گے ۔ اس خطے نے ایرانیوں کا دور حکومت دیکھا تھا پھر انہوں نے جھوٹے پیغمبروں کی شعبدہ بازیاں دیکھی تھیں اور اب وہ مسلمانوں کی حکومت دیکھ رہے تھے ۔ مسلمانوں نے انہیں غلام بنانے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ ان کے انداز، طور طریقے اور رہن سہن بادشاہوں جیسے یا حکمرانوں جیسے نہیں تھے وہ عام لوگوں کی طرح رہتے عام لوگوں کے ساتھ باتیں کرتے اور ان کی سنتے تھے ۔
ان کی عورتوں کی عزت محفوظ تھی ۔
ان لوگوں میں وہ بھی تھے جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا لیکن میسلمہ جیسے شعبدہ باز نے انہیں گمراہ کیا اور اسلام کے راستے سے ہٹالیا تھا ۔ انہوں نے مسلیمہ کی نبوت کو مسلمانوں کے ہاتھوں بے نقاب ہوتے دیکھا اور مسلیمہ کی جنگی قوت کو مسلمانوں کی قلیل نفری کی بے جگری کے آگے ریزہ ریزہ ہوتے دیکھا تھا اور وہ محسوس کر رہے تھے کہ سچا عقیدہ اور نظریہ اسلام ہی ہے جو جھوٹ کی طاقتوں کو کچل دیتا ہے اور وہ غیبی طاقت جو سچے کو جھوٹھے پر ، حق کو باطل پر فتح دیتی ہے وہ اسلام میں مضمر ہے ۔
چنانچہ یہ لوگ خالد کی فوج میں شامل ہونے لگے ۔ یہ خالد کے مجاہدین کی کوششوں کا حاصل تھا ۔
###
یمامہ میں شور اتھا، کچھ لوگ دوڑتے ہوئے بستی سے باہر چلے گئے عورتیں چھتوں پر جاچڑھیں۔ افق سے گرد کی گھٹائیں اٹھ رہی تھین اور یمامہ کی طرف بڑھی آرہی تھیں۔
”آندھی آرہی ہے “
”لشکر ہے …کسی کا لشکر آرہا ہے “
”ہوشیار…خبردار…تیار ہوجاؤ “
خالد ایک قلعہ نما مکان پر جاچڑھے۔
یہ آندھی نہیں کسی کی فوج تھی ۔ مرتدین کے سوا اور کس کی فوج ہوسکتی تھی ۔ خالد رضی اللہ عنہ کو افسوس ہونے لگا کہ کس برے وقت انہوں نے اپنی فوج سے کہا تھا کہ جو گھروں کو جانا چاہتے ہین چلے جائیں گرد کے جو بادل اٹھتے آرہے تھے یہ بہت بڑے لشکر کی گرد تھی ۔ خالد کے پاس صرف دو ہزار نفری تھی یا وہ نفری تھی جو ابھی ابھی فوج میں شامل ہوئی تھی اس پر ابھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن اور ہوبھی کیاسکتا تھا۔
یمامہ کی آباد ی تھی ۔ اس میں لڑنے والے آدمی موجود تھے لیکن یہ خطرہ بھی تھا کہ یہ لوگ دشمن سے مل جائیں گے اور خطرہ بھی کہ یہ پیٹھ پر وار کریں گے۔
”مجاہدین اسلام !“…خالد نے قلعہ نما مکان کی چھت سے للکار کر کہا …”بہت بڑے امتحان کا وقت آگیا ہے ۔ اللہ کے سوا تمہارا مددگار کوئی نہیں “…خالد چپ ہوگئے کیونکہ انہیں دفوں اور ڈھولوں کی دھمک سنائی دینے لگی تھی ۔
حملہ آور دف بجاتے نہیں آیا کرتے۔ دھمک بلند ہوتی جارہی تھیں۔ خالد نے ادھر دیکھا گرد بہت قریب آگئی تھی اور اس میں چھپے ہوئے اونٹ اور گھوڑے نظر آنے لگے تھے گرد کے دبیز پردے میں آنے والا لشکر نعرے لگانے لگا۔
”اسلام کے پاسبانو!,“…خالد نے اوپر سے چلا کر کہا …”اللہ کی مدد آرہی ہے …آگے بڑھو۔ استقبال کرو۔ دیکھو یہ کون ہیں “
خالد دوڑتے نیچے اترے۔
اپنے گھورے پر کود کر سوار ہوئے اور گھوڑے کو ایڑ لگاکر بستی سے نکل گئے ۔ آنے والا لشکر بستی سے کچھ دور رک گیا اور دو گھوڑ سوار آگے بڑھے۔ خالد ان تک پہنچے اور گھوڑے سے اترے …وہ دونوں سوار بھی اتر آئے ۔ وہ مضر اور ربیعہ قبیلوں کے سردار تھے ۔
”مدینہ سے اطلاع آئی تھی کہ تمہیں مدد کی ضرورت ہے “…ایک سردار نے کہا …”میں چار ہزار آدمی ساتھ لایاہوں ان میں شتر سوار ہیں گھوڑ سوار بھی اور پیادے بھی “
”اور چار ہزار کی تعداد میرے قبیلے کی ہے “…دوسرے سردار نے کہا
خالد نے فرط مسرت سے دونوں کو اپنے بازؤں میں لے لیا اور خوشی سے کانپتی ہوئی آواز میں بولے…”اللہ کی قسم، اللہ نے مجھے کبھی مایوس نہیں کیا “
###