”ولید کے بیٹے !“…مثنیٰ نے خالد سے کہا …”آگے فارس کی شہنشاہی کا ایک اور بڑا شہر حیرہ ہے ۔ تو فارس کا ہیرا سمجھ لیکن اسے لینا آسان نہیں ہوگا “…خالد نے کہا …”ہاں حارثہ کے بیٹے !“… مینشیا کی تمام فوج اور تمام عیسائی جوان حیرہ پہنچ گئے ہیں وہ سب ہمارے مقابلے میں آئیں گے انہیں مقابلے میں آنا چاہیے…مدائن کی کیا خبر ہے ؟
”آج ہی میرا ایک جاسوس واپس آیا ہے “…مثنیٰ نے کہا …”وہ بتاتا ہے کہ مدائن میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے ۔
کسریٰ کے محل میں ماتم ہورہا ہے ۔ اچھی خبر یہ ہے کہ وہاں سے اب فوج کا کوئی دستہ نہیں آئے گا “
”کیا یہ لوگ اب بھی نہیں سمجھے کہ تخت و تاج اور خزانے طاقت نہیں ہوتے کہ دشمن سے بچالیں؟“…خالد نے کہا …”کیا یہ ہمارا فرض نہیں کہ ان لوگوں کو اللہ کے سچے رسول کا پیغام دیں کہ طاقت اور ثروت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اللہ ہی عبادت کے لائق ہے جس کا کوئی شریک نہیں ؟“
”ہاں ابن ولید!“…مثنیٰ نے کہا …”یہ ہمارا فرض ہے کہ ان تک اللہ کا پیغام پہنچائیں “
”اس کے ساتھ ہی مجھے ہر اس خطرے کو کچلنا ہے جو اسلام کو نقصان پہنچاسکتا ہے “…خالد نے کہا…”کفر کا سر کچلنا ہے “
تاریخ اسلام کا یہ ابتدائی دور بڑا ہی نازک تھا ۔
(جاری ہے)
اسی دور میں اسلام کی عسکری روایا ت کی بنیاد رکھنی تھی ۔ امت رسول کے لیے جذبے کی شدت اور اہمیت کا تعین کرنا تھا۔ اس روایت کی بنیاد اس اصول پر رکھنی تھی کہ نفری اور طاقت کی کمی شکست کا باعث نہیں بن سکتی ۔ جذبہ اور اسلام کی محبت اس کمی کو پورا کردیا کرتی ہے ۔
خالد رضی اللہ عنہ کو احساس تھا کہ وہ اس خیال سے پیچھے ہٹ آئے کہ لشکر مسلسل لڑ لڑ کر تھک گیا ہے اور نفری بھی کم ہوتی جارہی ہے اور اپنے مستقر یعنی مدینہ سے بھی دور ہٹتے جارہے ہیں تو آنے والی نسلوں کے لیے یہی روایت بن جائے گی جہاں رکاوٹ یا کوئی دشواری پیش آگئی ۔
سالار اپنی فوج کو اپس لے آئیں گے ۔ خالد ایسی روایت قائم نہیں کرنا چاہتے تھے۔
خالد کو خلیفہ المسلمین کی پشت پناہی حاصل تھی ۔ اس وقت کی خلافت کی پالیسی میں کفار کے ساتھ دوستی یا مذاکرات کا ذرا سا بھی دخل نہیں تھا ۔ دشمن کو دشمن ہی سمجھا جاتا تھا ۔ یہ نہیں دیکھا جاتا تھا کہ دشمن کتنی دور ہے اور کتنا طاقتور ہے اصول یہ تھا کہ دشمن کے سر پر سوار ہو اور اس کے لیے دہشت بن جاؤ ۔
فارس کی شہنشاہی کوئی معمولی طاقت نہیں تھی ۔ خالد نے اتنی بڑی طاقت کے پیٹ میں جاکر بھی پیچھے ہٹنے کی نہ سوچی۔ انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ لشکر کو کچھ آرام دیتے اور اس کی تنظیم میں اگر کچھ خامیاں رہ گئی تھیں تو وہ دور کرلیتے۔ مثنیٰ بن حارثہ نے انہیں بتایا کہ حیرہ میں مقابلہ بڑا سخت ہوگا تو بھی خالد نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی نہ سوچی ۔
انہوں نے اسی وقت اپنے سالاروں کو بلایا ۔
”خدا کی قسم!“…خالد نے سالاروں سے کہا …”مجھے یقین ہے کہ تم یہ نہیں سوچ رہے کہ ہم جتنا آگے بڑھتے جارہے ہیں ہمارے لیے خطرے بڑھتے جارہے ہیں “
”نہیں ابن ولید!“…ایک سالار نے کہا …”ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں سوچ رہا “
”اور ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں سوچے گا “…دوسرے سالار نے کہا ۔
”اور مجھے یہ بھی یقین ہے “…خالد نے کہا …”کہ تم میں سے کوئی بھی نہیں سوچے گا کہ دشمن کتنا طاقتور ہے “
”نہیں ابن ولید!“…سالار عاصم بن عمرو نے کہا …”ہمیں یہ بتا کہ تو آج یہ بات کیوں پوچھ رہا ہے “
”تم پر اللہ کی رحمت ہو “…خالد نے کہا …”ہماری اگلی منزل بہت دشوار ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ ہم میں سے کون رہتا ہے اور کون دنیا سے اٹھ جاتا ہے ۔
اپنے دلوں پر نقش کرلو کہ اپنے فرض سے منہ موڑ کر اللہ کے سامنے جاؤگے تو تمہارا ٹھکانہ بہت برا ہوگا اور تم جانتے ہو وہ ٹھکانہ کیسا ہے ۔ روایت جو تم آج قائم کرو گے وہ ایک ورثہ بن جائے گا جو تم آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑ جاؤ گے اور یہ روایت اسلام کی بقا کا یا فنا کا باعث بنے گی ہمیں اسلام کی بقا اور سربلندی کے لیے لڑنا ہے ۔ قرآن کا حکم یاد کرو کہ لڑو اس وقت تک جب تک کفر کا فتنہ موجود ہے اور دشمن کو معاف اس وقت کرو جب وہ ہتھیار ڈال کر تمہارے آگے جھک جائے پھر اس سے وہ شرطیں منواؤ کہ اس کا ڈنک مارا جائے اور اس کا دل رسول اللہ کے شیدائیوں کے خوف سے کانپتا رہے “
اپنے سالاروں کے جذبے میں نئی روح پھونک کر خالد نے انہیں بتایا کہ آگے آتش پرستوں کا بڑا مضبوط فوجی اڈہ حیرہ ہے جہاں کے حاکم ازادبہ نے بہت بڑا لشکر جمع کر رکھا ہے ۔
آتش پرست پہلی لڑائیوں میں بے شمار کشتیاں لائے تھے ۔ وہ اب مسلمانوں کے قبضے میں تھیں۔ خالد نے اپنے لشکر کو کشتیوں میں حیرہ تک لے جانے کا فیصلہ کیا۔ دریائی راستہ آسان تھا اور چھوٹا بھی ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ریگزاروں میں لڑنے والے دریاؤں کے سینے پر سوار ہوئے ۔
####
دشمن سویا ہوا نہیں تھا حیرہ کا حاکم ازادبہ راتوں کو بھی نہیں سوتا تھا حیرہ میں یہ خبر پہنچنے دی گئی تھی کہ شہنشاہ فارس اردشیر مرچکا ہے ۔
وہ ابھی تک ہر بات اور ہر حکم میں اردشیر کا نام لیتا تھا ۔
اس روز وہ حیرہ کی شہر پناہ کا معائنہ کر رہا تھا۔ اس نے شہر میں بے پناہ لشکر جمع کرلیا تھا ۔ وہ جس دستے کے سامنے جاتا وہاں چلا چلا کر کہتا…”زرتشت کی تم پر رحمت ہو، وہ بزدل تھے جو کاظمہ، مذار اور الیس میں صحرا کے بدوؤں کے ہاتھوں پٹ گئے تھے ان کے مردہ جسموں کو زرتشت کے شعلے چاٹ رہے تھے …اے یسوع مسیح کے نام لیواؤ تم ہمارے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر مسلمانوں کے خلاف لڑنے آئے ہو یاد کرو اپنی ان بیٹیوں کو جو لونڈیاں بن کر مدینہ پہنچ گئی ہیں یاد کرو ان جوان بیٹوں کو جن کے مردہ جسموں کا گوشت بھیڑیے گیڈر اور گوشت خور پرندے کھاگئے ہیں انہیں بھی جو قیدی ہوکر مدینہ والوں کی غلامی میں جاپڑے ہیں …مسلمان فتح کے نشے میں بے خطر بڑھے آرہے ہیں ۔
ان کے لیے ایسا خطرہ بن جاؤ کہ زندہ واپس نہ جاسکیں۔ شہنشاہ فارس اردشیر تمہیں مبارک باد دینے آئیں گے ، تمہیں انعام و کرام سے مالا مال کردیں گے “
شہرپناہ اور برجوں کے معانے کے دوران اس نے دیکھا، دور ایک گھوڑ سوار گھوڑے کو انتہائی رفتار سے دوڑاتا آرہا تھا ۔
”دروازہ کھول دو “…ازادبہ چلایا …”یہ سوار مینشیا کی طرف سے آرہا ہے “
”کئی آوازیں سنائی دیں “…دروازہ کھول دو۔
سوار کو آنے دو
”ازادبہ بڑی تیزی سے دیوار سے اتر گیا ۔ سوار کے پہنچنے تک دروازہ کھول دیا گیا سوار رفتار کم کیے بغیر اندر آگیا ۔ ازادبہ گھوڑے پر سوار تھا ۔ اس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور آنے والے سوار کی طرف گیا ۔ “
”کوئی خبر “…ازادبہ نے پوچھا ۔
”وہ آرہے ہیں “…سوار نے ہانپتی ہوئی آواز میں کہا …”سارا لشکر کشتیوں میں آرہا ہے “…وہ خالد کے لشکر کی پیش قدمی کی خبر دے رہا تھا ۔
”کشتیوں میں “…ازدابہ نے پوچھا…”بندے کتنی دور ہیں ؟“
”بہت دور “…سوار نے جواب دیا …”ابھی بہت دور ہیں “
ازدابہ کا بیٹا سالار تھا۔ ازدابہ نے اپنے بیٹے کو بلایا ۔
”آج تیری آزمائش کا وقت ہے میرے بیٹے!د“…ازادبہ نے کہا …”ایک سوار دستہ ساتھ لے اور طوفان سے زیادہ تیز رفتاری سے بند تک پہنچ اور فرات کا پانی اس طرح پی لے کہ فرات سوکھ جائے مسلمانوں کا لشکر کشتیوں میں آرہا ہے دیکھ تو پہلے پہنچتا ہے یا مسلمان“
اس کا بیٹا ایک سوار دستہ لے کر بہت تیز رفتار سے شہر سے نکل گیا۔
####
خالد کا لشکر بڑی اچھی رفتار پر آرہا تھا چونکہ وہ بارش کا موسم نہیں تھا اس لیے دریا میں پانی کم تھا لیکن کشتیوں کے لیے کافی تھا ۔ اچانک پانی کم ہونے لگا ۔ پھر پانی ختم ہوگیا اور تمام کشتیاں کیچڑ میں پھنس کے رہ گئیں۔ مدینہ کے مجاہدین پر خوف طاری ہوگیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے دریا کا خشک ہوجانا خوف والی بات تھی ۔ خود خالد پریشان ہوگئے ۔
”مت گھبرا ولید کے بیٹے !“…کنارے سے مثنیٰ بن حارثہ کی للکار سنائی دی …”ادرست ڈرو اہل مدینہ آگے دریا پر ایک بند ہے ۔ ہمارے دشمن نے بند پر پانی روک لیا ہے “
بڑی تیزی سے سوار اپنے گھوڑے کشتیوں سے نکال لائے اور یہ دستہ سرپٹ دوڑتا بند تک پہنچا ۔ ازادبہ کا بیٹا ابھی اپنے سواروں کے ساتھ وہیں تھا مسلمان سواروں نے ان پر ہلہ بول دیا اور ان میں سے کسی ایک بھی زندہ نہ چھوڑا۔
مسلمانوں نے بند کھول دیا کشتیوں تک پانی پہنچا تو کشتیاں اٹھنے لگیں ملاحوں نے چپو تھام لیے اور کشتیاں تیرنے لگیں۔
ازادبہ اچھی خبر کے انتظار میں دیوار پر کھڑا بے تاب ہورہا تھا اس کا ایک سالار اس کے پاس آن کھڑا ہوا ۔
”بہت بری خبر آئی ہے “…سالار نے کہا ۔
”کہاں سے ؟“…ازادبہ نے گھبرا کر پوچھا …”کیا میرا بیٹا…“
”مدائن سے !“…سالار نے کہا …”شہنشاہ اردشیر مر گئے ہیں لیکن یہ خبر خفیہ رکھنی ہے ۔
“
اتنے میں ایک سوار ان کے پاس آیا اور گھوڑے سے اتر کر آداب بجا لایا۔
”اگریہ میرا فرض نہ ہوتا تو میں ایسی خبر زبان پر نہ لاتا “…سوار نے کہا ۔
”میں سن چکا ہوں “…ازادبہ نے کہا …”کسریٰ اردشیر “
”نہیں“…سوار نے کہا …”آپ کا بیٹا بند پر مارا گیا ہے ۔ اس کے تمام سواروں کو مسلمانوں نے کاٹ ڈالا ہے“
”میرا بیٹا“…ازادبہ کے منہ سے نکلا اور اس کا رنگ لاش کی طرح سفید ہوگیا ۔
###